(معلم انسانیت رہبر اعظم رسول کائنات محمد عربی ﷺ کو خالق کائنات نے نوعِ انسانی کے لئے کامل اسوۂ حسنہ بنایا ہے محسن انسانیت ﷺ کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لئے شعار و معیار ہیں اور رہیں گے سید المرسلین و خاتم النبیین ﷺکی ذاتِ اقدس ہی وہ فرد کامل ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام اوصاف جاگزیںکئے ہیں جو انسانیت کے لئے مکمل لائحہ عمل بن سکتے ہیں آپ ﷺکے شیریں اخلاق اور کریمانہ عادات کی ایک جھلک احادیث مبارکہ کے ذریعے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہاہوں۔)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَیْسَ بِالطَّوِیْلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِیْرِ، وَلَا بِالْأَبْیَضِ الْأَمْھَقِ وَلَا بِالْاَدَمِ، وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطِطِ وَلَا بِالسَّبِطِ ۔ بَعَثَہُ اللّٰہُ عَلٰی رَأْسِ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً، فَاَقَامَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِیْنَ وَبِالْمَدِیْنَۃِ عَشْرَ سِنِیْنَ، وَتَوَفَّاہُ اللّٰہُ عَلٰی رَأْسِ سِتِّیْنَ سَنَۃً ؛ وَلَیْسَ فِيْ رَأْسِہٖ وَلِحْیَتِہٖ عِشْرُوْنَ شَعْرَۃً بَیْضَائَ (اخرجہ مالک فی الموطا (۲/۹۱۹ روایۃ ابي مصعب ۱۹۲۵) والبخاري، المناقب باب صفۃ النبي ﷺ : ۳۵۴۸‘ مسلم: ۲۳۴۷)

سیدنا انس بن مالک فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ نہ تو بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت چھوٹے قد کے تھے نہ تو بے انتہا سفید تھے اور نہ گندم گوں تھے (بلکہ سرخ وسفید تھے) آپﷺ کے بال نہ تو شدید گھونگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے۔ اللہ نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبی بنایا۔ پھر آپ مکہ میں دس سال اور مدینہ میں دس سال رہے۔ اللہ نے آپ کو ساٹھ سال (اور تین سال) کی عمر میں وفات دی۔ آپ کے سر اور داڑھی میں بیس (کے قریب) بال بھی سفید نہیں تھے۔

(وضاحت: رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال بسر فرمائے مگر حدیث میں دس سال کاتذکرہ ہے جس کے بارے میںامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی روایت اور امام سُہیلی کی تحقیق کے مطابق جن تین سالوں میں آپ ﷺ سے وحی منقطع رہی وہ نکال کر دس سال بنتے ہیں۔)

عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَیْسَ بِالطَّوِیْلِ وَلَا بِالْقَصِیْرِ،ضَخْمَ الرَّاْسِ وَاللِّحْیَۃِ، شَثْنَ الْکَفَّیْنِ ۔ مُشَرَّبٌ حُمْرَۃً، ضَخْمَ الْکَرَادِیْسِ، طَوِیْلَ الْمَسْرُبَۃِ، إِذَا مَشٰی تَکَفّٰی تَکَفِّیًا، کَاَنَّمَا یَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ لَمْ اَرَقَبْلَہٗ وَلَا بَعْدَہٗ مِثْلَہٗ ۔

(حسن : اخرجہ الترمذي: ۳۶۳۷ والشمائل، وللحدیث شواھد کثیرۃ ۔ [السنۃ : ۳۶۴۱])

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ چھوٹے قد کے۔ آپ کا سر اور داڑھی بڑی تھی۔ آپﷺ کی ہتھیلیاں سخت اور موٹی تھیں۔ (آپ کا رنگ) سرخی مائل (اور سفید) تھا آپ کی ہڈیوں کے جوڑ بڑے تھے۔ سینے کے نیچے لمبے بال تھے جب آپ چلتے تو آگے کی طرف جھک کر (تیز) چلتے گویا کہ کوئی اوپر سے نیچے اتر رہا ہے۔ میں نے آپﷺ جیسا کوئی نہیں دیکھا نہ پہلے اور نہ بعد میں۔

عَنِ الْبَرَآئِ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ مَرْبُوْعًا بَعِیْدَ مَا بَیْنَ الْمَنْکِبَیْنِ، لَہٗ شَعْرٌ بَلَغَ شَحْمَۃَ اُذُنِہٖ، رَاَیْتُہٗ فِيْ حُلَّۃٍ حَمْرَائَ، لَمْ اَرَ شَیْئًا قَطُّ اَحْسَنَ مِنْہُ ( صحیح البخاري، المناقب باب صفۃ النبي ﷺ :۳۵۵۱ ومسلم: ۲۳۳۷۔ [السنۃ: ۳۶۴۶])

سیدنا براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ درمیانے قد اور چوڑے کندھوں والے تھے۔ آپﷺ کے سر کے بال کانوں کی لو تک پہنچے ہوئے تھے میںنے آپ کو سرخ کپڑے میں دیکھا ہے میں نے آپﷺ سے زیادہ خوبصورت کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔

موئے (بال) مبارک

عَن قَتَادَۃَ قَالَ : سَاَلْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍص قَالَ : کَانَ شَعْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ رَجِلاً، لَیْسَ بِالسَّبْطِ وَلَا الْجَعْدِ بَیْنَ اُذُنَیْہِ وَعَاتِقِہٖ (البخاري،اللباس باب الجعد:۵۹۰۵ مسلم: ۲۳۳۸۔ [السنۃ : ۳۶۳۷])

سیدنا قتادہ (تابعی) نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کے بالوں کے بارے میں پوچھا تو انھوںنے فرمایا: رسول اللہﷺ کے بال (بہت) کم گھونگھریالے تھے، نہ تو (بالکل) سیدھے بال تھے اور نہ گھونگھریالے۔ آپ کے بال کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے۔

عَنْ اَنَسٍؓ قَالَ : کَانَ شَعْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ إِلٰی اَنْصَافِ اُذُنَیْہِ۔(ابوداود : ۴۱۸۵ واخرجہ عبدالرزاق فی المصنف:۲۰۵۱۹ والنسائی :۵۰۶۴ والترمذي فی الشمائل [السنۃ : ۳۶۳۹])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ (ہی) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے بال‘ آدھے کانوں تک تھے۔

عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍؓ قَالَ : مَا رَاَیْتُ مِنْ ذِيْ لِمَّۃٍ اَحْسَنَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ لَہٗ شَعْرٌ یَضْرِبُ مَنْکِبَیْہِ، بَعِیْدَ مَا بَیْنَ الْمَنْکِبَیْنِ، لَمْ یَکُنْ بِالْقَصِیْرِ وَلَا بِالطَّوِیْلِ ۔(مسلم، الفضائل باب صفۃ النبي ا: ۲۳۳۷ واخرجہ الترمذي:۱۷۲۴   )

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میںنے رسول اللہﷺ سے زیادہ خوبصورت، سر کے بالوں والا کوئی نہیں دیکھا، آپ ﷺ کے بال کندھوں کو چھو رہے تھے۔ آپ کے کندھے چوڑے تھے۔ آپ نہ چھوٹے قد کے تھے اور نہ لمبے قد کے۔ (درمیانے قد کے تھے)

عَنْ ثَابِتٍ قَالَ : سُئِلَ اَنَسٌ رضی اللہ عنہ عَنْ خِضَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنَّہٗ لَمْ یَبْلُغْ مَا یَخْضِبُ، لَوْ شِئْتُ اَنْ اَعُدَّ شَمَطَاتِہٖ فِيْ لِحْیَتِہٖ ۔
(صحیح البخاري، اللباس باب ما یذکر فی الشیب : ۵۸۹۵ مسلم : ۲۳۴۱ )

سیدنا ثابت(البنانی‘ تابعی) کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کے خضاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوںنے فرمایا: آپ ﷺ خضاب (بالوں کو رنگنے کی حالت) تک نہیں پہنچے تھے۔ اگر میں چاہتا تو آپﷺ کی داڑھی کے سفید بال گن سکتا تھا (بہت تھوڑے بال سفید تھے)

عَن قَتَادَۃَ قَالَ : قُلْتُ لِاَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ : ھَلْ خَضَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ؟ قَالَ : لَمْ یَبْلُغْ ذٰلِکَ، إِنَّمَا کَانَ شَیْبًا فِيْ صُدْغِہٖ، وَلٰکِنْ اَبُوْبَکْرٍ خَضَبَ بِالْحِنَّائِ وَالْکَتَمِ (اسنادہ صحیح اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۳۷ ۔ [السنۃ: ۳۶۵۲])

سیدنا قتادہ (تابعی) نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا رسول اللہ ﷺ نے خضاب لگایا تھا؟ تو انھوںنے جواب دیا: آپ اس تک نہیں پہنچے تھے۔(آپ کے بال زیادہ سفید نہیں تھے) آپﷺ کی کنپٹیوں کے پاس کچھ بال سفید ہوئے تھے‘ لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہندی اور کتم کے ساتھ سرخ خضاب لگایا تھا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَا عَدَدْتُّ فِيْ رَاْسِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ وَلِحْیَتِہٖ إِلَّا اَرْبَعَ عَشْرَۃَ بَیْضَائَ ۔(إسنادہ صحیح اخرجہ عبدالرزاق فی المصنف: ۲۰۱۸۵، الترمذي فی الشمائل:۳۸ ۔ [السنۃ : ۳۶۵۳])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ (ہی) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے سر اور داڑھی(مبارک) میں صرف چودہ سفید بال گنے تھے۔

عَن سِمَاک بن حَرَب قال: قِیْلَ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَؓ:اَکَانَ فِيْ رَاْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ شَیْبٌ؟ قَالَ: لَمْ یَکُنْ فِيْ رَاْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ شَیْبٌ إِلاَّ شَعَرَاتٌ فِيْ مَفْرِقِ رَاْسِہٖ ، إِذَا ادَّھَنَ وَاَرَاھُنَّ الدُّھْنَ (صحیح، اخرجہ الترمذي فی الشمائل:۴۴ مسلم: ۲۳۴۴۔ [السنۃ : ۳۶۵۴])

سیدنا سماک بن حرب (تابعی) نے کہا: جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہﷺ کے سر کے بال سفید ہوئے تھے؟ تو انھوںنے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے سر کے بال سفید نہیں ہوئے تھے سوائے چند بالوں کے جو مانگ میں تھے جب آپ تیل لگاتے تو تیل ان (کی سفیدی) کو چھپا لیتا تھا۔

مہر نبوت

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : رَاَیْتُ الْخَاتَمَ بَیْنَ کَتِفَيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ غُدَّۃً حَمْرَائَ مِثْلَ بَیْضَۃِ الْحَمَامَۃِ ۔صحیح، اخرجہ الترمذي: ۳۶۴۴ والشمائل: ۱۷، مسلم: ۲۳۴۴۔ [السنۃ : ۳۶۳۳]

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے کندھوں کے درمیان (نبوت کی) مہر کو دیکھا ہے۔ وہ کبوتری کے انڈے جیسی‘ گول گوشت (اور) بالوں والا ٹکڑا تھی۔

قَالَ اَبُوْ زَیْدِ بْنُ اَخْطَبَ الْاَنْصَارِيُّ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( یَا اَبَازَیْدٍ اُدْنُ مِنِّيْ فَامْسَحْ ظَھْرِيْ)) فَمَسَحْتُ ظَھْرَہٗ فَوَقَعَتْ اَصَابِعِيْ عَلَی الْخَاتَمِ ۔ قُلْتُ :وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ : (شَعَرَاتٌ مُجْتَمِعَات) ( اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۲۰ وصححہ ابن حبان: ۲۰۹۶ والحاکم ۲/۶۰۶ ووافقہ الذھبي )

سیدنا ابوزید بن اخطب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوزید میرے قریب آ اور میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر‘ میں نے آپ ﷺ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو میری انگلیاں (نبوت کی) مہر پر لگیں۔ میں نے کہا: کیسی مہر؟ (تو انھوں نے) کہا: (ابھرے گوشت پر) کچھ اکٹھے بال تھے۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ سَرْجِسَ ﷺ قَالَ: رَاَیْتُ النَّبِيَّﷺ ، وَدَخَلْتُ عَلَیْہِ، وَاَکَلْتُ مِنْ طَعَامِہٖ، وَشَرِبْتُ مِنْ شَرَابِہٖ، وَرَاَیْتُ خَاتَمَ النُّبُوَّۃِ فِيْ نُقْضِ کَتِفِہِ الْیُسْرٰی کَاَنَّہٗ جُمْعُ خِیْلاَنٍ سُوْدٍ کَاَنَّہَا ثَآلِیْلُ ۔ (صحیح، اخرجہ علي بن الجعد في مسندہ : ۲۱۵۴ ومسلم: ۲۳۴۶۔ [السنۃ :۳۶۳۴])

سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا ہے اور میںنے آپ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر آپ ﷺ کا کھانا کھایا اور پانی پیا ہے اور میں نے آپ ﷺ کے دائیں کندھے کے اوپر مہر نبوت کو دیکھا ہے گویا وہ کالے خالوں کا مجموعہ ہے۔ گویا کہ وہ مسے ہیں۔

خوشبودار جسم مبارک

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَا شَمَمْتُ رَائِحَۃً قَطُّ مِسْکَۃً وَلَا عَنْبَرَۃً اَطْیَبَ مِنْ رَائِحَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ، وَلَا مَسِسْتُ شَیْئًا قَطُّ خَزَّۃً وَلَا حَرِیْرَۃً اَلْیَنَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ   (صحیح وللحدیث طرق عندالبخاري:۱۹۷۳ ومسلم: ۲۳۳۰ وغیرھما ۔ [السنۃ : ۳۶۵۸)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میںنے رسول اللہ ﷺ (کے جسم مبارک)کی خوشبو سے زیادہ نہ مشک کستوری سونگھی ہے اور نہ مشک عنبر‘ میںنے رسول اللہﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم نہ ریشم چھوا نہ اس سے ملائم جلدوالا کوئی اور کپڑا۔(آپ کی خوشبو سب سے زیادہ اچھی اور آپ کی ہتھیلیاں سب سے زیادہ ملائم تھیں)

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : دَخَلَ عَلَیْنَا النَّبِيُﷺ‘ فَقَالَ : عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَائَتْ اُمِّيْ بِقَارُوْرَۃٍفَجَعَلَتْ تَسْلُتُ الْعَرَقَ فِیْھَا، فَاسْتَیْقَظَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ : (( یَا اُمَّ سُلَیْمٍ مَا ھٰذَا الَّذِيْ تَصْنَعِیْنَ؟ )) قَالَتْ : ھٰذَا عَرَقُکَ نَجْعَلُہٗ فِيْ طِیْبِنَا وَھُوَ مِنْ اَطْیَبِ الطِّیْبِ ( مسلم، الفضائل باب طیب عرق النبي ﷺ :۲۳۳۱۔ [السنۃ : ۳۶۶۱])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس (ہمارے گھر میں) تشریف لائے اور قیلولہ کیا۔ آپ کو پسینہ آگیا تو میری ماں (ام سلیم) ایک برتن لائی اور ہاتھوں سے یہ پسینہ پونچھ کر برتن میں ڈالنے لگیں۔ پھر نبی کریم ﷺ بیدار ہوگئے تو فرمایا: اے ام سلیم! یہ کیا کررہی ہو؟ انھوںنے کہا: آپ کا یہ پسینہ ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے۔ یہ خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور اچھی) خوشبو والا ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ صَلاَۃَ الْاُوْلٰی، ثُمَّ خَرَجَ إِلٰی اَھْلِہٖ وَخَرَجْتُ مَعَہٗ، فَاسْتَقْبَلَہٗ وَلَدَانِ فَجَعَلَ یَمْسَحُ خَدَّيْ اَحَدِھِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا، قَالَ : وَاَمَّا اَنَا فَمَسَحَ خَدَّيَّ ۔قَالَ: فَوَجَدْتُّ لِیَدِہٖ بَرْدًا اَوْ رِیْحًا، کَاَنَّمَا اَخْرَجَھَا مِنْ جُؤْنَۃِ عَطَّارٍ۔( صحیح مسلم، ایضًا :۲۳۳۰ ۔ [السنۃ : ۳۶۵۹])

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ پہلی نماز پڑھی۔ پھر آپ اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے، میں آپ کے ساتھ گیا۔ آپ کے سامنے دو لڑکے آئے تو آپ دونوں کے رخساروں پر ہاتھ پھیرتے رہے اور میرے رخسارپر ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ کی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا وہ عطر فروش کے خوشبو دار برتن سے باہر نکلا ہے۔

اخلاقِ مرتضیٰ ﷺ

قَالَ الْبَرَائُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِص اَحْسَنَ النَّاسِ وَجْھًا، وَاَحْسَنَھُمْ خُلُقًا، لَیْسَ بِالطَّوِیْلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِیْرِ (صحیح البخاري، المناقب باب صفۃ النبي ﷺ :۳۵۴۹ مسلم، الفضائل باب في صفۃ النبيﷺ : ۲۳۳۷ ۔ [السنۃ : ۳۶۶۳])

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کا چہرہ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپ ﷺ سب سے زیادہ بہترین اخلاق والے تھے۔ نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ چھوٹے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : خَدَمْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ عَشْرَ سِنِیْنَ فَمَا قَالَ لِيْ : اُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِشَيْئٍ صَنَعْتُہٗ : لِمَ صَنَعْتَہٗ؟ وَلَا لِشَيْئٍ تَرَکْتُہٗ لِمَ تَرَکْتَہٗ؟ وَکَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا ۔ وَلَامَسِسْتُ خَزًّا قَطُّ وَلَا حَرِیْرًا وَلَا شَیْئًا کَانَ اَلْیَنَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اللہِﷺ، وَلَا شَمَمْتُ مِسْکًا وَلَا عِطْرًا کَانَ اَطْیَبَ مِنْ عَرَقِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ۔ (صحیح،اخرجہ الترمذي: ۲۰۱۵ والشمائل:۳۴۴ ومسلم :۲۳۳۰ عن قتیبۃ بہ ۔ [السنۃ : ۳۶۶۴])

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کی دس سال خدمت کی ہے۔ آپ ﷺ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا اور نہ کسی کام پر جو میںنے کیا تھا‘ کہا: تونے یہ کیوں کیا ہے؟ اور نہ کسی چیز پر جسے میں نے چھوڑا یہ کہاکہ تونے اسے کیوں نہیں کیا؟ رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق والے تھے۔ میں نے رسول اللہﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ریشم‘ حریر یا اس جیسی کوئی چیز نہیں چھوئی۔ میں نے رسول اللہﷺ کے پسینے سے زیادہ خوشبودار کوئی کستوری یا عطر نہیں سونگھا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا ۔ فَاَرْسَلَنِيْ یَوْمًا لِحَاجَۃٍ ۔ فَقُلْتُ : وَاللہِ لَا اَذْھَبُ وَفِيْ نَفْسِيْ اَنْ اَذْھَبَ فَخَرَجْتُ حَتّٰی اَمُرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ فِی السُّوْقِ، فَإِذَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ قَدْ قَبَضَ بِقَفَائِيْ مِنْ وَّرَائِيْ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ وَھُوَ یَضْحَکُ، فَقَالَ : یَااُنَیْسُ ذَھَبْتَ حَیْثُ اَمَرْتُکَ؟ قُلْتُ : نَعَمْ اَنَا اَذْھَبُ یَا رَسُوْلَ اللہِ (صحیح مسلم، الفضائل باب کان رسول اللہا احسن الناس خلقًا :۲۳۱۰)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔ ایک دن آپﷺ نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجا تو میں نے کہا: ’’واللہ‘ میں نہیں جائوں گا‘‘ اور دل میں یہ تھا کہ (ضرور) جائوں گا۔ پھر میں نکلا اور بازار میں کھیلنے والے بچوں کے پاس سے گزرا (تو ان کے ساتھ کھیلنے لگا) کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺنے مجھے میری گدی کے پیچھے سے پکڑ لیا ہے جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے ۔ آپ نے (پیار سے) فرمایا: اے انیس! تو اس کام کے لیے گیا ہے جس کا میں نے تجھے حکم دیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں‘ اب جاتا ہوں یارسول اللہﷺ!

عَنْ یَزِیْدَ بْنِ بَابْنُوْسَ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقُلْتُ : یَااُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! مَا کَانَ خُلُقَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ؟ قَالَتْ : کَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ الْقُرْآنَ۔ ثُمَّ قَالَتْ : اَتَقْرَئُ وْنَ سُوْرَۃَالْمُؤْمِنِیْنَ؟ قُلْنَا : نَعَمْ ۔قَالَتْ : اقْرَاْہ فَقَرَاْتُ : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَ تِھِمْ خٰشِعُوْنَ o ، حَتّٰی بَلَغَ: وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَo}، فَقَالَتْ: ھٰکَذَا کَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ )) ۔

(ورواہ النسائي فی الکبریٰ: ۱۱۳۵۰ عن قتیبۃ بن سعید: عن جعفر (بن سلیمان بہ ) و للحدیث شواھد ۔)

سیدنا یزید بن بابنوس (تابعی) سے روایت ہے کہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: اے ام المومنین! رسول اللہ ﷺ کا اخلاق کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ پھر کہا: کیا تم سورۃ المؤمنون (زبانی) پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں‘ تو انھوںنے کہا: پڑھو ‘ تو میںنے پڑھی۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَoالَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَ تِہِمْ خٰشِعُوْنَ o }

’’مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع (اور عاجزی) کرتے ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ میں(آیت نمبر9)

وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ o }

’’اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘

تک پہنچا تو انھوںنے فرمایا: اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا اخلاق تھا۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ :مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِیَدِہٖ شَیْئًا قَطُّ إِلاَّ اَنْ یُّجَاھِدَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَلَا ضَرَبَ خَادِمًا وَلَا امْرَاَۃً ۔( اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۳۴۷ مسلم، الفضائل باب مباعدتہ ا للآثام ۔ح ۲۳۲۸ حدیث عبدۃ بن سلیمان بہ۔ [السنۃ : ۳۶۶۷])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے اللہ کے راستے میں جہاد کے علاوہ کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ نہ کسی خادم کو مارا اورنہ کسی عورت کو مارا۔

عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَّلاَ مُتَفَحِّشًا،وَکَانَ یَقُوْلُ ((خِیَارُکُمْ اَحَاسِنُکُمْ اَخْلَاقًا ))۔

(صحیح البخاري:۳۵۵۹، ۳۷۵۹، ۶۰۲۹، ۶۰۳۵ ومسلم: ۲۳۲۱ من حدیث الاعمش بہ۔ [السنۃ : ۳۶۶۶])

سیدنا عبداللہ بن عمرو (بن العاص رضی اللہ عنہا )نے فرمایا کہ یقینا رسو ل اللہ ﷺ فاحش اور بے ہودہ گو نہیں تھے اور آپ فرمایا کرتے تھے: تم میں سے بہتر وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّہَا قَالَتْ : لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَاحِشًا وَّلَا مُتَفَحِّشًا، وَلَا سَخَّابًا فِی الْاَسْوَاقِ وَلَا یَجْزِي بِالسَّیِّئَۃِ السَّیِّئَۃَ: وَلٰکِنْ یَّعْفُوْ وَیَصْفَحُ (إسنادہ صحیح، الترمذي فی الشمائل :۳۴۶ والسنن: ۲۰۱۶ ۔ [السنۃ :۳۶۶۸])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ رسول اللہﷺ فحش گو اور بے حیائی کی گفتگو کرنے والے نہیں تھے۔ نہ آپ بازاروں میں شور مچاتے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے بلکہ آپ معاف فرمادیتے اور درگزر فرماتے تھے۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ : لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ سَبَّابًا وَلَا فَحَّاشًا وَلَا لَعَّانًا، کَانَ یَقُوْلُ لِاَحَدِنَا عِنْدَ الْمَعْتِبَۃِ : مَالَہٗ تَرِبَ جَبِیْنُہٗ۔

(صحیح البخاري، الادب باب ۳۸ ح ۶۰۳۱ و ۶۰۴۶ من حدیث فلیح بہ ۔ [السنۃ: ۳۶۶۹])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ گالیاں دینے والے‘ فحش گو اور لعن طعن کرنے والے نہیں تھے۔ آپ جس پر عتاب فرماتے تو کہتے: اسے کیا ہوگیا اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔

بے مثال صبر وتحمل و درگزر

عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِيِّ ا قَالَتْ : مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فِيْ اَمْرَیْنِ إِلاَّ اَخَذَ اَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا، فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ ۔ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لِنَفْسِہٖ، إِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِہَا(اخرجہ مالک فی الموطا(۲/۹۰۲، ۹۰۳ روایۃ ابي مصعب ۱۸۸۲) البخاري: ۳۵۶۰ مسلم: ۷۷/۲۳۲۷ من حدیث مالک بہ ۔ [السنۃ: ۳۷۰۳])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۂ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب بھی رسول اللہﷺکو دو کاموں میں سے (ایک کا) اختیار دیا گیا تو آپ نے آسان کام ہی اختیار کیا جب تک کہ اس میں (کوئی) گناہ نہیں تھا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ الا یہ کہ اگر اللہ کی حرمت کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ : مَارَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مُنْتَصِرًا مِنْ مَظْلِمَۃٍ ظُلِمَھَا قَطُّ، مَالَمْ یُنْتَھَکْ مِنْ مَحَارِمِ اللہِ شَيْئٌ فَإِذَا انْتُھِکَ مِنْ مَّحَارِمِ اللہِ شَيْئٌ کَانَ مِنْ اَشَدِّھِمْ فِيْ ذٰلِکَ غَضَبًا، وَمَا خُیِّرَ بَیْنَ اَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ اَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ مَاْثَمًا ۔(اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۳۴۸ و مسلم: ۲۳۲۷ عن احمد بن عبدۃ بہ مختصرًا ۔)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ ﷺکو کسی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک کہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا نہ جائے اور اگر اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا جاتا تو آپ اس پر سب سے زیادہ غصہ فرماتے تھے اور جب بھی دو کاموں کے درمیان آپ ﷺ کو اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَسَمَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ قَسْمًا فَقَالَ رَجُلٌ : مَا اُرِیْدَ بِہٰذَا وَجْہَ اللہِ فَاَتَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ فَتَمَعَّرَ وَجْھُہٗ ثُمَّ قَالَ : (( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ اُوْذِيَ بِمَا ھُوَ اَشَدُّ مِنْ ھٰذَا فَصَبَرَ ))

(بخاري، الادب باب من اخبر صاحبہ بما یقال فیہ:۶۰۵۹ من حدیث سفیان الثوري بہ مسلم : ۱۰۶۲ من حدیث الاعمش بہ ۔ [السنۃ : ۳۶۷۱])

سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے (ایک دفعہ غنیمت) کا مال تقسیم کیا تو ایک آدمی نے کہا: اس تقسیم کے ساتھ اللہ کی رضا مندی مطلوب نہیں۔ تو میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور یہ بات آپ کو بتائی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا پھر آپ نے فرمایا: اللہ موسیٰ علیہ ا لسلام پر رحم کرے۔ انھیں اس سے زیادہ تکلیف دی گئی ہے پھر انھوںنے صبر کیا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کُسِرَتْ رَبَاعِیَّۃُ النَّبِيِّ ﷺ یَوْمَ اُحُدٍ وَشُجَّ فَجَعَلَ الدَّمُ یَسِیْلُ عَلٰی وَجْھِہٖ وَھُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ وَیَقُوْلُ:(( کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ )) فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی : لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ ۔ ( الترمذي: ۳۰۰۲، ۳۰۰۳ وابن ماجہ:۴۰۲۷ وغیرھما من حدیث حمید الطویل بہ ولہ شواھد عند البخاري ومسلم (۱۷۹۱) وغیرہما)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: احد والے دن‘ نبی کریم ﷺ کے اگلے دونوں دانت شہید ہوگئے اور آپ کا سر مبارک زخمی ہوا۔ آپ ﷺ کے چہرے پر خون بہہ رہا تھا اور آپ اسے پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: وہ قوم کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون سے رنگا ہے حالانکہ وہ انھیں ان کے رب کی طرف دعوت دے رہا ہے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:

لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ (سورۃ اٰل عمران : ۱۲۸)

’’آپ ﷺ کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں ہے‘‘۔

عَنْ جُنْدُبٍ یَقُوْل: بَیْنَمَا النَّبِيُّ ﷺ یَمْشِيْ إِذْ اَصَابَہٗ حَجَرٌ فَعَثَرَ فَدَمِیَتْ اَصْبَعُہٗ، فَقَالَ : ((ھَلْ اَنْتِ إِلَّااَصْبَعٌ دَمِیْتِ، وَفِيْ سَبِیْلِ اللہِ مَا لَقِیْتِ )) ۔ (صحیح البخاري، الادب باب ما یجوز من الشعر: ۶۱۴۶ مسلم: ۱۷۹۶ ۔[السنۃ: ۳۰۴۱])

سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ چل رہے تھے آپ کو ایک پتھر آلگا۔ پس آپ گرگئے اور آپ کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ نے فرمایا: تو ایک انگلی ہے جو زخمی ہوئی ہے تجھے جوپہنچا وہ اللہ کے راستے میں (جہاد) سے پہنچا ہے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : جَائَ الطُّفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ دَوْسًا قَدْ عَصَتْ وَاَبَتْ فَادْعُ اللّٰہَ عَلَیْھَا، فَاسْتَقْبَلَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺالْقِبْلَۃَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ فَقَالَ النَّاسُ : ھَلَکَتْ دَوْسٌ، فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اھْدِ دَوْسًا وَاْتِ بِہِمْ)) (اخرجہ الإمام الشافعي فی الام ۱/۱۶۲ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا: یارسول اللہ! بے شک دوس (قبیلے) نے نافرمانی اور انکار کیا ہے پس آپ ان کے لئے بددعا فرمائیں تو رسول اللہﷺ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھالیے۔ لوگوں نے کہا: (دوس والے) ہلاک ہوگئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ دوس کو ہدایت دے اور انھیں (میرے پاس) لے آ۔

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ الْیَھُوْدَ اَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ فَقَالُوْا: اَلسَّامُ عَلَیْکَ ، قَالَ : ((وَعَلَیْکُمْ))۔ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: السَّامُ عَلَیْکُمْ، وَلَعَنَکمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : ((مَھْلًا یَا عَائِشَۃُ! عَلَیْکِ بِالرِّفْقِ وَإِیَّاکَ وَالْعُنْفَ اَوِ الْفُحْشَ))، قَالَتْ : لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوْا؟ قَالَ: (( اَوَلَمْ تَسْمَعِيْ مَا قُلْتُ؟ رَدَدْتُّ عَلَیْھِمْ فَیُسْتَجَابُ لِيْ فِیْھِمْ، وَلَا یُسْتَجَابُ لَھُمْ فِيَّ ))۔(صحیح البخاري، الادب باب ۳۸ ح ۶۰۳۰ مسلم : ۲۱۶۵۔ [السنۃ : ۳۳۱۳])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺکے پاس یہودی آئے تو کہا: السام علیک ( آپ پر موت ہو) آپ ﷺ نے فرمایا: وعلیکم یعنی اور تم پر بھی ہو‘ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے (یہودیوں سے) کہا: السام علیکم اور تم پر اللہ کی لعنت اور غضب ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ٹھہر جائو اے عائشہ! تمھیں نرمی کرنی چاہیے سختی اورفُحش سے بچنا چاہئے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ نے نہیں سنا کہ انھوںنے کیا کہا: فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا جو میں نے جواب دیا؟ میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی۔ میری دعا ان کے بارے میں قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا میرے بارے میں قبول نہیں ہوتی۔

ناپسندیدہ چیزوں سے اعراض

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ رَجُلًا اسْتَاْذَنَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ:ائْذَنُوْا لَہٗ فَبِئْسَ رَجُلُ الْعَشِیْرِ، اَوْ بِئْسَ رَجُلُ الْعَشِیْرَۃِ، فَلَمَّا دَخَلَ اَلاَنَ لَہُ الْقَوْلَ۔ قَالَتْ عَائِشَۃُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قُلْتَ لَہُ الَّذِيْ قُلْتَ، فَلَمَّا دَخَلَ اَلَنْتَ لَہُ الْقَوْلَ؟ قَالَ: (( یَا عَائِشَۃُ! إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؛ مَنْ وَدَعَہٗ اَوْتَرَکَہُ النَّاسُ اتِّقَائَ فُحْشِہٖ ))۔(صحیح البخاري، الادب باب ما یجوز من اغتیاب اھل الفساد والریب: ۶۰۵۴ مسلم، البروالصلۃ باب مداراۃ من یتقیٰ فحشہ : ۲۵۹۱ کلاھما من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ ۔[السنۃ : ۳۵۶۳])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا: اسے اجازت دے دو‘ یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے جب وہ اندر داخل ہوا توآپﷺ نے اس سے نرمی سے بات کی (جب وہ چلا گیا تو) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے (پہلے) وہ بات فرمائی۔ (لیکن) جب وہ اندر آیا تو آپ نے اس سے نرمی سے بات کی؟ آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے برے ٹھکانے والا وہ شخص ہوگا جسے لوگ اس کی فحش گوئی سے ڈرتے ہوئے چھوڑدیں۔وہ فحش گو آدمی تھا۔ آپﷺ نے اس لیے نرمی سے بات کی کہ کہیں فحش گوئی کرکے وہ آپ کی گستاخی نہ کردے پھر جہنمی بن جائے۔ سبحان اللہ آپﷺ کتنے مہربان تھے۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا بَلَغَہٗ عَنْ رَّجُلٍ شَيْئٌ لَمْ یَقُلْ لَہٗ قُلْتَ :کَذَا وَکَذَا، قَالَ: ((مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَقُوْلُوْنَ کَذَا وَکَذَا؟)) ۔
(بخاري:۶۱۰۱ ومسلم : ۲۳۵۶ من حدیث الاعمش بہ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (ہی)سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کو جب کسی آدمی سے کوئی (غلط) چیز معلوم ہوتی تو اس سے یہ نہ کہتے کہ تونے یہ کام کیا ہے؟ یا یہ بات کہی ہے بلکہ فرماتے: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں؟

نرم خوئی اور قبولِ عذر

عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِيِّؓ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ ، فَقُلْتُ : یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ۔ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِاَبْصَارِھِمْ، فَقُلْتُ : وَا ثُکْلَ اُمِّیَاہْ مَا شَاْنُکُمْ تَنْظُرُوْنَ إِلَيَّ، فَجَعَلُوْا یَضْرِبُوْنَ اَیْدِیَھُمْ عَلٰی اَفْخَاذِھِمْ فَعَرَفْتُ اَنَّھُمْ یُصَمِّتُوْنِّيْ۔ فَلَمَّا صَلّٰی رَسُوْلُ اللہِ ﷺ ؛ بِاَبِيْ ھُوَ وَاُمِّيْ مَا ضَرَبَنِيْ وَلَا کَرِھَنِيْ وَلَا سَبَّنِيْ، ثُمَّ قَالَ: (( إِنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَحِلُّ فِیْھَا شَيْئٌ مِّنْ کَلاَمِ النَّاسِ؛ إِنَّمَا ھِيَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ)) ۔ اَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ (صحیح، اخرجہ ابوداود في سننہ : ۹۳۰ مسلم : ۵۳۷ ۔[السنۃ : ۷۲۶])

سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک) نماز پڑھی تو لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے کہا: یرحمک اللّٰہ ‘ اللہ تجھ پر رحم کرے۔ لوگوں نے مجھے آنکھوں سے گھورنا شروع کردیا۔ پس میں نے کہا: ہائے میری ماں مجھے گم کردے تم مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ وہ اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے چپ کرانا چاہتے ہیں پھر جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آپ نے نہ مجھے مارا اور نہ مجھ سے نفرت کی اور نہ برا بھلا کہا۔ پھر فرمایا: یقینا اس نماز میں لوگوں کی کوئی بات حلال نہیں ہے یہ تو صرف تسبیح‘ تکبیر اور قراء ت قرآن ہے یا جس طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : اُتِيَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: اضْرِبُوْہُ۔ فَمِنَّا الضَّارِبُ بِیَدِہٖ، وَمِنَّا الضَّارِبُ بِنَعْلِہٖ، وَمِنَّا الضَّارِبُ بِثَوْبِہٖ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : اَخْزَاکَ اللّٰہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( لاَ تَقُوْلُوْا ھٰکَذَا، وَلَا تُعِیْنُوا الشَّیْطَانَ عَلَیْہِ، وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا : رَحِمَکَ اللّٰہُ )) ۔(بخاري:۶۷۸۱ عن علي بن عبداللہ بن جعفر المدیني بہ ۔)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے مارو۔ ہم میں سے کوئی اسے ہاتھ سے مارتا او رکوئی جوتے سے اور کوئی اپنے کپڑے سے مارتا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو بعض لوگوں نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ایسی باتیں نہ کرو‘ اس پر شیطان کی مدد نہ کرو بلکہ یہ کہو: اللہ تجھ پر رحم کرے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِامْرَاَۃٍ تَبْکِيْ عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ : (( اتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِيْ )) ، قَالَتْ : إِلَیْکَ عَنِّيْ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیْبَتِيْ ـ وَلَمْ تَعْرِفْہُ ـ فَقِیْلَ لَھَا : إِنَّہُ النَّبِيُّ ﷺ ، فَاَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ ﷺ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہٗ بَوَّابِیْنَ، فَقَالَتْ : لَمْ اَعْرِفْکَ، فَقَالَ : ((إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی ))۔(بخاري، الجنائز باب زیارۃ القبور : ۱۲۸۳، مسلم : ۹۲۶)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس رو رہی تھی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور صبر کرو‘‘۔ وہ عورت کہنے لگی: ’’آپ مجھ سے دور رہیں‘ آپ کو میری جیسی مصیبت نہیں پہنچی ہے‘‘ اس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ جب اس سے کہا گیا کہ یہ نبی کریم ﷺ ہیں تو وہ نبی مکرم ﷺ کے (گھر کے) دروازے پر آئی تو کوئی دربان نہ پایا۔ اس نے کہا: میں نے آپ کو نہیں پہچانا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: صبر صدمے کے شروع وقت ہی ہوتا ہے (بعد میں صبر آ ہی جاتا ہے)

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : اسْتَحْمَلَ اَبُوْمُوْسٰی رَسُوْلَ اللہِ ﷺ ، فَوَافَقَ مِنْہُ شُغْلاً، فَقَالَ ((وَاللہِ لَا اَحْمِلُکَ )) فَلَمَّا قَفَا دَعَاہُ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللہِ قَدْ حَلَفْتَ اَنْ لَّا تَحْمِلَنِيْ، قَالَ : ((وَاَنَا اَحْلِفُ لَاَحْمِلَنَّکَ)) فَحَمَلَہٗ ۔ (اخرجہ احمد (۳/۱۰۸، ۱۷۹، ۲۳۵، ۲۵۰) من حدیث حمیدالطویل بہ وصرح بالسماع وللحدیث شاھد)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ (ہی)سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہﷺ سے سواری مانگی پھر آپ (کسی کام میں) مشغول ہوگئے تو فرمایا: اللہ کی قسم میں تجھے سوار نہیں کروں گا۔ جب وہ چلے گئے تو آپ نے انھیں بلایاتو انھوںنے کہا: یارسول اللہ ﷺ آپ نے قسم کھائی ہے کہ مجھے سوار نہیں کریں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: اور (اب) میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور تجھے سوار کروں گا۔ پھر آپ نے اسے سوار کیا (اور قسم کا کفارہ ادا کردیا)

عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ رَجُلاً سَھْلًا، إِذَا ھَوِیَتْ ـ یَعْنِيْ عَائِشَۃَ ـ الشَّيْئَ تَابَعَھَا عَلَیْھَا، فَاَرْسَلَھَا مَعَ عَبْدِالرَّحْمٰنِ فَاَھَلَّتْ بِعُمْرَۃٍ مِنَ التَّنْعِیْمِ ۔ (مسلم، الحج باب بیان وجوہ الإحرام إلخ: ۱۲۱۳ )

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نرم برتائو کرنے والے انسان تھے۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کوئی چیز چاہتیں تو اسے پورا کرتے۔ آپ نے انھیں (ان کے بھائی) عبدالرحمن (بن ابی بکر) کے ساتھ بھیجا تو انھوںنے تنعیم سے عمرے کا احرام باندھا۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( إِنِّيْ لَاَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّيْ رَاضِیَۃً، وَإِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبٰی )) ۔ فَقُلْتُ : مِنْ اَیْنَ تَعْرِفُ ذٰلِکَ؟ فَقَالَ لَھَا: (( إِذَا کُنْتِ عَنِّيْ رَاضِیَۃً ؛ فَإِنَّکِ تَقُوْلِیْنَ : لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا کُنْتِ غَضْبٰی؛ قُلْتِ : لَا وَرَبِّ إِبْرَاھِیْمَ ))۔ قُلْتُ : اَجَلْ، وَاللہِ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَا اَھْجُرُ إِلاَّ اسْمَکَ ۔ (صحیح البخاري، النکاح باب غیرۃ النساء ووجدھن: ۵۲۲۸، مسلم: ۲۴۳۹)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ تو جب مجھ سے راضی ہوتی ہے اور جب ناراض ہوتی ہے میں نے کہا: آپ کیسے جانتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو مجھ سے راضی ہوتی ہے تو کہتی ہے نہیں محمد (ﷺ)کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے نہیں ابراہیم کے رب کی قسم‘ میںنے کہا: جی ہاں‘ اللہ کی قسم‘ اے اللہ کے رسول! میں صرف آپ کا نام لیناچھوڑ دیتی ہوں۔

رحمت و شفقت ِ نبی مکرم ﷺ

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ : (( إِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ فَاِنَّ فِیْھِمُ السَّقِیْمَ وَالضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ وَاِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِنَفْسِہٖ فَلْیُطَوِّلْ مَا شَائَ)) (اخرجہ مالک فی الموطا (۱/۱۳۴ روایۃ ابي مصعب: ۳۳۶) البخاري:۷۰۳ من حدیث مالک بہ۔ [السنۃ : ۸۴۳])

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے‘ کیونکہ ان میں بیمار‘ کمزور اور بوڑھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور جب خود اکیلے نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِک ٍؓ حَدَّثَ : اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : (( إِنِّيْ لَاَدْخُلُ فِی الصَّلَاۃِ وَاَنَا اُرِیْدُ إِطَالَتَھَا فَاَسْمَعُ بُکَائَ الصَّبِيِّ فَاَتَجَوَّزُ فِيْ صَلاَتِيْ مِمَّا اَعْلَمُ مِنْ شِدَّۃِ وَجْدِ اُمِّہٖ مِنْ بُکَائِہٖ ))۔
(بخاري، الاذان باب من اخف الصلٰوۃ عند بکاء الصبي : ۷۰۹ مسلم: ۴۷۰۔ [السنۃ : ۸۴۵])

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اوراسے لمبا کرنا چاہتا ہوں تو (کسی) بچے کا رونا سن لیتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کردیتا ہوں‘ کیونکہ مجھے علم ہوتا ہے کہ اس بچے کی ماں پر اس کے رونے سے سخت اثر ہوتا ہے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ادْعُ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ ۔ قَالَ : (( إِنِّيْ لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً ))۔(مسلم، البر والصلۃ باب النھي عن لعب الدواب وغیرھا : ۲۵۹۹ ۔)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ مشرکوں کے لئے بددعا کریں‘ تو آپ نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیابلکہ مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَبَّلَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ؛ وَعِنْدَہُ الْاَقْرَعُ بْنُ حَابِسِ التَّمِیْمِيُّ جَالِسٌ، فَقَالَ الْاَقْرَعُ : إِنَّ لِيْ عَشَرَۃً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْھُمْ اَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَیْہِ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ ثُمَّ قَالَ : (( مَنْ لَّا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ))

(صحیح البخاري، الادب باب رحمۃ الولد ومعانقتہ وتقبیلہ:۵۹۹۷، مسلم:۲۳۱۸۔[السنۃ : ۳۴۴۶])

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (ہی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بوسہ لیا اور آپ ﷺ کے پاس اقرع بن حابس التمیمی رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے تو اقرع نے کہا: میرے دس بچے ہیں میں نے ان کا کبھی بوسہ نہیں لیا تو رسول اللہﷺ نے اس کی طرف دیکھا پھر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : دَخَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ عَلٰی اَبِيْ سَیْفِ الْقَیْنِ، وَکَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاھِیْمَ ، فَاَخَذَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ (إِبْرَاھِیْمَ) فَقَبَّلَہٗ وَشَمَّہٗ ۔ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ وَإِبْرَاھِیْمُ یَجُوْدُ بِنَفْسِہٖ، فَجَعَلَتْ عَیْنَا رَسُوْلِ اللہِ ﷺ تَذْرِفَانِ، فَقَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ : وَاَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ :(( یَاابْنَ عَوْفٍ إِنَّھَا رَحْمَۃٌ )) ۔ ثُمَّ اَتْبَعَھَا بِاُخْرٰی، فَقَالَ : (( إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ، وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا یَرْضَی رَبَّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَاإِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ))

(صحیح البخاري، الجنائز باب قول النبي ﷺ إنا بک لمحزونون:۱۳۰۳مسلم، الفضائل باب رحمتہ بالصبیان والعیال: ۲۳۱۵۔ [السنۃ : ۱۵۲۸] )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابوسیف لوہار کے پاس گئے۔ وہ (آپﷺ کے بیٹے) ابراہیم کے رضاعی باپ تھے۔ تو رسول اللہﷺ نے ابراہیم کو (اٹھا) لیا پھر اس کا بوسہ لیا اور اسے منہ سے لگایا۔ پھر اس کے (کچھ عرصہ) بعد ہم اس کے پاس گئے تو ابراہیم کا سانس نکل رہا تھا رسو ل اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہوگئے تو عبدالرحمن بن عوف نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ بھی (رو رہے ہیں)؟فرمایا: ’’اے ابن عوف‘ یہ رحمت ہے‘‘ پھر اس کے بعد فرمایا: بے شک آنکھ روتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم صرف وہی کہتے ہیں جس پر ہمارا رب راضی ہے اور اے ابراہیم! بے شک ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں۔

عَنْ اَبِيْ قَتَادَۃَ السُّلَمِيِّ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ کَانَ یُصَلِّيْ وَھُوَ حَامِلٌ اُمَامَۃَ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَھَا، وَإِذَا قَامَ رَفَعَھَا (مالک فی الموطا(۱/۱۷۰ وروایۃ ابي مصعب: ۵۶۶) البخاري:۵۱۶، مسلم: ۵۴۳ من حدیث مالک بہ۔ [السنۃ : ۷۴۲]

سیدنا ابوقتادہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنی چھوٹی نواسی) امامہ کو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے رکھ دیتے اور جب اٹھتے تو اسے اٹھا لیتے تھے۔

رسول مکرم ﷺ کی چھینک

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ إِذَا عَطَسَ غَطّٰی وَجْھَہٗ بِثَوْبِہٖ اَوْ یَدِہٖ ثُمَّ غَضَّ بِہَا صَوْتَہٗ ۔(ابوداود: ۵۰۲۹ والترمذي: ۲۷۴۵ من حدیث یحي القطان بہ وقال : ’’حسن صحیح‘‘۔ [السنۃ : ۳۳۴۶])

سیدنا ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ جب چھینک لیتے تو اپنے چہرے کو اپنے کپڑے یا ہاتھ سے ڈھانپ لیتے پھر اپنی آواز آہستہ کرلیتے تھے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِذَا عَطَسَ خَمَّرَ وَجْھَہٗ وَخَفَضَ صَوْتَہٗ ۔

(وللحدیث شواھد عند الحمیدي (۱۱۶۰) وغیرہ وانظر الحدیث السابق )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب چھینک لیتے تو آپ اپنا چہرہ ڈھانپ لیتے تھے اور آواز آہستہ کرلیتے تھے۔

پیکر حیا اور سکوت و کلام

عَنْ اَبِيْ سَعِیْدِ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ (عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ) قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اَشَدَّ حَیَائً مِنْ عَذْرَائَ فِيْ خِدْرِھَا ۔ وَکَانَ إِذَا کَرِہَ شَیْئًا رَاَیْنَاہُ فِيْ وَجْھِہٖ ۔(البخاري:۶۱۱۹ عن علي بن الجعد، ومسلم:۲۳۲۰ بہ۔ [السنۃ : ۳۶۹۳])

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پردہ نشین کنواری سے بھی زیادہ حیا کرنے والے تھے۔ جب آپ کسی چیز کو ناپسند کرتے تو اس ناپسندیدگی کا اثر ہم آپ کے چہرے سے دیکھ لیتے تھے۔

عَنْ عَائِشَۃَ : اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یُحَدِّثُ حَدِیْثًا لَوْ عَدَّہُ الْعَادُّ لَاَحْصَاہُ۔ (صحیح البخاري، المناقب باب صفۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم:۳۵۶۷ مسلم، الزھد، باب التـثبت فی الحدیث: ۲۴۹۳ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک بات (کو ٹھہر ٹھہر کر) بیان کرتے تھے۔ اگر کوئی (آپﷺ کی باتوں کو) گننے والا ہوتا تو اسے گن لیتا ۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَسْرُدُ سَرْدَکُمْ ھٰذَا، وَلٰکِنَّہٗ کَانَ یَتَکَلَّمُ بِکَلاَمٍ بَیِّنَۃٍ فَصْلٍ، یَحْفَظُہٗ مَنْ جَلَسَ إِلَیْہِ ۔ (اخرجہ الترمذي:۳۶۳۹ والشمائل:۲۲۲، مسلم: ۲۴۹۳ من حدیث الزھري وعلقہ البخاري:۳۵۶۸۔ [السنۃ : ۳۶۹۶])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (ہی) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ٹھہر ٹھہر کر صاف وواضح کلام فرماتے تھے جو آپ ﷺ کے پاس بیٹھتا اسے یاد کرلیتا تھا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ اَنَّہٗ کَانَ إِذَا تَکَلَّمَ بِکَلِمَۃٍ اَعَادَھَا ثَلاَثًا حَتّٰی تُفْھَمَ عَنْہُ، وَإِذَا اَتٰی عَلٰی قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ، سَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثَلاَثًا ۔(صحیح البخاري، العلم، باب من اعاد الحدیث ثلاثًا لیفہم عنہ: ۹۴ [السنۃ : ۱۴۱])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کلام فرماتے تو اپنی بات کا تین دفعہ اعادہ فرماتے تاکہ لوگ اسے (اچھی طرح)سمجھ لیں اور جب کسی قوم کے پاس جاتے تو (اجازت لینے کے لیے) انھیں تین مرتبہ سلام کہتے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: جَالَسْتُ النَّبِيَّ ﷺ اَکْثَرَ مِنْ مِائَۃِ مَرَّۃٍ، وَکَانَ اَصْحَابُہٗ یَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ، وَیَتَذَاکَرُوْنَ اَشْیَائَ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ، وَھُوَ سَاکِتٌ، وَرُبَمَا یَتَبَسَّمُ مَعَھُمْ (اخرجہ الترمذي: ۲۸۵ والشمائل: ۲۴۶ مسلم: ۲۳۲۲ ۔[السنۃ : ۳۴۱۱])

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس سو دفعہ سے زیادہ بیٹھا ہوں۔ آپ کے صحابہ اشعار پڑھتے اور جاہلیت کی چیزوں کا ذکر کرتے تھے۔ آپ خاموش رہتے تھے اور کبھی کبھار ان کے ساتھ مسکرادیتے تھے۔

عَنْ اَبِي الدَّرْدَائِ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِذَا حَدَّثَ بِحَدِیْثٍ تَبَسَّمَ فِيْ حَدِیْثِہٖ ۔(احمد ۵/۱۹۸، ۱۹۹ من حدیث ام الدرداء بہ، عبد الرحمٰن بن میسرۃ الحضرمي حسن الحدیث۔)

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺ جب (ہنسی مذاق) کی کوئی بات کرتے تو مسکرا دیتے تھے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ فِی الْاَیَّامِ کَرَاھَۃَ السَّآمَۃِ۔ (بخاري، العلم باب ما کان النبي ﷺ یتخولھم بالموعظۃ : ۶۸ )

سیدنا(عبداللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ ہمیں (روزانہ کی بجائے) بعض دنوں میں درس دیتے تھے تاکہ ہم تنگی محسوس نہ کریں۔

جرأت و شجاعت نبی ﷺ

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ، وَاَجْوَدَ النَّاسِ، وَاَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَھُمُ النَّبِيُّ اقَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَی الصَّوْتِ وَھُوَ یَقُوْلُ: (( لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوْا )) وَھُوَ عَلٰی فَرَسٍ لِاَبِيْ طَلْحَۃَ عُرْيٍ مَا عَلَیْہِ سَرْجٌ ، فِيْ عُنُقِہٖ سَیْفٌ ۔ فَقَالَ: ((لَقَدْ وَجَدْتُّہٗ بَحْرًا )) ، اَوْ إِنَّہٗ لَبَحْرٌ۔(البخاري، الادب باب حسن الخلق والسخاء:۶۰۳۳مسلم، الفضائل باب شجاعتہ : ۲۳۰۷)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ایک رات (کسی وجہ سے) مدینہ والے ڈر گئے۔ پھر لوگ اس (ڈراؤنی) آواز کی طرف چلے تو ان کے سامنے نبی کریم ﷺ آگئے۔ آپ لوگوں سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ فرما رہے تھے: ڈرو نہیں‘ ڈرو نہیں۔ آپﷺ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی (بغیر زین والی) ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس گھوڑے کو سمندر جیسا (تیز) پایا ہے۔

سَاَلَ رَجُلٌ الْبَرَائَ فَقَالَ: یَا اَبَاعُمَارَۃَ، اَوَلَّیْتُمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ؟ قَالَ الْبَرَائُ وَاَنَا اَسْمَعُ : اَمَّا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لَمْ یُوَلِّ یَوْمَئِذٍ، کَانَ اَبُوْسُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ اَخِذًا بِعِنَانِ بَغْلَتِہٖ، فَلَمَّا غَشِیَہُ الْمُشْرِکُوْنَ نَزَلَ فَجَعَلَ یَقُوْلُ :اَنَــــا الــنَّــبِـيُّ لَا کَـــذِبْ‘ اَنَــــا ابْـــنُ عَـبْـدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ : فَمَا رَاَی النَّاسُ یَوْمَئِذٍ اَشَدَّ مِنْہُ۔

(صحیح البخاري، الجھاد باب من قال خذھا وانا فلان: ۳۰۴۲، مسلم:۱۷۷۶ من حدیث ابي إسحاق السبیعي بہ )

ایک آدمی نے براء رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوعمارہ! کیا آپ (جنگ) حنین والے دن بھاگ گئے تھے۔ براء نے کہا: رسول اللہﷺ نہیں بھاگے تھے۔ ابوسفیان آپ کی خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے جب آپ کے ارد گرد مشرکین چھا گئے تو آپ یہ کہتے ہوئے نیچے اتر آئے۔

اَنَــــا الــنَّــبِـيُّ لَا کَـــذِبْ

اَنَــــا ابْـــنُ عَـبْـدِالْمُطَّلِبْ

’’میںنبی ہوں۔اس میں کوئی جھوٹ نہیں میں عبد المطلب (کے بیٹے) کا بیٹا ہوں‘‘۔

لوگوں میں آپﷺ سے زیادہ کوئی دلیر نہیں دیکھا گیا۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کُنَّا إِذَا حَمِيَ الْبَاْسُ، وَلَقِيَ الْقَوْمُ الْقَوْمَ؛ اتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اللہِ ﷺ ، فَمَا یَکُوْنُ اَحَدٌ اَقْرَبَ إِلَی الْعَدُوِّ مِنْہُ ۔(النسائي فی السنن الکبریٰ: ۸۶۳۹ واحمد ۱/ ۱۵۶ من حدیث زھیر بن معاویۃ ابي خیثمۃ بہ وانظر الحدیث الآتي ۔ [السنۃ : ۳۶۹۸])

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوتا اور جنگ تیز ہوجاتی تو ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے پناہ لیتے تھے۔ آپ ﷺ سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہیں ہوتا تھا۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَقَدْ رَاَیْتُنِيْ یَوْمَ بَدْرٍ، وَنَحْنُ نَلُوْذُ بِالنَّبِيِّ ﷺ ، وَھُوَ اَقْرَبُنَا إِلَی الْعَدُوِّ، وَکَانَ مِنْ اَشَدِّ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ بَاْسًا ۔(احمد ۱/۸۶ عن وکیع بہ وصححہ الحاکم ۲/۱۴۳ ووافقہ الذھبي، [السنۃ : ۳۶۹۹])

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بدر کے دن دیکھا کہ نبی ﷺدشمن کے زیادہ قریب تھے اورہم آپﷺ کے پیچھے پناہ پکڑے ہوئے تھے۔ آپﷺ اس دن سب سے زیادہ شدید جنگ لڑ رہے تھے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ رضی اللہ عنہ فَقَالَ : إِنَّا یَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ؛ فَعَرَضَتْ کُدْیَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، فَجَائُ وا النَّبِيَّ ﷺ ، فَقَالُوْا: ھٰذِہٖ کُدْیَۃٌ عَرَضَتْ فِی الْخَنْدَقِ، فَقَالَ :(( اَنَا نَازِلٌ )) ، ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُہٗ مَعْصُوْبٌ بِحَجَرٍ وَلَبِثْنَا ثَلاَثَۃَ اَیَّامٍ لَا یَذُوْقُ ذَوَاقًا، فَاَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فَعَادَ کَثِیْبًا اَھْیَلَ اَوْ اَھْیَمَ ۔

(البخاري، المغازي باب غزوۃ الخندق : ۴۱۰۱ )

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم خندق کے دن (زمین) کھود رہے تھے۔ اتنے میں ایک بہت بڑا پتھر آگیا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺکے پاس آئے اور کہا: یہ بہت بڑا پتھر خندق میں آگیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: میں اتر کر آرہا ہوں۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ ہم نے تین دن کچھ بھی نہیں چکھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے کدال لی اور اس پتھر پر ماری تو وہ ریت کے ٹیلے کی طرح ریزہ ریزہ ہوگیا۔

سخاوتِ مصطفیٰ ﷺ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ اَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَیْرِ، وَکَانَ اَجْوَدَ مَا یَکُوْنُ فِيْ رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ ، وَکَانَ جِبْرِیْلُ یَلْقَاہُ کُلَّ لَیْلَۃٍ فِيْ رَمَضَانَ؛ حَتّٰی یَنْسَلِخَ یَعْرِضُ عَلَیْہِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِیَہٗ جِبْرِیْلُ کَانَ اَجْوَدَ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ ۔(البخاري، الصوم باب اجود ما کان النبي ﷺ یکون في رمضان: ۱۹۰۲،مسلم: ۲۳۰۸ )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ بھلائی کے کاموں میں نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے جب رمضان میں جبریل علیہ السلام آپﷺ کے پاس آتے تو آپ بہت زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔ جبریلw آپ کے پاس رمضان کے آخر تک ہر رات تشریف لاتے تھے۔ جب جبریل آپ سے ملتے تو آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللہِ شَیْئًا قَطُّ فَقَالَ: لَا ۔ (بخاري:۶۰۳۴ ومسلم:۲۳۱۱ من حدیث سفیان الثوري بہ۔)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے جو چیز بھی مانگی گئی تو آپ ﷺ نے انکار نہیں کیا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ لَا یَدَّخِرُ شَیْئًا (ترمذي:۲۳۶۲ عن قتیبۃ بہ وقال : ’’غریب‘‘ وصححہ ابن حبان:۲۱۳۹)

سیدنا انس tسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ (کل کے لیے) کوئی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَسَاَلَہٗ فَاَعْطَاہُ غَنَمًا بَیْنَ جَبَلَیْنِ، فَاَتَی الرَّجُلُ قَوْمَہٗ فَقَالَ : اَسْلِمُوْا فَإِنَّ مُحَمَّدًا یُعْطِيْ عَطَائَ رَجُلٍ مَا یَخَافُ فَاقَۃً۔(مسلم:۲۳۱۲ من حدیث حماد بن سلمۃ بہ۔[السنۃ :۳۶۹۱])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کے پاس آکر سوال کیا تو آپ ﷺ نے دو پہاڑوں کے درمیان (جتنی) بکریاں (تھیں) اسے دے دیں۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس گیا تو کہا: لوگو! مسلمان ہوجائو۔ محمدﷺ اس طرح چیزیں دے دیتے ہیں کہ آپ کو فاقے کا کوئی ڈر نہیں ہے۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَقْبَلُ الْھَدِیَّۃَ وَیُثِیْبُ عَلَیْھَا۔

(بخاري:۲۵۸۵ عن حدیث عیسی بن یونس بہ )

سیدہ عائشہ rسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہدیہ قبول کرتے اور اس کے برابر لوٹا دیتے تھے۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ :(( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَوْ اَنَّ عِنْدِيْ اُحُدًا ذَھَبًا لَاَحْبَبْتُ اَنْ لَّا یَاْتِيَ عَلَيَّ ثلَاَثُ لَیَالٍ وَ عِنْدِيْ مِنْہُ دِیْنَارٌ ۔ اَجِدُ مَنْ یَّتَقَبَّلُہٗ مِنِّيْ؛ لَیْسَ شَيْئٌ اُرْصِدُہٗ فِیْ دَیْنٍ عَلَيَّ )) ۔(اخرجہ ھمام بن منبہ في صحیفتہ:۸۳‘البخاري، التمني باب تمني الخیر: ۷۲۲۸ من حدیث عبدالرزاق بہ ۔ [السنۃ ۱۶۵۳])

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہوتا تو میں پسند کرتا کہ تین راتوں میں اس (سونے) میں سے ایک دینار بھی نہ بچے (اگر) اس کے لینے والے مل جائیں (تو میں انھیں دے دوں) سوائے اس چیز کے جس سے میں اپنا قرض اتار سکوں۔

عَنْ اَبِيْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ اَنَّ نَاسًا مِنَ الْاَنْصَارِ سَاَلُوْا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ ، فَاَعْطَاھُمْ، ثُمَّ سَاَلُوْہُ فَاَعْطَاھُمْ حَتّٰی نَفِدَ مَا عِنْدَہٗ، قَالَ : (( مَا یَکُنْ عِنْدِيْ مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ اَدَّخِرَہٗ عَنْکُمْ، وَمَنْ یَّسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللّٰہُ، وَمَنْ یَّسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ، وَمَنْ یَّتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللّٰہُ، وَمَا اُعْطِيَ اَحَدٌ عَطَائً ھُوَ خَیْرٌ وَاَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ ))۔ (مالک فی الموطا(۲/۹۹۷ وروایۃ ابي مصعب:۲۱۰۷)البخاري:۴۶۹ ومسلم: ۱۰۵۳ )

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے مانگا تو آپ نے انھیں دے دیا۔ پھر مانگا تو آپ نے دے دیا حتیٰ کہ آپ ﷺ کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس جو بھی مال ہوگا تو وہ میں تم سے بچا کر نہیں رکھوں گا جو عفت اختیار کرے گا اللہ اسے عفت عطا کرے گا جو بے نیازی چاہے گا اللہ اسے بے نیاز بنا دے گا جو صبر کرے گا اللہ اسے صبر عطا فرمائے گا۔ کسی شخص کو صبر سے بہترین کوئی چیز بھی نہیں دی گئی۔

تواضع ،عاجزی و انکساری

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِذَا صَلَّی الْغَدَاۃَ؛ جَائَ خَدَمُ الْمَدِیْنَۃِ بِآنِیَتِھِمْ فِیْھَا الْمَائُ فَمَا یُؤْتٰی بِاِنَائٍ إِلاَّ غَمَسَ یَدَہٗ فِیْہِ، فَرُبَمَا جَاؤُوْہُ فِی الْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ فَیَغْمِسُ یَدَہٗ فِیْھَا ۔(صحیح مسلم، الفضائل باب قرب النبي ﷺ من الناس وتبرکھم بہ: ۲۳۲۴۔ [السنۃ : ۳۶۷۷])

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب صبح کی نماز پڑھتے تو مدینے کے خدمت گار اپنے برتنوں میں پانی لے آتے پانی کا جو برتن بھی دیا جاتا تو آپﷺ اس میں ہاتھ ڈبودیتے۔ بعض اوقات وہ ٹھنڈی فجر کے وقت بھی پانی اور برتن لے آتے تھے تو آپ ﷺ اس میں (برکت کے لیے) اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے۔

قَالَ اَبُوْ رِفَاعَۃَ : انْتَھَیْتُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ، وَھُوَ یَخْطُبُ، قَالَ : فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! رَجُلٌ غَرِیْبٌ جَائَ یَسْاَلُ عَنْ دِیْنِہٖ لَا یَدْرِيْ مَا دِیْنُہٗ، قَالَ: فَاَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ وَتَرَکَ خُطْبَتَہٗ، حَتَّی انْتَھٰی إِلَيَّ فَاُتِيَ بِکُرْسِيٍّ حَسِبْتُ قَوَائِمَہٗ حَدِیْدًا، قَالَ : فَقَعَدَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ وَجَعَلَ یُعَلِّمُنِيْ مِمَّا عُلِّمَہٗ، ثُمَّ اَتٰی خُطْبَتَہٗ فَاَتَمَّ آخِرَھَا ۔(صحیح مسلم، الجمعۃ باب التعلم فی الخطبۃ: ۸۷۶ )

سیدنا ابورفاعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ! میں اجنبی آدمی ہوں۔ دین سیکھنے کے لیے آیا ہوں‘ دین کے بارے میں کچھ جانتا نہیں ہوں۔ رسول اللہﷺ خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تشریف لائے۔ ایک کرسی لائی گئی جس کے پائے لوہے کے تھے۔ آپ اس کرسی پر بیٹھ گئے اور مجھے دین کے بارے میں سکھاتے رہے۔ پھر اس کے بعد آپ نے جا کر خطبہ دیا اور اس کو اختتام تک پہنچایا۔

عَنِ ابْنِ اَبِيْ اَوْفٰی یَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یُکْثِرُ الذِّکْرَ، وَیُقِلُّ اللَّغْوَ، وَیُطِیْلُ الصَّلَاۃَ وَیَقْصُرُ الْخُطْبَۃَ ۔ وَکَانَ لَا یَاْنَفُ، وَلَا یَسْتَکْبِرُ اَنْ یَّمْشِيَ مَعَ الْاَرْمِلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ فَیَقْضِيْ لَہٗ حَاجَتَہٗ۔ (النسائي(۳/۱۰۹ح ۱۴۱۵) من حدیث الفضل بن موسٰی بہ وصححہ ابن حبان:۲۱۲۹، ۲۱۳۰ والحاکم ۲/۶۱۴ علٰی شرط الشیخین ووافقہ الذھبي ۔)

سیدنا (عبداللہ) ابن ابی اوفیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کثرت سے ذکر کرتے‘ (دنیاوی) باتیں بہت کم کرتے ‘ لمبی نماز پڑھتے اور مختصر خطبہ دیتے تھے اور نہ آپﷺ بیوائوں اور غریبوں کے ساتھ ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلنے سے ہی ہچکچاتے تھے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( لَوْ دُعِیْتُ إِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ وَلَوْ اُھْدِيَ إِلَيَّ ذِرَاعٌ لَقَبِلْتُ )) ۔(اخرجہ البخاري:۲۵۶۸، ۵۱۷۸ من حدیث الاعمش بہ ۔[السنۃ : ۱۶۰۹])

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مجھے بکری کے ہاتھ یا کندھے کی دعوت دے تو قبول کرلوں گا۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یُدْعٰی إِلٰی خُبْزِ الشَّعِیْرِ وَالْإِھَالَۃِ السَّخِنَۃِ فَیُجِیْبُ، وَلَقَدْ کَانَ لَہٗ دِرْعٌ عِنْدَ یَہُوْدِيٍّ؛ فَمَا وَجَدَ مَا یُفَکُّھَا حَتّٰی مَاتَ ۔

( اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۳۳۲ )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو جو کی روٹی اور باسی چربی کی دعوت دی جاتی تو قبول کرلیتے تھے۔ آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس (مرہون) تھی۔ آپ اپنی وفات تک اس رہن کو چھڑا نہ سکے۔

عَنِ الْاَسْوَدِ قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ: مَاکَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَصْنَعُ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ : یَکُوْنُ فِيْ مِھْنَۃِ اَھْلِہٖ ـ یَعْنِيْ خِدْمَۃِ اَھْلِہٖ ـ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ ۔(بخاري، الاذان باب من کان في حاجۃ اھلہ إلخ: ۶۷۶ ۔ [السنۃ : ۳۶۷۸])

اسود (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا نبی کریم ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو انھوںنے فرمایا: گھر والوں کی مدد میں گھر کے کام کرتے رہتے تھے۔ جب نماز کا وقت ہوجاتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔

عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : سَاَلَ رَجُلٌ عَائِشَۃَ، ھَلْ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَعْمَلُ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ : نَعَمْ، کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَخْصِفُ نَعْلَہٗ، وَیَخِیْطُ ثَوْبَہٗ، وَیَعْمَلُ فِيْ بَیْتِہٖ کَمَا یَعْمَلُ اَحَدُکُمْ فِيْ بَیْتِہٖ ۔(صحیح، اخرجہ عبدالرزاق: ۲۰۴۹۶ وللحدیث شواھد منہا الحدیث السابق ۔[السنۃ : ۳۶۷۵])

سیدنا عروہ (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ گھر کے کام (بھی) کرتے تھے انھوںنے کہا: جی ہاں‘ رسول اللہﷺ اپنا جوتا گانٹھتے اور اپنا کپڑا سیتے تھے۔ جس طرح تم اپنے گھر کے کام کرتے ہو وہ بھی اپنے گھر کے کام کرتے تھے۔

(۳۸۹) عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّہَا سُئِلَتْ : مَا کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَصْنَعُ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ: مَا یَصْنَعُ اَحَدُکُمْ فِيْ بَیْتِہٖ یَخْصِفُ النَّعْلَ وَیَرْقَعُ الثَّوْبَ۔

(صحیح البخاري، الاذان باب من کان في حاجۃ اھلہ إلخ: ۶۷۶ ۔ [السنۃ : ۳۶۷۸])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی کریم ﷺ گھر کے کام کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: جس طرح تم اپنے گھر کے کام کرتے ہو وہ جوتا گانٹھتے اور کپڑے کی مرمت کرتے تھے۔

عَنْ عَمْرَۃَ قَالَتْ : قِیْلَ لِعَائِشَۃَ : مَاذَا کَانَ یَعْمَلُ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ : کَانَ بَشَرًامِنَ الْبَشَرِ، یَفْلِيْ ثَوْبَہٗ، وَیَحْلِبُ شَاتَہٗ، وَیَخْدِمُ نَفْسَہٗ ۔
(الترمذي فی الشمائل: ۳۴۱ ۔ [السنۃ : ۳۶۷۶])

سیدہ عمرہ (بنت عبدالرحمن‘ تابعیہ رحمہا اللہ) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: رسول اللہﷺ گھر میں کیا کام کرتے تھے؟ انھوںنے فرمایا: آپﷺ انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اپنے کپڑے میں سے جوئیں نکالتے‘ اپنی بکری کا دودھ دوہتے اور اپنی خدمت کرتے تھے۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَمْ یَکُنْ شَخْصٌ اَحَبَّ إِلَیْھِمْ رُؤْیَۃً مِنْ رَّسُوْلِ اللہِ ﷺ، وَکَانُوْا إِذَا رَاَوْہُ لَمْ یَقُوْمُوْا لِمَا یَعْلَمُوْنَ مِنْ کَرَاھِیَتِہٖ لِذٰلِکَ (اخرجہ الترمذي: ۲۷۵۴ من حدیث عفان بہ وقال :’’ حسن صحیح ۔‘‘)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کو دیکھنا پسند کرتے تھے اور جب وہ آپ کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے‘ کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ آپﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ وَاَبِيْ ذَرٍّ قَالَا: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَجْلِسُ بَیْنَ ظَھْرَانَيْ اَصْحَابِہٖ، فَیَجِيْئُ الْغَرِیْبُ وَلَا یَدْرِیْ اَیُّھُمْ ھُوَ حَتّٰی یَسْاَلَ، وَطَلَبْنَا إِلَی النَّبِيِّ ا اَنْ نَّجْعَلَ لَہٗ مَجْلِسًا یَعْرِفُہُ الْغَرِیْبُ إِذَا اَتَاہُ، قَالَ : فَبَنَیْنَا لَہٗ دُکَّانًا مِنْ طِیْنٍ، فَکَانَ یَجْلِسُ عَلَیْہِ، وَنَجْلِسُ بِجَانِبَیْہِ۔ ( ابوداود: ۴۶۹۸ من حدیث جریر بہ واصلہ في صحیح مسلم:۹)

سیدناابوہریرہ t اور ابوذر t (دونوں) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوتے تو کوئی اجنبی آتا تو اسے پتا نہیں چلتا تھا کہ آپ کون ہیں حتیٰ کہ اسے پوچھنا پڑتا۔ ہم نے نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی کہ ہم آپ کے لیے ایک خاص مقام بنادیں تاکہ اجنبی بھی آپ کو پہچان لے۔ پھر ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترا سا بنادیا جس پر آپ بیٹھتے تھے اورہم آپ کے ارد گرد بیٹھا کرتے تھے۔

عَنْ قُدَامَۃَ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمَّارِ الْکَلاَبِيِّ قَالَ : رَاَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَرْمِی الْجَمْرَۃَ یَوْمَ النَّحْرِ عَلٰی نَاقَۃٍ صَھْبَائَ، لَیْسَ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ، وَلَیْسَ قِیْلُ إِلَیْکَ إِلَیْکَ ۔(اخرجہ الشافعي فی الام ۶/۲۱۳‘ الترمذي:۹۰۳، ابن ماجہ:۳۰۳۵، النسائي:۳۰۶۳ من حدیث ایمن بن نابل بہ وقال الترمذي: ’’حسن صحیح‘‘ وصححہ ابن خزیمۃ ۴/۴۲۷۸ ح ۲۸۷۸۔[السنۃ : ۱۹۴۴])

سیدنا قدامہ بن عبداللہ بن عمار الکلابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا آپ قربانی والے دن سرخ زرد رنگ والی اونٹنی سے جمرۃ (عقبہ) کو (کنکریاں) مار رہے تھے نہ آپ کے سامنے لوگوں کو مارا جاتا تھا اور نہ دھتکارا جاتا اور نہ یہ کہا جاتا کہ ہو ہو اپنے آپ کو بچائو۔

عَن اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ :اَنَّ النَّبِيَّ ا رَکِبَ حِمَارًا عَلَیْہِ إِکَافٌ، تَحْتَہٗ قَطِیْفَۃٌ فَدَکِیَّۃٌ، وَاَرْدَفَ وَرَائَ ہٗ اُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ، وَھُوَ یَعُوْدُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِيْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ ۔(بخاري:۶۲۵۴ من حدیث معمر، مسلم: ۱۷۹۸ من حدیث عبدالرزاق بہ ۔[شرح السنۃ : ۲۶۸۱])

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک ایسے گدھے پر سوار ہوئے جس پر زین کسی ہوئی تھی آپﷺ کے نیچے فد ک کی ایک چادر تھی۔ آپ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھالیا اورآپ بنو الحارث بن الخزرج میں سعد بن عبادہ کی بیمار پرسی کرنے جا رہے تھے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ :کَانَ غلُاَمُ یَہُوْدِيٌّ یَخْدِمُ النَّبِيَّ ﷺ؛ فَمَرِضَ فَاَتَاہُ النَّبِيُّ ﷺ یَعُوْدُہٗ فَقَعَدَ عِنْدَ رَاْسِہٖ، فَقَالَ لَہٗ: اَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلٰی اَبِیْہِ وَھُوَ عِنْدَہٗ، فَقَالَ : اَطِعْ اَبَا الْقَاسِمِ، فَاَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَھُوَ یَقُوْلُ : (( الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ اَنْقَذَہٗ مِنَ النَّارِ))۔ (بخاري، الجنائز باب إذا سلم الصبي ومات ھل یصلٰی إلخ : ۱۳۵۶)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ جب بیمار ہوگیا تو نبی کریم ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سر کی طرف بیٹھ گئے آپ نے اس سے کہا: ’’مسلمان ہوجا‘‘ وہ اپنے والد کی طرف دیکھنے لگا تو اس نے کہا: ابوالقاسم کی بات مان لے تووہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ پھر نبی کریم ﷺ وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلے: اس اللہ کی تعریفیں ہیں جس نے اس لڑکے کو آگ سے بچا لیا ہے۔

عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ :کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا جَائَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِصِبْیَانِ اَھْلِ بَیْتِہٖ، وَاَنَّہٗ جَائَ مِنْ سَفَرٍ فَسُبِقَ بِيْ إِلَیْہِ، فَحَمَلَنِيْ بَیْنَ یَدَیْہِ، ثُمَّ جِيْئَ بِاَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَۃَ فَاَرْدَفَہٗ خَلْفَہٗ إِمَّا حَسَنٌ وَإِمَّا حُسَیْنٌ، فَدَخَلْنَا الْمَدِیْنَۃَ ثلَاَثَۃً عَلٰی دَابَّۃٍ ۔(مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل عبداللہ بن جعفر: ۲۴۲۸ من حدیث ابي معاویۃ الضریر بہ ۔ [ شرح السنۃ : ۲۷۵۸)

سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب سفر سے تشریف لاتے تو آپ کی ملاقات آپ کے خاندان کے چھوٹے بچوں سے کرائی جاتی تھی (ایک دفعہ) آپ سفر سے آئے تو مجھے اٹھا کر آپ کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے مجھے (سواری پر) اپنے آگے بٹھا لیا۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دو بیٹوں(حسن وحسین رضی اللہ عنہا ) میں سے ایک آیا تو آپ ﷺ نے اسے (سواری پر) پیچھے بٹھالیا۔ ایک سواری پر ہم تینوں مدینے میں داخل ہوئے۔

عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ :کُنَّا یَوْمَ بَدْرٍکُلُّ ثلَاَثَۃٍ عَلٰی بَعِیْرٍ، قَالَ : وَکَانَ اَبُوْ لُبَابَۃَ وَعَلِيُّ بْنُ اَبِيْ طَالِبٍ زَمِیْلَيْ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ، قَالَ : وَکَانَتْ إِذَا جَائَ تْ عُقْبَۃُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ قَالاَ : نَحْنُ نَمْشِيْ مِنْکَ، قَالَ: (( مَا اَنْتُمَا بِاَقْوٰی مِنِّيْ، وَمَا اَنَا بِاَغْنٰی عَنِ الْاَجْرِ مِنْکُمَا )) ۔

(اخرجہ احمد ۱/ ۴۱۱ عن عفان بہ )

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم تین تین آدمی بدر کے دن‘ ایک ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ ابولبابہ اور علی بن ابی طالب‘ رسول اللہﷺ کے ساتھی تھے۔ جب رسول اللہﷺ کے (چلنے کی) باری آتی تو وہ دونوں کہتے: ہم (پیدل) چلیں گے۔ (آپ ﷺ ہی سوار رہیں) تو آپﷺ فرماتے: تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں اور نہ میں تم سے زیادہ ثواب ملنے سے بےپروا ہوں۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ : اَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثُمَّ حَدَّثَ: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مَرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ))۔

(اخرجہ علي بن الجعد ۱۷۲۵ البخاري:۶۲۴۷ عن علي بن الجعد، مسلم:۲۱۶۸ من حدیث شعبۃ بہ )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(نبی ﷺ) بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کہا۔ پھر حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے ان کو سلام کہا تھا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ : اَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَزُوْرُ الْاَنْصَارَ وَیُسَلِّمُ عَلٰی صِبْیَانِہِمْ وَیَمْسَحُ بِرُؤُوْسِھِمْ

(اخرجہ الترمذي: ۲۶۹۶ ب والنسائي فی الکبری:ٰ ۱۰۱۶۱ (عمل الیوم واللیلۃ:۳۲۹) عن قتیبۃ بہ)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ انصار کے پاس جاتے تو ان کے بچوں پر سلام کہتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تھے۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ وَاَنَا مَعَ الصِّبْیَانِ، فَسَلَّمَ عَلَیْنَا، ثُمَّ اَخَذَ بِیَدِيْ فَاَرْسَلَنِيْ بِرِسَالَۃٍ ۔( اخرجہ احمد ۳/۱۰۹ من حدیث حمید الطویل بہ مطولًا ۔[ السنۃ : ۳۳۰۷])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ گزرے اور میں بچوں کے ساتھ (کھیل رہا) تھا تو آپ نے ہمیں سلام کہا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کسی کام کے لیے بھیج دیا۔

عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ : اَنَّ النَّبِيَّ ا مَرَّ بِنِسْوَۃٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِنَّ ۔(ابوداود:۵۲۰۴ وابن ماجہ:۳۷۰۱من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ وحسنہ الترمذي: ۲۶۹۷ )

سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عورتوں کے پاس سے گزرے تو ان (عورتوں) کو سلام کہا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ جَائَ إِلَی السِّقَایَۃِ فَاسْتَسْقٰی، فَقَالَ عَبَّاسُ : یَا فَضْلُ! اذْھَبْ إِلٰی اُمِّکَ فَاْتِ رَسُوْلَ اللہِ بِشَرَابٍ مِنْ عِنْدِھَا، فَقَالَ :(( اسْقِنِيْ)) قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّہُمْ یَجْعَلُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِیْہِ، قَالَ :(( اسْقِنِيْ)) فَشَرِبَ مِنْہُ، ثُمَّ اَتٰی زَمْزَمَ وَھُمْ یَسْقُوْنَ وَیَعْمَلُوْنَ فِیْھَا، فَقَالَ :(( اعْمَلُوْا فَإِنَّکُمْ عَلٰی عَمَلٍ صَالِحٍ)) ثُمَّ قَالَ: ((لَوْلَا اَنْ تُغْلَبُوْا لَنَزَلْتُ حَتّٰی اَضَعَ الْحَبْلَ عَلٰی ھٰذِہٖ)) وَاَشَارَ إِلٰی عَاتِقِہٖ۔

( صحیح البخاري، الحج باب سقایۃ الحاج: ۱۶۳۵ )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پانی پینے کی جگہ کے پاس آئے اور پانی مانگا تو عباس نے کہا: اے فضل! اپنی ماں کے پاس جا اور رسول اللہﷺ کے لیے وہاں سے پانی لے آ۔ آپ نے فرمایا: مجھے پانی پلائو‘ (عباس نے) کہا: یارسو ل اللہﷺ! لوگ اس (پانی) میں ہاتھ ڈال رہے ہیں! آپ نے فرمایا: مجھے پانی پلا۔ پھر آپ نے اس سے پانی پیا پھر آپ زمزم کے پاس آئے (کچھ) لوگ پانی پلا رہے تھے اور (وہاں) کام کر رہے تھے تو آ پ نے فرمایا: کام کر، تو اچھا کام کر رہا ہے، پھر فرمایا: اگر میرے مغلوب ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اتر کر اپنی گردن پر رسی رکھ کر پانی نکالتا۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : اَتَی النَّبِيَّ ا رَجُلٌ یُکَلِّمُہٗ فَاُرْعِدَ، فَقَالَ :(( ھَوِّنْ عَلَیْکَ فَلَسْتُ بِمَلِکٍ، إِنَّمَا اَنَا ابْنُ امْرَاَۃٍ مِّنْ قُرَیْشٍ کَانَتْ تَاْکُلُ الْقَدِیْدَ ))۔(اسنادہ ضعیف،ابن ماجہ: ۳۳۱۲ من حدیث إسماعیل بن أبی الحارث بہ، إسماعیل بن أبي خالد عنعن فی السند المتصل وصرح بالسماع فی السند المرسل ومع ذلک صححہ الحاکم علٰی شرط الشیخین ۳/۴۸ ووافقہ الذھبي )

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی ﷺکے پاس بات کرنے کے لیے ایک آدمی لایا گیا تو وہ کانپ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ڈرو نہیں میں بادشاہ نہیں ہوں میں تو قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھاتی تھی۔

عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَا رُئِيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يأكل مُتَّكئًا قطُّ ، ولا يطأُ عقبَه رجلانِ ۔(صحیح ، اخرجہ ابو داؤد3770)

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی تکیہ لگا کر کھانا کھاتے نہیں دیکھا گیا اور نہ آپ ﷺ کے پیچھے دو پائوں چلے ہیں (آپ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ آپ کے پیچھے پیچھے اس طرح چلیں جیسا کہ لوگ بادشاہوں کے پیچھے چلتے تھے)۔

عَنْ اَبِيْ سَلَمَۃَ قَالَ : سَاَلْتُ اَبَاسَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ : رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ یَسْجُدُ فِی الْمَائِ وَالطِّیْنِ، حَتّٰی رَاَیْتُ اَثَرَ الطِّیْنِ فِيْ جَبْھَتِہٖ ۔(بخاري، الاذان باب من لم یمسح جبھتہ وانفہ حین صلٰی: ۸۳۶، مسلم: ۲۱۶/۱۱۶۷ )

سیدنا ابوسلمہ(تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انھوںنے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو مٹی اور پانی پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے حتیٰ کہ میں نے آپ ﷺ کی پیشانی پر مٹی کا اثر دیکھا ہے۔

عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ : (( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ، إِنَّمَا اَنَا عَبْـدٌ، فَقُوْلُوْا عَبْدُاللہِ وَرَسُوْلُہٗ )) ۔(بخاري:۶۸۲۹ ومسلم:۱۶۹۱ من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ مطولًا ومختصرًا۔ [السنۃ :۳۶۸۱])

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے بارے میں (اس طرح) مبالغہ نہ کرنا جس طرح کہ نصرانیوں نے ابن مریم علیہا السلام کے بارے میں کیا ہے۔ میں تو صرف (اللہ کا) بندہ ہوں۔ پس کہو: اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : ((مَنْ قَالَ : اَنَا خَیْرٌ مِّنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی، فَقَدْ کَذَبَ))۔(بخاري، التفسیر سورۃ النساء باب قولہ تعالیٰ إنا اوحینا إلیک کما اوحینا إلٰی نوح: ۴۶۰۴ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کہا کہ میں یونس بن متٰی علیہ السلام سے بہتر ہوں تو اس نے جھوٹ کہا۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَقَالَ : یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( ذٰلِکَ إِبْرَاھِیْمُ )) ۔

(صحیح مسلم، الفضائل باب من فضائل إبراھیم الخلیل علیہ السلام: ۲۳۶۹ )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا:

اے خیر البریہ! تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ ابراہیمw ہیں۔

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ : اشْتَکٰی رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَصَلَّیْنَا وَرَائَ ہٗ وَھُوَ قَاعِدٌ، وَاَبُوْبَکْرٍ یُسْمِعُ النَّاسَ تَکْبِیْرَہٗ، قَالَ : فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا فَرَآنَا قِیَامًا، فَاَشَارَ إِلَیْنَا فَقَعَدْنَا فَصَلَّیْنَا بِصَلَاتِہٖ قُعُوْدًا، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ : (( إِنْ کِدْتُّمْ آنِفًا تَفْعَلُوْنَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّوْمِ، یَقُوْمُوْنَ عَلٰی مُلُوْکِھِمْ وَھُمْ قُعُوْدٌ، فلَاَ تَفْعَلُوْا، ائْتَمُّوْا بِاَئِمَّتِکُمْ، إِنْ صَلّٰی قَائِمًا فَصَلُّوْا قِیَامًا، وَإِنْ صَلّٰی قَاعِدًا فَصَلُّوْا قُعُوْدًا ))۔( صحیح مسلم، الصلٰوۃ باب ائتمام الماموم بالإمام: ۴۱۳ )

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہﷺ بیمار ہوئے تو ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو آپ کی تکبیر سنا رہے تھے۔ آپ نے ہمیں کھڑا ہوا دیکھا تو (بیٹھنے کا) اشارہ کیا۔ ہم بیٹھ گئے اور آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: قریب تھا کہ تم وہ کام کرو جو فارسی اور رومی کرتے ہیں وہ اپنے بادشاہوں کے پاس کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسا نہ کرو‘ اپنے اماموں کی اقتدا کرو اگر وہ کھڑے ہوکرنماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھ لو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : ((اَنَّ عِفْرِیْتًا مِّنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ الْبَارِحَۃَ لِیَقْطَعَ عَلَيَّ صلَاَتِيْ، فَاَمْکَنَنِی اللّٰہُ مِنْہُ، فَاَخَذْتُہٗ، فَاَرَدْتُّ اَنْ اَرْبِطَہٗ عَلٰی سَارِیَۃِ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ حَتّٰی تَنْظُرُوْا إِلَیْہِ کُلُّکُمْ، فَذَکَرْتُ دَعْوَۃَ اَخِيْ سُلَیْمَانَ : رَبِّ ھَبْ لِيْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ، فَرَدَدْتُّہٗ خَاسِئًا ))۔

( صحیح البخاري، الانبیاء باب قول اللہ تعالٰی: ووھبنا لداود سلیمان نعم العبد إنہ اواب:۳۴۲۳ مسلم، المساجد باب جواز لعن الشیطان في إثناء الصلٰوۃ:۵۴۱ ۔)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنوں میں سے ایک (دیوہیکل) عفریت نے گزشتہ رات مجھ پر حملہ کیا تاکہ میری نماز توڑ دے۔ پھر اللہ نے مجھے اس پر اختیار عطا فرمایا تو میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ تم سب (اپنی آنکھوں سے) اسے دیکھ سکو تو مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی کہ

رَبِّ ھَبْ لِيْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ

’’اے اللہ !مجھے ایسی بادشاہی دے جو میرے بعد کسی اور کے لیے مناسب نہ ہو۔‘‘

پھر میں نے اسے ذلیل ورسوا کرکے چھوڑ دیا۔

دُنیا سے بے نیازی اور زُہد نبوی ﷺ

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؓ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ، فَإِذَا ھُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی رِمَالٍ حَصِیْرٍ لَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہٗ فِرَاشٌ، قَدْ اَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِہٖ، مُتَّکِئًا عَلٰی وِسَادَۃٍ مِنْ آدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ، فَرَفَعْتُ بَصَرِيْ فِيْ بَیْتِہٖ فَوَاللہِ مَا رَاَیْتُ شَیْئًا یَرُدُّ الْبَصَرَ غَیْرَ اَھَبَۃٍ ثَلاَثَۃٍ فَقُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ فَلْیُوَسِّعْ عَلٰی اُمَّتِکَ ، فَإِنَّ فَارِسًا وَالرُّوْمَ قَدْ وُسِّعَ عَلَیْھِمْ، وَھُمْ لَا یَعْبُدُوْنَ اللّٰہَ، فَقَالَ : (( اَوَ فِيْ ھٰذَا اَنْتَ یَاابْنَ الْخَطَّابِ اُولٰٓئِکَ قَوْمٌ عُجِّلُوْا طَیِّبَاتِھِمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا )) (بخاري، النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجھا:۵۱۹۱۔ [السنۃ : ۴۰۷۰])

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا۔ آپ بورے (یا کھجور اور شاخوں کی بنی ہوئی ننگی چارپائی) پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپﷺ کے اور اس بورے (چارپائی) کے درمیان بستر نہیں تھا۔ آپ کے جسم پر بورے (یاچارپائی) کی شکنوں کا اثر تھا۔ آپ نے چمڑے کے ایک سرہانے پر تکیہ لگا رکھا تھا جس میں کھجور کی شاخیں وغیرہ بھری ہوئی تھیں۔ میں نے گھر میں دیکھا تو اللہ کی قسم تین کھالوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں پایا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت کے لیے آسانی پیدا کرے۔ بے شک فارسیوں اور رومیوں کو (ہرطرح کی) آسانیاں دی گئی ہیں حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ تو آپ نے فرمایا: اے ابن الخطاب رضی اللہ عنہ تو بھی اس بارے میں بات کررہا ہے؟ ان لوگوں کو ان کی سہولتیں دنیا کی زندگی میں ہی دے دی گئی ہیں۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( اللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ))۔(صحیح مسلم، الزکاۃ باب فی الکفاف والقناعۃ:۱۰۵۵ البخاري، الرقائق باب کیف کان عیش النبي ﷺ واصحابہ:۶۴۶۰ من حدیث محمد بن فضیل بن غزوان بہ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ تو آل محمد کے لیے گزارے والا رزق بنا (تاکہ وہ آخرت سے غافل نہ ہوجائیں)۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ : اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ ، نَامَ عَلٰی حَصِیْرٍ، وَقَامَ وَقَدْ اَثَّرَ فِيْ جَسَدِہٖ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! لَوْ اَمَرْتَنَا اَنْ نَّبْسُطَ لَکَ وَنَعْمَلَ، فَقَالَ : ((مَالِيْ وَلِلدُّنْیَا، وَمَا اَنَا وَالدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ؛ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا ))۔

( الترمذي:۲۳۷۷ من حدیث زید بن حباب بہ وللحدیث شواھد۔ [السنۃ : ۴۰۳۴])

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک چٹائی پر سوگئے۔ جب آپ ﷺ اُٹھے تو اس چٹائی کا نشان آپﷺ کے جسم پر تھا تو آپ سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کے لیے کوئی (بہترین) چیز تیار کرکے بچھائیں آپ نے فرمایا: مجھے دنیا کی کیا پروا ہے میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی ہے جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے رکا۔ (تھوڑی دیر) آرام کیا اور پھر اسے چھوڑ دیا (اور چل پڑا)۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا شَبِعَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنْ خُبْزٍ شَعِیْرٍ یَوْمَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؛ حَتّٰی قُبِضَ۔(اخرجہ الترمذي:۲۳۵۷ وفی الشمائل:۱۴۲، ۱۴۸، ابوداود الطیالسي:۱۳۸۹ مسلم: ۲۹۷۰ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے وفات تک جو کی روٹی سے دو دن (بھی) پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ : اَنَّہٗ مَرَّ بِقَوْمٍ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ شَاۃٌ مَصْلِیَّۃٌ، فَدَعَوْہُ فَاَبٰی اَنْ یَّاْکُلَ، وَقَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنَ الدُّنْیَا وَلَمْ یَشْبَعْ مِنَ الْخُبْزِ الشَّعِیْرِ۔(بخاري، الاطعمۃ باب ما کان النبي ﷺ واصحابہ یاکلون: ۵۴۱۴)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سامنے بھنی ہوئی ایک بکری پڑی تھی۔ انھوںنے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کھانے کی دعوت دی تو انھوںنے انکار کردیا اور فرمایا: رسول اللہﷺ دنیا سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپ نے جو کی روٹی بھی سیر ہو کر نہیں کھائی۔

عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍؓ یَقُوْلُ : اَلَسْتُمْ فِيْ طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ؟ لَقَدْ رَاَیْتُ نَبِیَّکُمْ ؛ وَمَا یَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا یَمْلَاُ بَطْنَہٗ ۔

(اخرجہ الترمذي:۲۳۷۲ وفی الشمائل:۱۵۱، مسلم: ۲۹۷۷ عن قتیبۃ بہ۔ [السنۃ : ۴۰۷۱])

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم جو کھانا اور پینا پسند کرتے ہو‘ کیا تمھیں مل نہیں رہا؟ میں نے (ہمارے اور) آپ کے نبی کریمﷺ کو دیکھا ہے آپ کو پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے لیے (کبھی) معمولی قسم کی کھجور تک نہیں ملتی تھی۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : لَقَدْ کَانَ یَاْتِيْ عَلَیْنَا الشَّھْرُ مَا نُوْقِدُ فِیْہِ نَارًا، وَمَا ھُوَ إِلاَّ الْمَائُ وَالتَّمْرُ، غَیْرَ اَنْ جَزَی اللّٰہُ نِسَائً مِنَ الْاَنْصَارِ جَزَائً، کُنَّ رُبَمَا اَھْدَیْنَ لَنَا شَیْئًا مِنَ اللَّبَنِ۔

(اخرجہ مسلم الزھد باب ۱ ح ۲۹۷۲ من حدیث معمر، البخاري، الرقاق باب کیف کان عیش النبي ﷺ واصحابہ: ۶۴۵۸ من حدیث ھشام بہ۔ [السنۃ : ۴۰۷۴])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمارے اوپر ایسا مہینہ (بھی) آتا کہ ہم (اپنے گھر میں) آگ (تک) نہیں جلاتے تھے۔ (ہمارا کھانا) صرف پانی اور کھجوریں ہوتیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ انصار کی عورتوں کو جزائے خیر دے وہ کبھی کبھار ہمیں دودھ (وغیرہ) میں سے کچھ تحفہ بھیج دیتی تھیں۔

عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ : مَا کَانَ یَفْضُلُ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ خُبْزُالشَّعِیْرِ (اخرجہ الترمذي: ۲۳۵۹ وفی الشمائل: ۱۴۳، قال الترمذي : ’’حسن صحیح غریب‘‘)

سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے گھر والوں کے پاس جو کی روٹی بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَبِیْتُ اللَّیَالِيَ الْمُتَتَابِعَۃَ طَاوِیًا، وَاَھْلُہٗ لَا یَجِدُوْنَ عَشَائً، وَکَانَ اَکْثَرُ خُبْزِھِمْ خُبْزَ الشَّعِیْرِ ۔(الترمذي: ۲۳۶۰ وفی الشمائل: ۱۴۴ ابن ماجہ: ۳۳۴۷ [السنۃ : ۴۰۷۷])

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے گھر والے لگاتار کئی راتیں بھوکے رہتے تھے۔ کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے۔ آپ کی روٹی عام طور پر جو کی ہوتی تھی۔

عَنْ اَبِيْ طَلْحَۃَ قَالَ : شَکَوْنَا إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ الْجُوْعَ وَ رَفَعْنَا عَنْ بُطُوْنِنَا عَنْ حَجَرٍ وَ رَفَعَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عَنْ بَطْنِہٖ عَنْ حَجَرَیْنِ ۔

(الترمذي: ۲۳۷۱ وفی الشمائل: ۱۳۳ ۔ [السنۃ : ۴۰۷۹])

سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے پاس بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں سے (کپڑا) اٹھا کر ایک ایک پتھر دکھایا تو رسول اللہﷺ نے اپنے پیٹ سے (کپڑا) اٹھا کر دو پتھر دکھائے ( آپ نے بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے)۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَا اجْتَمَعَ لِرَسُوْلِ اللہِ ﷺ غَدَائٌ وَلَا عَشَائٌ إِلاَّ عَلٰی ضَفَفٍ

(اخرجہ الترمذي فی الشمائل:۳۷۷ من حدیث قتادۃ بہ وصرح بالسماع عند ابن سعد فی الطبقات ۱/۴۰۴ )

سیدنا انس t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر اور رات کا کھانا بہت ہی کم اکٹھا ہوا (آپ نے کبھی کبھار ہی ایک دن میں دو کھانے کھائے)۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : وَاللہِ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍا مِنْ خُبْزٍ بُرٍّ ثَلاَثَ لَیَالٍ وِلَائً، حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ، فَلَمَّا قَبَضَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ صَبَّ الدُّنْیَا عَلَیْنَا صَبًّا ۔(بخاري:۵۴۱۶، ۶۴۵۴ ومسلم: ۲۹۷۰ من حدیث إبراھیم النخعي بہ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کی قسم! آل محمدﷺ نے تین راتیں پے درپے گندم کی روٹی نہیں کھائی حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ فوت ہوگئے جب آپ فوت ہوگئے تو دنیا ہمارے اوپر امڈ پڑی۔

؎عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَقَدْ مَشَیْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ مَرَّاتٍ بِخُبْزِ الشَّعِیْرِ وَإِھَالَۃٍ سَخِنَۃٍ، وَلَقَدْ سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ : (( مَا اَصْبَحَ بِآلِ مُحَمَّدٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ)) وَإِنَّہُنَّ یَوْمَئِذٍ تِسْعٌ اَھْلِ بُیُوْتَاتٍ۔(ابن ماجہ: ۴۱۴۷ من حدیث قتادۃ بہ مختصرًا وللحدیث شواھد)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں کئی دفعہ باسی چربی اور جو کی روٹی لے کر رسول اللہﷺ کے پاس جاتا تھا۔ میں (انس رضی اللہ عنہ )نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آل محمد(ﷺکی بیویوں) کے پاس کھانے کا ایک صاع تک نہیں ہوتا تھا اور وہ ان دنوں نو گھر والیاں تھیں۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : اَتَتْ فَاطِمَۃُ النَّبِيَّ ﷺ بِکِسْرَۃِ خُبْزِ شَعِیْرٍ فَقَالَ : ((ھٰذَا اَوَّلُ طَعَامٍ اَکَلَہٗ اَبُوْکِ مُنْذُ ثلَاَثٍ )) ۔

(احمد (۳/۲۱۳ وفی الزھد رضی اللہ عنہ ۳۹ ) عن عبدالصمد بہ بدون ذکر محمد بن سیرین ولہ طریق آخر عند ابن سعد ۱/۴۰۰ )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فاطمہ‘ جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو فرمایا: یہ پہلا کھانا ہے جو تیرے ابا نے تین دنوں سے کھایا ہے۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ : (( لَقَدْ اُخِفْتُ فِی اللہِ وَمَا یُخَافُ اَحَدٌ، وَلَقَدْ اُوْذِیْتُ فِي اللہِ وَمَا یُؤْذٰی اَحَدٌ، وَلَقَدْ اَتَتْ عَلَيَّ ثلَاَثُوْنَ مِنْ بَیْنِ لَیْلَۃٍ وَیَوْمٍ، وَمَالِيْ وَلِبلِاَلٍ طَعَامٌ یَاْکُلُہٗ ذُوْکَبِدٍ؛ إِلاَّ شَيْئٌ یُوَارِیْہِ إِبْطُ بلِاَلٍ )) ۔(اخرجہ الترمذي: ۲۴۷۲ صححہ ابن حبان: ۲۵۲۸۔ [السنۃ : ۴۰۸۰])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اللہ (پر ایمان لانے) سے ڈرایا گیا اور (آج کل) کسی کو بھی نہیں ڈرایا جاتا۔ مجھے اللہ (پر ایمان لانے) سے تکلیف دی گئی اور آج کسی کو بھی تکلیف نہیں دی جاتی۔ مجھ پر تیس دن و رات ایسے آئے کہ میرے اور بلال کے لیے ایسا کھانا نہیں ہوتا تھا جسے کوئی ذی روح کھائے سوائے اس چیز کے جسے بلال نے اپنی بغل میں چھپا رکھا ہوتا تھا۔

عَنْ عَمَرِو بْنِ الْحَارِثِ الْخُزَاعِيِّ اَخِيْ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَ: لَا وَاللہِ مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِیْنَارًا وَلَادِرْھَمًا، وَلَا عَبْدًا، وَلَا اَمَۃً، وَلَا شَیْئًا؛ اِلَّا بَغْلَتَہُ الْبَیْضَائَ وَسلِاَحًا وَاَرْضًا تَرَکَھَا صَدَقَۃً۔ (اخرجہ علي بن الجعد: ۲۵۳۷ البخاري، الوصایا باب ۱ ح ۲۷۳۹ من حدیث زھیر بن معاویۃ بہ)

سیدنا عمرو بن الحارث بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم !رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت کے وقت نہ درہم چھوڑا نہ دینار، نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کوئی چیز چھوڑی سوائے سفید خچر اور اسلحہ کے اور (اُس) زمین کے جسے آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عَبْدًا وَلَا اَمَۃً وَلَا شَاۃً وَلَا بَعِیْرًا۔

(اخرجہ مسلم، الوصیۃ باب ترک الوصیۃ لمن لیس لہ شئ یوصي فیہ: ۱۶۳۵ من حدیث الاعمش بہ ۔ [السنۃ : ۳۸۳۶])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نہ کوئی غلام چھوڑا نہ لونڈی اور بکری چھوڑی نہ کوئی اونٹ۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : (( لَا یَقْتَسِمُ وَرَثَتِيْ دِیْنَارًا، مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَۃِ نِسَائِيْ وَمُؤْنَۃِ عَامِلِيْ فَھُوَ صَدَقَۃٌ ))۔ (اخرجہ مالک فی الموطا (۲/۹۹۳ وروایۃ ابي مصعب: ۲۰۹۷) البخاري:۲۷۷۶ ومسلم :۱۷۶۰ من حدیث مالک بہ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے ورثے میں دینار تقسیم نہیں ہوں گے۔ میں نے اپنی بیویوں کے نان نفقہ اور مزدوروں کی رقم کے علاوہ جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ :(( خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ اَوْلَیْلَۃٍ فَإِذَا ھُوَ بِاَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ قَالَ : مَا اَخْرَجَکُمَا مِنْ بُیُوْتِکُمَا ھٰذِہِ السَّاعَۃَ؟ قَالَا : الْجُوْعُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ : (( اَمَّا اَنَا وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَاَخْرَجَنِی الَّذِيْ اَخْرَجَکُمَا، قُوْمُوْا)) فَقَامُوْا مَعَہٗ، فَاَتٰی رَجُلاً مِنَ الْاَنْصَارِ، فَإِذَا ھُوَ لَیْسَ فِيْ بَیْتِہٖ فَلَمَّا رَاَتْہُ الْمَرْاَۃُ قَالَتْ: مَرْحَبًا وَاَھْلًا، فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( اَیْنَ فلُاَنٌ )) قَالَتْ: ذَھَبَ یَسْتَعْذِبُ مِنَ الْمَائِ اِذَا جَائَ الْاَنْصَارِيُّ فَنَزَلَ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ وَصَاحِبَیْہِ ثُمَّ قَالَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ مَا اَجِدُ الْیَوْمَ اَکْرَمَ اَضْیَافًا مِنِّيْ، فَانْطَلَقَ فَجَائَ ھُمْ بِعِذْقٍ فِیْہِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ فَقَالَ : کُلُوْا مِنْ ھٰذِہٖ وَاَخَذَ الْمُدْیَۃَ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ (( إِیَّاکَ وَالْحَلُوْبَ)) فَذَبَحَ لَھُمْ فَاَکَلُوْا مِنَ الشَّاۃِ وَمِنْ ذٰلِکَ الْعِذْقِ، فَلَمَّا اَنْ شَبِعُوْا وَرَوُوْا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ا لِاَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ: (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَتُسْئَلُنَّ عَنْ ھٰذَا النَّعِیْم یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اَخْرَجَکُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمُ الْجُوْعُ ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوْا حَتّٰی اَصَابَکُمْ ھٰذَا النَّعِیْمُ )) ۔

(صحیح مسلم، الاشربۃ باب جواز استتباعہ غیرہ إلٰی دار من یثق برضاہ بذلک: ۲۰۳۸ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہﷺ باہر نکلے تو آپ ﷺ کی ملاقات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔آپ ﷺ نے پوچھا: آپ اس وقت کس وجہ سے باہر نکلے ہیں؟انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے۔ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے بھی تمھاری طرح بھوک ہی نے باہر نکالا ہے۔ اٹھو چلیں‘ تو وہ دونوں بھی آپ کے ساتھ چلے۔ پھر آپ ایک انصاری آدمی کے پاس آئے۔ وہ (انصاری) اپنے گھر میں موجود نہیں تھے۔ جب آپ کو اس کی بیوی نے دیکھا تو کہا: خوش آمدید۔آپ نے فرمایا: فلاں کہاں ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ ہمارے لیے پانی لانے گئے ہیں۔ اتنے میں انصاری آگئے تو نبی کریم ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھ کر کہا: الحمدللہ‘ آج میرے مہمانوں سے زیادہ عزت والے کوئی مہمان نہیں۔ پھر وہ گئے اور ٹہنی لے آئے جس میں گدرا اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہا: ’’اس میں سے کھائیں‘‘ پھر چھری لے لی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دودھ دینے والی (بکری) ذبح نہ کرنا‘‘ اس نے بکری ذبح کی۔ آپﷺ اور ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما نے اس بکری اور ٹہنی میں سے کھایا۔ جب خوب سیر ہوگئے تو رسول اللہﷺ نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہماسے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ تمھیں گھروں سے بھوک نے نکالا اور پھر اس حالت میں لوٹے کہ یہ نعمتیں حاصل ہوگئیں۔

خوف و خشیت ِ مجتبیٰﷺ

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : (( صَنَعَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ شَیْئًا فَرَخَّصَ فِیْہِ، فَتَنَزَّہَ عَنْہُ قَوْمٌ ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِيَّ ﷺ، فَخَطَبَ فَحَمِدَاللّٰہَ ثُمَّ قَالَ : ((مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَتَنَزَّھُوْنَ عَنِ الشَّيْئِ اَصْنَعُہٗ، فَوَ اللہِ إِنِّيْ لَاَعْلَمُھُمْ بِاللہِ وَاَشَدُّھُمْ لَہٗ خَشْیَۃً )) (بخاري، الادب باب من لم یواجہ الناس بعتاب :۶۱۰۱ مسلم، الفضائل باب علمہ باللّٰہ تعالٰی وشدۃ خشیتہ : ۶۳۵۶ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کوئی کام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو (بھی) اس کی اجازت دے دی تو ایک گروہ نے اس کام سے اجتناب کیا۔ جب یہ بات نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئی ۔تو آپ ﷺ نے خطبہ دیا۔ اللہ کی حمد بیان کی پھر فرمایا: کیا بات ہے کہ بعض لوگ اس کام سے اجتناب کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کو ان سب سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔

عَن ابِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا، وَلَضَحِکْتُمْ قَلِیلْاً ))۔

( اخرجہ ھمام بن منبہ في صحیفتہ : ۱۵‘ احمد ۲/۳۱۲، ۳۱۳ عن عبدالرزاق بہ وسندہ صحیح وللحدیث طرق عند البخاريومسلم وغیرھا۔ [السنۃ : ۴۱۷۰])

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ شِبْتَ قَالَ : شَیَّبَتْنِيْ ھُوْدٌ ۔ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَعَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ وَإِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ. (اخرجہ الترمذي:۳۶۹۷ وصححہ الحاکم علٰی شرط البخاري۲/۳۴۳ ووافقہ الذھبي )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ ﷺ! آپ تو بوڑھے ہوگئے ہیں؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے (سورۂ) ہود‘ واقعہ‘ المرسلات‘ عم یتساء لون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھابنادیا ہے۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : (( مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مُسْتَجْمِعًاضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ، وَکَانَ إِذَا رَاٰی غَیْمًا اَوْ رِیْحًا عُرِفَ ذٰلِکَ فِيْ وَجْھِہٖ، فَقُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَاَوُا الْغَیْمَ فَرِحُوْا رَجَائَ اَنْ یَّکُوْنَ فِیْہِ الْمَطَرُ، وَإِذَا رَاَیْتَہٗ عُرِفَ فِيْ وَجْھِکَ الْکَرَاھِیَۃُ ۔ فَقَالَ : یَا عَائِشَۃُ ! (( مَا یُؤْمِنُنِيْ اَنْ یَّکُوْنَ فِیْہِ عَذَابٌ، قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّیْحِ وَقَدْ رَاٰی قَوْمُ الْعَذَابَ فَقَالُوْا :عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ))۔

(متفق علیہ، اخرجہ ابوعوانۃ في مسندہ ( الجزء المفقود ۶/۲۶) البخاري:۴۸۲۹، ۶۰۹۲ مسلم : ۱۶/۸۹۹ من حدیث ابن وھب بہ مختصرًا ومطولاً)۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ میں نے رسول اللہﷺکو اس طرح پوری قوت سے ہنستے نہیں دیکھا کہ اس سے آپ کا حلق نظر آنے لگے۔ جب آپ بادل یا (تیز) ہوا کو محسوس کرتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر ظاہر ہوجاتا تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ جب بادل (دیکھتے) ہیں تو خوش ہوتے ہیں اس امید پر کہ اس سے بارش ہوگی اور جب میں آپ کو دیکھتی ہوں تو آپ کے چہرۂ مبارک ناگواری کا اثر پاتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! مجھے اس (بات) کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم کو ہوا (اور بادل) کے ساتھ عذاب دیا گیا ہے۔ ایک قوم نے عذاب دیکھ کر کہا تھا کہ یہ بادل ہے جس سے ہمارے لیے بارش ہوگی۔

عَنْ عَائِشَۃَ :((کَانَ النَّبِيُّ ﷺ ، إِذَا رَاٰی مَخِیْلَۃً تَغَیَّرَ وَجْھُہٗ وَتَلَوَّنَ، وَدَخَلَ وَخَرَجَ، وَاَقْبَلَ وَاَدْبَرَ، فَإِذَا اَمْطَرَتِ السَّمَائُ سُرِّيَ عَنْہُ، قَالَتْ : وَذَکَرْتُ لَہُ الَّذِيْ رَاَیْتُ، قَالَ : (( وَمَا یُدْرِیْہِ لَعَلَّہٗ، قَالَ قَوْمٌ (( فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا : ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا )) الْآیَۃَ ))۔

(اخرجہ ابوعوانۃ (الجزء المفقود ۶/۲۵) ومسلم: ۱۵/۸۹۹ من حدیث ابن جریج بہ)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ نبی کریم ﷺ جب بادل دیکھتے تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ آپ گھر میں داخل ہوتے اور باہر نکل جاتے۔ آگے آتے اور پیچھے مڑ جاتے اور جب آسمان سے بارش ہوجاتی تو آپ خوش ہوجاتے تھے۔ میں نے جب آپ سے آپ کے اس عمل کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: کیا پتا ہے کہ کیا ہوگا؟ ایک قوم نے کہا:

فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۔ ( الاحقاف :۲۴ )

’’جب انھوںنے عذاب کو بصورت بادل دیکھا جو اُن کے میدانوں کا رُخ کئے ہوئے تھا تو کہا: یہ بادل ہے اس سے ہمارے لیے بارش ہوگی۔

عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتِ: ((اسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لَیْلَۃً فَزِعًا، یَقُوْلُ ((سُبْحَانَ اللہِ مَاذَا اُنْزِلَ اللَّیْلَۃَ مِنَ الْخَزَائِنِ، وَمَاذَا اُنْزِلَ مِنَ الْفِتَنِ، مَنْ یُّوْقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ؟)) یُرِیْدُ اَزْوَاجَہٗ ((لِکَيْ یُصَلِّیْنَ رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ فِی الْآخِرَۃِ ))۔(صحیح البخاري، الادب باب التکبیر والتسبیح عند التعجب:۶۲۱۸)

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ایک رات رسول اللہ ﷺ ڈرے ہوئے ‘نیند سے بیدار ہوئے۔ آپ فرما رہے تھے سبحان اللہ! آج رات کتنے ہی خزانے اورکتنے ہی فتنے اتارے گئے ہیں۔ کون ان حجرے والوں کو جگائے گا؟ یعنی آپ کی بیویاں تاکہ وہ نماز پڑھیں۔ دنیا میں کتنی ہی کپڑا پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔

رسول اعظم ﷺ کی حسین چال

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ مَارَاَیْتُ شَیْئًا اَحْسَنَ مِنْ رَّسُوْلِ اللہِ ﷺ ، کَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِيْ وَجْھِہٖ وَمَا رَاَیْتُ اَحَدًا اَسْرَعَ فِيْ مَشْیِہٖ مِنْ رَّسُوْلِ اللہِ ﷺ کَاَنَّمَا الْاَرْضُ تُطْوٰی لَہٗ إِنَّا لَنُجْھِدُ اَنْفُسَنَا وَإِنَّہٗ لَغَیْرُ مُکْتَرِثٍ . (اخرجہ الترمذي: ۳۶۴۸ وفی الشمائل: ۱۶۶ ورواہ عمرو بن الحارث عن ابي یونس بہ)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ حسین کوئی نہیں دیکھا گویا کہ آپ کے چہرے پر سورج چل رہا ہوتا تھا اور میں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ تیز چلنے والا کوئی نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی۔ ہم پوری کوشش کرکے آپ تک پہنچتے اور آپ (ہماری جدوجہد سے) بے فکر ہوتے تھے۔

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِذَا خَرَجَ مَشٰی اَصْحَابُہٗ اَمَامَہٗ، وَتَرَکُوْا ظَھْرَہٗ لِلْمَلاَئِکَۃِ ۔(ابن ماجہ: ۲۴۶ من حدیث وکیع بہ وصححہ ابن حبان: ۲۰۹۹ والحاکم ۲/۴۱۱، ۴/۲۸۱ ووافقہ الذہبي )

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺ جب چلتے تو آپ ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آگے چلتے اور آپ ﷺ کی پیٹھ کو فرشتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ یَصِفُ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : کَانَ یَطَاُبِقَدَمَیْہِ لَیْسَ لَہٗ اَخْمَصُ یُقْبِلُ جَمِیْعًا وَیُدْبِرُ جَمِیْعًا، لَمْ اَرَ مِثْلَہٗ ۔(البیھقي فی الدلائل ۱/۲۴۵ من حدیث إسحاق بن إبراھیم الزبیدي بہ)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺجب چلتے تھے تو آپ کے قدم کا درمیانی حصہ زمین پر نہیں لگتا تھا۔ آپ اطمینان سے آگے یا پیچھے جاتے تھے۔ میں نے آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔

عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا مَشٰی کَاَنَّمَا یَمْشِيْ فِيْ صُبُوْبٍ ۔

( مسلم :۲۳۴۰ من حدیث عبدالاعلٰی بہ مختصرًا )

سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب چلتے تو ایسا معلوم ہوتا تھاگویا آپ کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہیں۔

رسول اکرم ﷺ کا بیٹھنے اور تکیہ لگانے کی ادائیں

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ بِفِنَائِ الْکَعْبَۃِ مُحْتَبِیًا بِیَدِہٖ، ھٰکَذَا ۔

(صحیح البخاري، الإستئذان باب الإحتباء بالید:۶۲۷۲ )

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کعبہ کے صحن میں دیکھا آپ ﷺ نے گھٹنے کھڑے کرکے ان کے گرد اپنے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔

عَنْ اَبِيْ بَکْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : (( الَاَ اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ)) ثلَاَثًا، قَالُوْا: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللہِ ! قَالَ: (( الْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ؛ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ؛)) وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِئًا،(( الَاَ وَقَوْلُ الزُّوْرِ)) فَمَا زَالَ یُکَرِّرُھَا، حَتّٰی قُلْنَا لَیْتَہٗ سَکَتَ۔

(صحیح البخاري، الشھادات باب ما قیل في شھادۃ الزور: ۲۶۵۴ مسلم، الإیمان باب بیان الکبائر واکبرھا : ۸۷ من حدیث سعید بن إیاس الجریري بہ )

سیدنا ابوبکرہ t سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیںکبیرہ گناہوں میں سے بڑے گناہ بتائوں؟ یہ بات آپ نے تین دفعہ فرمائی۔ صحابہy نے کہا: جی ہاں‘ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک اور والدین کی نافرمانی‘‘ آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے پھر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’خبردار جھوٹی بات سے بچو‘‘ یہ بات بار بار فرمارہے تھے حتیٰ کہ ہم نے کہا: کاش آپ خاموش ہوجاتے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مُتَّکِئًا عَلٰی وِسَادَۃٍ عَلٰی یَسَارِہٖ

(اخرجہ الترمذي فی سننہ: ۲۷۷۰ وفی الشمائل: ۱۲۹، ابوداود:۴۱۴۳ من حدیث إسرائیل بہ )

سیدنا جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سرہانے پر اس کی بائیں طرف تکیہ لگائے دیکھا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ : اَنَّ النَّبِيَّ ا کَانَ شَاکِئًا، فَخَرَجَ یَتَوَکَّاُعَلٰی اُسَامَۃَ، وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ قُطْنٍ قَدْ تَوَشَّحَ بِہٖ فَصَلّٰی بِہِمْ ۔(اخرجہ الترمذي فی الشمائل:۱۳۴ ، ۶۰۔[السنۃ : ۳۰۹۲])

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ بیمار تھے تو آپ اسامہ پر ٹیک لگائے باہر تشریف لائے آپ پر کاٹن کا ایک کپڑا تھا جسے آپ نے لپیٹ رکھا تھا۔ پھر آپ نے انھیں نماز پڑھائی۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ قَالَ : قَامَ النَّبِيُّ ﷺ یَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلّٰی، فَبَدَاَ بِالصَّلَاۃِ، ثُمَّ خَطَبَ ، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَاَتَی النِّسَائَ فَذَکَّرَھُنَّ، وَھُوَ یَتَوَکَّاُ عَلٰی یَدِ بلِاَلٍ، وَبلِاَلٌ بَاسِطٌ ثَوْبَہٗ، تُلْقِيْ فِیْہِ النِّسَائُ الصَّدَقَۃَ ۔ (صحیح البخاري، العیدین باب موعظۃ الإمام النساء یوم العید: ۹۷۸ )

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ نبی ﷺ عیدالفطر کے دن کھڑے ہوئے پھر نماز پڑھائی۔ آپ نے پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا۔ جب آپ خطبے سے فارغ ہوئے تو عورتوں کے پاس آئے اور انھیں نصیحت کی۔ آپ ﷺبلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر بچھا رکھی تھی (اور) اس میںعورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَضَعُ رَاْسَہٗ فِيْ حِجْرِيْ، فَیَقْرَاُوَاَنَا حَائِضٌ۔(اخرجہ ابوداود في سننہ :۲۶۰، البخاري : ۲۹۷، ۷۵۴۹ ومسلم :۳۰۱ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ میری گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھتے رہتے تھے حالانکہ میں حالت حیض میں ہوتی تھی۔

رسول معظم ﷺ کی نیند

عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَمِّہٖ رضی اللہ عنہ : اَنَّہٗ رَاٰی رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مُسْتَلْقِیًا فِی الْمَسْجِدِ، وَاضِعًا إِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْاُخْرٰی ۔

(اخرجہ مالک فی الموطا (۱/۱۷۲، روایۃ ابي مصعب: ۵۷۳) البخاري:۴۷۵ ومسلم : ۲۱۰۰ من حدیث مالک بہ )

سیدنا(عبداللہ بن زید بن عاصم الانصاری) عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوںنے نبی کریم ﷺ کو مسجد میں لیٹے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ نے اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی تھی۔

عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ کَانَ إِذَا اَخَذَ مَضْجَعَہٗ وَضَعَ کَفَّہُ الْیُمْنٰی تَحْتَ خَدِّہِ الْیُمْنٰی وَقَالَ:(( رَبِّ قِنِيْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ))۔(صحیح، اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۲۵۳ وللحدیث شواھد )

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سونا چاہتے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھتے اور فرماتے: اے میرے رب! مجھے اس دن کے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو زندہ کرے گا۔

عَنْ اَبِيْ قَتَادَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ إِذَا عَرَّسَ بِلَیْلٍ اضْطَجَعَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَیْمَنِ، وَإِذَا عَرَّسَ قُبَیْلَ الصُّبْحِ نَصَبَ ذِرَاعَہٗ، وَوَضَعَ رَاْسَہٗ عَلٰی کَفِّہٖ ( الترمذي فی الشمائل: ۲۵۹ ومسلم: ۶۸۳ من حدیث سلیمان بن حرب بہ )

سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب رات کے آخری پہر سوتے تو اپنی دائیں طرف کروٹ لگا کر سوتے تھے اور جب صبح کے قریب سوتے تو اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھتے اور بازو کو کھڑا کردیتے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ : بِتُّ فِيْ بَیْتِ خَالَتِيْ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ ، وَکَانَ النَّبِيُّ عِنْدَھَا فِيْ لَیْلَتِھَا، فَصَلَّی النَّبِيُّ ﷺ بِالْعِشَائِ، ثُمَّ جَائَ إِلٰی مَنْزِلِہٖ فَصَلّٰی اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ :(( نَامَ الْغُلَیِّمُ)) اَوْکَلِمَۃً تُشْبِھُھَا، ثُمَّ قَامَ، فَقُمْتُ عَنْ یَّسَارِہٖ، فَجَعَلَنِيْ عَنْ یَّمِیْنِہٖ، فَصَلّٰی خَمْسَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ نَامَ‘ حَتّٰی سَمِعْتُ غَطِیْطَہٗ اَوْخَطِیْطَہٗ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلاَۃِ

(صحیح البخاري، الدعوات باب الدعاء إذا انتبہ من اللیل: ۶۳۱۶، مسلم، صلٰوۃ المسافرین: ۷۶۳ من حدیث عبدالرحمٰن بن مھدي بہ )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ اور نبی کریم ﷺ کی زوجۂ مبارکہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہ کے گھرمیں سویا۔ اس رات نبی کریم ﷺ ان کے گھر میں تھے۔ نبی کریم ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی۔ پھر اپنے گھر آئے تو چار رکعتیں پڑھیں پھر سوگئے پھر اٹھے اورکہا: ’’بچہ سوگیا ہے‘‘ یا اس جیسے الفاظ فرمائے۔ پھر آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوگئے تو میں آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے مجھے اپنی دائیں طرف کردیا۔ پھر آپ نے پانچ رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں پھر سوگئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی پھر آپﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے