سگنل پہ پہنچتے ہی سرخ اشارہ نے راستہ روک لیابریک دباکرگاڑی کوروکااورپاکستان کی ریل پیل کا دلربا منظر نگاہوں کے سامنے سے گزرنے لگا دائیں دیکھا تومجھے اپنی گاڑی کی طرف ایک سایہ ساآتامحسوس ہوا قریب آنے پرپتہ چلاکہ سائیکل کاشہسوارہے جو طوفان کی مانند آگے بڑھتاجارہاہے سگنل توڑ کر سیدھا آگے نکلا میں اپنی وقت دشمنی پہ اپنے آپ کوکوسنے لگا کہ دیکھو وقت کاکتناقدردان ہے جوسگنل پہ اپنے چارلمحات بھی ضائع ہونے نہیںدیتاپھرخیال آیاکہ شایداس کاکوئی ضروری کام ہواوراگراسے ذرادیرہوئی توکام رہ جائے گا اتنے میںسگنل کھلا،گاڑی کوچلنے کا اشارہ کرتے ہی گاڑی ہواسے باتیںکرنے لگی چندقدم فاصلے پہ ایک بھیڑنظرآئی ذرارک کے دیکھنے کی کوشش کی تو پتہ چلاکہ ایک مداری کرتب دکھارہاہے جسے دیکھنے کیلئے قابل قدرپاکستانیوںکا ایک جم غفیر تھاجس میںہرشخص برابر دونوںہاتھوںسے فوائدسمیٹ رہا تھاوقت کالمحہ لمحہ کارآمدبنانے کیلئے سگنل توڑنے والے صاحب سائیکل کے بریک مضبوطی سے تھامے محوتماشاتھے میںسوچنے لگاکہ وہ ایمرجنسی یہ تھی جس کیلئے قانون کے پرخچے اڑانے ضروری ٹھہرے وہ وقت سے عشق یہ تھاکہ ایک مداری کے عبث کرتب کے ذریعہ اسے بری طرح پامال کیاجائے سائیکل کے ہینڈل پکڑے قانون کو روند کر آنے والے وقت جیسی عظیم دولت کاخون کرنے والے سائیکل سوار کو دیکھتا رہا اور سوچتا چلاگیا۔ میر ی سوچ ہرگلی میںکھلے ویڈیو گیمز اور ڈبو کلبوں کا طواف کرنے لگی جہاںدن رات قوم کے نونہالوں کا گراں مایہ سرمایہ حیات ویڈیوگیم کھیلتے غارت ہوتاہے رات بھرٹک ٹک کرتے ڈبوکیامعنی رکھتے ہیں! کیاکبھی ہم نے سوچنے کی زحمت کی ہے کہ اس کام سے ہمیں دنیاوی کسی فائدے کے حصول کی امیدہے کیاہمیںکوئی دینی فائدہ ہو رہاہے کیااس سے ہم اپنے رب کوراضی کررہے ہیںکیاکسی گیم میںمہارت ہمیںترقی دے سکتی ہے کیاکیرم بورڈ میںسکہ منوانے سے ہم ہرقسم کادشمن زیرکرلیںگے ہیہات ہیہات لماتوعدون عقل کل دانائے سبل ﷺ کا توقول زریںیہ ہے کہ اپنے ایمان کی تزیین کیلئے ہراس کام کوچھوڑدوجس میںکوئی فائدہ نہیںپھراچانک خیال آیاکہ یہاںتوآوے کاآواہی بگڑاہواہے کیا گھر کیا دفتر کیاتعلیمی ادارے کیاکوچنگ سینٹرکیاگاڑی کیاہوٹل ہر مقام پہ بس نظریہی آتاہے کہ اس قوم کو وقت دشمنی شاید میراث میںملی ہے ہرعمرکے لوگ ہوٹلوںپہ بیٹھے رات دیرتک فضول گپوں میں مصروف رہتے موبائل جیسے کار آمدآلے کوبے کار گیموں کیلئے استعمال کرتے دنیا برباد کر رہے ہیںاور فجرسے گھنٹہ ڈیڑھ پہلے سوکرفجرکی نماز کو خیرآبادکہہ کرآخرت کو اجاڑرہے ہیں کارخانوں اور گھروں، کاروباری علاقوں اور رہائشی علاقوںکے بیچ گھنٹوںگھنٹوں کے فاصلے اس پرمستزادیہ کہ گاڑیوں والے (ٹرانسپورٹر) جہاںان کے ساتھ دوسری گاڑی مل جاتی ہے تب توکسی کواترنے نہیںدیںگے اگرایساکوئی مسئلہ نہیںتوکئی کئی منٹ سٹاپ پہ کھڑے رہتے ہیں اور کبھی کبھار توآدھاآدھاگھنٹہ کھڑے رہ کر جہاں مسافروں کو پریشان کرتے ہیںوہاںپوری قوم کی ایک بہت بڑی دولت کودونوںہاتھوںسے لٹاتے ہیں میں سوچتا ہوں وقت جیسی دولت سے ہاتھ دھوکراس قوم کونیندکیسے آتی ہے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواںکے دل سے احساس زیاںجاتارہا

ہر دولت واپس آسکتی ہے وقت وہ دولت ہے جس کاایک ایک سیکنڈکروڑوں بلکہ اربوں کھربوں روپوں پیسوں سے زیادہ قیمتی ہے اوریہ واحدایک ایسی دولت ہے جوجانے کے بعدلاکھ کوششوںسے واپس نہیںآتی مگر افسوس صدافسوس کہ میری قوم سب سے زیادہ اس گوہربے بہاکی قدر ناشناس ہے دوسری قوموںنے عروج وقت کی قدر کرکےپایاہے کہ جو قومیں وقت کی قدرکرتی ہیں وقت ان کی قدرکرتاہے اورجوقومیںوقت کوضائع کرتی ہیں وقت انہیںضائع کردیتاہے اورپھرغلامی کی زندگی بسرکرنے پرمجبورہوجاتی ہیں اگلے لمحات میںوہ وقت کی ٹھوکروںپہ ہوتی ہیںجن افرادکواس متاع گراںکی قیمت کااندازہ ہے ان کاآج بحروبرپہ قبضہ ہے سمندر میں ان کاطوطی بولتاہے فضاؤںمیںان کے (B.52) شاہین اڑتے دکھائی دے رہے ہیںزمین ان کے سیٹ لائٹ کی دوربین نگاہوںکی ضدمیںہے معیشت کی دنیا میں ان کاسکہ (ڈالر)چلتاہے اپنے دشمنوں کو چار بار زمین سے مٹانے کی صلاحیت ان کے پاس ہے ہرقوم ان کی نقالی میںایک دوسرے سے سبقت میںہے دنیا میںسب سے زیادہ سیکھی جانے والی زبان ان کی ہے سائنس ان کے درکاغلام ایجادات ان کے گھرکی کنیز ہے عالم چہاردانگ کوایک بستی کی شکل انہوںنے ہی دی ہے کسی قوم میںان کوچیلنج کرنے کادم خم باقی نہیںکہ انہوں نے اس اب حیات کے ایک ایک قطرے کو نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کیااورایک بوندبھی زمین پہ گرنے نہیںدی،اورکسی نے ان کی وقت دوستی کو دیکھ کرکہاتھاکہ یہ فرنگی لوگ عشق بھی ٹائم ٹیبل بناکرکرتے ہیںبوقت دیدارایک آنکھ محبوب کے گلستان رخسارکی سیرکرتی ہے تودوسری آنکھ گھڑی پرہوتی ہے اس سے پہلے وہ ہم سے بدترتھے ان کوجینے کاڈھنگ ہم نے سکھایاوقت کاصحیح استعمال انہوںنے ہم سے سیکھاان کے دانشکدوںکی آب و تاب ہمارے ہی علمی خزانوں سے ہے ہمارے ہی دریائے علوم سے ان کی پیاسی زمین سیراب ہوئی اورایسی سیراب ہوئی کہ ایک چمن زاربن گئی ان کوعلم سے آراستہ کرنے کے بعد ہم وقت کو انتہائی فضول چیزسمجھنے لگے اورہمارے معاشرہ کا ہرفرداس نعمت کوانتہائی بے دردی سے ضائع کرنے لگا۔

چمن کے شاخ پہ جس دم شہہ گل کاتجمل تھا

ہزاروںبلبلوںکی فوج تھی کیاشورتھاکیاغل تھا

خزاںکے وقت دیکھاکچھ نہ تھاجزخارگلشن میں

بتاتاباغباںروروکے یہاںغنچہ یہاںگل تھا

وقت تودھوپ میںپڑی برف کی وہ سل ہے جس سے اگرفائدہ اٹھایاگیاتوٹھیک نہیںتووہ توبہرحال پگھل ہی جائے گی وقت ایک ایسی دودھاری تلوارہے کہ اگرآپ نے خوداس سے فائدہ نہیںاٹھایاتویہ آپ کوکاٹ ڈالے گی ۔اگرہم فضول کاموںسے روزانہ ایک گھنٹہ علم کے موتی سمیٹنے کیلئے لگانے کاتہیہ کرلیںتوچند سالوںمیںہم ایک حدتک دین سے باخبرہوسکتے ہیںروزکاایک گھنٹہ اگرہم کام میںلائیںتوکسی بھی سائنس کوقابومیںلاسکتے ہیںاگرروزانہ ایک کتاب کے دس صفحات پڑھیں تو سال بھرمیںساڑھے سات ہزارصفحات پڑھ سکتے ہیں لیکن ہم نے وقت کی قدرنہ کی ،ہم نے ناخلف اولادکی طرح اس بیش بہادولت کو اندھا دھند لٹادیا،چنانچہ اسے لٹاتے لٹاتے ہم خودلٹ گئے،ہماری صحت لٹ گئی ، ہماری زندگی لٹ گئی لمحات کی قدرنہ کرنے سے منٹوں، منٹوںکی قدرنہ کرنے سے گھنٹوں،گھنٹوںکی قدرنہ کرنے سے دنوں،دنوںکی قدرنہ کرنے سے ہفتوں، ہفتوں کی قدرنہ کرنے سے مہینوں،مہینوںکی قدرنہ کرنے سے سالوںکاضائع کرناہمارے لئے آسان بن گیا ہے۔ وقت کودرست استعمال نہ کرنایہ ایک قسم کی خودکشی ہے وقت کوضائع کرناقتل ہے اپنابھی دوسروں کا بھی اور آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہرفرد خودکشی کرنے اور دوسروں کوقتل کرنے میںمصروف ہے ، ہم ٹائم پاس لوگ ہیں اور یہ ٹائم پاسی دیمک کی طرح ہماری صلاحیتوںکوکھائے جارہی ہے ،ہمارے ہو نہار بچوں کی زندگیوںکوغرقِ آب کررہی ہے

یالیت قومی یعلمون

اے کاش میری قوم ہوش کے ناخن لے زمانے کی رفتارسے صلح کرلے اوراپنی اوقات میںرہ کر دوسروں کے وقت کاخون نہ کرے کاش وقت کے قاتل اپنا زہرآلودخنجرنیام میں واپس کردے کہیںایسانہ ہوکہ کسی وقت اسے اپنے ہی سینے میںاتاردے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے