مدارس اسلامیہ معاشرے کی اصلاح میں مقدور بھر کوششوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ یقیناً ان مدارس کی بدولت ہی اسلامی اقدار تہذیب و ثقافت کے نمایاں خدو خال نظر آرہے ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ کے فارغ التحصیل علمائے کرام عامۃ الناس کی رہنمائی کے لئے مسلسل سعی و جدو جہد میں مصروف کار ہیں۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا شمار ملک عزیز پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ ارض کی ممتاز ترین اسلامی جامعات میں ہوتا ہے۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ہر سال فارغ التحصیل علمائے کرام کے اعزاز میں تقریبا ۲۸ سال سے پر وقار تقریب کا اہتمام کرتا آرہی ہے۔ اسی سلسلہ ذھبیہ کی ایک کڑی مورخہ۲۳ جون ۲۰۱۲بروز ہفتہ کو صحنِ جامعہ میں منعقد ہونے والی فقید المثال تقریب تکمیل صحیح بخاری بھی تھی۔ اس تقریب کی صدارت حضرت الامیر ڈاکٹرمحمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ نے فرمائی۔ پروگرام کو دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست:

اس عظیم الشان تقریب کی پہلی نشست میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض فضیلۃ الشیخ ابو اسامہ محمد طاہر آصف حفظہ اللہ استاذجامعہ ابی بکر و چیئرمین مجلس ادارت ماہنامہ اسوہ حسنہ نے بخوبی انجام دئیے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز بعد از نمازِ عصر قاری محمد مدثر عمران (طالب علم معہد ثالث) کی تلاوت سے ہوا، تلاوت کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے طالب علم ابوبکر نے مدح رسول معظمﷺ میں نظم پیش کی۔

توحید کے انفرادی و اجتماعی اثرات کے موضوع پر کلیہ ثالثہ کے طالب علم ذبیح اللہ شاکر نے اپنے مخصوص انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ توحید سے انسان کے اندر خشیت الٰہی، انابت الی اللہ، ہمدردی، خیرخواہی اور عبادت میں لذت و احسان جیسی صفاتِ حمیدہ پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ اجتماعی طور پر بھی توحید کے گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ توحید کی معرفت سے ہی کسی معاشرے سے ظلم و جور، زیادتی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد خطاب کے لئے بقیۃ السلف صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ محترم الشیخ محمد عرف عائش حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی، انہوں نے خطبہ مسنونہ کے بعد حاضرین مجلس کو خصوصی پندو نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا حب جاہ اور حب مال انسان کی تباہی کا سامان ہے۔ اصحابِ رسول ﷺ کی تربیت رسول مکرمﷺ نے اس انداز سے کی کہ وہ ایثار کا پیکر بنکر لوگوں کے سامنے ظاہر ہوئے۔ دنیاوی متاع و مال سے وہ کوسوں دور بھاگا کرتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو خود داری کی تعلیمات سے روشناس کروایا۔ فضیلۃ الشیخ محمد عرف عائش کے خطاب کے بعد معروف سلفی عالم فضیلۃ الشیخ محمد افضل اثری حفظہ اللہ کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے علم سے منسلک لوگوں کو خصوصی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ علم سے منسلک افراد اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔ باری تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کا فرمان نقل فرمایا کہ

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْهِ ۚ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ               ؀

یوسف نے کہا: اے میرے پروردگار! جس چیز کی طرف مجھے بلارہی ہیں اس سے تو مجھے قید ہی زیادہ پسند ہے اور اگر تو نے ان کے مکر کو مجھ سے دور نہ رکھا تو میں ان کی طرف جھک جاؤں گا اور جاہلوں سے ہوجاؤں گا(یوسف:33)

یعنی سیدنا یوسف علیہ السلام قید کی صورت میں دنیا کی تکالیف برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ مگر اپنے دامن کو گناہوں سے آلودہ نہیں کرسکتے۔

پھر اس آیت کریمہ پر غور فرمائیں کہ گناہ سے انسان جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچ جاتا ہے۔

انہوںنے مزید کہا کہ علم کی محفل دنیا کی بہترین محافل میں شمار ہوتی ہے۔

رسول مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

دنیا اور اس کی تمام چیزیں ملعون ہیں البتہ اللہ تعالیٰ کا ذکر، عالم اور علم سیکھنے والااور ان کے معاونین (اللہ کے نزدیک محبوب ہیں)۔(ترمذی)

چھوٹے گناہوں سے ہی اجتناب برتیں، صغیرہ گناہوں کی کثرت انسان کو تباہ کردیتی ہے۔

رسول مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

إیاكم و محقرات الذنوب ۔۔۔ و إن محقرات الذنوب متى یؤخذ بها صاحبها تهلكه

تم حقیر نظر آنے والے گناہوں سے بچو کیونکہ یہ صغیرہ گناہ جب آدمی پر اکٹھے ہوجائیں تو اسے ہلاک کردیتے ہیں۔ (جامع الصغیر و زیادتہ، مسند احمد)

یاد رکھئے گناہ قوموں کے لئے باعث ہلاکت ہیں، نیکی کے سلسلہ کو روکنے کا ارادہ کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ معیشت کو تباہ کردیتا ہے۔

اپنے آپ کو علم کے لئے وقف کردیں حیات مستعار کے ایک ایک لمحے کو اس علم پر خرچ کریں۔

فضیلۃ الشیخ محمد افضل اثری حفظہ اللہ کے ایمان افروز خطاب کے بعد صحیح بخاری کی آخری حدیث پر عالمانہ، فاضلانہ درس محدث عصر،فخرسلفیت ، متکلم اسلام فضیلۃ الشیخ پروفیسر علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں:

بعد حمد و ثناء امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عظیم الشان کتاب کا نام الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ و سننہ و ایامہ رکھا۔ کتاب کے نام پر گفتگو کے لئے طویل وقت درکار ہے۔ یہ کتاب عظیم جامع ہے ، جامع کا مطلب یہ ہے اس کتاب میں زندگی کے جملہ معاملات کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔

الصحیح: کا مطلب ہے کہ اس کے رواۃ ضابط، حافظ ہیں اس کی اسناد متصل ہیں جبکہ کتاب کی کسی بھی حدیث میں شذوذ یا علت خفی یا ظاہری کا وجود نہیں ہے۔

المسند: یعنی یہ کتاب با سند ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دو راویوں کے درمیان امکان لقاء کا اعتبار نہیں کیا، بلکہ ثبوت لقاء کی شرط عائد کی اور پھر اپنی کتاب میں شروع تا آخر اس شرط کو پورا بھی کیا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا آغار کتاب الوحی سے کیا کونکہ وحی ہی انسان کو جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے اور پھر کتاب التوحید سب سے آخر میں لائے ہیں اس لئے کہ انسان کو اپنی پوری زندگی وحی کی روشنی میں توحید کے تقاضے پورے کرنے میں بسر کرنی چاہئے اور رسول معظم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ

ترجمہ:جس خوش نصیب نے مرتے وقت تک کلمہ توحید سے اپنا تعلق قائم رکھا وہ جنت میں ضرور جائے گا۔

وحی کا اطلاق سنت رسول پر بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ كَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّـبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ   ۚ

سیدنا نوح علیہ السلام کی جانب کی جانے والی وحی سنت تھی، کیونکہ نوح علیہ السلام کو صحیفہ یاکتاب عطا نہیں کی گئی ۔(النساء163)

صحیح بخاری میں مولف نے کتاب التوحید کے ذریعے توحید اسماء و صفات کے منکر ین کا رد فرمایا ہے، اہل السنۃ و الجماعۃ صفات و اسماء کے معاملے میں عدل و انصاف کا موقف رکھتے ہیں ہماری توحید

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۝قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۝ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۝ لَمْ یَلِدْ ڏ وَلَمْ یُوْلَدْ ۝ وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ   ۝

ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے۔ اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے ۔نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔

اہل السنۃ کی توحید فلاسفہ، جہمیہ، معتزلہ کی طرح الفاظ کا ہیر پھیر نہیں ہے۔

اہل السنۃ والجماعۃ عقیدہ توحید میں تشبیہ نہیںبلکہ تسلیم کے قائل ہیں۔ کیونکہ سلف صالحین نے صراحت کے ساتھ فرمایا:

لا تثبت قدم الاسلام الا علی فطرۃ التسلیم

کہ اسلام کے قدم تسلیم و رضا پر ہی ثابت رہتے ہیں۔ اسی طرح شرح السنۃ میں :

لا یکون العبد مومنا حتی یکون مصدقا و مسلما

کہ بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تصدیق کرنے والا اور سر تسلیم خم کرنے والا نہ ہو۔ توحید اسماء و صفات کے اثبات میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التوحید میں جہمیہ معتزلہ، مشبہہ اور اپنے زمانے کے دیگر گمراہ کن فتنوں کا علمی رد کیا ہے۔ یاد رکھئے کہ جہم کا سلسلہ نسب لبید بن عاصم یہودی سے ملتا ہے۔

وزن اعمال:

قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا، رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے ہمیںکچھ ایسے اعمال کا علم ہوتا ہےجو کہ روزِ قیامت ترازو میں وزنی ہونگے۔ جیسا حدیث بطاقہ، جس میں کلمہ توحید کو ایک ترازو کے پلڑے میں جبکہ آسمان و زمین کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر وزن کے متعلق ذکر ہے۔ اور ایک فرمان میں آپ ﷺ نے حسن خلق کو میزان کی سب سے وزنی چیز قرار دیا ہے۔ ایک اور فرمان میں آپ ﷺ نے پانچ چیزوں کو میزان میں سب سے زیادہ وزنی قرار دیا ہے1 لا الہ الا اللہ2 اللہ اکبر3سبحان اللہ4 الحمد للہ5نیک اولاد جس کی وفات پر اس کے والدین صبر کریں۔

ایک اور مقام پر ابو ذر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے آپ ﷺ نے فرمایا کہ خاموشی اور حسن اخلاق کو بھی میزان میں وزنی اعمال قرار دیا ہے۔

ایک بار صحابہ کرام نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی دبلی پنڈلیوں کے متعلق اظہارِ خیال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی یہ دونوں پنڈلیاں میزان میں اُحد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں۔

اتباعِ رسول ﷺ کی وجہ سے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا تھا کہ ان کی پنڈلیوں کو احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی قرار دیا۔

فضیلت تسبیح:

صحیح بخاری کی آخری حدیث مبارکہ میں سبحان اللہ کا ذکر بھی ہے دیگر احادیث میں بھی تسبیح کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

1 تسبیح ہر چیز کی نماز ہے، اور اسی وردِ مبارکہ کی بدولت مخلوقات کو رزق ملتا ہے۔(مسند احمد)

2دن میں ایک سو بار سبحان اللہ و بحمدہ پڑھنے سے سمندر کی جھاگ کے برابر گناہ بھی ختم ہوجاتے ہیں۔(بخاری)

3رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میں سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَ کْبَرُ کہوں تو یہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ ( یعنی ساری کائنات )(مسلم)

ان احادیث کے علاوہ بھی انہوں نے بےشمار دلائل تسبیح کی فضیلت میں بیان دیئے۔

فضیلۃ الشیخ علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کا ایمان افروز خطاب قبل نمازِ مغرب تک جاری رہا، انہوں نے آخر میں انتظامیہ جامعہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ جامعہ نے انہیں طلبہ کرام کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے ساتھ ہی پہلی نشست کا خاتمہ ہوا۔

دوسری نشست:

اس فقید المثال پروگرام کی دوسری نشست کا آغاز نمازِ مغرب کے فوراً بعدہوا۔ نقیب محفل فضیلۃ الشیخ محمد یعقوب طاہر صاحب نے اپنے مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ سامعین کی علمی پیاس کو سیراب کیا۔ تلاوت کلام حمید کی سعادت ابوبکر عاصم نے حاصل کی، جبکہ جامعہ کے ہونہار طالب علم قاری اظہر الدین نے سوز وگداز سے مربوط آواز میں شانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موضوع پر نظم پیش کی۔

’’رسول اکرم ﷺ بحیثیت ایک مثالی انسان‘‘ کے موضوع پر جامعہ کے طالب علم عبد الرحمن خالد نے انگلش میں خطاب کیا، جبکہ جامعہ کے ابھرتے ہوئے خطیب محمد اشرف متعلم جامعہ ہٰذا نے عربی زبان میں ارضِ توحید شام میں اہل توحید پر جاری ظلم و تشدد پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے ملک شام کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول عربیﷺ نے اپنی متعدد احادیث میں اہل شام کو خوش خبریوں سے نوازا ہے اور اہل ایمان کو مشکل وقت میں اہل شام کی مدد و نصرت کی تلقین بھی فرمائی ہے۔ آج ارض توحید پر ظلم کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اہل توحید کو بری طرح ظلم کی چکی میں پسا جارہا ہے۔ خونچکاں تشدد سے روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ عورتوں کی عصمتیں تار تار اور نوجوانوں کی لاشے گھسیٹے جارہے ہیں، سفید داڑھیاں نوچی جارہی ہیں اور ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ انہوں نے اہل اسلام کو شامی بھائیوں کی مدد و نصرت کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا کہ اہل اسلام کو ان مظلوموں کی پشت پناہی، خیر خواہی اور مدد و نصرت کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے امسال فارغ ہونے والے طلباء احساسات و جذبات کے اظہار کے لئے محمد قاسم اوغنڈی کو دعوت سخن دی گئی، انہوں نے اپنے طلباء ساتھیوں کی طرف سے اساتذہ جامعہ، انتظامیہ جامعہ اور محسنین جامعہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہماری علمی پیاس بجھانے کے لئے تمام تر سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی، میں اپنی غلطیوں کا معترف ہوں اور آپ لوگوںسے معافی کا خواستگار بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں بھی ایسے ہی جمع فرمائے۔ آمین۔

کلمۃ الطالب کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے وکیل محترم الشیخ ضیاء الرحمن المدنی بن پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ نے کلمہ استقبالیہ میں معزز مہمانان گرامی قدر، قابل قدر علمائے کرام اور حاضرین مجلس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا انہوں نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں جاری دعوتی، علمی اور اصلاحی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا۔ اسی طرح جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی ذیلی شاخیں مثلا جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات ماڈل کالونی، حرمین کمپلیکس سپر ہائی وے، ابوبکر اکیڈمی نیو کراچی، میں جاری دعوتی پروگرامز کا تفصیلی تذکرہ کیا۔ انہوںنے اہل خیر سے اپیل کی کہ نیکی کے ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اس میں تسلسل قائم رکھنا کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں اس میں اہل ثروت احباب سے ملتمس ہوں کہ وہ اس علمی امانت کی ترقی و ترویج کے لئے ہمارے شانہ بشانہ چلیں آخر میں انہوں ننے ایک بار پھر معززین کی تشریف آوری پر شکریہ ادا کیا۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے تعلیمی سیشن کے خاتمہ پر منعقد ہونے والے امتحانات کا رزلٹ فضیلۃ الشیخ افتخار احمد شاہد حفظہ اللہ مدیر الامتحانات نے پیش کیا۔

نصابی اور اہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبائے کرام کو بیش قیمت انعامات سے نوازا گیا، محترم ڈاکٹر محمدراشد رندھاوا صاحب حفظہ اللہ، الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ، ڈاکٹرعبد الحئی المدنی حفظہ اللہ، فضیلۃالشیخ محمد افضل اثری حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عطاء الرحمن حفظہ اللہ نے اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم کئے۔

آخر میں صدارتی کلمات کے لئے حضرت الامیر محترم جناب ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب حفظہ اللہ مدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ و امیر جماعت مجاہدین پاکستان کو دعوت دی گئی انہوں نے اس شاندار پروگرام کی ترتیب پر اساتذہ و طلباء جامعہ کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے حاضرین مجلس کو بالعموم اور طالب علوم نبوت کو بالخصوص قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کا معتمدبہ حصہ زبانی حفظ کرنے کی نصیحت کی، انہوں نے فرمایا کہ جماعت مجاہدین کے سرخیل سید شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ پانچ برس کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے18 سال کی عمر میں رائج الوقت کتابوں کا گہرا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ 30 ہزار احادیث رسول حفظ کرلی تھیں۔ ہماری دعوت کی اساس کتاب و سنت ہے اس لئے دعوت پیش کرتے وقت آپ کے پاس کتاب و سنت کے نصوص کی کافی تعداد ہونی چاہئے تاکہ آپ کی دعوت بار آور ہوسکے۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ آئندہ تعلیمی سال سے اس منصوبے پر کام شروع کر رہا ہے مستقبل میں ہمارا ہر فارغ التحصیل طالب علم حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ احادیث و احکام کا حافظ بھی ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

ڈاکٹر صاحب کے صدارتی کلمات کے ساتھ ہی یہ روح پرور تقریب اختتام پذیر ہوئی، نمازِ عشاء کے بعد حاضرین مجلس کے لئے پر تکلف عشائیے کا اہتمام بھی تھا، یوں حاضرین مجلس لذت کام و دھن سے سرشار ہوکر اس تقریب کی خوش گوار یادیں سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کوروانہ ہوئے۔

نوٹ:

جامعہ کی سالانہ تقریب کے موقع پر مجلہ اسوہ حسنہ کا خصوصی شمارہ بنام موسس الجامعہ نمبر شائع ہوا ، حاضرین محفل، علمائے کرام ، طلبا نے اس شمارہ کی مندرجات کا مطالعہ فرمایا اور علمائے کرام نے اس خصوصی اشاعت کو اہم سنگ میل قرار دیا اور مجلہ کی ترقی کے لئے مزید دعاؤں سے نوازا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے