راہ میں کانٹے جس نے بچھائے گالیاں دیں پتھر برسائے

اس پر چھڑکی پیار کی شبنم صلی اللہ علیہ وسلم

رسول الثقلین سرور کونین تاجدار مدینہ محمد عربی علیہ السلام شاہد ومبشر بن کر مبعوث ہوئے اور انذار کا حکم پاکر دعوت إلی اللہ کی کٹھن ترین ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تئیس برس دعوت وجہاد کے میدان میں یوں استقامت سے کھڑے ہوئے کہ پھر استراحت وآرام کے لیے بیٹھے نہیں بلکہ امت کی اصلاح کی فکر میں آپ علیہ السلام ’’یا تو میدان میں نظر آتے ہیں یا پھر انعامات خداوندی کے شکر میں سجود وقیام میں‘‘ کریمانہ اخلاق کا یہ عالم ہے کہ خود مالک ارض وسماء نے قلم کی قسم اٹھا کر نہ صرف کفار کے الزام کو رد فرمایا بلکہ

( وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ ) ( سورۃ القلم : 4) ’’

اور بیشک آپ بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔ ‘‘کے ارشاد کے ساتھ خلق عظیم کے منصب جلیل پہ فائز فرمادیا یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ قریب ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں

’’ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ ‘‘ ( صحیح مسلم )

قرآن آپ ﷺ کا اخلاق تھا گویا کہ مجسم قرآن کوئی دیکھنا چاہے تو پیارے پیغمبرﷺ کو دیکھے جوجس قدر آپ سے قریب تھا اتنا ہی زیادہ آپ کی محبت کا اسیر تھا انسان کی خوبیوں سے باہر کے لوگ متاثر ہوتے ہیں مگر بیوی چونکہ سب خامیوں سے بھی آگاہ ہوتی ہے۔ لہذا وہ اس قدر متاثر نہیں ہوتی یہی حال قریبی دو ستوں کا ہوتاہے کہ ان سے زیادہ عیب وصواب کا محرم راز کون ہو سکتاہے یا پھر گھریلو ملازم ہوتے ہیں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق اکثر گھر اور باہر کے معاملات سے آگاہ ہوتے ہیں ۔

پیارے پیغمبر علیہ السلام جب غار حرا کی روداد بیان کرتےہیں تو سب سے پہلے آپ ﷺپر جو ہستی ایمان لاتی ہے وہ آپﷺ کی زوجہ مطہرہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں اور وہ بھی عام خاتون نہیں بلکہ پچپن سالہ قریش کی انتہائی دانشمند خاتون کہ جنہوں نے پندرہ سالہ ازدواجی تعلق میں آپ علیہ السلام میں سوائے خوبیوں کے کچھ اور کبھی دیکھا ہی نہیں پھر آپ کے ہمنشین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہ ایک لمحے کا توقف کیےبغیر بلا تأمل آپ ﷺکو نبی مان لیا یا پھر آپ علیہ السلام کے غلام زید بن حارثہ اور بچوں میں علی مرتضی رضی اللہ عنہ جو آپ کے گھر میں پرورش پا رہے تھے حد تو یہ ہے کہ چچا ابو طالب بھی جو اگرچہ آخر تک کلمہ نہ پڑھ سکے مگر آپ کے دین کو خیر الادیان کہتے ہیں پھر جب صنادید قریش آپ علیہ السلام کے خلاف اکٹھے ہوتے ہیں تو یہی ابو طالب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ سب مل کر بھی آپ تک نہیں پہنچ سکتے انہیں آپ تک پہنچنے کے لیے میری لاش پر سے گزرنا ہوگا پھر بنو عبد مناف اور بنو ھاشم سب مسلم وکافر آپ کے دفاع میں تین سال شعب ابی طالب میں انتہائی کسمپرسی اور فاقوں میں گزار دیتے ہیں ابو جہل جیسا بد باطن شخص بھی ایک دن یہ کہنے پہ مجبور ہوتاہے کہ ’’ إنا لا نکذبک ولکن نکذب ما جئت بہ ‘‘ہم تمہیں تھوڑی جھٹلاتے ہیں ہم تو جو تم پیش کررہے ہو اسے جھٹلاتے ہیں ۔

اخلاق کی تعلیم یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں کیونکہ یہ تو ہر مذہب میں پائی جاتی ہے بلکہ کہیں کہیں تو شاید روحانیت پہ فلسفیانہ موشگافیوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی زور دیاگیا ہے لیکن اصل مسئلہ تعلیم اور حسن مقال کا نہیں بلکہ اصل چیز حسن عمل ہے جو مکمل وجامع شکل میں صرف اور صرف حامل قرآن، داعی اسلام علیہ صلوٰات اللہ والسلام ہی کی ذات میں ملتی ہے وہ عہد کی پابندی کا درس دے تو خود وعدہ کی پابندی میں ایک ہی جگہ انتظار میں کھڑ ے ہوکر تین دن گزار دے ۔ نبی رحمت ﷺ نے اپنی امت کو آگ سے بچانے کے لیے خود بے شمار تکالیف برداشت کیں انہی میں سے طائف کا سخت ترین دن تھا جب اہل طائف نے رحمت کائنات ﷺ پہ اتنے پتھر برسائے کے آپ کے جوتے بھی خون سے بھر گئے غشی کی کیفیت تھی کہ جبریل آئے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ اجازت مانگ رہا تھا کہ آپ حکم دیں تو دونوں پہاڑ ملا کر آپ کے دشمنوں کو نابود کردیا جائے مگر آپ تو رحمۃ للعالمین بن کر آئے تھے اگرچہ زخموں کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں گالیاںدینے والوں کے شور کی بازگشت کانوں میں تازہ تھی لیکن فرمایا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک رب کی عبادت کریںاور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔

جنگ میں زخم آئیں تو پھر بھی وہ دعا کرے کہ’

’ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِى فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ‘‘

میرے مالک میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے آپ علیہ السلام زہد وقناعت کی تلقین فرماتے ہیں اور اس راہ آپ کا اپنا طرز عمل کیا تھا سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں’’ کہ عرب کے گوشہ گوشہ سے جزیہ خراج عشر اور زکوۃ وصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے مگر امیر عرب کے گھر میں وہی فقر تھا وہی فاقہ تھا ۔ ‘‘

عفو ودرگزر کا درس دیا تو اگرچہ موقعہ بموقعہ اس کا عملی ثبوت بھی دیا مگر فتح مکہ پہ تو دس ہزار کا لشکر تلواریں لیے آپ کے حکم کا منتظر تھا اور سامنے وہ لوگ جنہوں نے کیا کیا ستم نہ ڈھائے تھے آپ ﷺکے باوفا جاں نثاروں کو شہید کیا تھا آپ کو ہر طرح سے ستایا تھا مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا آپ کو شہید کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈا لی ان میں آپ ﷺکے پیارے چچا سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی بن حرب بھی تھا اور ہندہ جگر خوار بھی پھر آپ کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل کا بیٹا یمن بھاگ جانے والاعکرمہ آپﷺ کی پیاری بیٹی زینب کا ایک طرح سے قاتل ھبار بن الاسود یہ اور دوسرے بہت سے جن سب کو آپ علیہ السلام نے معاف فرما کر غفو ورحمت کی عجیب مثال قائم فرمائی کہ ’’مَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم لِنَفْسِهِ قَطُّ‘‘(صحیح مسلم) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے (کبھی کسی بات میں کسی سے) انتقام نہیں لیا۔)کچھ مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے گھروں پہ قریش نے قبضہ کر لیا تھا فتح کے بعد جب انہوں نے اپنے گھر واپس لیناچاہے جو اگرچہ ان کا حق تھا مگر رسول رحمت ﷺ نے انتہائی وسعت قلبی سے انہیں اپنا حق چھوڑ دینے کی رغبت دلائی اور بدلے میں جنت میں محل کی بشارت سنائی ۔

وہ معاشرہ جہاں معمولی باتوں پہ قتل کر دینا غیرت، جرأت وبہادری کی علامت سمجھا جاتاتھا وہاں خون کا تقدس سکھایا اور اسے پامال کرنے والے کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جلنے والا عذاب بتلایا ۔

تعلیم کا عجب رنگ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی بحرِ قلزم کے کنارے کھڑے ہوکر کہہ رہے تھے ۔

فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدۃ:24) ـ

ـ’’ موسیٰ تم اور تمہارا رب جاکر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘

مگر آپ کے ساتھی اشارہ ابروجان نثار کرنے کو سعادت سمجھیں سولی پہ چڑھنے والے خبیب رضی اللہ عنہ کہیں مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میری جان سلامت رہے اورنبی رحمت ﷺ کو کانٹا چبھ جائے۔

سیرت رسول ﷺ وہ مقدس عنوان ہے جو رب العالمین کی پسند ٹھہرا جس پہ محدثین کرام کے لیے عزوشرف کا باعث بنا یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور ان شاء اللہ چلتا رہے گا احاطہ ممکن نہیں ان خوش نصیبوں میں جگہ پالینا باعث شرف وافتخار ہے۔

سیرت رسول ﷺ ہی دور حاضر کی جاہلیت کے زہر کا تریاق ہے کیونکہ جاہلیت کے انداز بدلے ہیں بنیادیں وہی ہیں جو پہلے تھیں۔

درفشانی نے تیری قطروں کو دریا کردیا               دل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیا

جو نہ تھے خود راہ پر غیروں کے رہبر بن گئے         کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے