شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری کی ذات محتاج تعارف نہیں آب بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے۔ اور محدث دوراں بھی، آپ مورخ بھی تھے اور محقق بھی، آپ مجتہد بھی تھے اور فقیہ بھی، آپ نقاد بھی تھے، اور مبصر بھی، خطیب بھی تھے اور مقرر تھی، دانشور بھی تھے اور ادیب بھی، صافی بھی تھے، اور مصنف بھی، معلم بھی تھے اور متکلم بھی، فاتح قادیاں بھی تھے اور مناظرہ کے امام بھی، مفتی بھی تھے اور سردار اہلحدیث بھی۔

برصغیر کے نامور اہل قلم و اہل علم نے آپ کے علم و فضل، مصائب و بلاغت، عدالت و ثقاہت، ذکاوت ومتانت، شجاعت و بسالت، زہد و ورع، تقوی و طہارت، ریاضت وعبادت، نظم و ضبط اور حاضر جوابی کا اعتراف کیا ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی 1953ء نے آپ کی وفات پر اپنے رسالہ معارف اعظم گڑھ میں لکھا:

مولانا ثناء اللہ ہندوستان کےمشاہیرعلماء میں تھے۔ فن مناظرہ کے امام تھے۔ خوش بیان مقرر تھے۔متعدد تصانیفکے مصنف تھے۔ موجودہ سیاسی تحریکات سے پہلے جب شہروں میں اسلامی انجمنیں قائم تھیں اور مسلمانوں اور قادیانیوں اور آریوں اور عیسائیوں میں مناظرے ہوا کرتے تھے، تو مرحوم مسلمانوں کی طرف سے عموما نمائندہ ہوتے تھے۔ اور اس حوالے سے وہ ہمالیہ سے لے کر خلیج بنگال تک رواں دواں رہتے تھے۔

اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا اس کے حملے کو روکنے کے لئے ان کا قلم شمشیر بے نیام ہوتا تھا۔ اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کر دی۔

فجزاہ اللہ عن الاسلام خیرانجزائ۔

مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے۔ زبان اور قلم سے اسلام پر جس نے بھی حملہ کیا۔ اس کی مداخلت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ وہی ہوتے۔ اللہ تعالی اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات و مراتب عطا کرے(معارف مئی ١٩٤٨ء)

مولانا عبدالرئوف رحمانی جھنڈانگری (م ١٩٩٩ء) نے ماہنامہ ندائے مدینہ کان پور کے ’’شیخ الاسلام ‘‘نمبر میں لکھا:

اگر پوری دنیائے اسلام کے اکابر علماء کسی ایک مجلس علمی میں جمع ہوں اور بیک وقت عیسائیوں، آریوں، سناتن دھرموں، ملحدوں،قادیانیوں، شیعوں، منکرین حدیث، چکڑالویوں، بریلویوں، دیوبندیوں، مت دھرمیوں سے غرض ہر فرقے سے ایک ایک گھنٹہ مسلسل نو گھنٹے بحث و مذاکرہ کی نوبت آئے تو عالم اسلام کی طرف سے کون کون ہستیاں ہوں گی مجھے معلوم نہیں۔ لیکن پاکستان و ہندوستان، برما اور لنکا، جزیرہ جاوا اور سماٹرا کی طرف سے صرف ایک ہستی پیش ہو سکتی ہے۔ اور وہ ہستی حضرت شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اللہ صاحب امرتسری واستہ کی تھی۔ آج ان کی رحلت کے بعد ہندستان اور پاکستان یہ سربلندی شاید باقی نہیں رہی ان کے جاتے ہی بازار علمی کی یہ صدر نشینی بھی شاید اب ختم ہوگئی ہے۔

انا اللہ وانا الیہ راجعون۔(حیات ثنائی۔ ص٢٠٦)

فتنہ قادیانیت سے متعلق مولانا امرتسری کی خدمات:

قادیانی فتنہ کے بارے میں مولانا امرتسری اپنی خدمات کا تذکرہ خود اپنے قلم سے کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔

کان پور سے فارغ ہوتے ہی اپنے وطن پنجاب پہنچا۔ مدرسہ تائید الاسلام امرتسر میں کتب درسیہ کی تعلیم پر مامور ہوا۔ طبیعت میں تجسس زیادہ تھا۔ اس لئے ادھر ادھر سے ماحول کے مذہبی حالات دریافت کرنے میں مشغول تھا۔میں نے دیکھا کہ اسلام کے سخت بلکہ سخت ترین مخالف عیسائی اور آریہ دو گروہ ہیں، انہی دنوں قریب میں قادیانی تحریک پیدا ہو چکی تھی۔ جس کا شہرہ ملک میںپھیل چکا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے اس دفاع کے علمبردار مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی مرحوم تھے۔ میری طبیعت طالب علمی ہی کے زمانہ میں مناظرہ کی طرف بہت راغب تھی۔ اس لئے تدریس کے علاوہ میں ان تینوں (عیسائی، آریہ، قادیانیوں) کے علم کلام اور کتب مذہبی کی طرف متوجہ رہا۔ َ؟؟ میں نے کافی واقفیت حاصل کر لی ؟؟؟؟ اس میں شک نہیں کہ ان تینوں مخاطبوں سے قادیانی مخاطب کا نمبر اول رہا۔ شاید اس لئے کہ قدرت کو منظور تھا کہ مولانا بٹالوی مرحوم کے بعد یہ خدمت میرے سپرد ہوگی۔ جس کی بابت مولانا مرحوم کو علم ہوا ہو، ہدیہ شعر پڑھتے ہوں گے۔

آکے سجادہ نشین قیس ہوا میرے بعد

رہی خالی نہ کوئی دشت میں جا میرے بعد

اس کے بعد مولانا امرتسری لکھتے ہیں:

میری تصانیف جو قادیاں کے متعلق ہیں۔ ان کی تفصیل لکھوں تو ناظرین کے لئے ملال خاطر کا خطرہ ہے۔ اس لئے مختصر طور پر بتلاتا ہوں کہ قادیانی تحریک کے متعلق میری کتابیں اتنی ہیں کہ مجھے خود ان کا شمار یاد نہیں ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جس شخص کے پاس یہ کتابیں موجود ہوں قادیانی مباحث میں اسے کافی واقفیت حاصل ہوسکتی ہے۔ جس کا ثبوت خود مرزا صاحب بانی تحریک قادیاں کی اس تحریر سے ملتا ہے جو انہوں نے 15 اپریل 1907کو شائع کی تھی،جس کا عنوان تھا

’’مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘

اس کے شروع ہی میں میری نسبت جو خاص گلہ و شکایت کی گئی ہے۔ وہ خصوصا قابل دید و شنید ہے۔ مرزا صاحب نے لکھا کہ مولوی ثناء اللہ نے مجھے بہت بدنام کیا۔ میرے قلعہ کو گرانا چاہا۔ اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہے۔ وہ سچے کی زندگی میں مرجائے کوئی خاص وقت تھا جب یہ دعا ان کے غصہ اور قلم سے نکلی اور قبولیت اسے لینے آئی۔ آج قادیاں کی بستی میں میں ادھر ادھر دیکھو تو رونق بہت پائو گے۔ مگر ایسی دیکھنے والا اہل قادیاں کو مخاطب کر کے داغ مرحوم کا یہ شعر سنائے گا۔

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں

آج وہ خانہ خراب ہم کو بہت یاد آیا

نوٹ:قادیانی لٹریچر جمع کرنے اور واقفیت حاصل کرنے میں میں نے بڑی محنت کی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک مجلس میں مولانا حبیب الرحمان مرحوم مہتمم مدرسہ دیوبند نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ ہم لوگ (30) سال تک محنت کریں تو بھی اس بارے میں آپ کی واقفیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ میں نے کہا غالبا آپ کی حسن ظنی او ر تواضع ہے۔(اہلحدیث امرتسر ٢٣ جنوری ١٩٤٢ء)

مرزا قادیانی اپنے اس خط کے ایک سال ایک ماہ اور ١٢ دن بعد لاہور میں اپنے میزبان ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کے بیت الاخلاء میں دم توڑ گئے۔ (تاریخ وفات ٢٦ مئی ١٩٠٨ء)

مولانا ثناء اللہ نے نے مرزا صاحب کی وفات پر اخبار اہلحدیث امرتسر میں لکھا۔

لکھا تھا کاذب مرے گا بیشتر

نامرادی میں ہوا اس کا آنا جانا

نمازِ جنازہ پڑھی ہماری غیروں نے

مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے

الشیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اللہ نے مرزا قادیانی کی وفات (٤٠) سال بعد 5 اپریل 1938 کو سرگودھا میں رحلت فرمائی (عراقی)

مرزا قادیانی کا دعوی کہ آسمانی پر میرا نکاح محمدی بیگم سے ہوچکا ہے:

مرزا قادیانی نے اپنے دعوی نبوت کے بعد کئی ایک الہامات کئے لیکن اس کا کوئی بھی الہام پورا نہ ہوا۔ (مولانا امرتسری نے اپنی کتاب ’’الہامات مرزا’’ میں مرزا صاحب کے الہامات کو جمع کیا ہے اور بتایا ہے کہ کوئی بھی الہام مرزا صاحب کا پورا نہ ہوا۔ اور مرزا کاذب ٹھہرا۔

مولانا ابوالبیان عبدالرحمان خاں صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:

مرزا غلام احمد نے ایک مرتبہ پیش گوئی کہ لاہور کے ایک معزز گھرانے کی تعلیم یافتہ اور حسین و جمیل دوشیزہ محمدی بیگم کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ اس خاتون سے مستقبل قریب میں مرزا غلام احمد کی شادی ہونے والی ہے بلکہ وہ یہاں تک مدعی تھے کہ آسمان پر محمدی بیگم سے اس کا عقد ہو چکا ہے جس طرح آنحضرتﷺ کا عقد مسنون ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش سے آسمان پر ہو چکا تھا۔ مرزا غلام احمد کی یہ پیش گوئی سن کر جہاں محمدی بیگم کے خاندان والوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ وہیں مولانا ثناء اللہ صاحب، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خاں صاحب و دیگر اکابر علماء اسلام کی غیرت اپنی جوش میں آگئی۔ اور انہوں نے لڑکی کے سرپرست سے مل کر ان سے اجازت حاصل کر لی کہ محمدی بیگم کے عقد مسنون کا سارا انتظام وہ حضرات خود کریں گے۔ تاکہ مرزا احمد کی پیش گوئی غلط ثابت کی جاسکے۔ چنانچہ ان سب نے مل کر محمدی بیگم کے لئے ایک مناسب رشتہ تلاش کیا۔ اور نکاح کی تاریخ مقرر کر دی گئی اور نکاح سے قبل اچھی طرح اس تقریب کا اعلان کیا گیا۔ اور زیادہ سے زیادہ حضرات کو تقریب نکاح میں شرکت کی دعوت دی گئی۔اور جس دن نکاح مقرر تھا اس دن نکاح سے قبل دولہا اور برات کا ایک شاندار جلوس نکالا گیا۔ اور شہر کے تمام باشندں کو دعوت دی گئی کہ وہ اس جلوس میں شامل ہو جائیں تاکہ ہر شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ مرزا غلام احمد کا الہامی دعوے غلط ہو گیا۔نیز اس کا بھی اہتمام کیا گیا کہ جلوس میںدف بھی بجایا جائے۔ اس طرح اس نکاح کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہو گئی۔ جلوس اور مجلس نکاح کی قیادت جو بزرگان دین کر رہے تھے ان میں مولانا ثناء اللہ صاحب اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری سب سے نمایاں اور پیش پیش تھے۔ (حیات ثنائی۔ ص ٢٩٩)

قادیانی فتنہ کی تردید:

فتنہ قادیانی کی تردید اور توبیخ میں مولانا امرتسر کی خدمات ناقابل فراموش ہیں مولانا ابو البیان لکھتے ہیں کہ:

مولانا ثناء اللہ صاحب مرزا غلام احمد اور قادیانیت کی سرکوبی اور بیخ کنی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور فریضہ اولین تصور کرتے تھے۔ وہ کون سا ایسا مسلمان ہوگا جس کے نہاں خانہ دل میں ذرا سا ایمان موجود ہو، اور پھر وہ نبوت محمد کے مقابلہ میں کسی جھوٹی نبوت کو ایک لمحہ کے لئے بھی گوارا کر سکے۔ یوں تو ساری امت محمدیہ اور ملت بیضا کو غلام احمد اور قادیانی مشن سے انتہائی بغض و نفرت ہے۔ لیکن مولانا ثناء اللہ صاحب کے بعد دوسرے جن اکابر اسلام اور علمائے دین نے مرزا غلام احمد اور قادیانی تحریک پر بھر پور حملہ کیا ہے ان میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خاں مرحوم اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی بھی شامل ہیں، مولانا مودودی صاحب کو جس جرم بے گناہی کی سزا کے طور پر پھانسی کا حکم سنایا گیاتھا وہ جرم یہی تھا کہ مولانا کے موصوف نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ لکھ کر ’’قادیانیت‘‘ کے قلعہ میں شگاف ڈال دیا تھا۔ مولانا ظفر علی خاں صاحب اپنے اشعار گہر بار کے ذریعہ ’’قادیانیت‘‘کے زہر کا تریاق فراہم کر رہے تھے۔ اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی زبان حق ترجمان قادیاں کے حق میں تیغ و سناں بنی ہوئی تھی۔ مولانا مرحوم (شاہ صاحب) شاید ہی کوئی ایسی تقریر ہوگی جس میں آپ نے قادیانیت کی تردید نہ فرماتے ہو۔

مولانا ظفر علی خاں کا مولانا ثناء اللہ کے بارے میں ایک شعر ہے

خدا سمجھائے اس ظالم ثناء اللہ کو جس نے

نہ چھوڑا قبر میں بھی قادیانیت کے بانی کو

(حیات ثنائی ص 696)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے