ظلم ، ناانصافی اور توہین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ اور یہی احتجاج شدت پکڑ لیتا ہے کہ جب اس کا تعلق گہرے قلبی اور روحانی تعلق سے ہو۔۔ حالیہ چند برسوں میں ڈنمارک کے اخبار میں نبی اکرم کے بارے میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہو یا فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر کارٹونز مقابلوں کا اعلان ، عراق اور گوانتاناموبے میں قرآن پاک کی بے حرمتی ہو یا امریکی ملعون پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک کو جلانے کا واقعہ ، نبی محترم کی ذات اقدس پر کوئی بھی حملہ ہو تو اس   کے خلاف مسلم امہ سراپہ احتجاج رہی ہے اور اب امریکہ کے ایک یہودی کی بنائی گئی توہین آمیز فلم کے انٹر نیٹ پر جاری ہونے پر ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس منعقد کیے جا رہے ہیں ۔ لیبیا میں امریکی سفیر کو مار دیا گیا ہے ، اردن ، مصر ، پاکستان اور دیگر ممالک میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے ہیں جن میں کئی افراد جان کی بازی ہار گئے ۔ مسلم ممالک میں امریکی فلم ڈائیریکٹر اور ملعون پادری ٹیری جونز کے خلاف کارروائی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ان واقعات پر ہر دل غمگین ہے جبکہ قرآن پاک اور صاحب قرآن سے محبت کرنیوالی ہر آنکھ فرط جذبات سے لبریز نظر آتی ہے ۔ جوشیلے مسلمانوں نے تو ان نازک اور حساس معاملات پر جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا ۔ کرہ ارض پر کتنے ہی عالم دین ریاستی جبر اور استعمار کے ہاتھوں جنت کی راہوں کے مسافر بن رہے ہیں۔مسلمانوں کا جذبہ ایمانی نعرہ بن کر عالم کفر کو للکار رہا ہے ۔ پورا عالم اسلام پوری قوت کے ساتھ اس توہین رسالت اور توہین قرآن کے خلاف جلسے اور جلوسوں کی صورت میں ابھی تک سراپہ احتجاج ہے۔

مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے، انہیں مایوسی کی دلدل میں دھکیلنے اور احساس کمتری میں مبتلا کر دینے کے لیے ہر دور میں کوششیں ہوتی رہی ہیں تاہم اسلام پسند قوتیں ہر دور میں ان سازشوں کا مقابلہ کرتی رہی ہیں ۔ عالمی مفادات کے تحت دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ تو پہلے سے ہی جاری تھا لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد شروع کی جانیوالی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اسلام کے خلاف حملوں کو مزید تیز کر دیا ہے ۔ صدر بش نے دو ہزار ایک میں افغانستان پر حملے کو کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کا نام دیا تھا اور آج یہ بات مزید واضح ہو چکی ہے کہ اس جنگ کا مقصد القاعدہ کو سزا دینے کی بجائے اسلامی نظریات کو مٹانا تھا۔ یہ جنگ اب مکمل طور پر مذہبی بن چکی ہے کیونکہ اس کے پیچھے ہرمجدون کا انتظار کرنیوالے انتہاپسند یہودی اور عیسائی قوتیں سرگرم ہیں ۔ مغربی قوتیں نہ صرف اربوں ڈالر کا اسلحہ و بارود استعمال کرکے لاکھوں مسلمانوں کا خون کر چکی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ثقافت ، دینی روایات ، محبت رسول ، قرآن سے تعلق غرض پوری معاشرت کو ہی تبدیل کر دینا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اسلام ، نبی اکرم اور قرآن پاک کے خلاف توہین آمیز اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔ مسلم ممالک کی ثقافت کو تبدیل کرنے کے لئے نام نہاد این جی اوز کو بھاری فنڈز فراہم کئے گئے ہیں جو کہ آزادی نسواں ، ہم جنس پرستوں کے حقوق ، آزادی اظہار رائے ، فن و ثقافت کے نام پر مغربی کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ دوسری جانب مغربی ممالک کی پریشانی یہ ہے کہ بھرپور کوشش کے باوجود مسلمانوں کو ان کے دین سے دور نہیں کیا جا سکا ۔ ان کے دل سے قرآن کا پیغام اور نبی محترم کی محبت نہیں نکالی جا سکی ۔مغرب کئی سو سال کی حاکمیت کے باجود اسلامی نظریے کو ختم نہیں کر سکا اور یہی وہ بنیادی وجہ کہ جس کے باعث آج مسلمان زیر عتاب ہیں اور نبی اکرم کی ذات اقدس اور ہدایت کی کتاب کی توہین کرکے مسلمانوں کو اخلاقی پستی کی طرف دھکیلنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔عالم کفر پریشان ہے کہ ان کی بھرپور کوششوں کے باوجود اسلام مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث اعلی تعلیم یافتہ افراد احیائے اسلام کی تحریکوں کو میسر آ چکے ہیں اور اسی طرح مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بہت سے طالب علم سیکولر معاشروں کی روایات کو اپنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی صلاحتیں احیائے اسلام کے لیے وقف کر رہے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ میں کئی مسلمان تنظیمیں انتہائی سرگرمی کے ساتھ اسلام کا پیغام عام کرنے میں مصروف ہیں ۔ مغربی ممالک اسلام پر دہشت گردی ، بنیاد پرستی اور دقیانوسیت کے جو الزامات لگاتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ تحقیق کرتا ہے تو وہ اسلام کی سچائی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں بہت سے نامور افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جو کہ مغربی ممالک کی مادرپدر آزادی اور عورت کو کھلونا سمجھنے کے تصور کی باغی بن کر اسلام کے نظام عفت و عصمت کو اپنانا چاہتی ہیں۔ برطانیہ، امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک میں اسلامی طرز حیات کو اپنانے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی نفرت نے بھی مسلمانوں کو اپنی شناخت کی طرف لوٹنے کا درس دیا ہے۔ گوانتاناموبے، ابوغریب اور دیگر امریکی جیلوں کی انسانیت سوز داستانوں اور دوسری جانب قرآن اور پیغبر اسلام حضرت محمد کی توہین کے واقعات نے مسلمانوں کے اندر اپنی دینی روایات سے متعلق تحقیق کرنے، سچ کی تلاش اور دنیا کو حقیقت سے آشکار کرنے کا جذبہ بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عالم کفر کے گھٹیا پروپیگنڈے کے باوجود اسلام اپنی انسانیت نواز خوبیوں کے باعث روز اوّل سے مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں ایک ارب ستر کروڑ کے لگ بھگ انسان حلقہ بگوش اسلام ہیں ۔سانحہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ میں قبول اسلام کی شرح فزوں تر ہے،بلکہ اسلام یورپی ممالک کا دوسرا سب سے زیادہ وسعت پذیر دین بن چکا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق نصف صدی کے عرصے میں عیسائیت کے تمام فرقوں اور مسلکوں میں 135 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اہل اسلام میں اضافہ ناقابل یقین حد تک 240 فیصد ہوا جس سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ امریکہ اور برطانیہ میں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا دین ہے۔ پیو ریلیجس سینٹر کے سروے کے مطابق دو ہزار تیس میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب بیس کروڑ ہو جائے گی ۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی شرح پیدائش 1.8 ہے جو کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ نوجوانوں کی عالمی تنظیم الشباب العالمی کی رپورٹ کے مطابق چالیس کروڑ سے زائد مسلمان مسلم ممالک سے باہر رہائش پزیر ہیں ۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کی طاقت کو تباہ کرنے کے لیے شروع کی تھی۔ جبکہ آج حقیقت یہ ہے کہ اسلام مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نائن الیون سے قبل امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ تھی جو کہ اب اٹھائیس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکیوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہےامریکہ میں قرآن پاک کا ترجمہ شائع کرنیوالے ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق نائن الیون کے واقعے کے بعد پہلے تین ماہ میں قرآن پاک کی فروخت میں پندرہ گنا اضافہ دیکھا گیا اور کئی ماہ تک قرآن پاک امریکہ میں بیسٹ سیلر کتاب رہی ۔۔ العربیہ چینل کی رپورٹ کے مطابق 2001 میں چونتیس ہزار امریکیوں نے اسلام قبول کیا ۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی مسلمانوں میں 25 فیصد تعداد ایسے افراد کی ہے کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے ۔ ہر سال پچاس ہزار امریکی مسلمان ہو جاتے ہیں جبکہ برطانیہ میں نو مسلموں کی شرح دس فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں 2001 میں مسلمانوں کی تعداد 16 لاکھ تھی جو کہ اب 28 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جوکہ 2030 تک ساٹھ لاکھ ہو جائے گی ۔ اسی طرح دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب یورپی ممالک میں موجود مسلمانوں میں مذہبی رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور یہ لوگ احیائے اسلام کی تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بوسینیا اور کوسوو کی آزادی کے بعد یورپ میں دو نئے اسلامی ممالک منظر عام پر آئے ہیں ۔   عرب ممالک اور یورپ میں اسلامی فلاحی تنظیموں کی سرگرمیوں سے بھی کافی مثبت اثرات دیکھے جا رہے ہیں گو کہ اقوام متحدہ دہشت گردوں کی معاونت کے نام پر کئی اسلامی فلاحی تنظیموں پر پابندی لگا چکی ہے تاہم اس کے باوجود عرب ممالک اور یورپ سے تعلق رکھنے والی بعض تنظیمیں فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلامی تنظیموں کی مثبت کارکردگی اسلام مخالف پروپیگنڈا کرنیوالوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ پاکستانی مدارس کو دنیا کی سب سے بڑی این جی او کہا جاتا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ بغیر کچھ خرچ کیے تعلیم اور رہائش کی سہولت حاصل کرتے ہیں۔ مدارس کا نظام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کامیابی سے چل رہا ہے جبکہ حالیہ دور میں بعض اسلامی مدارس نے طلبہ کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دینے کا بھی آغاز کیا ہے جبکہ ایسے نصاب تعلیم بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں کہ جن کے ذریعے عصری اور دینی علوم کا امتزاج پیش کیا جائے۔ انہی مدارس کے ذریعے تبلیغ اور مساجد کا نظام چلانے کے لیے علماء کی بڑی تعداد تیار ہوتی ہے جو کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ مغرب اور دوسری غیر اسلامی ممالک میں بھی خدمات سرانجام دیتی ہے۔

اسی طرح فلسطین میں حماس، مصر میں حکمران اخوان المسلمون اور النور پارٹی ، ترکی کی حکمران جسٹس اینڈ ڈویلمپنٹ پارٹی عوام میں فلاحی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہیں جبکہ سعودی عرب اور کویت کی تنظیموں کی جانب سے بھی افریقہ،یورپ اور ایشیاء میں بہت سے پراجیکٹس مکمل کیے گئے ہیں ۔ اسلامی فلاحی تنظیموں کی کارکردگی سے دنیا بھر میں اسلام کے بارے میں ایک مثبت تاثر پیدا کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ عرب ممالک میں حالیہ تبدیلی کی لہر کے بعد ہر جگہ اسلام پسند قوتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں ۔ دوسری جانب معیشت کے میدان میں اسلامی بنکاری کے کامیاب تجربے نے بھی مسلمانوں کو عالمی معیشت میں اصلاحات کا حوصلہ دیا ہے، اسلامی اصولوں کے تحت چلنے والے بنکاری نظام نے دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کو کھوکھلا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مالیاتی بحران کے باعث دنیا بھر کے ممالک شرح سود میں کمی کر رہے ہیں۔ جس کے باعث بلا سود بنکاری کے اسلامی تصور کو تقویت ملی ہے۔ امریکی بنکوں کے دیوالیہ ہونے اور ڈالر کے غیر مستحکم ہونے کے باعث عرب ممالک میں سرمایہ اسلامی بنکوں میں رکھنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انیس سو تریسٹھ میں مصر کے ایک قصبے مت غمر سے شروع ہونے والی اسلامی بنکاری آج عالمی سطح پر نمایاں مقام رکھتی ہے۔ دنیا کے ستائیس مسلمان جبکہ پندرہ غیر مسلم ممالک میں شرعی اصولوں پر بنکاری کا نظام موجود ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی مالیاتی اداروں کے پاس چودہ سو ارب ڈالر کے ا ثاثہ جات موجود ہیں جن میں بیس فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تیل کی دولت اور مغربی بنکوں میں سرمایہ محفوظ کرنے کے رحجان میں کمی نے اسلامی بنکاری کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ اسلامی سکالرز عالمی سطح پر برپا ہونیوالے مالیاتی بحران کی بڑی وجہ سود کے سہارے قائم عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیتے ہیں۔ اسلامی معاشی ماہرین مغربی ممالک میں شرح سود میں کمی کو بنیاد بنا کر بلاسود بنکاری کے قابل عمل ہونے کی دلیل دیتے ہیں۔ ۔ نفع و نقصان کی بنیاد پر کام کرنے والا اسلامی نظام معیشت دن بدن مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشی ماہرین اسلامی طرز معیشت کے فروغ سے پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ اسلام کے خلاف اقدامات اور توہین آمیز واقعات کی بڑی وجہ بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ اور اسلامی طرز معاشرت و معیشت کا فروغ ہے ۔

توہین آمیز واقعات کی وجوہات کو سمجھنے کے بعد اب ہم مغربی ممالک میں پیش آنیوالے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح بعض شرپسند عناصر ایک منصوبہ بندی کے تحت اسلام ، نبی اکرم اور قرآن پاک کی توہین کرکے دنیا بھر میں اسلام کے فروغ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ان واقعات کو ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان ان مزموم حرکتوں سے آگاہ رہیں اور ان شرپسند حلقوں کی پہچان ہو سکے کہ جو اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں ۔ جب ہم ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مغربی ممالک کے حکمرانوں سے لیکر مذہبی پیشواؤں تک ، عسکری حلقوں سے لیکر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں تک ، فنکاروں سے لیکر تدریس و ادب سے منسلک مصنفوں اور شعرا تک ہر ہر شعبے کے افراد میں اسلام کے خلاف بغض و عناد پایا جاتا ہے ۔ اسلام کی توہین کرنے والوں کو بھرپور تحفظ اور مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے ۔ نام نہاد آزادی اظہار کے نام پر ان کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ کچھ ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جسے شہرت کی خواہش ہوتی ہے یا پھر بہت ساری دولت اکھٹی کرنے کا شوق ہو تو وہ اسلام،نبی اکرم اور قرآن پاک کی توہین کرکے یہ مقاصد حاصل کر سکتا ہے ۔ حتی کہ مغربی دنیا تو مسلم ممالک میں اس قسم کی حرکتیں کرنیوالوں کو پناہ دینے میں بھی انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان گستاخوں کی حفاظت کی خاطر کروڑوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں ۔ سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین ، سمیت بے شمار گستاخان رسول مغربی ممالک میں میزبانی اور سرکاری پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام ، قرآن پاک اور نبی اکرم کی گستاخیوں کے واقعات تو ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن نائن الیون کے بعد ان میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ یہ مکمل منصوبہ بندی کے تحت رونما ہو رہے ہیں ۔ اس لئے ہم سب سے پہلے نائن الیون کے بعد پیش آنیوالے واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔امریکی چینل فاکس نیوز پر 18 ستمبر2002 کو ایک جنونی مذہبی رہنما جیری فال فویل نے اسلام کے بارے میں انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی۔ اس نے نبی اکرم کی ذات اقدس کے بارے میں بھی ہتک آمیز الفاظ استعمال کئے ۔ اس نے واضح الفاظ میں نبی اکرم کو نعوذ باللہ ’’ دہشت گرد‘‘ قرار دیا۔ جیری فال ویل کے الفاظ اس قدر شرمناک اور گھٹیا تھے کہ برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا ان کو توہین آمیز قرار دینے پر مجبور ہو گئے ۔

اسی دوران امریکی ریاست ہوسٹن میں بالغان کے لئے مخصوصی ایک سینما گھر میں نبی اکرم کی ازدواجی زندگی سے متعلق ایک توہین آمیز فلم کی نمائش کی ۔ اس فلم کی نمائش کا باقاعدہ طور پر اخبار ہیوسٹن پریس میں اشتہار بھی دیا گیا۔ اس موقع پر امریکی میں رہائش پذیر مسلمانوں نے بھرپور احتجاج کیا۔

2002جون میں ایران کے استاد نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا جس کو گرفتار کر لیا گیا اور نومبر کے مہینےمیں اسے سزائے موت دے دی گئی ۔

14 دسمبر 2002ء کو روزنامہ امت نے اپنی رپورٹ میں ایک پاکستانی تاجر کے حوالے سے بتایا کہ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو اور دیگر شہریوں میں ایسی شرٹس اور کپڑے فروخت کئے جا رہے ہیں جن پر قرآنی آیات ، رسول اکرم اور صحابہ کرام کے نام واضح طور پر پرنٹ تھے ۔

دسمبر 2002 میں نائیجیریا کے ایک اخبار دس ڈے نے مقابلہ حسن کے حوالے سے شائع ہونیوالے ایک مضمون میں نبی اکرم کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ اس مضمون کی اشاعت پر نائیجیریا میں فسادات پھوٹ پڑے اور پرتشدد مظاہروں میں دو سو سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے ۔

2004 میں ہالینڈ کے فلمساز تھیون وان گو نے دس منٹ کی دستاویزی فلم سب مشن تیار کی۔ اس میں بھی نبی اکرم کی ذات اقدس، اسلام کے نظام عفت و عصمت کو تضحیک و توہین کا نشانہ بنایا گیا۔ اس فلم ساز کو نومبر دو ہزار میں محمد بیوری نامی مسلمان نوجوان نے ایمسٹرڈم میں جہنم واصل کر دیا ۔

دو ہزار پانچ میں سویڈن کے شہر گوٹنبرگ کے میوزیم آف ورلڈ کلچر میں ایڈز کے حوالے سے منعقدہ نمائش میں قرآنی آیات پر مشتمل برہنہ پینٹنگ پیش کی گئی جس کو مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد ہٹا دیا گیا۔

2005 میں ایک امریکی ٹی وی شو ’’ تھرٹی ڈیز ‘‘میں دو مرتبہ نبی اکرم کے خاکے پیش کئے گئے ۔

اپریل دو ہزار پانچ میں سویڈن کے ایک فنکار رونر سوگارڈ نے ایک عوامی اجتماع میں نبی اکرم کی ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز لطیفے سنائے ۔

ستمبر 2005 میں ڈنمارک کے اخبار جیلنڈر پوسٹن نے نبی اکرم کی ذات اقدس کے بارے میں بارہ کارٹون شائع کئے ۔ اس پر دنیا بھر میں یہ خاکے ڈینیل پائیس نامی متعصب امریکی یہودی کے شرپسند، غلیظ ذہن کی اختراع تھے۔ اس کے بعد اب تک دو سالوں میں گاہے بگاہے یہ خاکے شائع ہوتے رہے۔دوسری بار فروری 2006 میں اور تیسری بار اگست 2007 میں شائع ہوئے۔ اس گھناؤنی سازش میں صرف ڈنمارک کے چند اَخبارات شریک نہیں بلکہ فرانس، جرمنی، ناروے، ہالینڈ اور اٹلی سمیت تمام امریکی ریاستوں کے ذرائع ابلاغ بھی برابر کے شریکتھے۔اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف اس بھیانک سازش میں گستاخانہ خاکوں کے علاوہ خانہ کعبہ اور دیگر اسلامی اَحکام و شعائر کی توہین بھی کی گئی۔ ان خاکوں کی اشاعت کے دو بنیادی کردار ہیں:پہلا ڈینیل پائیس نامی امریکی عیسائی جو سابق صدر بش کے ساتھ گہرے سیاسی و تجارتی مراسم رکھتا تھا۔ دوسرا اہم کردار جیلانڈپوسٹن نامی اخبار(یہودی کلچر)کا ایڈیٹرفلیمنگ روز تھا۔ مسلمانوں کے خلاف یہ منظم سازش عیسائیوں اور یہودیوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ مجموعی طور پر اکیس بدبخت کارٹونسٹ اس مذموم حرکت کے لئے آمادہ ہوئے اور ان میں سے ویسٹرگارڈ نامی ملعون کارٹونسٹ نے توہین آمیز خاکے تیار کئے۔

فروری 2006 میں جرمنی کے ایک خبطی شخص مینفرڈ وین نے ٹوائلٹ پیپرز پر ’’ قرآن پاک ‘‘ پرنٹ کرکے ان کو مساجد اور میڈیا کو بھیجا۔ اس شخص کو گرفتار کرکے ایک سال کی سزا سنائی گئی۔

2007 جولائی میں سویڈن کے ایک شخص لارز ویلکس نے نبی اکرم کی توہین آمیز پینٹنگ بنائی۔ مسلمانوں کے احتجاج کے باعث اس کو گھر چھوڑنا پڑا ۔

ستمبر 2007 میں بنگلہ دیش کے ایک اخبار میں نبی اکرم کے خاکے شائع ہو ئے۔ جس پر کارٹونسٹ کو گرفتار کر لیا گیا ۔

دسمبر 2007 میں عراق کے ایک کرد مصنف نے اپنی کتاب میں نبی اکرم کی شان میں گستاخی کی ۔ اس نے نبی اکرم اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ کی توہین آمیز پینٹنگ بنائی۔ اس نے ہالینڈ کے ایک میوزیم میں اس پینٹنگ کو نمائش کے لئے پیش کیا۔ یہ شخص مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ناروے فرار ہو گیا اور سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ عراقی عدالت نے اسے قید کی سزا سنائی تاہم ناروے میں روپوش ہونے کی وجہ سے یہ شخص ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا ۔

فروری 2008 میں معروف ویب سائٹ وکی پیڈیا پر نبی اکرم کے خاکے شائع کیے گئے جس پر دنیا بھر میں مسلمانوں نےا حتجاج کیا۔ ویب سائٹ انتظامیہ نے ان خاکوں کو ہٹانے سے انکار کر دیا اور یہ ابھی تک وکی پیڈیا پر موجود ہیں۔

2008 میں ہی ہالینڈ کے فلم ساز گریٹ ویلڈرز کی بنائی گئی متنازعہ اور توہین آمیز فلم فتنہ سامنے آئی ۔ اس فلم میں اسلامی قوانین اور نبی اکرم کی تضحیک کی گئی تھی ۔ قرآنی آیات کو برہنہ فنکارہ کے جسم پر لکھا گیا۔

مئی 2008 میں ہالینڈ کے ایک کارٹونسٹ نے نبی اکرم کے خاکے بنا کر اپنی ویب سائٹ پر لگا دئیے ۔ اس کارٹونسٹ کو پولیس نے ڈھونڈ کر گرفتار کر لیا اور عدالت کے حکم پر اس نے توہین آمیز خاکے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دئیے ۔

2010 میں نیو یارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں نبی اکرم کے خاکوں پر مشتمل پینٹنگز رکھی گئی تاہم مسلمانوں کے احتجاج اور شدید ردعمل کے خوف سے ان کو نمائش کے بغیر ہی ہٹا دیا گیا ۔۔

20 مئی 2010 کو شرپسند عناصر کی جانب سے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس پر اشتہار دئیے گئے جن میں ہر ایک کو نبی اکرم کے خاکے بنانے کی دعوت دی گئی ۔ اس اقدام کے خلاف مسلم دنیا میں شدید اشتعال پیدا ہوا اور کئی ممالک کی جانب سے فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا ۔

نومبر 2010 میں فرانس کے ایک ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے نبی اکرم کے گستاخانہ خاکوں پر مشتمل خصوصی ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان کیا ۔ میگزین نے ٹائٹل کو انٹرنیٹ پر شئیر بھی کر دیا ۔ اس اشتعال انگیز اقدام کے بعد مسلم ہیکرز نے اس میگزین کی ویب سائٹ ہیک کر لی اور اس کے دفتر پر بھی فائر بم کے ذریعے حملہ کیا گیا۔

ستمبر 2012 میں ہالی وڈ میں پیغبر اسلام کی ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز فلم ریلیز کی گئی ۔ اس فلم کو جون کے آخر میں ایک چھوٹے سینما گھر میں دیکھایا گیا۔ ایک فرضی نام سیم رسائل نے اس کی ڈائریکشن دی جس کو بعد میں نیکولا بیسلی نیکولا کے نام سے شناخت کر لیا گیا ۔ یہ شخص اسرائیلی نژاد یہودی ہے ۔ اس نے نبی محترم کی شان میں گستاخی پر مشتمل فلم بنانے کے لئے پچاس ملین ڈالر چندہ جمع کیا ۔ امیر یہودیوں نے اس مزموم حرکت کے لئے دل کھول کر اس کو عطیات دئیے ۔ اس کا ساتھی مورس صادق نامی ایک مصری نژاد امریکی شہری ہے ۔ یہ شخص قبطی عیسائی ہے ۔ ان دونوں کو امریکہ کے بدنام زمانہ پادری ٹیری جونز کی پشت پناہی بھی حاصل تھی ۔

نبی اکرم کی ذات اقدس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی بے حرمتی کا سلسلہ بھی نائن الیون کے بعد تیز ہو گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں قرآن پاک کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ بعض مغربی شرپسند سکالرز نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کی بیداری اور اسلام سے محبت کو کم کرنے کے لئے قرآن مجید کی توہین کی جائے اور اس کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔ اسی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے امریکی فوجیوں اور بنیاد پرست عیسائی اور یہودی حلقوں کی جانب سے قرآن پاک کی توہین کی گئی ۔

قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک بڑا سکینڈل امریکہ کے بدنام زمانہ حراستی مرکز گوانتاناموبے میں سامنے آیا ۔ مسلمان قیدیوں نے انکشاف کیا کہ قرآن پاک کے اوراق کو ٹوائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ امریکی فوجی جان بوجھ کر قرآن پاک کو ٹھوکر مارتے ہیں ۔ اس مذموم حرکت کا مقصد مسلمان قیدیوں کے اندر اشتعال پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے متعدد تصاویر بھی سامنے آئیں ۔ امریکہ کے معروف رسالے نیوزویک نے اپنی ایک رپورٹ میں گوانتاناموبے میں قرآن پاک اور مسلمان قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے کی تصدیق کی ۔

امریکہ میں قرآن پاک کی توہین اور بے حرمتی کا سب سے بڑا واقعہ ملعون پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک جلانے کا اعلان تھا ۔ اس نے 2010 میں نائن الیون کی برسی کے موقعے پر فلوریڈا کے ایک چرچ میں قرآن پاک نذر آتش کرنے کا اعلان کیا ۔ ٹیری جونز اس سال عالم اسلام کے شدید ردعمل اور امریکی حکومت کے دباء کے باعث اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا تاہم اس نے اپنا منصوبہ ترک نہ کیا اور اگلے سال 20مارچ 2011 کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن پاک کو نذر آتش کر دیا ۔ رواں سال افغانستان میں امریکی فوجیوں کی جانب سے بلگرام ائیر بیس پر قرآن پاک کے سینکڑوں نسخے جلانے کا واقعہ پیش آیا ۔ اس کے خلاف فوری طور پر افغانستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ان پرتشدد ہنگاموں میں تیس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور چھ امریکی فوجیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے ذاتی طور پر اس واقعے پر معافی مانگی ۔

یہ سب واقعات وہ ہیں جو نائن الیون کے بعد پیش آئے۔ جبکہ نائن الیون سے پہلے بھی کئی بار ایسی مذموم حرکتیں کی گئیں۔ امریکہ کی سپریم کورٹ بلڈنگ میں نبی اکرم کی خیالی تصویر 1935 میں بنائی گئی تھی جس میں ان کے ایک ہاتھ میں قرآن پاک اور دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑائی گئی ہے۔ یہ تصویر ابھی تک موجود ہے۔ اس سے امریکیوں کے نبی محترم کی ذات اقدس کے بارے میں خبث باطن کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح اگست 1925 میں لندن کے ایک اخبار میں نبی اکرم کا خاکہ بنایا گیا تھا۔

1989 میں بدنام زمانہ بھارتی مصنف سلمان رشدی نبی اکرم کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی۔ سلمان رشدی کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ سلمان رشدی لندن فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا جہاں وہ ابھی تک برطانوی سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہے ۔ عالم اسلام کے کئی علمائے کرام نے سلمان رشدی کو قتل کرنے کا فتوی جاری کر رکھا ہے جب کہ اس کے سر کی تیس لاکھ ڈالر قیمت بھی مقرر ہے ۔

1994 میں بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے قرآن پاک اور نبی اکرم کے ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی ۔

1997 میں نبی اکرم کا خیالی مجسمہ نیویارک کی ایک عدالت میں نصب کیا گیا تھا جس کو اسلامی ممالک کے سفیروں کے احتجاج کے بعد ہٹا دیا گیا۔

1998 میں ایک پاکستانی غلام اکبر کو نبی اکرم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر سزائے موت سنائی گئی ۔

1999 میں ایک جرمن میگزین ’’ ڈر سپائیجل ‘‘ میں نبی اکرم کا خاکہ پیش کیا گیا

2001 میں اسی میگزین نے دوبارہ نے بھی اسی خاکے کو پیش کیا۔

2001 میں امریکی فاکس ٹی وی کے پروگرام ساؤتھ پارک کی ایک قسط میں نبی اکرم کا خاکہ پیش کیا گیا تاہم مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اس کے باقی ماندہ اقساط سے اسکو ہٹا دیا گیا۔

روزنامہ نوائے وقت 10 جنوری 2001 میں امریکہ میں مسلمانوں کے احتجاج کی رپورٹ پیش کی گئی جو کہ امریکی کمپنی لزکلیبون ان کارپوریٹڈ کی جانب سے قرآنی آیات والی پتلونیں بنانے سے متعلق تھا ۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق یہ ڈیزائن بیت المقدس کے گنبد سے لیا گیا تھا جس کو پتلون کی عقبی جیب پر چھاپا گیا۔

9ستمبر 2001 امریکہ میں شائع شدہ کتاب ویسٹرن سویلائزیشن کوایشیابک فاؤنڈیشن نےپاکستانی یونیورسٹریز کی لائبریریوں کو بطور تحفہ ارسال کیا جس میں نبی اکرم اور صحابہ کرام کی تصاویر بھی تھیں ۔ ایک تصویر میں نبی اکرم کی ایک عیسائی راہب سے ملاقات بھی دیکھائی گئی ۔

2001 میں امریکی ٹائم میگزین نے ایک تصویر شائع کی جس میں پیغمبر اسلام کو حضرت جبریل کا انتظار کرتے دیکھایا گیا۔ مسلمانوں کے شدید احتجاج پر میگزین نے اپنی اس مذموم حرکت پر معافی بھی مانگی ۔توہین رسالتاور قرآن پاک کی بے حرمتی کے ان واقعات کے باعث ہر مسلمان کا دل غمگین ہے ، ہر کوئی سراپہ احتجاج ہے، دنیا بھر میں پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں اور ناموس رسالت پر مر مٹنے کا جذبہ ہر دل میں موجزن دیکھائی دیتا ہے ۔ ان حالات میں نبی اکرم سے محبت کرنیوالوں کی ذمہ بڑھ جاتی ہے ۔ مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر انبیائے کرام اور مقدس کتابوں کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی جائے ۔ ایسی حرکتیں کرنیوالے شرپسند عناصر عالمی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کریں۔ دوسری جانب مسلمانوں کو چاہیے کہ پرجوش مظاہروں اور محبت رسول کے نعروں کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کریں ۔ کفار کی سازشوں کا بہترین جواب یہ بھی ہے کہ مسلمان سنتوں کے فروغ اور نبی اکرم کی سچی تعلیمات دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔ اگر مسلمانوں کے جذبہ ایمانی ، نبی محترم اور قرآن پاک سے ان کی محبت عملی اظہار شروع ہو گیا تو یقینا بہت جلد اسلام کو عروج ملے گا اور دنیا اس سچے اور آفاقی دین کی برکات سے مستفید ہو گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے