۱۹۸۶ میں مولانا حکیم ثناء اللہ ثاقب صاحب محمدی مسجد اہل حدیث نثار کالونی فیصل آباد میں خطیب مقرر ہوئے۔ تھوڑے دنوں بعد انہوں نے نماز فجر کے بعد درسِ قرآن اور نماز عشاء کے بعد صحیح بخاری شریف کا ترتیب سے درس ارشاد فرمانا شروع کیا۔ میں ان کے حلقۂ درس میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا ، پھر مجھے دینی مسائل سے واقفیت کی جستجو اور کتابیں پڑھنے کا بھی جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس لحاظ سے جلد ہی حکیم ثناء اللہ صاحب نے میرے ساتھ دوستانہ مراسم قائم ہوگئے۔ محمدی مسجد کے قریب ہی حکیم صاحب مطب کرتے تھے ، میں فارغ اوقات میں اکثر ان کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر اپنی علمی تشنگی کا سامان کرتا۔ حکیم صاحب کو بھی میرے شوق کا علم تھا وہ بڑی شفقت فرماتے اور دینی مسائل میں میری راہنمائی فرماتے۔ ان کے مطب پر مریض بھی آتے تھے اور صاحب علم لوگ بھی۔ وہاں بڑی دلچسپ علمی مجالس ہوتیں مولانا حکیم ثناء اللہ صاحب کے مطب پر ہی میں نے ۱۹۸۷ء میں پہلی بار مولانا عبدالحفیظ خاں نیازی رحمہ اللہ کو دیکھا۔ روشن چہرہ ، نکھرا ہوا گندمی رنگ ، چمکتی آنکھیں ، کھلی پیشانی، ابھری ہوئی تیکھی ناک، گھنی داڑھی ، کتری ہوئی مونچھیں ، سر پر بڑا سا رومال ، شلوار اور قمیص زیب تن ، پاؤں میں بند جوتا۔ سر سے پاؤں تک سلفیت کا رنگ غالب ، سادی وضع اس پر علمی وقار۔ ان سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ یہ محترم ہمارے خطیب مولانا ثناء اللہ ثاقب صاحب کے استاد گرامی ہیں ۔ اوڈانوالہ ماموں کانجن میں حضرت صوفی عبد اللہ مرحوم کے دار العلوم تقویۃ الاسلام میں مدرس ہیں اور وہیں قیام پذیر ہیں ۔ اس ملاقات کے بعد بھی ان سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہی۔ وہ نہایت تقویٰ شعار اور نیک سیرت عالم دین تھے۔ خوش اخلاق اور خوش اطوار تھے ، بڑی متانت اور سنجیدگی سے گفتگو فرماتے۔ ۱۹۸۸ء کے مارچ میں میں فیصل آباد کے امین پور بازار میں ایک دینی کتب خانہ میں ملازم ہوا تو ان سے اور گہرے مراسم ہوگئے۔ وہ مدرسے کے طلبہ کے لیے کتب خریدنے آتے تو راقم کو خدمت کا موقع دیتے۔ میں بھی ان کا از حد احترام کرتا تھا۔ ۵ فروری ۲۰۰۲ء کو میں حضرت صوفی صاحب کا دار العلوم دیکھنے گیا تو جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن دیکھنے کے بعد اودا ں والا پہنچا۔ دار العلوم تقویۃ الاسلام کے تمام اساتذہ کی خدمت میں سلام عرض کیا اور مولانا عبد الحفیظ صاحب رحمہ اللہ سے بھی ملا۔ وہ مجھے اچانک دیکھ کر بہت خوش ہوئے ان کی خوشی دیدنی تھی۔ افسوس کہ اب ایسے نیک سیرت علماء سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے اور یہ دور قحط الرجال کا دور ہے۔ ایسے میں کسی نیک سیرت عالم دین کا ملنا ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ مولانا عبد الحفیظ نیازی رحمہ اللہ کی زندگی درس وتدریس سے عبارت ہے۔ انہوں نے تمام عمر یہ خدمات خوش اسلوبی سے سرانجام دی اور نیک نام ہوئے۔ اب آئیے ان کے ابتدائی حالات کی طرف یہ وہ معلومات ہیں جو مجھے میرے بزرگ دوست مولانا عبد المجید فردوسی صاحب مدرس دار العلوم تقویۃ الاسلام اوڈاں والا ماموں کانجن سے حاصل ہوئی ہیں ۔ اس کرم فرمائی پر میں فردوس صاحب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ مولانا عبد الحفیظ نیازی رحمہ اللہ ۲۲ مارچ ۱۹۴۱ کو میانوالی کے محلہ یاروخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام عطاءاللہ خاں تھا وہ محکمہ مال میں ناظرتھے ، ان کی وفات ۳۰ مئی ۱۹۷۶ کو ہوئی۔ مولانا رحمہ اللہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ انہوں نے ناظرہ قرآن مجید گھر میں ہی ایک خاتون سے پڑھا۔ پرائمری تک اسکول کی تعلیم حاصل کی اور پھر پرائیویٹ طور پر مڈل کا امتحان پاس کیا۔

جوانی کی منزل کو پہنچے تو فکر معاش دامن گیر ہوا۔ اس کے حصول کے لیے ضلع بھکر کا قصد کیا۔ ان دنوں وہاں مولوی محمد یوسف اور صوفی سلیم اللہ صاحب کی کپڑوں کی سلائی کی دکان تھی۔ یہ دونوں حضرات قولاً اور عملاً مسلک اہلحدیث کے حامل تھے۔ جبکہ مولانا نیازی رحمہ اللہ خاندانی اعتبار سے حنفی بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مولوی محمد یوسف کو تو میں نہیں جانتا البتہ صوفی سلیم اللہ صاحب سے میرے اچھے دوستانہ مراسم قائم ہیں ۔ آج سے کئی سال پہلے وہ ڈی ٹائپ کالونی فیصل آباد میں رہتے تھے اور ان سے اکثر ملاقات ہوجاتی تھی۔ مسلک اہل حدیث کے وہ بہت بڑے مبلغ تھے انہوں نے اپنی تبلیغی مساعی سے کئی حنفی حضرات اور گھرانوں کو اہل حدیث کیا۔ نوجوانوں کو وہ اچھے طریقے سے کتاب وسنت کی طرف گائیڈ کیا کرتے تھے۔ اب وہ کئی سال سے منڈی مرید کے کے نواح میں رہ رہے ہیں ۔ انہوں نے مولانا عبدالحفیظ صاحب کو بھکر میں اپنی دکان میں رکھ کر کپڑوں کی سلائی کاکام بھی سکھایا اور مسلک اہل حدیث سے متعلق ان کی راہنمائی بھی فرمائی۔ ان دونوں بزرگوں مولوی محمد یوسف اور صوفی سلیم اللہ کی ہم نشینی اور محبت کے اچھے اثرات ظاہرہوئے اور مولانا عبد الحفیظ صاحب رحمہ اللہ اپنے آبائی مسلک حنفیت کو خیر باد کہہ کر اہلحدیث مسلک پر کاربند ہوگئے۔ اب ان کے دل میں دینی تعلیم کا جذبہ ابھرا ، وہ شادا وفرحاں بھکر سے اپنے گھر میانوالی آئے اور اپنے والد صاحب سے اس سلسلے میں گفتگو فرمائی۔ ان کے والد بیٹےکی گفتگو سن کر کہنے لگے تم نے اگر اہل حدیث ہی رہنا ہے تو اپنی سلائی مشین اٹھاؤ اور چلے جاؤ‘‘۔ والد کے یہ الفاظ اور گھر والوں کی بے رخی مولانا کے لیے حوصلہ شکن تھی لیکن ابتلاء اور آزمائش کی اس گھڑی میں مولانا عبد الحفیظ رحمہ اللہ عزم وہمت سے ثابت قدم رہ کر اپنی منزل کی طرف چل نکلے۔ ان کے ارادے نیک اور عزم پختہ تھا ، اللہ رب العزت نے ہر موقع پر ان کی مدد فرمائی اور وہ اپنے نیک مقصد میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ بے سروسامانی کے حالات میں مولانا عبد الحفیظ نیازی فیصل آباد پہنچے۔ ان دنوں ان کے دونوں محسن مولوی یوسف اور صوفی سلیم اللہ صاحب بھی بھکر سے ترک سکونت کرکے فیصل آباد کے علاقے پیپلز کالونی میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ مولانا نیازی صاحب سے پہلے ان ہی سے ملے اور ان کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ ان بزرگوں نے انہیں حوصلہ دیا اور پھر ان کی کوششوں سے مولانا نیازی صاحب کو جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ مل گیا۔ یہ ۱۹۶۳ء کے لگ بھگ کی بات ہے اب وہ محنت سے پڑھنے لگے اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے فارغ اوقات میں کپڑے سلائی کرتے۔ جب سالانہ امتحان ہوئے تو وہ پہلی جماعت میں تمام طلبہ سے زیادہ نمبر لے کر اول آئے۔ اس پر مسرت موقع پر انہوں نے اپنے والد محترم کو اپنی تعلیمی کارگزاری اور خوشخبری کا خط لکھا اور آخر میں یہ شعر درج کیا۔

ہم دعا دیتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے

فقط ایک ہی نقطے نے محرم سے مجرم کردیا

اب آگے سنیے! مولانا نیازی صاحب کا خط جب ان کے والد کو ملا تو وہ اس خط کو لے کر اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے پیر نے وہ خط پڑھا تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اپنے بچے کو دینی تعلیم حاصل کرنے دو ، آگے چل کر یہ لڑکا علمی میدان میں بلند مقام حاصل کرے گا۔پیر کی یہ بات مولانا کے والد پر اثر انداز ہوئی اور انہوں نے اپنے لخت جگر کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان پر دست شفت رکھا۔ اب مولانا عبد الحفیظ نیازی جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں پڑھنے لگے تین سال وہاں تعلیم حاصل کی اور آخری دو سال دار العلوم تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ میں پڑھ کر ۱۹۶۹ء میں سند فراغت حاصل کی۔ اوڈاں والا میں ان کے اساتذہ کرام تھے مولانا محمد یعقوب ملہوی (وفات ۱۳ نومبر ۱۹۸۱) اور مولانا عبدالصمد رؤوف (وفات ۲۷ نومبر ۲۰۰۵) یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مولانا عبد الحفیظ صاحب دوران تعلیم جب بھی گھر جاتے تو وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو مسلک اہلحدیث کی تبلیغ ضرور کرتے۔ ان کی اس مساعی سے ان کے والد جوکہ پیر پرست اور حنفی تھے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکے اور وہ اپنے بیٹے کی دعوت وتبلیغ سے مسلک اہل حدیث کی طرف راغب ہوگئے۔ ہوا یوں کہ ایک بار مولانا مرحوم گھر گئے تو ان کے والد محترم نے ان سے ملاقات اپنے ایک قریبی رشتہ دار سے کرائی۔ وہ صاحب پکے حنفی تھے اور ان کے پاس اپنے مسلک کی کتابوں کا اچھا خاصہ ذخیرہ تھا۔ ان سے دوران گفتگو مولانا موصوف نے ان کی کتابوں سے حوالہ جات نکال کر دکھائے اور ان کو بتایا کہ فقہ حنفی کے مسائل قرآن وسنت سے متصادم ہیں ۔ اس گفتگو اور حوالہ جات کو دیکھ کر ان کے وہ عزیز لا جواب ہوگئے۔ باپ نے اپنے بیٹے کی گفتگو کو سنا تو وہ بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے نماز جمعہ اہل حدیث مسجد میں ادا کرنا شروع کردی۔

سند فراغت کے بعد مولانا عبد الحفیظ صاحب نے درس وتدریس کو اپنایا۔ فیصل آباد سے جھنگ کو جاتے ہوئے جھنگ روڈ پر ایک گاؤں گلالی پور ہے۔ اس گاؤں میں مولانا بارک اللہ صاحب رہائش پذیر تھے۔ وہ نہایت نیک ومتدین اور قرآن وحدیث پر عامل عالم دین تھے۔ ۳ جولائی ۲۰۰۶ء کو فوت ہوئے۔ وہ مولانا مرحوم کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنے گاؤں گلالی پور لے آئے اور انہیں گاؤں کی مسجد اہل حدیث میں بطور امام وخطیب مقرر کردیا۔ کچھ عرصہ آپ ساتھ کے گاؤں جھپال میں بھی رہے۔ اس طرح مجموعی طور پر آپ نے وہاں ۱۶ سال گزارے۔

اس دوران آپ سے گاؤں کے سینکڑوں بچوں نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور ترجمۃ القرآن پڑھا۔

۱۹۸۶ء میں مولانا مرحوم مستقل طور پر اوڈانوالہ چلے گئے اور ان کی خدمات دار العلوم تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ کے لیے حاصل کر لی گئیں ۔ اس کے بعد آپ دار العلوم کے ہی ہوکر رہ گئے اور ۱۹ سال آپ نے حضرت صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ کے اس قدیم مدرسہ میں مختلف کتب کا طلبہ کو درس دیا، اور سینکڑوں طلبہ کو اپنے علم سے مستفید فرمایا۔ اس کے علاوہ اوڈانوالہ میں چند سال تک نئی تعمیر ہونے والی مسجد میں امام بھی تھے۔ مولانا مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔

اساتذہ کرام اور بزرگوں کا احترام، طلبہ سے شفقت ، وقت کی پابندی، نظم وضبط کا احساس ، عاجزی ، انکساری ، سادگی اور خلوص آپ کے اوصافِ حمیدہ تھے۔ آپ میں تکبر، غرور اور خودنمائی نام کی کوئی چیز نہ تھی ، ہر ایک سے ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے۔ دوران تدریس کوئی اشکال سامنے آتا تو کتاب اٹھا کر دوسرے اساتذہ سے دریافت فرماتے کہ یہ مسئلہ کس طرح ہے اور اس عبارت کا صحیح حل اور مطلب کیا ہے۔

مولانا نہایت متین ومتدین تھے۔ طلبہ کی امانتیں نام بنام محفوظ رکھتے ، دینی وکاروباری معاملات میں دیانت اور راست گوئی ان کا وصف تھا۔ تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے قرآن مجید حفظ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ، نماز تہجد اور فارغ اوقات میں وہ بڑی محنت سے قرآن یاد کرتے۔ ۲۶ پارے قرآن مجید یاد کر چکے تھے کہ بیماری اس سعادت میں حائل ہوگئی۔ مولانا عبد الحفیظ صاحب رحمہ اللہ محنتی آدمی تھے انہوں نے مختلف ادوار میں کپڑوں کی سلائی اور گھڑی سازی کا کام سیکھا اور بایوکیمک علاج کا کورس پاس کرکے امریکن میڈیکل کالج لاہور سے سند حاصل کی۔ جماعت اسلامی کے رکن بنے پھر علیحدگی اختیار کر لی۔ بلا شبہ ان کی زندگی حرکت وعمل کا مجموعہ تھی۔ ان کی صحت بہت اچھی تھی چلتے پھرتے ہر کام مستعدی سے کرتے۔ کچھ عرصہ پہلے انہیں شوگر کا عارضہ لاحق ہوا ، پھر بواسیر، کالا یرقان، تبخیر معدہ اور کینسر جیسے موذی امراض نے حملہ کردیا۔مرحوم کم وبیش تین ماہ بستر علالت پر رہے۔ بیماری کے ان ایام میں وہ صبر واستقامت کا پیکر بن کر رہے آخر ۳۰ اور ۳۱ مارچ ۲۰۰۶ء کی درمیانی شب سوا بارہ بجے اس دنیا کو خیر باد کہہ کر فردوس کو روانہ ہوئے۔ اگلے روز ۳۱ مارچ کو نماز جمعہ کے بعد ان کی نمازہ جنازہ مولانا حافظ امین صاحب نے پڑھائی۔ اور اس نیک طینت عالمِ دین کو اوڈانوالہ میں دفن کردیاگیا۔ مولانا مرحوم کا حلقہ احباب وسیع تھا اسی باعث ان کی نماز جنازہ میں دور دراز سے احباب شریک ہوئے اور انہی خراج تحسین پیش کیا۔

مولانا مرحوم نے ۱۹۸۲ء میں اوڈانوالہ میں مولوی عبدالرب مجاہد کی بیٹی سے شادی کی۔ گھریلو حالات بہت اچھے گزرے۔ اللہ رب العزت نے انہیں ۵ بیٹیاں اور ایک بیٹا عبد الوحید عطا فرمایا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو جنت میں اونچا مقام ومرتبہ عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے