مدیر مجلہ
کے نام
قارئین کے خطوط
از: اعجاز حسن ، مدیر
مرکز الفوز الاسلامی، بہاولنگر
السلام علیکم !
محترم ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ !
خیریت موجود، خیرت مطلوب۔ مجلہ اسوہ حسنہ کا ’’مؤسس الجامعہ نمبر‘‘ موصول ہوا جو کہ فضیلۃ الشیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کی حیات، خدمات، تاثرات سے عبارت تھا۔ لاریب کہ یہ ایک منفرد دستاویز ہے۔ جس میں ایک عہد ساز شخصیت کی تگ و تاز کو جمع کردیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے فکر کو جلا اور عمل کو حوصلہ میسر آیا۔ مؤسس جامعہ کی جدو جہد نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کو پاکستان کا فقید المثال ادارہ بنادیا۔ کتنے بے ہنر یہاں سے گوہر، کتنے بے عمل یہاں سے باعمل بن کر نکلے۔ بہر حال یہ ایک طویل تر داستان ہے۔ میں آپ کو بہترین کاوش اور عمدہ کوشش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا یہ عمل قبول فرمائیں اور مجلہ کے سرپرست اور معاونین کو بھی جزائے خیر سے نوازیں۔
والسلام علیکم
اعجاز حسن
14اکتوبر2012
از: محمدعبدالقیوم شورش
شگر سکردو، بلتستان
مکرمی جناب مدیر جامعہ مجلہ اسوئہ حسنہ کراچی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ عافیت سے ہوں گے مجلہ اسوئہ حسنہ ناچیز کے نام باقاعدہ طریقہ سے آرہا ہے یہ مجلہ وطن عزیز کے بے شمار معیاری مجلوں میں پایا شروع سے آخر تک پڑھتا ہوں اپنی مصروفیات سے ٹائم نکال کر حقت دیتاہوں۔ آپ کا بچہ آپ سے کیا چاہتا ہے اور دینی مدارس پر نظر دونوں مضامین بہت اچھے اور بر موقعہ ہے اگر والدین ان باتوں پر عمل کرنا شروع کردیں تو بہت بڑا ذہنی اور ساتھ ساتھ عملی انقلابات آنا یقینی ہے اگر دیگر ارادے اپنے ماہناموں میں اس طرح نفسیاتی مضامین لکھنا شروع کریں تو کئی طرح کا انقلاب آئے گا شروع میں والدین ان اہم اور ضروری باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے تربیت اولاد پر اہل نظرنے بہت کچھ کہا اور صاحب قلم نے بہت کچھ لکھا مگر جب اولاد بڑی ہوجاتی ہے۔ ان سے بڑی بڑی امیدیں رکھتے ہیں جب امیدیںبھر نہیں آتیں تو طرح طرح کے گلے شکوے اورشکایتیں شروع کردیتے ہیں۔جبکہ تربیت کے وقت میں ایسے سنہرے اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے جسے والدین فراموش کردیتے ہیں۔ تربیت اولاد سے متعلق اس قسم کے مضامین کوایسے والدین کے لئے نہایت ضروری ہیں۔
اور ساتھ ساتھ مدارس دینیہ کی ضرورت اور اہمیت سے امت کو آگاہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ امت کا مدارس کے ساتھ جو مضبوط رشتہ ہے یہ کافور نہ ہوجائے ، عالم کفر اور کفریہ نظریہ رکھنے والے بہادر امریکہ اور اس کے استعماری بہادروں کو خوش کرنےکےلئے اس قسم کی ہوائی فائر کرتے ہیں کہ کبھی مدارس کو بند کرنے کی کبھی کنٹرول کرنے کی باتیں چھوڑتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مدارس دینیہ کبھی بند نہیں ہوئے۔ اس کے رکھوالے اور پڑھنے پڑھانے والے خود مٹ گئے یا ملک بدر ہوگئے پھر دوبارہ وطن کی مٹی نصیب نہیں ہوئی کہاں مر گئے کہاں دفن ہیں؟ آج تک کسی کوئی معلوم نہیں نہ ہی کسی کو ضرورت ہے۔ مدارسِ دینیہ عرصہ 14 سو سال سے اپنے مختلف صورتوں میں جاری و ساری ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ان شاء اللہ
پھونکوں سے یہ چراغ، بھجایا نہ جائے گا
محترم بات کچھ لمبی ہوگئی ہے اس لیے چوتھا شمارے تک میں نے سوچا کہ چند شمارے آنے کے بعد بند ہوجائیں گے اس لئے آپ کو کسی قسم کی کوئی اطلاع نہیں دی تھی اب پانچواں شمارہ میرے ہاتھ لگا تواطلاع دینا ایک اخلاقی فرض بنتاتھا۔
اب تو الحمدللہ دونوں کی یاری پکی ہوگئی، گاہے بگاہےخدمت میں اطلاع نامہ آتا رہےگا۔ ناچیز چونکہ صاحب زبان یعنی اردو میری مادری زبان نہیں ہے اس لیے کئی طرح کی غلطیاں یقینی ہیں اس کو میری کمزوری سمجھنا۔
محمدعبدالقیوم شورش
شگر،سکردو، بلتستان۔ پاکستان
----------------
از: سید ظفر رضوی(نائب معتمد اعزازی)
انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی
مکرمی ومحترمی، السلام علیکم !
ماہنامہ ’’اسوۂ حسنہ‘‘ انجمن کے کتب خانے کے لیے باقاعدگی سے موصول ہورہا ہے۔ رسالے کو معیاری بنانے میں آپ اور آپ کے رفقائے کار جس طرح اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، قابلِ تعریف ہے۔ ادارہ اس مخلصانہ تعاون کے لیے آپ کا شکر گزار ہے۔
خیر اندیش
(سید اظفر رضوی)
-----------------------