فصلِ دوم

مدعوّین کے مختلف حالات

الف:مدعوّین اور ان کے حالات کو مدِنظر رکھنے کی اہمیت:

دعوت إلی اللہ کا بنیادی عنصر وہ لوگ ہیں جنہیں دعوت دی جاتی ہے۔ انہی کی خاطر عمل دعوت مقرر کیا گیا ہے اور انہی کے لئے رسول بھیجے گئے۔ اس لئے انہیں اہمیت دینا اور حالات کے مطابق شریعت کی روشنی میں ان سے پیش آنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ ایک دعوتی غلطی ہے کہ بات کو تبلیغ برائے تبلیغ کے طور پر بے سروپا بیان کردیا جائے۔

سامعین کے ظروف کا لحاظ نہ کیا جائے ، معاشرتی ماحول ملحوظ رکھے بغیر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کاکام روایتی انداز میں سرانجام دیا جائے۔ یہ ایک واضح تبلیغی غلطی ہے کہ کچھ داعی حضرات اپنے مخاطب لوگوں کے حالات وظروف کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ایک خطبٔہ جمعہ یا ایک وعظ یا ایک تقریر یادکرلی اور اسے ہر جگہ ، ہر موقعہ ، ہر طرح کے سامعین کے سامنے بیان کرنا شروع کردیا۔ جبکہ سامعین کی ایمانی ، علمی اور عقلی سطح مختلف ہوتی ہے۔ بلکہ یہ بھی ہوتاہے کہ نسل در نسل بیان کی جانی والی تقریر بیان کی جاتی ہے نہ ان کے الفاظ میں تبدیلی کی زحمت کی جاتی ہے اور نہ ہی اُسلوب میں ۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ سامعین علماء یا عوام النّاس ہیں اور موقع ومحل سے اس تقریر کی مناسبت بھی ہے یا نہیں ؟۔ یہ بات شکّ وشبہ سے بالاتر ہے کہ سب سامعین تبلیغ ودعوت کو قبول کرنے میں ، علم وفہم میں اور دینداری میں یکساں نہیں ہیں ۔ اس لئے ان سب کو ایک ہی انداز میں مخاطب ہونا حکمت سے خالی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جنہیں دعوت دی جارہی ہے ان کے دور میں کچھ خلاف شریعت کام اس قدر عام ہوچکے ہوں کہ یہ ان کا معمول بن گئے ہوں اور انہیں اس کا علم ہی نہ ہو ۔ جیسے دور حاضر میں پردے کا مسئلہ اور کچھ ممالک میں ناجائز معاملات کا عام ہونا ہے۔ ان کے ساتھ انداز گفتگو جاننے والے یا ارادۃًکرنے والے جیسا نہیں ہوگا۔

رسول اللہ ﷺ ہر طبقے کو ان کی دینی حالت ، علم ودانش اور بات ماننے کے جذبے اور امکان کو پیش نظر رکھ کر مخاطب کرتے تھے۔ دلیل کے طور پر اللہ کا فرمان ہی کافی ہے ۔

{لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَھَا}[ البقرۃ : ۲۸۶ ]

’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر پابند نہیں کرتا‘‘۔

اس سے مراد ہر شخص کی عقلی ، علمی ، جسمانی اور ہر طرح کی استطاعت ہے ۔ رسول اللہ e بڑے حکیمانہ انداز میں سامعین کے حالات کو سامنے رکھتے اور انتہائی کامیاب طریقے سے انہیں نبٹاتے۔

آئندہ مضمون میں مدعوّین کے مختلف احوال وظروف اور اس کا لحاظ رکھنے سے متعلق کسی حد تک حکمت ودانائی ہی کا تذکرہ ہوگا اور کتاب وسنّت میں سے اس کی کچھ مثالیں بھی بیان ہوں گی۔

2۔ لوگوں کے انفرادی مزاج کا لحاظ

اس میں تین عنوان ہیں :

۱۔ اہمیت ومفہوم

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف خوبیوں ، طرح طرح کے مزاجوں اور الگ الگ عقلوں سے نوازا ہے۔ کچھ انتہائی حساس اور لطیف مزاج ہیں ، جو بات کو سنتے ہیںاور تسلیم کرلیتے ہیں ۔ کچھ لوگ گہری سوچ کے مالک ہیں وہ منطقی استدلال اور ریاضی کے اُصولوں کو سامنے رکھتے ہیں۔ کچھ ترغیب کو پسند کرتے ، کچھ خوف دلانے سے متأثر ہوتے ہیں ، کچھ بھلا مانس اور خوش طبع ہیں ، کچھ جدال پسند اور ضدّی ہیں ، کچھ اپنے آپ کو عالم ظاہر کرتے ہیں ، کچھ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں ، کچھ طاقت ور اور کچھ کمزور ہیں ۔

کچھ لوگوں کے وقتی حالات ہوتے ہیں جو انہیں بات کی تہہ تک پہنچنے سے مانع اور تسلیم کرنے سے رکاوٹ ہوتے ہیں ، مثلاً وہ کسی ناگہانی مصیبت میں مبتلا یا کسی تباہ کن خسارے سے دو چارہوتے ہیں یا کسی خاص نفسیاتی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

حکمت ودانائی کا تقاضا اور بات کہنے کا فائدہ تب ہے جب ان سب قسم کے مزاجوں کو ملحوظ رکھا جائے اور ہر قسم کے لوگوں سے ان کے حسبِ حال، دینِ حنیف کے دائرہ میں رہ کر گفتگو ہو۔

قرآنِ مجید کے مطالعہ سے اس کے اُسلوبِ بیان میں عجیب قسم کا تنوّع اور تفاوت نظر آئے گاکہ اس نے کیسے تمام قسم کے انسانوں کو کامیاب انداز میں اپنا مخاطب بنایا ہے ۔

سید قطبؒ لکھتے ہیں :’’ قرآنِ مجید مکّی دور میں لوگوں سے اس انداز میں مخاطب رہا کہ وہ شوق اور اپنی مرضی کے ساتھ اس کی طرف چلے آئیں۔ وہ مختلف اُسلوب اور عجیب قسم کے تنوّع کے ساتھ بات کو پیش کرتا رہا، کبھی وہ ان کے سامنے دلائل اور مؤثر براہین کا تندوتیز طوفان برپا کر دیتا اور کبھی ایسا زور دار کوڑا چلاتا جس سے سامع کی حِس میں شعلہ بھڑک اٹھتا وہ اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکتا ،اس کی شعلہ زنی کو برداشت نہ کرپاتا۔ کبھی ایسا انداز اختیار کرتا جیسے کسی محبوب سے سرگوشیاں ہورہی ہوں تاکہ اس کے شعور کو بیدار کرکے اسے مانوس کیا جائے ، کبھی بارُعب اور پریشانی میں مبتلا کردینے والے انداز سے بات کو پیش کرتا جیسے کسی قریب ترین خطرے کی آمد سے چونکا دینا مقصود ہو۔ کبھی وہ حق کو انتہائی آسان ، خوبصورت انداز میں پیش کرتاہے کہ اس سے رُوگردانی اور جدل کی گنجائش نہ رہے ، کبھی وہ اُمید وبیم بھر ے انداز میں مخاطب ہوتاہے جو محوِ راز اور سرگوشی کرتا دکھائی دیتاہے۔کبھی وہ پر پیچ وادیوں اور گنجلگ راستوں سے گزرتا نظر آتاہے ۔ لوگوں کے حالات پر اس طرح روشنی ڈالتاہے کہ وہ اپنے اندرون کا عینی مشاہدہ کرنے لگ جاتے ہیں ،وہ کسی بات سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور کسی کو ناپسند کرتے ہیں۔ وہ اپنی ایسی کارگزاریوں سے آگاہ ہوجاتے ہیں جن سے وہ غافل تھے۔

قرآنِ مجید پڑھنے والا ، سینکڑوں سرگوشیوں، انتباہات، چونکا دینے والے پیغامات اور پُر اثر وعظ وارشادات سے آگاہ ہوتاہے۔ وہ اس طویل معرکے ، دھیمے رویے کو دیکھ کر محسوس کرتاہے کہ قرآنِ مجید ضدّی، ہٹ دھرم اور عصبیت زدہ دلوں کو مُوہ لینے میں کیسے کامیاب ہوگیا‘‘۔

( فی ظلال القرآن : ج:۶ ص: ۳۶۹۲،۳۶۹۳۔)

ایک داعی کا انداز بھی اسی طرح متنوّع ہونا چاہیے ، وہ موقع ومحل کے مناسب اور مخاطب کے مزاج کے مطابق ہو ۔ اس کی تخلیقی اور فطرتی صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہو ۔ اس کے مزاج ، ذاتی اوصاف اور حالات سے غافل نہ ہو۔ اگر طوالت کا اندیشہ نہ ہوتو یہاں بہت سے دلائل ذکر کئے جاسکتے تھے تاہم بطور یاددہانی کچھ مثالیں ذِکر کئے دیتا ہوں ۔درج ذیل آیات قرآنی پر غور کریں یہ انسان کو اس کے اندرون کے حالات سے آگاہ کرکے خالق کی قدرت کی کیسے نشان دہی کررہی ہیں۔

خالقِ کائنات کا ارشاد ہے :

{وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللَّہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہِ وَأَنَّہُ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ} [ الأنفال:۲۴ ]

’’اور جان لو کہ اللہ تعالی آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجایا کرتاہے اور یادرکھو کہ اسی کے سامنے تمہیں اکٹھا کیا جائے گا ‘‘۔

نیز فرمایا   :

{یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ }

’’وہ نگاہوں کی چوری کو بھی جانتاہے اور ان (بھیدوں) کو بھی جو سینے چھپائے ہوئے ہیں‘‘۔[ غافر : ۱۹ ]

نیز فرمایا :

{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ}

’’اور انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے او رہم جانتے ہیں اس کے دل میں جو وسوسے گزرتے ہیں ، اور ہم (اس کی)شاہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔[ ق : ۱۶ ]

ذرا آئندہ آیات پر بھی نگاہ ڈالیں یہ کائنات پر اللہ تعالیٰ کی طاقت اورقدرت سے کیسے آگاہ کررہی ہیں۔ وہ ذات اپنی طاقت، سمع وبصر کے ذریعے انسان کے ہر ہر لمحے اور ہر ہر قول وفعل کی کیسے نگرانی کررہی ہے۔

فرمانِ الہٰی ہے :  

وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ

’’اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ حکمت والا اور باخبر ہے‘‘۔[الأنعام:۱۸]

باخبر ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ چھپی ہوئی باتوں اور گہری چیزوں سے آگاہ ہے ۔

فرمانِ ربّ العزّت ہے   :

{وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَا إِلَّا ھُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُھَا وَلَا حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ }

[ الانعام : ۵۹ ]

’’اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اس کے سوا انہیں کو کوئی نہیں جانتا۔ اور بَرّ وبحر میں جو کچھ ہے اس سے وہ واقف ہے کوئی پتّابھی اس کے علم کے بغیر نہیں گرتا اور زمین کی تہوں میں کوئی دانہ اور کوئی تر اور خشک چیزایسی نہیں ہے جو ایک روشن کتاب میں درج نہ ہو‘‘۔

نیز فرمایا :  

{مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ}

’’وہ جو لفظ بھی بولتا ہے اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتاہے‘‘۔[ ق:۱۸ ]

نیز فرمایا :  

اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ۝ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِ ۝ سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ ۝

’’ اللہ ہی جانتاہے ہر مادہ کے حمل کو اور جو کچھ رحموں میں گھٹتا اور بڑھتا ہے اس کو بھی۔ اور ہر چیز اس کے ہاں ایک ضابطے کے مطابق ہے ، وہ غائب وحاضر سب کو جاننے والا ، عظیم اور عالی شان ہے۔ تم میں سے وہ جو بات کو چپکے سے کہیں اور وہ جو بلند آواز سے کہیں اور جو شب کی تاریکی میں چھپے ہوئے ہوں ، اور جو دن کی روشنی میں نقل وحرکت کررہے ہوں سب اس کے علم میں یکساں ہیں ‘‘۔[ الرعد : ۸۱۰]

رسول اللہﷺ کا طرزِ تکلّم مدعوّین کے مزاج کے مطابق متنوّع ہوا کرتا تھا۔ حدیث پاک سے اس کی عملی صورتیں اور واقعاتی شکلیں معلوم ہوتی ہیں کہ آپ لوگوں کے فطرتی مزاج اور مخصوص حالات کو مدِّ نظر رکھا کرتے تھے۔ کچھ اسی سے تعلق رکھتی ہے آپe کی سیدنا ابوذر t کوکی گئی نصیحت ، آپ نے ان کو کمزور دیکھتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ منصب وعہدہ کے قریب نہ جانا اور فرمایا ’’ اے ابو ذر ! تم کمزور ہو اور یہ ایک امانت ہے‘‘۔(مسلم: ۱۸۲۵)

اس کے مقابلہ میں جب سیدنا خالد بن ولید t کو طاقت ور اور صاحبِ فن دیکھا تو اسے قائد بنادیا ۔ قیادت دیتے ہوئے ابو بکر وعمرw جیسے رتبہ میں افضل صحابہ سے بھی مقدّم کردیا۔ جب سیدنا خالد بن ولید t نے بنو خزیمہ کو قتل کرنے میں غلطی کا ارتکاب کیا تو رسوک اکرم eنے بھری محفل میں فرمایا :’’ اے اللہ! میں تیرے سامنے خالد کی کارگزاری سے بیزاری کا اظہار کرتاہوں‘‘۔ (بخاری: ۴۳۳۹،۷۸۱۹)

سیدنا خالدt چونکہ دشمن کے سامنے ایک بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے اس لئے آپe نے اس اقدام کے باوجودانہیں عہدے سے معزول نہیں کیا۔

رسول اللہ ﷺنے سیدنا ابو بکر t میں ایمانی قوت ، عدل وانصاف جیسی خوبی اور قائدانہ صلاحیت مشاہدہ فرمائی تو ان کے لئے خلافت کی راہ ہموار کردی۔

آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

’’یَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلَّا أَبَا بَکْرٍ ‘‘۔

’’اللہ تعالیٰ اور مومن ابوبکر tکے علاوہ کسی کو نہیں مانتے‘‘۔ (بخاری :۵۶۶۶/مسلم:۲۳۸۷)

اسی طرح آپ نے حجرِ اسو د کو بوسہ دینے کے موقع پر ازدہام دیکھا توسیدنا عمر tسے کہا : اے عمر!تم طاقت ور ہو، حجرِ اسودپر رش نہ کیا کرو کہ اس سے کمزور کو اذیّت ہوتی ہے اگر موقع مل جائے تو ہاتھ لگا لو وگرنہ اس کی طرف منہ کر کے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہَ اور اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہہ کر گزر جایا کرو‘‘۔(احمد : ج:۱ ص:۲۸ /سنن کبریٰ بیہقی: ج:۵ص:۸۰)

ایک طرف رسول کریمﷺ زید بن ثابت tکو سریانی زبان سیکھنے کو کہہ رہے ہیں۔احمد: ج:۵ ص: ۱۸۲/ معجم کبیر طبرانی : ج:۵ ص: ۱۵۵،۱۵۶ /حاکم :ج۵: ص:۴۲۲۔  

جبکہ اس کے دوران ایک دوسرے صحابی ، کو سورئہ فاتحہ سیکھنے کو بھی نہیں کہتے بلکہ آپ نے اسے کہا کہ تم اس کے متبادل ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ اور اَللّٰہُ أَکْبَرُاور لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ ‘‘ پڑھ لیا کرو۔ احمد : ج: ۴ ص: ۳۵۳/ ابو داؤد : ۸۳۲ /نسائی : ج: ۲ ص: ۱۴۳۔

اس سے بڑھ کر مخاطب کے حالات کی رعایت اور کیا ہوگی ، ایک شخص کو اس کی قوت یاداشت اور فہم وفراست کی بنا پر اجنبی زبان سیکھنے کا حکم ہورہا ہے جبکہ دوسرے شخص کا حافظہ کمزور دیکھ کر فاتحہ کی جگہ تسبیح کرنے کو کہاجارہاہے ۔ یہی مدعوّین کے ذاتی احوال کے لحاظ کا ایک انداز ہے ۔ جس سے کچھ داعی اور مربی حضرات محروم ہیں ۔ داعی کو چاہیے کہ وہ مخاطب کے مزاج کو جانتاہو ، جو بات اسے بتا رہا ہو وہ اس کے لئے مفید بھی ہو ، کبھی نصیحت کو مؤخر کردے ، بات کو کسی دوسرے موقع کے لئے چھوڑ دے ، کبھی جواب دینے سے رُک جائے ، کبھی قبل از وقت بات کر دے۔

یہ سب مخاطب کے ذاتی مزاج اور اس کی فطری صلاحیتوں کے مطابق ہو اور حکمت ودانائی کے ساتھ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔

.3سامعین کی علمی استعداد کا لحاظ

اس میں دو عنوان ہیں :

۱۔متذکرہ بالاعنوان کی اہمیت اورمفہوم

داعی کو چاہیے کہ وہ جنہیں دعوت دے رہا ہے ان کے علمی معیار کو ملحوظ رکھ کر ان کے حسبِ حال ان سے مخاطب ہو۔ جس چیز کی انہیں ضرورت ہے اسے پیش کرے ان کے سامنے غیر ضروری یا باعث ملال باتیں نہ کرے۔ اگر وہ طلباء علم کوایسی باتیں بتلانے لگ جائے جو انہیں پہلے سے معلوم ہوں ۔ مثلاً : ایمان اور ارکانِ اسلام بیان کرتے ہوئے حدیث جبرئیل کی تفصیل میں پڑ جائے یا انہیں دعوت توحید دینے لگ جائے تو یہ کوئی حکمت ودانائی نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اس سے بہتر معلومات رکھتے ہوں۔

اسی طرح عوام النّاس کو علم اُصول فقہ، اُصول حدیث، کلامی مباحث، اہلِ علم کے اختلافات، لغوی باریکیاں ، گمراہ فرقوں کے اعتراضات وغیرہ بتلانا حکمت نہیں ہے۔ ان چیزوں کا موقع ومحل دعوت وتبلیغ سے مختلف اور عوام النّاس سے ہٹ کر ہے ۔عام نشریات ٹی وی چینلز میں بھی عوام النّاس سے متعلقہ علمی وفقہی پر وگراموں کا خاص خیال رکھیں۔ تخصّص کے لیکچر بہت کم ہوں کیونکہ ان کا دعوت وتبلیغ سے بہت کم تعلق ہوتاہے۔ ان کا موقع ومحل یونیورسٹی اور مسجد ومدرسہ کے طالبِ علم ہیں ، جبکہ ٹی وی دیکھنے والوں کی اکثریت عوام النّاس ہوتے ہیں۔ایسے لیکچر سے بہت کم لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں تاہم اگر لیکچر دینے والا اپنے اُسلوب بیان کے بل بوتے پرمعلومات کو آسان اور عام فہم الفاظ کے ذریعے پُرکشش بنا لے تو الگ بات ہے۔

سمجھ دار مبلغ وہ ہوتاہے جو لوگوں کو ایسی مفید مطلوب باتیں بتائے جو ان کی علمی سطح کے مطابق ہوں ۔ سمجھ داری کی علامت یہ ہے کہ مخاطبین خاموش ہوں اور جو کچھ سن رہے ہوں اس سے مستفید ہوں ۔ اکثر لوگوں کو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہی کا علم نہ ہوتو کیا یہ دانائی ہوگی کہ داعی انہیں عقیدے اور فقہ کی تفصیلات میں گھماتا پھرے پہلی بات یہ ہے کہ وہ یہ چیزیں سمجھ نہیں سکیں گے، اگر سمجھ بھی لیں تو یہ عملی زندگی میں انہیں فائدہ نہیں دیںگی۔ یہ بات واضح ہے کہ شریعت کی نظر میں نہ جاننے والے کے لئے الگ حکم ہے اور جاننے والے کے لئے الگ ۔

۲۔سیرت نبوی سے کچھ مثالیں:

سیرتِ نبوی میں اس کے بہت سے انداز ہیں ، رسول اللہe اپنے مخاطب لوگوں کے احوال وظروف کا لحاظ رکھا کرتے تھے۔ ایک دیہاتی جس نے مسجد میں پیشاب کردیا تھا اور اس نے واجب الستر حصہ برہنہ کردیا تھا ، صحابہ اسے پکڑنے کے لئے تیار ہوگئے تھے ان کا یہ طریقہ کار حکمت ودانائی کے خلاف تھا کیونکہ وہ دو لحاظ سے اس کی صورتِ حال کا اندازہ نہیں لگا سکے تھے ، اوّل اس لحا ظ سے کہ وہ جاہل تھا، دوم اس لحاظ سے کہ اس نے اس وقت پیشاب کو روک رکھا تھا۔

انسانیّت کے بہترین داعی اور داناؤں کے سردار محسن انسانیت eنے اس کی جاہلانہ کیفیت کا اِدراک کرلیا تھا، آپ اس بات کی تہہ تک پہنچ گئے تھے کہ وہ ایک خاص حالت میں ہے ۔جہالت کا علاج اسے تعلیم دینا ہے اور اس کی مخصوص حالت کا حل پیشاب کرنے سے فارغ ہونا ہے ، خواہ یہ مسجد میں اور برہنہ ہوکر کیوں نہ ہو۔ اسے پیشاب سے روکنے کی خرابی وہاں پیشاب کرنے سے زیادہ بڑی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے میں جو اسے کہا جاتا وہ اسے بھی سمجھ نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہe نے اس کی حالت کو مدّ نظر رکھ کر صحابہ کرامy کو اس سے تعرّض کرنے سے منع فرمادیا۔ آپ نے انہیں فرمایا’’ لاَ تُزْرِمُوْہُ‘‘(یعنی ا س کے پیشاب میں رکاوٹ نہ بنو)۔ جونہی اس کی یہ کیفیت ختم ہوئی رسول اللہe اس کی اصل ضرورت ’’جہالت‘‘ کا علاج کرتے ہوئے انتہائی نرم انداز اور سہل پیرائے میں اسے تعلیم دینے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس دیہاتی نے اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکالے جس نے آپ کو ہنسا دیا ، اے اللہ ! مجھ پر اور محمد پر رحم فرما ، ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرمانا‘‘۔ (بخاری:۲۳۰۶ /مسلم : ۱۶۰۱)

محترم ! اللہ آپ کا بھلا کرے ذرا دیکھیں مدعوّین کے احوال وظروف کا لحاظ رکھنے سے داعی کو پسندیدہ اور اس کی دعوت کومقبول بنانے میں کتنا اثر ہے۔

معاویہ بن حکم سلمیt کو معلوم نہیں تھا کہ دوران نماز گفتگو کرنا حرام ہے۔ انہوں نے نماز میںکوئی بات کہہ دی جونہی نماز ختم ہوئی ، رسول اللہe نے اسے فرمایا :’’ دوران نماز کسی قسم کی بات کرنا درست نہیں ہے۔‘‘(مسلم: ۵۳۷)

سیدنا معاویہt رسول اللہ eکے بارہ میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’میں نے محمد مصطفیٰ eسے بہتر کوئی بھی معلّم نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ آپ کے بعد، نہ آپ نے کبھی مجھے ڈانٹا نہ مارا اور نہ کبھی گالی دی ‘‘۔ (مسلم: ۵۳۷)

یہ نرمی ان لوگوں کے ساتھ تھی جو لاعلم ہوتے ، اگر کوئی صاحب علم اللہ تعالیٰ کی مقدس چیزیں پامال کرتا تو آپ ناراض ہوجاتے تھے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمرw نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ ان کے والد سیدنا عمر tنے رسول اللہ eکو یہ بات بتائی توآپ اس پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ’’اسے اپنی بیوی سے رجوع کرنا پڑے گا پھر وہ اسے حالتِ طُہر تک اپنے پاس رکھے حتی کہ وہ دوبارہ حالت حیض میں آئے پھر حالتِ طُہر میں آجائے اس کو حالتِ طُہر میں طلاق دینا چاہے تو دے سکتاہے، یہ بھی ہم بستری سے پہلے ،یہی اللہ تعالیٰ کا مقرّر کردہ طریقہ ہے‘‘ ۔ (بخاری: ۴۹۰۸/ مسلم: ۱۴۷۱)      

داعی حضرات کو ماحول سمجھنے کی ضرورت:

ایک داعی نے کسی یورپی ملک میں صفات باری تعالیٰ کے موضوع پر ایک لیکچر دیا ۔ اس دوران اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی انگلیوں سے متعلق اہلِ علم کی مختلف آراء ہیں کوئی پانچ کہتاہے اور کوئی چھ۔جبکہ دار قطنی کی روایت میں اس طرح ہے لیکن اس روایت میں یہ یہ خامی ہے ۔صورتِ حال یہ تھی کہ سامعین ارکان اسلام اور ارکان ایمان سے بھی ناواقف تھے ، وہ بات کی تہہ تک نہیں جاسکتے تھے بلکہ اس سے ان کے شکوک وشبھات بڑھ گئے اور وہ اسے مُجسِّم(اللہ تعالی کو انسان کی طرح قرار دینے والا) کہنے لگے ۔ علاوہ ازیں ان میں اکثر وبیشتر گناہ اور فسق وفجور میں مبتلا تھے۔مقرّر نے لمبی چوڑی گفتگو کی، سامعین دیکھتے رہ گئے کہ مبلّغ کیا کہہ رہا ہے؟ مسجد کی انتظامیہ کو اس مشکل سے نکلنے کی فکر لاحق ہوگئی کیونکہ موضوع بھی نامناسب تھا اور مسئلہ بھی افادیّت سے خالی تھا۔ اس سے سامعین میں نفرت پیدا ہورہی تھی اور ممکن تھا کہ کوئی بڑا فتنہ کھڑا ہوجاتا۔ اس دوران ایک داعی آگے بڑھا اور اس نے موضوع سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جن کا سامعین کے گناہوں سے تعلق تھا جن پر ایمان لاکر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرسکیں۔ دوسرے مقرر نے حاضرین کی سوچ کا دائرہ ، ان کی علمی سطح، اور انہیں درپیش صورت حال سے یہ معلوم کرلیا تھا کہ انہیں اصطلاحاتِ حدیث اور فقہی مسائل میں اختلافی آراء سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں سب سے پہلے رجوع إلی اللہ کے مسائل اور ارکان دین کی معرفت کی ضرورت ہے اس لئے اس کا خطاب ان کے حسب حال تھا۔ آج ہمیں اپنی دعوتی تقریروں پر نظر ثانی کی کتنی ضرورت ہے ۔

خلاصہ کلام:

ایک دانش مند داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ گفتگو سے پہلے سامعین کے علمی معیاراور ان کی دینی ضرورت معلوم کرے تاکہ وہ ان سے حسبِ حال بات کرسکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق سے نوازے ۔(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے