حمد و ثناء کے بعد

اللہ کے بندو ! میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت و تاکید کرتا ہو ں کیونکہ یہی سب سے زیادہ نفع بخش سودا ہے اور اعمال خیر و اطاعت پر قیامت تک قائم رہیں ۔ ارشاد الہی ہے :

[ اے ایمان والو ! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا کہ اس کے تقوی و ڈر کا حق ہے اور تمہیں موت ہرگز نہ آئے سوائے اس کے کہ تم مسلمان ہی ہو ]۔ ( آل عمران : 102)

وقت کی پرواز :

مسلمانو ! وہ محکم امور اور مسلّم معاملات و قضایا جن پر کسی قسم کے دلائل و بینات ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ان میں سے ہی یہ بھی ہے کہ وقت بڑی تیزی سے گزرتا جا رہا ہے ، گزرا مہینہ اور گیا دن لوٹ کر نہیں آتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ و وقت ہمارے اعمال کے لئے ایک ظرف ہے اور ہماری عمروں کا ایک حصہ ہے۔

دو مثالیں :

جس نے جلیل القدر اعمال اور اطاعت کی اور نیکیوں کے ساتھ ساتھ قرب الہی کے بیج بو لئے اس کے لئے اس کی یہ دنیوی زندگی ایک ایسے باغیچے کی طرح ہو جاتی ہے جس میں رنگا رنگ کے پھول مہک رہے ہو تے ہیں اور وہ اپنی اخروی زندگی میں بھی خوشیاں اور مسرتیں ہی پائے گا۔ اور جس نے معاصی و گناہ کی پونچی جمع کی اس کے لئے یہ دنیا ایک بیاباں صحراء کی طرح ہو جاتی ہے۔ ایسے شخص کے پاس نبوت و ہدایت آئی مگر اس نے اس باران رحمت سے کوئی نفع و سعادت حاصل نہ کی اور آخرت کی زندگی میں بھی فلاح و بلندی حاصل نہ کر پائے گا۔

مسلمانو ! بلاشبہ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جو اطاعت گزار، ثابت قدم اور جد و جہد کرنے میں پوری طرح سنجیدہ ہیں اور رضائے الہی کے حصول کے خواہاں ہیں اور ہدایت و استقامت انکا مطمع نظر ہے اور وہ ہر حال میں اور ہر وقت یاد الہی میں مصروف اور اپنی کمیوں کوتاہیوں پر نادم و غمناک رہتے ہیں ۔ وہ اپنے رب کے ساتھ کئے ہو ئے عہد و پیمان کو نہیں توڑتے اور جن امور کا فیصلہ کر لیں ان سے پیچھے نہیں ہٹتے اور یہی مثال ان لوگوں کی بھی ہے جو رمضان کے گنتی کے دن چند دنوں میں تو اللہ کا قرب حاصل کرنے میں کوشاں ہیں لیکن جیسے ہی یہ ماہ گزر جائے ان کے عزائم کمزور پڑ جاتے ہیں ، ان کی حب اطاعت دم توڑ دیتی ہے اور وہ اہل غفلت و ضیاع کے زمرے میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ اللہ کی پناہ۔

رمضان رفتہ :

برادران اسلام ! ہم چند لمحات کے لئے ایک پند و نصیحت کرنے والے کے روپ میں آپ کے ساتھ ہیں اور یہ اس ماہ سے متعلقہ گفتگو ہے جس سے کبھی بھی دل نہیں بھرتا اور نہ ہی وہ باتیں پرانی لگتی ہیں ۔ وہ ماہ رمضان المبارک ہے جس کا سورج ڈوب گیا ہے اور اس کے ستارے غائب ہو گئے ہیں ۔ اس ماہ کے شب و روز میں اعمال صالحہ اور نیکیوں کا خوب چرچا رہا ہے روزے ، قیام ، تلاوت قرآن ، نیکی و احسان اور صدقات و خیرات سبھی کچھ ہو ا۔ کل تک ہم اس ماہ کی ملاقات کے مشتاق تھے اور اس کی آمد کی خوشیوں اور رونقوں کے منتظر تھے اور پھر ہماری تمنا تھی کہ یہ مہینہ کچھ اور لمبا ہو جائے لیکن وہ یوں گزر گیا جیسے کہ خواب و خیال کی کوئی حکایت ہو۔

اے اللہ ! ہم نے اس ماہ میں جو بھی اعمال صالحہ سر انجام دیئے ہیں انھیں قبول فرما لے ہماری لرزشوں اور گناھوں کو ہم سے مٹا دے اور اے اللہ ہمارے عیوب و نقائص اور کمی و کوتاہی کو اپنے فضل و کرم سے بخش دے۔ اے حلم و بردباری والے ، اے صاحب کرم !

برادران عقیدہ ! خوشی و مسرت کے ان ایام میں آپ لوگ اللہ کی حلال و مباح کردہ طیب و پاکیزہ چیزوں کے پھل توڑ رہے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ لوگ پچھلے دنوں ایک جلیل القدر اسلامی شعار اور اس دین اسلام کے ایک اہم رکن کی ادائیگی میں مصروف تھے۔

بعض غلط مفاہیم کی تصحیح :

پیارے دینی بھائیو ! اس وقت ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بہت سارے لوگوں کے ماہ رمضان میں اپنے رب کے ساتھ تعلق اور رمضان کے بعد والی بے رخی و لاتعلقی والے رویہ کی اصلاح کے لئے چارہ سازی کریں ۔ اور ان بکثرت مفاہیم کی بھی تصحیح کریں جو کہ خیر و بھلائی اور قرب الہی کے زمانے سے فائدہ اٹھانے کے سلسلہ میں ہیں مگر وہ صحیح و سیدھے منہج سے ہٹ چکے ہیں ۔

ماہ رمضان کی روح ، اس کے آثار اور اصل نشانات جیسے صبر ، جد و جہد ، رحم و کرم ، پیار و محبت اور صلہ و تعلق جیسے امور مسلسل جاری رہنے ضروری ہیں ۔ اسی طرح سلف امت کا حال بھی ہماری نظروں سے غائب نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ کیسے اپنا محاسبۂ نفس کیا کرتے تھے ؟ کس طرح وہ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتے تھے ؟ اور کس طرح وہ اپنے نفس پر قابو و فتح پا لیتے تھے ؟ یہ امور ہمارے سامنے دشمن پر فتح پانے کے کئی وسیع طریقے لاتے ہیں ۔ اسی طرح نیک راہوں میں بکثرت خرچ کرنے کا سلسلہ بھی ہمیشہ جاری رہنا چاہیئے اور اس خیراتی سلسلے کے آفاق کھولنا اور انھیں منظم کرنا چاہیئے نہ کہ اس سلسلہ کو ترک اور بند کرکے بیٹھ جانا چاہیئے۔ اس سے ہمارا تعلق اسی طرح ہو نا چاہیئے جس طرح کہ ہم دوسرے ثوابت و قواعد دین اور اس کے امتیازات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نت نئے پیش آمدہ احوال و ظروف سے اس شعبے کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیئے اور نہ ہی خیراتی اداروں پر دشمنوں کے شدید حملوں سے اور ان کے گندے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس کام کو چھوڑ بیٹھنا چاہیئے۔

عبادت و رجوع الی اللہ :

اسی طرح اس ماہ مبارک کا فراق ہمارے لئے عبادت و استقامت کی طرف سچی رغبت و رجوع کاذریعہ بن جانا چاہیئے اور اس سلسلہ میں ہمیں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قدوہء حسنہ اور اسوہء جمیلہ کو اپنے سامنے رکھنا چاہیئے۔ ماہ رمضان کی رخصتی کو اپنے نفوس کی چھپی طاقتوں کو بروئے کار لانے کے نقطۂ غفلت سے بیداری کا آغاز ، اتحاد و اتفاق اور دینی بیداری کا موڑ بنانا چاہیئے اچھی اقدار و عمدہ اخلاق کو اپنانے اور نوجوان نسل کی ہدایت و راہنمائی کا اہتمام کرنے کا موسم بنانا چاہیئے اور انھیں منحرف افکار اور تباہ کن نظریات سے بچانا چاہیئے خصوصا آجکل کے دور میں جبکہ حاسدین دین ہمارے امن و امان کو تہہ و بالا کرنے کے درپے ہیں اور ہمارے دروازے بجا رہے ہیں ۔

رمضان و غیر رمضان :

برادران ایمان ! لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا نظریہ یہ ہے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ماہ رمضان عبادت کرنے اور گناہوں کو چھوڑنے کا مہینہ ہے اور جب ماہ رمضان گزر جائے تو وہ گناہوں اور شہوت رانی و خواہشات پرستی میں یوں اوندھے جا گرتے ہیں جس طرح کہ اعشی شراب کے نشے میں دھت رہا کرتا تھا۔ یہ بات عقل کے لئے باعث حیرت و دہشت ہے اور یہ چیز دینی کمزوری و ضعف ایمان کا پتہ دیتی ہے ، ورنہ کونسی کتاب اور کونسی سنت یہ کہتی ہے کہ ماہ رمضان میں تو ایک مسلمان دین سے بڑا تمسک و تعلق رکھے اور شوال شروع ہو تے ہی اس دین کی ہتک عزت اور اس کی حرمت و تقدس کی پامالی کرنے لگے۔ کیا تمام مہینوں کا رب ایک ہی نہیں ہے ؟ اور کیا وہ اعمال و افعال کو دیکھنے والا واقف حال نہیں ہے ؟ اور ہم میں سے کون شخص ہے جو اس بات کی گارنٹی دے کہ اللہ اس کے اس حال سے راضی ہے اور اس کے ماہ رمضان میں کئے اعمال اس نے قبول کر لئے ہیں ۔سلف صالحین امت تو عمل کی بجائے قبولیت عمل کا اہتمام زیادہ کیا کرتے تھے اور اللہ عز و جل کا ارشاد ہے: [ اللہ تعالی اہل تقوی سے ہی قبول کرتا ہے ]۔ (المائدہ : 27)

تعجب ہے :

اللہ والو ! تعجب ہے کہ خشوع و خضوع کرنے والے دل کہاں گئے جو گڑگڑاتے اور گریہ زاری کرتے ہو ئے دعائیں کریں ۔ لذت مناجات کیا ہو ئی ؟ یقین کی ٹھنڈک کو کیا ہو ا جو دلوں کو آباد کرتی ، انھیں جلا بخشتی اور ان پر چھا جاتی ہے ؟ کیا دل آیات بینات اور قرآن کریم کے نصیحت بخش تازیانوں سے بیدار و طاقتور نہیں ہو ئے ؟ ارشاد الہی ہے :

[ اور اگر یہ اس نصیحت پر کار بند ہو تے جو انھیں کی جاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر اور ( دین میں ) زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہو تا ]۔ ( النساء : 66)

اگر یہ لوگ اللہ کی طرف توبہ تائب نہ ہو ں اور اسی عمل پر کاربند نہ رہیں جس پر وہ ماہ رمضان میں تھے تو ان لوگوں نے بہت ہی سستے داموں بلکہ بہت ہی بری قیمت پر یہ سودا کیا اور بہت ہی برے ہیں وہ لوگ جو اللہ کو صرف ماہ رمضان میں ہی پہنچاتے ہیں اور ایسے لوگوں کے حال کی قباحت و شناعت کو بیان کرتے ہو ئے قرآن کریم نے فرمایا ہے :

[اور اس عورت کی طرح نہ ہو جانا جس نے محبت سے سوت کاتا ، پھر اسے توڑکر ٹکڑے ٹکڑے ڈالا] ۔ ( النحل : 92)

ایمان کے سائے میں :

یہ کس قدر مصیبت و حرمان نصیبی ہے کہ لوگ رشد و ہدایت پا جانے کے بعد پھر ضلالت و گمراہی کی وادیوں میں جا نکلتے ہیں ۔ وہ مومن جو نجات کا خواہاں ہے ، اپنے رب سے ڈرنے والا اور اس کی ملاقات کے وقت جوابدہی سے گھبرانے والا ہے وہ اپنی ساری زندگی اپنی تمام حرکات و سکنات ایمان کے سائے میں سر انجام دیتا ہے ، وہ دائمی عبودیت و بندگی میں ہوتا ہے اوراپنے رب کے ساتھ مسلسل اچھے تعلقات استوار رکھتا ہے اور اللہ کی اطاعت و تقوی میں گہرے خلوص اور اپنے مولا کریم کے تقرب میں ہر دم کوشاں رہتا ہے ، وہ کسی وقت و موقع میں کوئی فرق نہیں کرتا اور وہ اللہ کے اس ارشاد کی تعمیل میں لگا رہتا ہے جس میں اس نے ارشاد فرمایا ہے :[اور اپنے رب کی عبادت موت آنے تک کرتے رہو ]۔ (الحجر : 99)

حرمان نصیب :

اے امت مسلمہ ! آپ لوگ خیر سے محروم اور اپنے مولا کی رضاء و خوشنودی سے بہت دور ایسے لوگوں کو بھی پائیں گے جو پورا مہینہ عبادت کے لئے سر نہیں اٹھاتے بلکہ کچھ تو عمر ہی اس طرح گزارتے بلکہ برباد کر دیتے ہیں لیکن ان میں ان مسلمانوں والے اثرات رونما نہیں ہو تے اور نہ ان میں ہدایت و مغفرت کی طرف بڑھنے والے مسلمانوں کا انداز اثر انداز ہو تا ہے اور وہ بھی اس موسم میں جس کی کوئی مثال دی ہی نہیں جا سکتی اور نہ ہی اس کا کوئی عوض ہو سکتا ہے بلکہ ان کے دل اوندھے منہ پڑے برتن کی طرح ہو جاتے ہیں ۔ نہ وہ کسی نیکی میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور نہ ہی کسی برائی سے ہاتھ روکتےہیں اور نہ برائی کی راہ سے روکتے ہیں بلکہ اپنی خواہشات کی غلامی کئے جاتے ہیں ۔ ماہ رمضان المبارک گزر گیا اور وہ غفلت کی وادیوں میں بھٹکے پھر رہے ہیں ۔ عید سعید آ گئی اور وہ اسی غفلت میں پڑے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

[ اور اگر یہ رشد و ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اسے اپنا راستہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے اپنالیں ]۔ (الاعراف : 146)

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

گناہگار جب دیکھتا ہے کہ اس کا جسم صحیح و سالم ہے اور اس کا مال بھی محفوظ ہے تو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اسے کوئی سزا نہیں ملی لیکن اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ جو سزا دیا گیا ہے اس کی اس سے غفلت ہی اس کی اصل سزا ہے ۔

پرزور اپیل :

ایسے تمام لوگوں کی خدمت میں پر زور اپیل ہے کہ وہ اللہ کے سامنے توبہ تائب ہو جائیں اور اس بے عملی و گناہ کی زندگی سے باز آ جائیں اور اللہ کی جناب میں کی گئی کوتاہیوں پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کریں ۔ توبہ کی راہ میں کوئی دروازہ ایسا نہیں جو کہ بند ہو اور نہ ہی کوئی عمل اسے روک سکتا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :

[ اور جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور پھر سیدھے راستے پر چلے ، اسے میں بخش دینے والا ہوں ]۔ (طہ : 82)

اہل ایمان و تقوی :

اے امت اسلامیہ ! ان غلط فہمی میں مبتلا اور غلط مفاہیم کو اپنائے ہو ئے لوگوں اور غفلت و لاپرواہی میں مبتلا اشخاص کے مقابلے میں دوسری طرف ان اہل تقوی و ایمان لوگوں کے قافلوں کے انوار سے آفاق بھرے ہو ئے ہو تے ہیں جن کے دلوں کو کتاب و سنت کے سر چشموں نے سیراب کر رکھا ہے ، اور انھیں عزم و امید سے مال مالا کر رکھا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ سے دائمی تعلق استوار رکھتے ، غیب میں بھی اس سے ڈرنے اور اس کی اطاعت پر ثابت قدم رہنے کے علاوہ جنت میں بلند درجات حاصل کرنے کے لئے کچھ موسم طے ہیں اور ضروری ہے کہ ان موسموں میں ہمت و کوشش سے عمل کرنے کے لئے ان مواسم کو غنیمت سمجھا جائے تاکہ اللہ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کی امید لگائی جا سکے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد الہی ہے :

[ ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لئے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے ، جو وہ کرتے تھے ]۔ ( السجدہ : 16 ، 17)

افادات ابن قیم رحمہ اللہ:

ان لوگوں کے بارے میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے انتہائی بدیع کلام کیا اور لکھا ہے :

یہ وہ لوگ ہیں جو بکثرت عبادت الہی میں مشغول رہنے والے اور روح عبادت کا مزہ چھکنے والے ہیں جو اس کے ثواب کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ ان کے لئے علم ثواب بلند کیا جا چکا ہے اور یہی ان کے لئے اعمال صالحہ کا سبب ہے۔ انھوں نے عمل صالح کے لئے کمر باندھی آستینیں چڑھائیں اور یہ امیدیں قائم ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے ان کے اعمال صالحہ قبول کئے جائیں گے اور اس بات سے وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کے اعمال رد نہ کر دیئے جائیں ، یوں وہ عدم قبول کے خوف اور قبولیت کی امیدوں کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بکثرت عبادت و اطاعت کئے چلے جاتے ہیں ۔

موت کے آنے تک :

اللہ اکبر ! اللہ کے ساتھ تجارت کرنے کی حقیقی فقہ یہ ہے۔ اے اہل استقامت ! آپ کو مبارک ہو۔ اے توبہ و رجوع کرنے والو ! آپ کے لئے بھی خوشخبری ہے کہ آپ نے صبر و ہمت سے کام لیا ، دنوں کو روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا ، قرآن کریم کی تلاوت کی، اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا اور اس کا شکر ادا کیا۔اللہ آپ کا نگہبان ہو، اللہ کے لئے موت آنے تک مسلسل عبادت و اطاعت پر ثابت قدمی و استقلال پر قائم رہیں ۔

اعتدال پسندانہ و متوازن فکر و نظر :

اے امت خیر و استقامت ! امت مسلمہ مہینہ بھر قرآن کریم کے سرچشمہ سے فیض یاب ہو تی رہی اور اس کے واضح نور سے روشنی پاتی رہی اور اس کے بعد عید الفطر مبارک آ گئی اور یہ سب نعمتیں اس بات کا شدت سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنے اعمال کا بڑی سنجیدگی کے ساتھ محاسبہ کریں ، خصوصا جبکہ امت ضعف اور شکستوں کے جام پے در پے پیئے جا رہی ہے اور اس کے بکثرت ملکوں میں اتنے المناک واقعات و حوادث رونما ہو رہے ہیں کہ جن کے رنج و الم کی شدت سے امت کا چہرہ سیاہ پڑتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں امت مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے گہرا تمسک و تعلق جوڑ لے اس کے لئے عقلمندانہ فراخ دلی ، اعتدال پسندانہ و روشن فکر اور گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ صحیح و متوازن نظر کو بروئے کار لاتے ہو ئے مسائل کو حل کیا جائے اور نت نئے اور روز کے بدلتے حالات کا مقابلہ کیا جائے اور فکر و منہج کا سنجیدگی سے مراجعہ و پڑتال ہو اور مفادات کے حصول میں اور مفاسد کو دور کرنے والی کسی چیز میں کوئی مداہنت و کمزوری نہ دکھلائی جائے۔ اسی طرح دین کا علم بلند کرنے، اخلاق و اقدار کا تحفظ کرنے اور امن و استقرار کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے تاکہ امت کا سفینہ داغدار ہو نے اور ڈوبنے نہ پائے۔ بہلانے پھسلانے والی تمام چیزوں سے بالا رہیں ، نفسیاتی شکست کے تمام اسباب و عوامل کا خاتمہ کریں اور داخلی شکست و ریخت سے باہر نکل آئیں ۔

اسی طرح منحرف مذاہب و نظریات اور گمراہ کن افکار کی جڑیں کاٹ دیں جو کہ اصول دین کے منافی ہیں ، کیونکہ ہمارے دین کے اصول تو جان و مال کے محافظ ہیں اور ان میں مسلمانوں اہل معاھدہ ذمی غیر مسلموں اور معاھدہء امن پانے والے کافروں کے جان و مال کی حرمت بھی طے کی گئی ہے۔

جماعت و امام کے ساتھ :

خبردار ہو جاؤ ! سب کے سب مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امام کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ اور یہی آپ کے لئے بہتر اور ذریعۂ نجات ہے۔ اہل غیرت احتیاطی تدابیر ، اصل اسباب و محرکات کی تشخیص اور نفع بخش علاجات کی تجویز بڑے کامیاب و عمدہ اسلوبوں سے پیش کر رہے ہیں جنہیں اپنانا ہی باعث سلامتی ، زیادہ بہتر اور مضبوط عمل ہے اور اللہ کی قسم اسی میں ملکوں اور بندوں کی اصلاح و بہتری ہے ، اللہ تعالی اپنے معاشروں ، ملکوں ، امت اور دین کے لئے پورے خلوص سے کام کرنے والے لوگوں کی مدد فرمائے وہ ایسی بہترین ذات ہے جس سے سوال کیا جائے اور وہی ایسی صاحب جود و کرم ذات ہے جس سے امیدیں وابستہ کی جائیں ۔

اللہ کے بندو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو ، اس ماہ رمضان اور عید سعید پر اپنے رب کا شکر اور اس کی حمد و ثناء خوانی کرو ہم اور آپ لوگ اللہ کے فضل و کرم سے اتنی نعمتوں سے مالا مال ہیں کہ ہمارے ظاہری و باطنی اعضاء ان کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔

مواسم بلندیٔ درجات اور شوال کے چھے روزے:

اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو توفیق خیر سے نوازے ! اس بات کو ذہن میں رکھیں اللہ تعالی نے آپ کے درجات بلند کرنے ، نیکیوں میں اضافہ کرنے ، گناہوں کو مٹانے اور تطہیر ارواح و تہذیب نفوس کے لئے کچھ موسم و سیزن بنا رکھے ہیں ۔ آپ کے اس ماہ شوال میں اسی سلسلہ میں چھ روزے مشروع فرمائے ہیں ۔ جن کا پے در پے رکھنا بھی ضروری نہیں ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے پھر ماہ شوال کے بھی چھ روزے رکھ لئے ، وہ گویا کہ سدا کا روزے دار ہے۔ ( مسلم)

سبحان اللہ ! یہ رب رحیم و مولائے کریم کی طرف سے کتنا بڑا فضل و کرم اور اجر عظیم ہے۔اللہ آپ سب کا نگہبان ہو۔ اپنے آپ کو اس موجودہ بے عملی کی حالت سے آزاد کروالو اور ہدایت و عاجزی کے درپیش آجانے سے پہلے پہلے اعمال صالحہ کر لو۔ ارشاد الہی ہے :

[ اور اپنے رب کی مغفرت و بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کا عرض (چوڑائی ) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ، جو کہ اہل تقوی ( اللہ سے ڈرنے والوں ) کے لئے بنائی گئی ہے]۔( آل عمران : 133)

اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ اللہ تعالی کا کلام وہ عظیم کلام ہے جو دل تک پہنچتا اور اسے خشوع و خضوع کرنے پر لگا دیتا ہے اور مؤمن اسی کلام سے عزت پاتا اور اللہ کے سامنے انکساری کرتا ہے اور جب یہ کلام کسی کے نفس میں قرار پا جائے تو اسے ہدایت و نفع ہو تا ہے۔

و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین و الحمد للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے