تاریخ اسلام میں ماہِ صیام کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ یہ ماہِ مبارک اطاعاتِ الٰہیہ کا مہینہ ہے، جس میں اہلِ ایمان روزہ، قیام اور تلاوت قرآن کے ذریعے جہنم سے پروانۂ آزادی حاصل کرکے جنت الفردوس میں ابدی ماویٰ کیلئے مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔ روزے کے ذریعے اہل اسلام کو اپنی حقیقت کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔ انسان کی اصل حقیقت عجز و انکساری ہے، نہ کہ غرور و تکبر۔ روزے کا اصل ہدف حصولِ تقویٰ ہے۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک میں جو اعمال مشروع ہیں، ان کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

روزہ کی تعریف :

روزہ لفظ صوم کا ترجمہ ہے جس کا لفظی معنی کسی چیز کو ترک کرنا یا کسی چیز سے رکنا ہے ۔

شرعی اعتبار سے اس سے مراد مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں ، مخصوص اشیاء (یعنی کھانے پینے ، فسق وفجور اور شہوت کے کاموں سے ) طلوع فجرسے غروب آفتاب تک رک جانے کا نام روزہ ہے۔

روزہ کی فضیلت :

روزہ ارکان اسلام میں غیر معمولی فضیلت واہمیت کا حامل رکن ہے ۔اور جس ماہ مبارک میں روزے فرض ہوئے وہ ماہ مقدس رحمتوں ، بخششوں اور برکتوں کا مہینہ قرار پایا۔ اس کی فضیلت میں محمد عربی رحمت دو عالمe سے متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ۔

٭ رسو ل اللہe نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہے سوائے روزہ کے اس لیے کہ وہ میرے لیے ہے ۔ اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(صحیح بخاری ، کتاب الصیام)

٭نبی کریم e کا فرمان ہے : ’’ جو بھی بندہ اللہ کی راہ میں روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے چہرے کو آگ سے ستر خریف ( یعنی 210میل) دور کردیتا ہے ۔‘‘ ( صحیح بخاری )

٭ رسول معظم e نے ارشاد فرمایا : ’’ روزہ اور قرآن پاک قیامت کے روز مومن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے رب ! میں نے اس کو دن بھر کھانا کھانے سے اوراپنی خواہشات پورا کرنے سے روکے رکھا اس لیے اس کے بارے میں میر ی سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا اے میرے پرودگار!میںنے اس کو رات کے وقت نیند سے روکے رکھا ا س لیے اس کے معاملے میں میری سفارش قبول فرما۔ پھر دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔‘‘( صحیح الترغیب ،کتاب الترغیب فی الصوم)

٭ روزوں کی برکت سے رمضان المبارک میں ادا کیا جانے والا عمرہ ثواب میں حج کے برابر ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ e نے ام سنان انصاریہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:

فَاِذَا جَائَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِی فَاِنَّ عُمْرَۃً فِیہِ تَعْدِلُ حَجَّۃً (صحیح مسلم،کتاب الحج، رقم الحدیث: 2201)

’’جب رمضان المبارک آئے تو عمرہ کرلینا کیونکہ رمضان میں عمرہ ( کا اجر وثواب ) حج کے برابر ہوتا ہے۔‘‘

رمضان المبارک کاچاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیے

رسول اللہ e کا فرمان ہے :صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ ( صحیح بخاری ،کتاب الصوم ، رقم الحدیث: 1776)

’’ ماہ رمضان کاچاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (ماہ شوال کا) چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو۔‘‘

چاند دیکھنے کی دعا

نبی کریم e جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے تہے۔

اللَّہُ أَکْبَرُ اللّٰھُمَّ أَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْاِیمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیقِ لِمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضٰی رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللَّہُ ( سنن الدارمی، کتاب الصوم، رقم الحدیث: 1635)

’’ اللہ سب سے بڑا اے اللہ ! تو اسے ہم پر امن اور سلامتی و اسلام کے ساتھ طلوع فرما اور اس چیزکی توفیق کے ساتھ جس کو تو پسند کرتا ہے ۔ اور جس سے تو راضی ہوتا (اے چاند)ہمارا اور تمہارا رب اللہ تعالیٰ ہے ۔‘‘

ماہ رمضان کے متعلق ایک یا دو دیانتدار مسلمان کی گواہی کافی ہے

سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ

تَرَائَ النَّاسُ الْھِلَالَ فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنِّی رَأَیْتُہُ فَصَامَہُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِیَامِہِ (سنن أبی داؤد ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر: 9995)

’’ لوگوں نے چاند دیکھنا شروع کیا تو میں نے نبی کریم e کواطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے ۔ پھر آپe نے خود بھی روزہ رکھا اورلوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

حدیث نبوی ہے کہ وَاِنْ شَھِدَ شَاھِدَانِ مُسْلِمَانِ فَصُومُوا وَأَفْطِرُوا
( مسند احمد ، رقم الحدیث:18137)

’’ اگر دو مسلمان گواہ شہادت دیں تو روزہ رکھو (دو کی گواہی کے ساتھ ) روزہ رکھنا چھوڑ دو ۔‘‘

٭اگر چاند نظر نہ آسکے تو ماہِ شعبان 30کے دن مکمل ہونے پر روزہ رکھنا چأہیے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا : صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلَاثِینَ (صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: 1776)

’’ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اورچاند دیکھ کر افطار کرو لیکن اگر مطلع ابر آلود ہو نے کے باعث چاند چھپ جائے توپھر تم شعبان کے تیس دن پورے کرو ۔‘‘

مشکوک دن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مَنْ صَامَ الْیَوْمَ الَّذِی یَشُکُّ فِیہِ النَّاسُ فَقَدْ عَصَی أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( سنن الترمذی ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: 622)

’’ جس نے مشکوک دن میں روزہ رکھا اس نے ابو القاسمe کی نافرمانی کی ۔‘‘

مشکوک دن سے مراد ماہ شعبان کاانتیسواں روز ہے یعنی جب اس رات ابر آلودگی کے باعث چاند نظر نہ آئے اوریہ شک ہو جائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں؟

(سعودی مجلس افتاء )صحیح سنت مشکوک دن کے روزے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ۔

روزوں کے آداب

روزہ رکھنے والے کیلئے فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے ۔

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا: مَنْ لَمْ یُجْمِعِ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِیَامَ لَہُ ( سنن الترمذی ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: 662)

’’جس نے فجر (یعنی صبح صاد ق ) سے پہلے پختہ نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ۔‘‘

نوٹ : روزہ کی نیت کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

نفلی روزے کی نیت

واضح رہے کہ یہ فرض روزے کی بات ہے جبکہ نفلی روزے کیلئے نفلی روزے سے پہلے یعنی فجر کے بعد بھی نیت کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’ ایک دن رسو ل اللہe میرے پاس آئے اور فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ ہم نے کہا نہیں ؟ یہ سن کر آپe نے فرمایا : تب میں روزہ دار ہوں۔‘‘

سحری کھانے میں برکت ہے

خادم رسولe انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: تَسَحَّرُوا فَاِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَکَۃً (صحیح بخاری ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث :1789)

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میںبرکت ہے۔‘‘

سحری کی فضیلت

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا :اِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِینَ ( مسند أحمد ، رقم الحدیث: 10664)

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ سحر ی کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں اور فر شتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔‘‘

کھجور کے ساتھ سحری کھانے کی فضلیت

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:

نِعْمَ سَحُورُ الْمُؤْمِنِ التَّمْرُ   

’’ مومن کی بہترین سحری کھجور ہے ۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الصو م ،رقم الحدیث: 1998)

اگر سحری کھاتے وقت اذان ہو جائے

تو فوراً چھوڑ دینا ضروری نہیں بلکہ حسب عادت جلد از جلد کھا لینا جائز ومباح ہے ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا : اِذَا سَمِعَ أَحَدُکُمُ النِّدَائَ وَالْاِنَائُ عَلَی یَدِہِ فَلَا یَضَعْہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہُ مِنْہُ ( سنن ابی داؤد ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث: 2003)

’’ جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور (کھانے یا پینے ) کابرتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے رکہے مت بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے۔‘‘

روزہ میں فضول اور لایعنی باتوں سے زبان کو روکے رکھنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا : ’’جس شخص نے (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے کوترک نہ کیا ،تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیںہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔‘‘(صحیح بخاری)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا:’’ روزہ کھانا اور پینا چھوڑنے کا نام نہیں ہے ۔بلکہ وہ فضول اور گندگی سے رکے رہنے کا نام ہے ۔اگر کوئی شخص تمہیں ( روزہ کی حالت میں )گالی دے ،یا تم سے جہالت کاسلوک کرے تو تم اس سے کہہ دو ’’بھئی میںروزے سے ہوں ۔‘‘ ( حاکم ، ابن خزیمہ ، ابن حبان)

صدقہ وخیرات ، تلاوت قرآن پاک ، ذکر الٰہی اورنبی کریمe پر درو د کی کثرت

سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمe تمام لوگوں سے زیادہ سخی تہے اور آپ سب سے زیادہ سخی اس وقت ہوتے جب جبریل علیہ السلام آپe کی ملاقات کیلئے آتے۔ وہ رمضان کی ہر رات آپe کے پاس آتے اور آپe کے ساتھ قرآن پاک کی مدارست ( باہمی تلاوت ) کرتے ۔ اس وقت نبی کریمe تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوا کرتے تہے ۔(صحیح بخاری شریف)

رزوہ افطا ر کرنے میں جلدی کرنا مستحب ہے

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا:
لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ (صحیح البخاری ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث: 1821)

’’ لوگ جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے ہمیشہ خیر و عافیت میںر ہیں گے۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا:

لَا یَزَالُ الدِّینُ ظَاھِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِأَنَّ الْیَھُودَ وَالنَّصَارَی یُؤَخِّرُونَ (سنن أبی داؤد، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :2006)

’’ لوگ روزہ افطار کرنے میںجب تک جلدی کرتے رہیں گے دین ہمیشہ غالب رہے گاکیونکہ یہود ونصاری تاخیرسے افطار کرتے ہیں ۔ ‘‘

نوٹ : روزہ افطار کرنے میں جلد ی سے مراد وقت سے پہلے افطار کرنا ہر گز مراد نہیں بلکہ وقت ہونے پر جلدی کرنا مقصود ہے ۔

روزہ کس چیز سے افطار کیا جائے ؟

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُفْطِرُ عَلَی رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ رُطَبَاتٌ فَعَلَی تَمَرَاتٍ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَائٍ (سنن ابی داؤد ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث: 209)

’’ رسول اللہe کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے ، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ افطا ر کرتے ۔ اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔‘‘

ایک صحیح روایت میں یہ بھی موجود ہے کہ رسول اللہe نے ستو گھول کر روزہ افطار کیا ۔

افطاری کی دعا

روزہ کھولتے وقت رسول اللہe یہ کلمات کہتے تہے : اللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ (سنن أبی داؤد، کتاب الصوم، حدیث نمبر :2011)

’’اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کیا ۔‘‘

اس مندرجہ بالاحدیث کو بھی بعض علماء ضعیف کہتے ہیں۔اس میں یہ الفاظ (۔۔۔۔۔ وَبِکَ آمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ ۔۔۔۔۔)کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریمe جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے

’’ ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ اِنْ شَاءَ اللَّہُ

کہ پیاس بجھ گئی ، رگیں تر ہو گئیں اور روزے کااجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصوم، رقم الحدیث: 2010، حدیث صحیح ہے )

روزہ دار کیلئے جو کام کرنے جائز ہیں

مبالغے کے بغیر کلی کرنا اورناک میںپانی چڑھانا:

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’میرا دل چاہا اور میں نے روزے کی حالت میں (اپنی بیوی کا ) بوسہ لے لیا۔ میں نے کہا ، اے اللہ کے رسولe! میں نے آج بہت بڑا (برا) کام کیا ہے ، میںنے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا ہے ۔ آپe نے فرمایا : مجہے بتاؤ اگر تم دوران روزہ کلی کرلو تو؟ میںنے کہا، کلی میں توکوئی حرج نہیں۔ پھر رسول اللہe نے فرمایا : پھر کون سی چیز میںحرج ہے ؟ (مراد یہ ہے کہ جب کلی کرنے میںکوئی حرج نہیں تو بوسہ لینے میں بھی کوئی حر ج نہیں ۔‘‘ ( سنن ابی داؤد ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث2089)

(امام شوکانی رحمہ اللہ )حدیث کے ان الفاظ أرأیت لو مضمضت من الماء میںایک مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیںکہ’’ کلی کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔‘‘

تیل لگانا اور کنگھی کرنا

سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے کہ یوں صبح کرے کہ اس نے تیل لگایا ہوا ہو اور کنگھی کی ہو۔( صحیح بخاری ، کتاب الصو م )

گرمی کی وجہ سے غسل کرنا

ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’ میںنے نبی کریمe کودیکھا کہ آپe گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہارہے تہے اور آپeروزہ دار تہے۔ ( صحیح ابی داؤد ، کتاب الصیام، رقم الحدیث: 20272)

حالت جنابت میں روزہ رکھنا اور بعد میں غسل کرنا

حالت جنابت میں سحری کھا کرروزہ رکھ لینا اور بعد میں غسل کر لیناجائز ہے ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُدْرِکُہُ الْفَجْرُ وَھُوَ جُنُبٌ مِنْ أَھْلِہِ ثُمَّ یَغْتَسِلُ وَیَصُومُ (صحیح بخاری ،کتاب الصیام ، رقم الحدیث: 1791)

’ ’رسول اللہe کو (بعض اوقات ) اس حالت میں فجر ہوجاتی کہ آپ مباشرت کرنے کی وجہ سے جنبی ہوتے (ایسے ہی آپe سحری کھا لیتے ) پھر غسل کر کے روزہ رکھ لیتے۔‘‘

سرمہ لگانا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اکْتَحَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ صَائِمٌ (سن ابن ماجہ ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: 1668)

’’نبی کریم نے ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں سرمہ لگایا ۔‘‘

اگر مذکورہ حدیث صحیح ہے تو واضح طور پر اس سے دوران روزہ سرمہ لگانے کا جواز نکلتا ہے اوربالفرض اگر اس میں ضعف بھی ہے تب بھی اصل براء ت ہی ہے لہٰذا سرمہ لگانا جائز ہے اور کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سرمہ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔

دوران روزہ ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کا حکم

اگر ٹوتھ پیسٹ حلق میں نہ جائے توروزہ نہیں ٹوٹتا لیکن افضل یہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ رات کو استعمال کی جائے۔ اوردن کومسواک استعمال کریں کیونکہ یہی سنت نبوی ہے۔

ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا

قال ابن عباس رضی اللہ عنھما: لا بأس أن یتطعم القدر أو الشئی

’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہنڈیا یا کسی چیز کا ذائقہ معلوم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘( صحیح بخاری ، کتاب الصوم )

روزہ دار کو جو کام کرنے حرام ہیں

جھوٹ بولنا ،غیبت کرنا اور لڑائی جھگڑا کرنا

سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلَّہِ حَاجَۃٌ فِی أَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ ( صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: 1770)

’’جس شخص نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

لغو ، رفث اور جہالت کی باتیں کرنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا

: الصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلَا یَرْفُثْ وَلَا یَجْھَلْ( صحیح بخاری، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: 1761)

’’روزہ (گناہوں سے بچاؤ کی ) ایک ڈھال ہے لہٰذا(روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اورنہ جہالت کی باتیںکرے۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا لیس الصیام من الأکل و الشرب إنما الصیام من اللغو والرفث فإن سابک أحد أو جھل علیک فلتقل إنی صائم إنی صائم (صحیح الترغیب، رقم الحدیث :1082)

’’روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ تو لغو ( ہر بے فائدہ بے ہودہ کام) اور رفث (جنسی خواہشات پر مبنی کلام ) سے بچنے کا نام ہے ۔ لہذا اگر کوئی تمہیں (دوران روزہ ) گالی دے یا جہالت کی باتیںکرے تو اسے دو دفعہ کہہ دو کہ میں تور وزہ دار ہوں۔‘‘

ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ سے کام لینا :

سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا : أَسْبِغِ الْوُضُوئَ وَبَالِغْ فِی الِاسْتِنْشَاقِ اِلَّا أَنْ تَکُونَ صَائِمًا (سنن النسائی ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث:86)

’’ وضو اچھی طرح پورا کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھایا کرو مگر روزے کی حالت میں (ایسا نہ کیا کرو)۔‘‘

جو ضبطِ نفس کی طاقت نہ رکھتا ہواسے احتیاط کرنی چاہیے

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وَھُوَ صَائِمٌ وَکَانَ أَمْلَکَکُمْ لِاِرْبِہِ ( صحیح بخاری، کتاب الصیام ،ر قم الحدیث: 1792)

’’ نبی کریمe روزہ دار ہوتے لیکن (اپنی ازواج مطہرات کا ) بوسہ لیتے اور ان کے ساتھ مباشرت کرتے (یعنی ان کے صرف جسم کے ساتھ جسم ملاتے ) اور آپe تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تہے۔

روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے

جان بوجھ کر کھانے ،پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے :

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ (البقرۃ:187)

’’ تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے (یعنی صبح صادق رات سے ) ظاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔‘‘

اگر کوئی بھول کر کھاپی لے

تو اس پر نہ کفارہ ہے نہ قضا کیونکہ اس کا روزہ برقرار ہے ۔

مباشرت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے

أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلَی نِسَائِکُمْ (البقرۃ:187) ’’

روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا۔‘‘

معلوم ہوا کہ دن میںیہ حرام ہے ۔

عمداً قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے :

اگر خود بخود قے آجائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا

: مَنْ ذَرَعَہُ الْقَیْئُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ قَضَائٌ وَمَنِ اسْتَقَائَ عَمْدًا فَلْیَقْضِ ( سنن الترمذی، کتاب الصیام ، رقم الحدیث:653)

’’ جسے روزے کی حالت میں قے آجائے اس پر قضا نہیں ، اگر جا ن بوجھ کر قے کرے تو قضا دے۔‘‘

جان بوجھ کر روزہ توڑنے والے پر ظہار کے کفارے کی طرح کفارہ لازم ہے

حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے دوران روزہ اپنی بیوی سے حقیقی مباشرت کرلی تونبی کریمe نے اسے اس طرح کفارہ ادا کرنے کوکہا ۔ایک گردن آزاد کرو، اگر اس کی طاقت نہیں تو دو ماہ کے پے درپے روزے رکھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو ساٹھ مساکین کوکھاناکھلاؤ۔‘‘(سنن أبی داؤد، کتاب الصوم ، حدیث نمبر : 2042)

دوران روزہ احتلام وغیرہ کا حکم

روزے کی حالت میںاگر احتلام ہوجائے یا مذی وغیرہ خارج ہوجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ روزہ ان اشیاء سے ٹوٹتا ہے جو اند رجاتی ہیں ۔ ان سے نہیں ٹوٹتا جو باہر آتی ہیںإلا یہ کہ اس میں قصد شامل ہو۔

مخصوص ایام یا نفاس شروع ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے

امام بخاری نے باب قائم کیا ہے الحائض تترک الصوم والصلاۃ ’’حیض والی عورت نہ نماز پڑہے اور نہ روزے رکہے۔

کیا بچے کو دودھ پلانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے

شریعت اسلامیہ نے بچے کو دودھ پلانا روزہ توڑنے والی اشیاء میں شمار نہیں کیا لہٰذا اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کا روزہ دودھ پلانے کے باوجود جائز ہے اس سے اُس پرکچھ اثر نہیںپڑتا۔

کیانکسیر آنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے ؟

(سعودی مجلس افتاء)کے مطابق اگر آپ کو نکسیر آجائے تو آپ کا روزہ صحیح ہے ۔کیونکہ نکسیر کے آنے پر آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ اس بنا پر اس کے آنے سے آپ کے روزے کو کوئی نقصان نہیں اور نہ ہی وہ فاسد ہے ۔اس کے دلائل میں سے مندرجہ ذیل ارشاد باری تعالی ہے لَا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا ’’ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ (البقرۃ:286)

کیا دانتوں سے نکلنے والا خون روزہ توڑ دیتا ہے؟

(سعودی مجلس افتاء ) کے مطابق وہ خون جو دانتوں سے نکلتا ہے روزہ نہیں توڑتا خواہ خود بخود نکل آئے یا کسی انسان کے مارنے سے نکلے۔‘‘

کیا آنکھوں یا کانوں میں قطر ے ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا اگرچہ اس مسئلے میں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ مطلق طورپر (آنکھوں میں ڈالنے والے ) قطرو ں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔‘‘

(سعودی مجلس افتاء ) صحیح بات یہ ہے کہ جس نے اپنی دونوں آنکھوں یا اپنے کانوں میں بطور دواء قطرے ڈالے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو قرآن وسنت کے مطابق روزہ رکھنے اور اس ماہ مقدس کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے