وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواںکے دل سے احساس زیاںجاتارہا
ہر دولت واپس آسکتی ہے وقت وہ دولت ہے جس کاایک ایک سیکنڈکروڑوں بلکہ اربوں کھربوں روپوں پیسوں سے زیادہ قیمتی ہے اوریہ واحدایک ایسی دولت ہے جوجانے کے بعدلاکھ کوششوںسے واپس نہیںآتی مگر افسوس صدافسوس کہ میری قوم سب سے زیادہ اس گوہربے بہاکی قدر ناشناس ہے دوسری قوموںنے عروج وقت کی قدر کرکےپایاہے کہ جو قومیں وقت کی قدرکرتی ہیں وقت ان کی قدرکرتاہے اورجوقومیںوقت کوضائع کرتی ہیں وقت انہیںضائع کردیتاہے اورپھرغلامی کی زندگی بسرکرنے پرمجبورہوجاتی ہیں اگلے لمحات میںوہ وقت کی ٹھوکروںپہ ہوتی ہیںجن افرادکواس متاع گراںکی قیمت کااندازہ ہے ان کاآج بحروبرپہ قبضہ ہے سمندر میں ان کاطوطی بولتاہے فضاؤںمیںان کے (B.52) شاہین اڑتے دکھائی دے رہے ہیںزمین ان کے سیٹ لائٹ کی دوربین نگاہوںکی ضدمیںہے معیشت کی دنیا میں ان کاسکہ (ڈالر)چلتاہے اپنے دشمنوں کو چار بار زمین سے مٹانے کی صلاحیت ان کے پاس ہے ہرقوم ان کی نقالی میںایک دوسرے سے سبقت میںہے دنیا میںسب سے زیادہ سیکھی جانے والی زبان ان کی ہے سائنس ان کے درکاغلام ایجادات ان کے گھرکی کنیز ہے عالم چہاردانگ کوایک بستی کی شکل انہوںنے ہی دی ہے کسی قوم میںان کوچیلنج کرنے کادم خم باقی نہیںکہ انہوں نے اس اب حیات کے ایک ایک قطرے کو نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کیااورایک بوندبھی زمین پہ گرنے نہیںدی،اورکسی نے ان کی وقت دوستی کو دیکھ کرکہاتھاکہ یہ فرنگی لوگ عشق بھی ٹائم ٹیبل بناکرکرتے ہیںبوقت دیدارایک آنکھ محبوب کے گلستان رخسارکی سیرکرتی ہے تودوسری آنکھ گھڑی پرہوتی ہے اس سے پہلے وہ ہم سے بدترتھے ان کوجینے کاڈھنگ ہم نے سکھایاوقت کاصحیح استعمال انہوںنے ہم سے سیکھاان کے دانشکدوںکی آب و تاب ہمارے ہی علمی خزانوں سے ہے ہمارے ہی دریائے علوم سے ان کی پیاسی زمین سیراب ہوئی اورایسی سیراب ہوئی کہ ایک چمن زاربن گئی ان کوعلم سے آراستہ کرنے کے بعد ہم وقت کو انتہائی فضول چیزسمجھنے لگے اورہمارے معاشرہ کا ہرفرداس نعمت کوانتہائی بے دردی سے ضائع کرنے لگا۔
چمن کے شاخ پہ جس دم شہہ گل کاتجمل تھا
ہزاروںبلبلوںکی فوج تھی کیاشورتھاکیاغل تھا
خزاںکے وقت دیکھاکچھ نہ تھاجزخارگلشن میں
بتاتاباغباںروروکے یہاںغنچہ یہاںگل تھا
وقت تودھوپ میںپڑی برف کی وہ سل ہے جس سے اگرفائدہ اٹھایاگیاتوٹھیک نہیںتووہ توبہرحال پگھل ہی جائے گی وقت ایک ایسی دودھاری تلوارہے کہ اگرآپ نے خوداس سے فائدہ نہیںاٹھایاتویہ آپ کوکاٹ ڈالے گی ۔اگرہم فضول کاموںسے روزانہ ایک گھنٹہ علم کے موتی سمیٹنے کیلئے لگانے کاتہیہ کرلیںتوچند سالوںمیںہم ایک حدتک دین سے باخبرہوسکتے ہیںروزکاایک گھنٹہ اگرہم کام میںلائیںتوکسی بھی سائنس کوقابومیںلاسکتے ہیںاگرروزانہ ایک کتاب کے دس صفحات پڑھیں تو سال بھرمیںساڑھے سات ہزارصفحات پڑھ سکتے ہیں لیکن ہم نے وقت کی قدرنہ کی ،ہم نے ناخلف اولادکی طرح اس بیش بہادولت کو اندھا دھند لٹادیا،چنانچہ اسے لٹاتے لٹاتے ہم خودلٹ گئے،ہماری صحت لٹ گئی ، ہماری زندگی لٹ گئی لمحات کی قدرنہ کرنے سے منٹوں، منٹوںکی قدرنہ کرنے سے گھنٹوں،گھنٹوںکی قدرنہ کرنے سے دنوں،دنوںکی قدرنہ کرنے سے ہفتوں، ہفتوں کی قدرنہ کرنے سے مہینوں،مہینوںکی قدرنہ کرنے سے سالوںکاضائع کرناہمارے لئے آسان بن گیا ہے۔ وقت کودرست استعمال نہ کرنایہ ایک قسم کی خودکشی ہے وقت کوضائع کرناقتل ہے اپنابھی دوسروں کا بھی اور آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہرفرد خودکشی کرنے اور دوسروں کوقتل کرنے میںمصروف ہے ، ہم ٹائم پاس لوگ ہیں اور یہ ٹائم پاسی دیمک کی طرح ہماری صلاحیتوںکوکھائے جارہی ہے ،ہمارے ہو نہار بچوں کی زندگیوںکوغرقِ آب کررہی ہے
یالیت قومی یعلمون
اے کاش میری قوم ہوش کے ناخن لے زمانے کی رفتارسے صلح کرلے اوراپنی اوقات میںرہ کر دوسروں کے وقت کاخون نہ کرے کاش وقت کے قاتل اپنا زہرآلودخنجرنیام میں واپس کردے کہیںایسانہ ہوکہ کسی وقت اسے اپنے ہی سینے میںاتاردے۔