بے شک ہر قسم کی تعریف اللہ کیلئے ہیں۔ہم اسکی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت کے طالب ہیںاور اپنے نفسوں اور اپنے برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جس کو وہ ہدایت سے نوازے اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتااور جس کو وہ گمراہ کر دے اسکو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارےنبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ کی رحمت ہوآپ پر اور آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ کرام پر بہت بہت سلام ہو۔

اللہ کے بندو!اللہ سے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اللہ کاتقوی ہدایت اور سعادت کا راستہ ہے اور اسکی مخالفت شقاوت کاراستہ ہے۔ مسلمانو! زندگی دنیا وآخرت میں بلندی اور پستی کا سبب ہے اور وقت کی شان یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے مختلف احوال کی قسم اٹھائی ہے چنانچہ فجر،چاشت،عصراورشفق کی قسم اٹھائی ہے۔بلکہ پورے زمانے دن اور رات کی قسم اٹھائی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے، ’’رات کی قسم جب (دن کو) چھپا لے اور دن کی قسم جب چمک اٹھے۔‘‘ (اللیل:۱،۲)

اللہ تعالی زمانے کے حالات کو تاریکی سے روشنی میں تبدیل کرتا ہے۔تاکہ اللہ کی عبادت کے ذریعے جہان کو آباد کرنے سے دل بیدار ہو جائیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے، ’’ اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں )‘‘ (الفرقان:۶۲)

اور نبی کریم ﷺ نے بھی عمل صالح کے ذریعے وقت کو غنیمت جاننے کا حکم دیاہے چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا ہے، اس چیز کی حرص کر جو تجھ کو فائدہ دے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

زندگی کے ایام گنتی کے ہیں ایک دن گزر جانے سے ابن آدم کی عمر کم ہو جاتی ہے اور کچھ حصہ گزر جانے سے ساری عمر زائل ہو جاتی ہے۔ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جب سے اس زمین پر بندے کے پائوں لگتے ہیں تو وہ اپنے رب کی طرف مسافر ہوتا ہے اور اس کی مدت سفر وہی ہے جو اس کیلئے لکھ دی گئی ہے۔ بندے پر اللہ تعالی کے بڑے احسانوں میں سے لمبی عمر صالح اعمال کے ساتھ عطاکرنا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا، لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جس کی عمر لمبی اور اعمال اچھے ہوں۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت ہے۔

نبی کریم ﷺکی زندگی آپ کے شب وروز سب کے سب اللہ کے لیے ہی تھے اللہ تعالی نے آپ ہی کے متعلق فرمایا، ’’(یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے۔‘‘ (الانعام:۱۶۲)

اللہ تعالی نے اپنے اوقات کو عبادت سے معمور کرنے پر اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی مدح کی ہے ۔اللہ تعالی نے فرمایا، ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل (اے دیکھنے والے) تو انکو دیکھتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (الفتح:۲۹)

اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیدناعمررضی اللہ عنہ کیلئے وصیتوں میں سے ایک وصیت یہ ہے کہ بلاشبہ اللہ کیلئے کچھ کام دن کے وقت کرنے ہیں جو وہ رات کو قبول نہیںکرتا اور کچھ کام رات کو کرنے کے ہیں جو وہ دن کو قبول نہیں کرتا اور سلف صالحین رحمہم اللہ اپنی عمروں کے اوقات کو غنیمت سمجھتے تھے تو انہوں نے اوقات اپنے رب تعالیٰ کو راضی کرنے والے کاموں سے پر رونق بنایا۔امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، میں نے کئی قوموں کو دیکھا کہ اپنے وقت کے بارے میں اس قدر فکر مند رہتی تھی کہ اس قدر تمہیں اپنے مال ودولت کی فکر نہیں ہے۔ مدارس اور دانش گاہوں میں نظام کے مطابق تعلیمی سال اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس موقع پر طالب علموں کوفراغت اور فرصت اوقات میسر آتی ہے تاہم اس فرصت سے فا ئدہ وہی اٹھاسکتا ہے جو اپنے وقت کو مفید کام کیلئے غنیمت جانے اور خسارہ میں ہیں وہ جنہوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی کی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دو نعمتیں ہیں جس کے بارے میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں یعنی ان سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی کرتے ہیں صحت اور فراغت۔اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، جن لوگوں کو صحت اورفراغت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دی گئی ہے وہ بہت کم ہیں۔بہترین کام جس سے ان اوقات کو پر رونق کیا جاسکتا ہے کتاب اللہ کا حفظ اور اس کا دور اور دہرائی ہے۔

سیدناعقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺہمارے پاس آئے اور فرمایا:تم میں سے کون چاہتا ہے کہ وہ ہر روز صبح صبح وادی بطحان یا وادی عقیق کی طرف جائے تووہاں سے دو موٹی اونٹنیاں لے کر آئے یعنی جن کی کوہان بڑی ہوبغیر کسی گناہ کے اور بغیر کسی قطع رحمی کے تو ہم نے کہا اللہ کے رسول ہم سب یہ چاہتے ہیں۔تو آپ نے فرمایا: تم کیوں ایسا نہیں کرتے کہ تم میں سے کوئی علی الصباع مسجد میں جائے اور قرآن کی دو آیتیں پڑھے یا سیکھے تو یہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر اورجتنی تعداد آیات کی ہو گئی اتنی تعداد کے اونٹوں سے بہتر ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

اور جس کسی کو حفظ قرآن کی توفیق ملی وہ سرفراز ہوا اور جس نے اسکی تلاوت کی وہ باعزت ہو گیا اور جو اس کے قریب ہواوہ عظیم ہو گیا اور جنت میں بندے کا مقام آخری آیت کے وقت ہو گا کہ جس کو وہ ترتیل کے ساتھ تلاوت کررہا ہے۔فتنوںکے اوقات میں زمانے میں اور شبہات اور شہوات کے دروازے چوپٹ کھلنے کے وقت میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھا منا اور زیادہ لازم ہے اور اس کے قریب ہونا اور زیادہ ضروری ہے۔رسول اللہ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان کے بعد تم ہر گزگمراہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔

حدیث نبوی یا علوم شرعیہ میں لکھی گئی اہل علم کی کتابوں کے متون کو یاد کرنے کے ذریعے شرعی علم کو زادراہ بنانا اس سے طلب علم میں رسوخ آتا ہے اس سے علم میں پختگی ہوتی ہے اور مسلمان کو بلندی ملتی ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے، ’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجے بلند کریگا۔ اوراللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘ (المجادلہ: ۱۱)

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، بہترین نفلی عبادت تعلیم وتعلم ہے۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا بھی اطاعت ہے اور ان دونوں کی صحبت کو اختیار کرنا سعادت مندی ہے اور ان دونوں کی قربت اللہ کی توفیق سے ہوتی ہے۔

اللہ تعالی نے سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا، ’’اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایاہے) اور سرکش اورشقی نہیں بنایا۔‘‘ (مریم:۳۲)

ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں، جس نے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کی تو وہ سعادت مند متواضع ہو گا۔ عقلمند بیٹا وہ ہے جو چھٹیوں کو اپنے والدین کے ساتھ خوشگوار بناتا ہے اور نیکی زیادہ کر کے اور ان کوخوش کر کے اور جو چیز والدین کو خوش کرتی ہے وہ تیرا دین پر استقامت اختیار کرنا ہے اور یہ بھی والدین کے ساتھ نیکی ہے کہ والدین کے دوستوں کی زیارت کی جائے اور ان کے بعد ان کی عزت واحترام سے پیش آیا جائے۔

نبی کریم ﷺنے فرمایا، بے شک یہ بھی نیکی ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں سے میل جول رکھے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

صلہ رحمی سے رحمان خوش ہوتا ہے، عمر لمبی ہوتی ہے، مال میں اضافہ ہوتا ہے، وقت میں برکت ہوتی ہے، افراد کے درمیان قربت ہوتی ہے، اچھے اخلاق کا اظہار ہے، اچھی عادات ظاہر ہوتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراوانی اور عمر میں برکت ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم ے روایت کیا ہے۔

اہل علم اور صالحین کی زیارت سے آدمی مہذب ہوتا ہے اور روح کو بلندی ملتی ہے اور آخرت یاد آتی ہے، ارادے بلند ہوتے ہیں، حالات کی اصلاح ہوتی ہے اس کے ذریعے ہمیں علم و معرفت حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ہیں اور ہدایت کے داعی ہیں۔ بھلائی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا صالحین کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’تو یہ ایسی چیز ہے کہ جس میں سبقت کے خواستگاروں کو سبقت کرنی چاہیے۔‘‘ (المطففین:۲۶)

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جب تو لوگوں کو کسی بھلائی میں دیکھے تو ان سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ اچھی صحبت نیک عمل کے لیے بہترین عبادت ہے، جو نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور برائیوں کے دروازے بند کر دیتی ہے اور فرمانبرداری پر رغبت دلاتی ہے اور اچھی صحبت سے کوئی بھی مستغنی نہیں ہے، ہمارے نبی کریم ﷺکے بھی کچھ ساتھی تھے جو رسالت کی تبلیغ اور دعوت کے راستوں پر معاونت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق کو تسلی دے رہے تھے کہ غم نہ کرواللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (التوبۃ:۴۰)

اور اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جن کو انبیاء اور شہداء بھی داد تحسین دیں گے۔ برا دوست تجھے برائی کی دعوت دے گا اور تجھ پر بھلائی کے دروازے بند کر دے گا اور اللہ تعالیٰ نے بھی بتلایا ہے کہ ان کی رفاقت باعث شرمندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ (الفرقان:۲۷،۲۸)

سیدناعبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ آدمی کو ایسا ہی خیال کرو جیسے اس کے دوست ہیں۔ یعنی کہ آدمی کے دوستوں کو دیکھو کیونکہ آدمی اپنے ہی جیسوں کی صحبت اختیار کرتا ہے۔ ویڈیوز پر مشتمل چینلزاور اس طرح فتنوں کی دیگر آماجگاہوں کو دیکھتے رہنے سے آدمی وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں نعمتوں کا انکار پیدا ہوتاہے، دل سے قناعت ختم ہو جاتی ہے اور دل پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

اور چھٹیوں کا موقع باپ کے لئے سنہری موقع ہے کہ اپنے بیٹوں کے قریب آئے ، ان کے دلوں کی خالی جگہ پر کرے ، ان کے سیرت واخلاق کو مہذب بنائے اور ان کے ٹیڑھے پن کا علاج کرے۔ بیٹے اپنے باپ کے قریب ہونے میں سعادت محسوس کرتے ہیں ، ان سے مانوس ہوتے ہیں، ان کے حسن اخلاق سے مستفید ہونے اور ان کے اخلاق ِ حمیدہ اخذ کرنے کا موقع پاتے ہیں۔ ابن عقیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں، عقل مند آدمی بیوی کو اس کا اور خود اپنا حق دیتا ہے اور اپنے بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح بن جاتا ہے اور کچھ وقت سنجیدگی چھوڑ کر ان سے بے تکلف ہوجاتا ہے۔

باپ کا اپنے بیٹوں سے تغافل اختیار کرنا اور ان سے دور رہنا ان کی تربیت میں نقص پیدا کرتا ہے اور برے لوگوں کا ان تک پہنچنا آسان بنا دیتا ہے جس سے باپ کے حصہ میں صرف حسرت اور شرمندگی آتی ہے۔ اور سفر مباح میں والدین اور بیٹوں کے درمیان قربت پیدا ہوتی ہے اور دوری کی خلیج پٹ جاتی ہے۔

اور عمرہ کا سفر عبادت کا سفر ہے جس سے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں، مسجد نبوی میں نماز کا پڑھنا دوسری مساجد میں ایک ہزار نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

حرام سفرمال کا ضیاع ہے اور اپنے آپ کو فتنوں کے سپرد کرنا ہے، اور اسی وجہ سے بعض اوقات اولاد کے دلوں میں ایسے شبہات اور ایسی خواہشات جنم لیتے ہیں کہ جن کوروکنا یا تبدیل کرنا باپ کے بس میں نہیں ہوتا اور کبھی آدمی حرام سفر سے پہلے سے زیادہ بری حالت میں لوٹتا ہے۔ اور چھٹیوں میںشادیوں کے ذریعہ نئے خاندانوں کی بنیاد بھی رکھی جاتی ہے اور اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ اس قسم کی محافل اور تقریبات میں محرمات کا ارتکاب نہ ہومثلاً فضول خرچی، گانا، تصاویر،عریانی ۔اور شادی ایسی ہونی چاہیے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون کا ذریعہ بنایا ہے، ’’اور رات کو پردہ مقرر کیا۔‘‘ (النباء:۱۰)

اور رات کو جلد سونا نبی کریم ﷺ کی سیرت ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، نبی کریم ﷺ عشاء کی نماز سے پہلے سوجانا اوراس کے بعد باتیں کرناسخت ناپسند فرماتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔

اور جب رات کو جاگتے رہنا نمازِ فجر کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں رکاوٹ کا سبب بنے تو یہ حرام ہے۔ مسلمان ہر وقت اور ہرحال میں اپنے رب کاخوف دل میں رکھتاہے۔ اس کو یقین ہے کہ اللہ اس کے افعال کو دیکھ رہا ہے جس وقت اور جس جگہ بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’آپ جس حال میں بھی ہوں اور جو آپ قرآن پڑھیں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے۔‘‘ (یونس:۶۱)

اور بندے کو جزا وسزا کا بدلہ دیا جاتا ہے ہر جگہ جہاں بھی وہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، تو جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتا رہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے جب سفر و حضر میںاس کی حدود کو پامال کیا جائے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا، بےشک اللہ تعالیٰ کو بھی غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو غیرت دلانا یہ ہے کہ آدمی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کرے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔

تو غلطیوں سے دور ہونے والا بن جا اور نیک اعمال کو اپنازادبنا لو۔

اگر کام کرنا مشقت ہے تو فراغت باعث فساد ہے۔ اپنے آپ کو اگر تو نے حق کے ساتھ مشغول نہ کیا تو وہ تجھ کو باطل میں مشغول کر دے گا۔ آدمی تنگی و آسانی میں، آزمائش و عافیت میں اور سفر و حضر میں امتحان میں مبتلا رہتا ہے۔ اچھا وہی ہے جس نے تقویٰ کو اپنی سواری بنایا اور اپنے رب کی جنت کی طرف چل دیا۔

’’اور (ان سے) کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔اللہ اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (اللہ واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو (سب) تم کو بتائے گا۔‘‘ (التوبۃ:۱۰۵)

مسلمانو! بیٹوں کے متعلق باپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے چنانچہ قیامت کے دن بھی ان کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا۔ اور ماں پر بیٹیوں کی حفاظت کرنے میں دوگنی ذمہ داری ہے، حفاظت، نصیحت اور توجیہ و ارشادات میں ان کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھے، ان کو قرآن پاک حفظ کرنے کی ترغیب دلائے اور مفید نصیحتیں سننے کی ترغیب دلائے اور گھریلو کام انجام دینے کی رغبت دلائے اگرچہ نوکر اور خدمت گار بھی دستیاب ہوں اور ان کو ستر و حجاب اور پاکدامنی کا حکم دے اور دین و اخلاق کے منافی نقصان دہ چیزوں سے بچائے۔

دنیا کی مدت تھوڑی ہے اور اس کا سازوسامان ختم ہونے والا ہے، آدمی سے متعلق اتنا ہی ہے جتنا کہ بے وطن مسافر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں تو اتنا ہی مشغول ہو جتنا ایک مسافر مشغول ہوتا ہے جو اپنے گھر لوٹنے کی تیاری کرچکا ہے۔

سیدنا عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں کسی چیز پر اتنا شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ اس دن پر شرمندہ ہوتا ہوں کہ سورج تو غروب ہو گیا، میری عمر بھی ایک دن کم ہو گئی اور میں نے اپنے اعمال میں اضافہ نہیں کیا۔ مومن دو قسم کے خوفوں کے درمیان ہوتا ہے اس گناہ کے متعلق جو گزر گیا وہ نہیں جانتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے متعلق کیا کرے گا اور موت کے متعلق جو کہ قریب ہو چکی کہ وہ نہیں جانتا کیا ہونے والا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے