اللہ کا تقوی اختیار کرو اور وہ یوں کہ اس کی اطاعت کو لازم پکڑو اور اس کے حرام کردہ امور و افعال سے دور رہو، اللہ کا تقوی ہی بندے کو اس کے مولائے کریم اور خالق و مالک ( کی رضاء ) تک پہنچانے کا وسیلہ و ذریعہ ہے اور اسی کی بدولت وہ اسے اپنے عذاب سے نجات دے گا اور اس کے اجر و ثواب میں اضافہ کرے گا ۔

اللہ کا حلم و نعمت :

اے اللہ کے بندو ! اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور ان میں غور و فکر کرو ، ان میں سے کسی کو آپ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ اللہ کے حق کو پہچانو اور اس کی تعظیم کرنے کے حق کو یوں ادا کرو کہ اس کی ایسی تعظیم کرو جیسا کہ اس کا حق ہے ۔ اور اللہ سے اتنی حیاء کرو جتنی کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وہ تم پر کتنی رنگا رنگ نعمتیں فرما رہا ہے ۔ جبکہ وہ تمہاری عبادتوں سے غنی و بے پرواہ ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ کہ وہ کیسے تمہاری نافرمانیوں پر حلم و درگزر فرماتا رہتا ہے جبکہ وہ تمہیں سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وہ نافرمانی کرنے والوں کے رویئے میں پائی جانے والی ایذاء رسانی پر کتنا صبر کرتا ہے حالانکہ وہ اسے عاجز و مجبور نہیں کر سکتے ؟ کیا اس نے تمہیں عمریں نہیں دے رکھیں اور تمہاری عمروں کو طویل و لمبا نہیں کیا؟ آپ اس کی عبادت کرنے میں اپنی تقصیر و کوتاہی پر نظر نہیں ڈالتے ؟ اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے میں کمی نہیں دیکھتے ؟ کیا آپ لوگ یوم حساب سے ڈرتے نہیں ؟ کیا آپ ان گناہوں سے نہیں ڈرتے جن کا ذکر تمہاری کتاب بول بول کر دے گی۔ کیا آپ اللہ تعالی کا یہ ارشاد نہیں پڑھتے جس میں اس نے فرمایا ہے :

[ اے انسان ! تو نے اپنے پرودگار کی طرف ( پہنچنے میں) خوب کوشش کرتا رہ یہاں تک اسے جا ملے گا ، تو جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائیگا ۔ اس سے حساب آسان لیا جائے گا اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش خوش آئے گا اور جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا وہ موت کا پکارے گا اور جہنم میں داخل ہو گا ۔ یہ اپنے اہل و عیال میں مست رہتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ ( اللہ کی طرف ) پھر کر ( لوٹ کر ) نہیں جائیگا ۔ ہاں ہاں ، اس کا رب اسے دیکھ رہا تھا ] ۔ (الانشقاق : 6 ۔ 15)

اتمام حجت :

حجت پوری اور واضح ہو چکی ہے ۔ اللہ تعالی نے حلال و حرام کی تفصیل ذکر کر رکھی ہے اس نے احکام و عبادات مقرر فرما دیئے ہیں ۔ اس نے فرائض عائد کئے ہیں اور واجباب مقرر فرمائے ہیں ۔ اس نے مستحبات بھی طے کر دیئے ہیں اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کی چیزیں بھی بیان فرما دی ہیں ۔ اور حرام چیزوں کو اس نے حرام کر رکھا ہے اور مکروہ اشیاء کو مکروہ کر دیا ہوا ہے ۔

اللہ نے دین اسلام کو جنت کی راہ قرار دیا ہے اور کفر و گناہوں کو جہنم کا راستہ بنایا ہے اور اللہ نے تمام تر بھلائیاں اپنی اطاعتوں میں اور تمام شر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں رکھے ہیں ۔

ماہ و ایام فضیلت :

اللہ کی رحمتیں کتنی وسیع اور اس کا جود و کرم کتنا بڑا ہے کہ اس نے فضیلت والے مہینوں اور برکت والے دنوں کو واضح کر دیا ہے جن میں نیکیاں بڑھتی ہیں اور گناہ مٹائے جاتے ہیں اور ان دنوں اور مہینوں میں اللہ نے طرح طرح کی عبادتیں مقرر فرمائیں ہوئی ہیں ۔ اور ان سب چیزوں کو ہم نہیں جانتے تھے سوائے اس کے کہ اللہ نے ہمیں ان امور کی تعلیم فرما دی ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

[ جس طرح ( منجملہ اور نعمتوں کے ) ہم نے تم میں تمہیں میں سے ایک رسول کو بھیجا ہے جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے ، تمہیں پاک کرتا اور کتاب (قرآن ) کی اور دانائی و حکمت کی باتیں ( حدیث ) سکھلاتا ہے اور ایسی باتیں بتاتا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا اور میرا احسان مانتے رہنا اور میری ناشکری نہ کرنا ] ۔( البقرہ : 151 ، 152)

ماہ رمضان کی آمد آمد :

مسلمانو ! تمہارے صحن میں وہ مہمان مہینہ آن پہنچاہے جو کہ تمام مہینوں کا سردار ہے اور یہ اللہ کی طرف سے تمہیں ایک عظیم موسم ملا ہے جس کے دن کو روزہ اور رات کو قیام کیا جاتا ہے ، اس کے آخری عشرہ کی راتیں تمام راتوں سے افضل ہیں۔ اسی آخری عشرے میں ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے جس کی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو، اس ماہ میں کی گئی نیکیوں کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے ۔ اس میں برائیوں کو مٹایا جاتا ہے اور درجات کو بلند کیا جاتا ہے ۔ اس ماہ میں اللہ کی رحمتیں موجیں مارتی پھرتی ہیں اور جو بھی ان موجوں میں آ گیا وہ کبھی مایوس و محروم نہیں رہے گا، جس نے تلاش کیا اس نے پا لیا ، اور جس نے اس سے اعراض و روگردانی کی وہ اسے کھوہ کر نقصان اٹھانے والا ہو گیا ۔

روزہ ۔۔ رکن اسلام اور اجر و ثواب :

ماہ رمضان کے روزے اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک رکن ہیں اور اس ماہ کی راتوں کا قیام گناہوں کی مغفرت و بخشش اور مصائب و مشکلات کو رفع کرنے کا باعث ہے ۔سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :[ جس نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس سے اجر و ثواب کی نیت سے روزہ رکھا اس کے سابقہ تمام گناہ بخشے گئے ] ۔ ( صحیح بخاری و مسند احمد ) مسند احمد میں یہ الفاظ بھی ہیں : [ اور اس کے آئندہ کے تمام گناہ بھی ] ۔

اسی طرح سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

[ جس نے یہ ماہ رمضان ( کی راتوں ) کا قیام اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اسی سے اجر و ثواب لینے کی نیت سے کر لیا ، اس کے سابقہ گناہ بخشے گئے ] ۔ ( بخاری)

سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی ہے :[ جس نے لیلۃ القدر کو اللہ پرایمان رکھتے ہوئے اور اسی سے اجر و ثواب کی نیت سے قیام کر لیا ، اس کے پہلے اور پچھلے تمام گناہ بخشے گئے ] ۔ ( مسند احمد )

فضائل ماہ رمضان :

ماہ رمضان کے فضائل تو بکثرت ہیں اور ان میں سے یہی کیا کم ہے کہ اسی ماہ میں اللہ تعالی نے قرآن کریم نازل فرمایا تھا ، اور اسی ماہ کو روزوں کا زمانہ بنا دیا ہے جو کہ بندے اور اس کے رب کے مابین ایک بھید ہے جسے دوسرا کوئی نہیں جانتا ہے ۔سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :[ اللہ تعالی فرماتا ہے : ابن آدم کا ہر عمل بڑھا چڑھا کر رکھا جاتا ہے اور نیکی کا ثواب دس گناہ سے لیکر سات سو گنا تک دیا جاتا ہے اور اللہ تعالی فرماتے ہیں سوائے روزے کے یہ میرے لئے ہی رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ، کیونکہ روزے دار اپنی شہوت رانی اور کھانا پینا میری خاطر چھوڑتا ہے ] ۔(بخاری، مسلم)

[ روزہ دار کو دو فرحتیں ( خوشیاں ) نصیب ہونگی ، ایک روزہ افطار کرتے وقت اور دوسری اللہ کے دیدار کے وقت ( جنت میں جا کر ) اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو کستوری سے بھی زیادہ محبوب ہے ] ( بخاری و مسلم )

فضائل رمضان کا ذکر کرتے ہوئے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :

[ جب ماہ رمضان داخل ہو جاتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے   دروازےبند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابند سلاسل کر ( جکڑ) دیا جاتا ہے ] ۔( بخاری و مسلم)

تارک روزہ کے لئے وعید :

مسلمان کو چاہیئے کہ روزے کا باطل کر دینے والے امور سے اپنے روزے کو محفوظ رکھے ۔

صحیح بخاری و ابوداؤد میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

[ جس نے ماہ رمضان کے ایک دن کا روزہ کسی رخصت و بیماری کے بغیر نہ رکھا وہ اگر ساری عمر بھی روزہ رکھتا رہے تب بھی اس کمی کو پورا نہیں کر سکتا ] ۔ ( بخاری و ابوداؤد )

اسی طرح مسلمان کو چاہیئے کہ اپنے روزے کو غیبت و چغلی ، جھوٹ ، شب و شتم ( گالی گلوچ ) اور ایسی چیزوں پر نظر ڈالنے سے بچائے جن پر نظر ڈالنا حرام کیا گیا ہے ، ایسے ہی گانے سننے سے بھی بچے کیونکہ یہ گانے دلوں کو فاسد و خراب کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :[جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا ۔ اللہ کو ایسے شخص کے ( کھانا پینا چھوڑنے کی اور ) بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ] ۔ ( بخاری و ابوداؤد )

خلوص نیت :

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ے مروی ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

[ کئی روزے دار وہ ہیں جنھیں ان کے روزے سے بھوک و پیاس کے سوا ( کوئی اجر ) نہیں ملنے والا اور کئی قیام اللیل کرنے والے ایسے ہیں کہ انھیں رتجگے ( اور تھکاوٹ ) سوا کچھ ہاتھ نہ لگے گا ] ۔ ( معجم طبرانی کبیر )

سیدناابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

[روزہ ( جہنم سے بچانے والی ) ڈھال ہے جب تک کہ روزے دار اسے خود سوراخ دار ( خراب ) نہ کر دے ] ۔ ( سنن نسائی و طبرانی ) اور معجم طبرانی کبیر میں اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ڈھال کو کوئی کیسے سوراخ دار ( خراب ) کرسکتا ہے ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جھوٹ بول کر یا غیبت کر کے ] ۔

موسم خیرات و برکات :

اے مسلمان ! اس موسم خیرات و برکات میں بکثرت اطاعت و عبادت کی بھر پور کوشش کریں اور نماز باجماعت کا خوب اہتمام کریں ۔ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :[ جس نے نماز عشاء باجماعت ادا کی ، اس نے گویا آدھی رات قیام میں گزاری ، اور جس نے فجر بھی باجماعت ادا کر لی اس نے گویا پوری رات ہی قیام میں گزار لی ] ۔ (صحیح مسلم )

نمازوں کا اہتمام :

یہ انتہائی نقصان کی بات ہے کہ بندہ روزے کا تو بڑا خیال رکھے مگر نماز کو ضائع کر دے ، نماز تو بندے کی فوز و فلاح اور نجات کے اسباب کا ایک خاطر خواہ مجموعہ ہے ، اسی سے اس کے تمام امور میں نظم آتا ہے اور اس کے حالات میں سدھار و درستگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور سب سے پہلے بندے سے جس عمل کا حساب کتاب ( قیامت کے دن ) لیا جائے گا وہ نماز ہی تو ہے ] ۔ ( ابوداؤد ، نسائی)

نماز تراویح :

اے مسلمانو ! تراویح کی ادائیگی پرہمیشگی و دوام کرو اور یہی قیام رمضان ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث میں ہے :[ جو شخص امام کے ساتھ ( قیام رمضان کےلئے ) کھڑا ہوا یہاں تک کہ امام نے (نماز تراویح ) مکمل کر لی تو ایسے شخص کے لئے رات بھر کے قیام کا ثواب لکھا جائے گا]۔

فضائل ذکر الہی :

اللہ کا بکثرت ذکر و اذکار کریں کیونکہ یہ ذکر الہی افضل ترین اور آسان و سہل ترین اعمال میں سے ہے ۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

[ کیا میں تمہیں اس افضل عمل کی خبر نہ دوں جو کہ تمہارے رب کے نزدیک بہت ہی پاکیزہ و پسندیدہ ہے ، جو تمہارے لئے سونا و چاندی صدقہ کرنے سے بھی بہتر ہے اور اس ( جہاد ) سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن سے سامنا کرو ، وہ تمہاری گردنیں کاٹیں اور تم ان کی گردنیں کاٹو ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ضرور بتائیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ عز و جل کا ذکر ] ۔ ( مستدرک حاکم و صححہ )

اور ذکر الہی میں سے افضل ترین چیز تلاوت قرآن عظیم ہے جو کہ پورے فہم و تدبر کے ساتھ کی جائے اور یہ ماہ رمضان ماہ نزول قرآن ہے اور ماہ رمضان میں دل اس قرآن سے دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ انتفاع و استفادہ کرتا ہے ، کیونکہ یہ قرآن روح کی غذا ہے،جس طرح کہ کھانا جسم کی غذا ہوتا ہے ، جب جسم کا غلبہ و اقتدار کمزور پڑ جائے تو روح کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔

سلف صالحین کا طرز عمل :

بعض سلف صالحین امت ماہ رمضان میں ہر تیسرے دن قرآن کریم کی تلاوت مکمل کر لیا کرتے تھے اور بعض تو صرف ایک ہی رات میں قرآن ختم کر لیا کرتے تھے ۔ اور اپنے روزے کا خوب خیال و اہتمام کرتے تھے ۔

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ہم مسجدوں میں بیٹھے رہ کر اپنے روزوں کی حفاظت کرتے ہیں اور سلف امت ایک طویل زمانے تک اللہ سے یہ دعائیں کیا کرتے تھے کہ وہ انھیں ماہ رمضان تک پہنچائے اور پھر ایک طویل وقت تک یہ دعائیں کرتے رہتے تھےکہ ان سے روزے قبول فرمائے ۔

اس ماہ مبارک میں فقرآء و مساکین اور یتیموں کے ساتھ احسان کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تمام لوگوں سے زیادہ صاحب جود و سخا تھے اور پھر ماہ رمضان میں تو آپ کے جود و سخا کی کوئی حد ہی نہ رہ جاتی تھی اور ماہ رمضان میں چونکہ آپ کی ملاقات روح الامین جبرائیل علیہ السلام سے ہوا کرتی تھی لہٰذا ان دنوں میں تو آپ تیز باد و ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے ۔

غرض و غایت عبادات :

عبادات کے اغراض و مقاصد میں سے ہی یہ غرض ہے کہ اپنے نفس اور اللہ کی مخلوق پر احسان کیا جائے اور ماہ رمضان میں یہ غرض پوری ہو جاتی ہے ۔ اس ماہ مبارک میں اتنی عبادتیں اور اطاعتیں جمع ہو جاتی ہیں جتنی کہ دوسرے کسی مہینے میں یکجا نہیں ہوتیں ، اس ماہ میں نماز ، روزہ اور صاحب نصاب یا جو بھی پیش کرنا چاہئے اس کا زکواۃ ادا کرنا ، ذکر الہی کی کئی انواع و اقسام اور حج اصغر یعنی عمرہء رمضان جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت میں کئے گئے عمرے کے برابر ثواب والا ہوتا ہے اور ایسی ہی بہت سی کئی دیگر نیکیاں کرنے کا موقع یہ ماہ مبارک ہے۔ اور اس ماہ کی فضیلت کی وجوھات و اسباب میں سے ہی ایک یہ بھی ہے ۔

اے مسلمانو ! ایسی نیکیوں کی کوشش کرو جو تمہیں جنت کے قریب کر دے ، جس میں وہ نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے کبھی کہیں نہیں دیکھا نہ کسی کان نے کبھی سنا ہے اور نہ ہی کبھی وہ کسی کے تصور میں ہی گزری ہیں اور وہ نیکیاں جو کہ آپ کو جہنم سے دور کر دیں ۔

نیکیوں کا موقع :

کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ کسی کو کب اچانک موت آجائے گی اور کوئی شخص یہ بھی نہیں جانتا کہ آئندہ رمضان کو وہ پا سکے گا یا نہیں پائے گا ؟ اے انسان ! تم آج کے بیٹے ہو ۔ کل کی کوئی چیز تمہارے اختیار میں نہیں ہے ۔ ارشاد الہی ہے :

[ اور اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے بنائی گئی ہے ، جو آسودگی و تنگی میں ( اللہ کی راہ میں مال ) خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے ہیں اور لوگوں کے قصور کوتاہیاں معاف کرتے ہیں اور اللہ نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے ، اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے ؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے ۔ ایسے ہی لوگوں کا صلہ ان کے رب کی طرف سے بخشش اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ( اور ) وہ اس میں ھمیشہ بستے رہیں گے ۔ اور ( اچھے ) کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ] ۔ ( آل عمران : 132 ، 136)

فرضیت صیام :

اے اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :[ اے ایمان والو ! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تا کہ تم متقی بن جاؤ ۔ یہ ( ماہ ) گنتی کے چند دن ہی تو ہے ۔ ۔ ۔ ] ( البقرہ : 183 ، 184 )

روزے کے آداب :

1 ۔ تم میں سے جب کوئی شخص روزہ رکھے تو اسے چاہیئے کہ اس کے کان ، آنکھ اور تمام اعضاء جسم بھی ہر حرام چیز سے روزہ رکھیں ۔ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ہے :

[ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیئے کہ کوئی فحش گوئی و شہوت انگیز باتیں نہ کرے اور نہ ہی گناہ کا کوئی کام کرے ، اور اگر کوئی اسے گالی دے یا کوئی اس سے لڑائی کرے تو اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔

2 ۔ سحری کھانے کا اہتمام کریں ، سیدناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا :

[ سحری کھاؤ ، سحری میں بہت برکت ہے ] ۔ ( بخاری )

کیونکہ سحری کھانے سے بدن میں قوت و طاقت آئے گی جو کہ اطاعت و عبادت کے لئے ضروری ہے سحری کا طلوع فجر تک مؤخر کرنا سنت ہے ۔

3 ۔ افطاری میں جلدی کرنا سنت ہے کیونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :

[ لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی سے رہیں گے جب تک وہ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے ] ۔ ( بخاری )

کیونکہ یہ افطاری میں جلدی کرنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غلبے کا پتہ دینے والی چیز ہے ۔

روزہ افطار کروانے کا ثواب :

ایک حدیث میں ہے :[ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا اسے بھی اس روزہ دار جتنا ہی ثواب ہو گا اور روزہ دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی ] ۔

اور روزہ دار کو رات کے وقت ہی روزے کی نیت و ارادہ کر لینا چاہیئے ۔

و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین و الحمد للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے