( قسط نمبر32 آیات57 تا 60)
تفسیر وتوضیح :
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ (النور:57)
ان منافقین کے دلوں پر اسلام کے مخالفین خصوصاً قریش کے جوہیبت طاری تھی یہ اس کو دور فرمایا ہے کہ ان کفار کے متعلق یہ خیال نہ کرو کہ یہ ہمارے قابو سے باہر نکل جائیں گے یہ اس زمین میں بھی ہمارے قابو میں ہیں اور آخرت میںتو ان کے لیے بہر حال دوزخ ہے ہی اور یاد رکھو کہ وہ نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
يٰٓاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
اسلام چونکہ دستور کامل ہے اور انسانی زندگی کو باقاعدہ آداب کے اعتبار سے منظم کرتاہے اور اس ضمن میں اس نے چھوٹے چھوٹے آداب کو بھی ترک نہ کیا بلکہ ان کو بیان کرنے کی بھی ذمہ داری اس نے لی ۔ اور اس میں روزانہ کے آداب بھی شامل ہیں اور روزانہ کے آداب میں آداب استئذان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس ضمن میں بعض حدود اور گھروں میں جانے کی اجازت کے آداب بیان کیے ہیں۔
اس سورت میں اس سے پہلے بھی استئذان کے بارے میں تعلیمات بیان کی گئی ہیں اور اس کے مطابق اس سے پہلے باہر سے اندر جانے کا پردہ بیان کیاگیا ہے اور اب گھروں کے اندرونی حصوں کے پردے کا بیان ہے۔
اور ان تعلیمات کی مدد سے مسلم معاشرے میں گھر سکون وآرام کی علامت ہوتے ہیں اور پریشانیوں سے نجات کی علامت ہیں لیکن یہ کیفیت اس وقت ہوسکتی ہے جب وہ پر امن اور باحرمت ہوں اور ان میں کوئی بھی بغیر اجازت کے داخل نہ ہو ۔ عمومی ممانعت اور آداب استئذان کے بعد خصوصی طور پر غلاموں اور نابالغ بچوں پر بھی ان مخصوص اوقات میں آمدورفت کلی پابندی اس لیے عائد کی گئی ہے کہ غلاموں اور بچوں کی آمدورفت عموماً گھروں میں آزادانہ ہوتی ہے لہٰذا بطور خاص ان کاتذکرہ کیاگیا ہے کہ خلوت کے کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جب انسان پسند نہیں کرتا کہ کوئی ان کو اس حالت میں دیکھے یا مخل ہو۔ لہٰذا یہ ممانعت تربوی انداز میں ایک مسلمان کی ذاتی اور شخصی آزادی کے احترام کا سبق دیتی ہے۔
اور یہ ایک ایسا ادب ہے جس سے بہت سے لوگ اپنی گھریلو زندگی میں غافل ہوتے ہیں اور اس کا سب سے برا اثر بچوں پر پڑتا ہے اور ان کا گمان یہ ہوتاہے کہ بچے اس عمر میں ان مناظر سے ناواقف ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تربیتی نظام ہمیں بتاتاہے کہ اس عمر میں بچے کے اندر قوت اخذ سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ لمحہ لمحہ مسلسل سیکھنے کے عمل میں ہوتاہے۔ یہی وجہ تھی کہ قرآن مجید نے بطور خاص بچوں کا تذکرہ کیا کیونکہ یہ اسلام کی بنیادی خوبی ہے کہ وہ برائیوں کی مبادیات بھی ختم کرنا چاہتاہے اور بچوں کی اخلاقیات پر ایسے ان خلوت کے مناظر سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے وہ ساری زندگی نہیں جان چھڑا سکتا لہذا والدین پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں یہ امر بھی مدنظر رکھیں کہ بچوں کی تربیت صرف ان کو کھلانے پلانے اور پہنانے یا رہائش تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت بڑی اور عظیم مسئولیت ہے بشرط یہ کہ محسوس کی جائے اس آیت کے اہم نکات درج ذیل ہیں :
1 اس آیت میں گو کہ مخاطبت صرف مردوں سے کی گئی ہے لیکن اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
2 اَ لَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ
میں بالغ اور نابالغ دونوں شامل ہیں کیونکہ پردہ اور حجاب سب کے لیے ہے۔
3 اس میں حکم ایجاب پر ہے نہ کہ استحباب کے لیے ہے۔
اور ان تین اوقات میں ممانعت کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ اس کے علاوہ ان کو اجازت ہے بلکہ یہ ممانعت عمومی ہے اور ان تین اوقات میں بطور خاص ہے۔
مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ
وہ تین اوقات جن میں اجازت لینا لازمی ہے درج ذیل ہیں :
1 پہلا وقت نماز فجر سے پہلے کا ہے جب لوگ عادۃ نیند کے لباس میں ہوتے ہیں۔
2 دوسرا وقت قیلولہ کا ہے جب کہ لوگ عادۃً سونے کے لیے کپڑے اتارتے ہیں اورراحت کی خاطر نیند کے کپڑے پہن لیتے ہیں۔
3 تیسرا وقت نماز عشاء کے بعد کا ہے جبکہ لوگ اپنے لباس اتارتے اور سونے کیلئے ڈھیلے ڈھالے کپڑے اوڑھتے ہیں۔
ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ
ان تین اوقات کو اللہ رب العزت نے ثلاث عورات کے نام سے یاد کیا ہے کیونکہ ان میں پردے کی جگہیں کھلی ہوتی ہیں۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ :
یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کیے بغیر گھر کے اندر آجاسکتے ہیں۔
طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ
چونکہ خادم اور مالک ان میں سے ہر فریق کو دوسرے سے ملنے کی حاجت پیش آتی رہتی ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت مرحمت فرمائی کہ مذکورہ اوقات ثلاثہ کے علاوہ خادموں اور بچوں کی آمدورفت کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہے اس کے لیے سبب یہ بتایا گیا کہ وہ بہت زیادہ آنے جانے والے ہیں اور یہ وہی وجہ ہے جو حدیث میں بلی کے پاک ہونے کے بارے میں بیان کی گئی ہے ۔
إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ ( بخاری)
’’ بلی ناپاک نہیں ہے کہ وہ بکثرت تمہارے پاس آنے جانے والی ہے۔‘‘
كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
مسلم معاشرے کے فرد کی تربیت واصلاح کا بندوبست اللہ رب العزت نے اس طرح کیا کہ تمام تربیتی نکات کو کھول کر واضح انداز میں بیان کردیا اور یہی قرآن مجید کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس کے احکام واضح ہیں اور بعض احکام تو مختلف انداز میں بار بار آتے ہیںتاکہ وہ ذہن نشین ہوجائیں۔ ایک مسلمان کے لیے یہ بہت اہم مقام ہے کہ یہ احکام بیان کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے اور صاحب علم وحکمت ہے۔
وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
لیکن جب یہ بچے بالغ ہوجائیں تو ان کا حکم بھی اجنبیوں کا ہوجاتاہے جن کے لیے ہر وقت اجازت لینا ضروری ہے جیسا کہ اوپر آیات استئذان میں گزرا (27تا 29) آیت کے آخر میں (وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ) فرما کر یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نفوس بشر کا بخوبی علم ہے اور ان کی اصلاح کے آداب بھی بخوبی معلوم ہیں حکیم اس لیے کہ وہ نفوس وقلوب کے علاج کی حکمت جانتا ہے۔
یعنی یہ استثنائی حکم بھی صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ بچپن کی حدود میں ہیں اور جیسے ہی وہ بچپن کی حدود سے بلوغت میں داخل ہوجائیں ان پر بھی وہی حکم ہے جو بالغ افراد کے لیے ہے اور بلوغت کی حد کے بارے میں کتب فقہ میں مختلف اقوال ہیں لیکن راجح وہی ہے جو اوپر تذکرہ کیا گیاہے۔
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا
اس سے پہلے عورتوں کو جو احکام دیئے گئے ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ نگاہیں جھکانا، پردے کی حفاظت، جسم کی زینت کو چھپانا، اپنے پَلّو سینے پر ڈالنا، صرف ان مردوں کے سامنے ہی زینت کھولنا خاوند،باپ،سسر،بیٹا وغیرہ ۔ پاؤں زور سے زمین پر نہ مارنا تاکہ مخفی زینت ظاہر نہ ہو۔(النور:31)
ان احکام سے بوڑھی عورتوں کو مستثنیٰ قرار دے دیاگیا ہے ایسی بوڑھی عورتیں جو اولاد، حیض اور نکاح سے مایوس ہوچکی ہیں یعنی نکاح کی خواہش اپنے اندر نہیں پاتی تو ان عورتوں کو ایک اجازت ہے وہ یہ کہ
فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ
پس ان پر کوئی گناہ نہیںکہ وہ اپنے کپڑے پرے رکھ دیں بشرطیکہ ان کا ارادہ زینت کو ظاہر کرنے کا نہ ہو یعنی ان بوڑھی عورتوں کے لیے اجازت ہے کہ وہ اپنی چادر یا اوڑھنی وغیرہ اتاردیں بشرطیکہ ان کاستر نہ کھلے اور وہ اپنی زینت کو جان بوجھ کر نہ ظاہر کریں زینت سے مراد وہ امور جن کی وجہ سے مرد عورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔
وَأَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ
گو کہ اللہ تعالیٰ ان بوڑھی عورتوں کو اجازت دے دی لیکن اس کے باوجود اگر وہ اس کی بھی احتیاط رکھیں تو زیادہ اچھا ہے یعنی وہ چادر اور اوڑھنی کو نہ ہی اتاریں تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہے ۔
وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اللہ تعالیٰ نے سننے والا ہے اور جاننے والا ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
مستنبط کردہ فقہی مسائل :
مسئلہ نمبر 1۔ اس آیت میں مخاطبت مردوں کے لیے ہے یا عورتیں بھی اس میں شامل ہیں ؟
آیت کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ خطاب مردوں سے ہے لیکن اس میں عورتیں بھی شامل ہیں کیونکہ استئذان وحجاب وپردے کے احکام میں عورتیں مردوں سے زیادہ محتاج ہیں ۔ (الرازی 24/28، أبی السعود 4/72)
جیسا کہ قرآن مجید کے بیشتر مقامات سے معلوم ہوتاہے کہ مخاطبت صرف مردوں سے کی گئی لیکن اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
مسئلہ نمبر 2: ملکت أیمانکم سے کیا مراد ہے ؟
ملکت أیمانکم سے عمومی مراد غلام اور لونڈیاں ہیں آیت کا ظاہر صرف غلاموں سے متعلق ہے لیکن ملکت أیمانکم سے مراد غلام ، کنیزیں، غلام بچے وغیرہ سب ہیں کیونکہ علّت پردہ اور حجاب کے حوالے سے ہے اور اس میں سب مشترک ہیں۔
مسئلہ نمبر 3: استئذان کا حکم وجوب ہے یا استحباب پر ہے ؟
لِيَسْتَأْذِنْكُمُ سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ حکم وجوب کے لیے ہے اور اس پراکثر علماء کا اتفاق ہے لیکن جمہور علماء اس کے مستحب ہونے پر قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صرف محاسن آداب کی تعلیم کے طور پر ہے ۔ بالغ پر وقت اجازت لے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور بچے صرف ان تین ممنوعہ اوقات میں اجازت لیں گے۔
مسئلہ نمبر 4۔ بلوغت کی عمر کیا ہے؟
آیت کے ظاہری مفہوم سے معلوم ہوتاہے کہ بچہ اس وقت بالغ ہوتاہے جب اسے احتلام ہونا شروع ہوجائے اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ جب بچہ یا بچی محتلم ہوں تو یہ ان کے بلوغت کی واضح علامت ہے لیکن اس حوالے سے عمر کے بارے میں اختلاف ہے کتنی عمر کا بچہ بالغ ہوتاہے ۔
احناف : احناف اس بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک بچہ کی عمر 18 سال نہ ہو اور دلیل :
وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ إِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ حَتّٰى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ
اور یہ اشد کی عمر 18 سال کی ہوتی ہے اور لڑکیاں 17 سال کی عمر میں بالغ ہوتی ہیں۔
احمدبن حنبل،شافعی،ابویوسف،محمد رحمہم اللہ:
بلوغت کی عمر 15 سال ہے اور دلیل ابن عمر کی حدیث ہے کہ انہو ں نے اُحد کے دن شرکت کی اجازت مانگی اس وقت ان کی عمر 14 سال تھی تو ان کو اجازت نہیں ملی اور خندق کے دن جب اجازت مانگی اور اس وقت ان کی عمر 15 سال تھی۔
لیکن اس کے بارے میں راجح مذہب یہی ہے کہ بلوغت کے لیے کوئی عمر خاص نہیں ہے بلکہ وہ علامت ہے جو قرآن مجید نے بیان کی ہے اور وہ احتلام ہونے کی ہے اور یہ مختلف علاقوں میں مختلف عمر میں ہوتاہے عموماً گرم علاقوں میں جلدی ہوجاتاہے بہ نسبت سرد علاقوں کے۔
مسئلہ نمبر 5۔ کیا بچوں کو فرائض اورطاعات کا حکم دیاجائے گا؟
وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ
سے فقہاء استدلال کرتے ہیں کہ بچوں کو فرائض اور طاعات کی تعلیم تربیتی نقطہ نگاہ سے دی جائے گی تاکہ وہ باقاعدہ بلوغت کی عمر تک اس کے عادی ہوجائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اوقات ممنوعہ میں اجازت لینے کا حکم دیا ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ
مُرُوْا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ ـ
ـ’’کہ اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں۔‘‘
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اسی وقت سکھانا شروع کر دیتے تھے جب وہ باتوں کو پہچان لیتے ہیں۔
اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’ بچہ جب 10 سال کا ہوجائے تو اس کی نیکیاں لکھی جانا شروع ہوجاتی ہیں لیکن اس کی برائیاں اس وقت لکھی جاتی ہیں جب وہ محتلم ہوجائے۔
ابو بکر الرازی رحمہ اللہ لکھتے ہیںکہ ان کو تعلیمی، تربیتی اور تأدیبی طور پر ان امور کا حکم دیاجاتا ہے۔
فوائد:
1۔ دین اسلام کی تعلیمات سب کے لیے عام ہیں۔
2۔ یہ تعلیمات محد سے لحد تک کے لیے ہیں۔
3۔ اسلام نے بچوں کی تربیت کا اہتمام اس حد تک کیا ہے کہ ان کی ناسمجھی اور ناواقفی کی عمر سے ان کو آداب سکھائے جارہے ہیں۔
4۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان تین اوقات میں کسی کے پاس زیارت کے لیے جائے سوائے انتہائی اشد ضرورت ہو ۔ فجر کی نماز سے قبل ، ظہر کے بعد قیلولے کے لیے، نماز عشاء کے بعد
5۔ ان تین اوقات کے علاوہ بچوں اور غلاموں کو آمدورفت کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
6۔ وہ بچے جب بالغ ہوجائیں تو ان پر بھی اجازت کا حکم لازم ہے۔
7۔ بوڑھی عورتیں پردہ وحجاب کی پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں لیکن اگر حجاب میں رہیں تو ان کے لیے بہتر ہے اور پردہ ترک کرنے کی نیت زینت کی نمائش نہ ہو۔
8۔ اللہ رب العزت نے ان تعلیمات کے ذریعے ایک سبق دیا کہ مسلمان قوم ایسی ہو جن کے اعصاب صحیح سالم ہوں اور ان کے سینے پاک صاف ہوں ان کے شعور مہذب ہو اور دل اور اقرارات ایمان کی روشنی سے منور ہوں۔
9۔ عورتوں کے لیے عفت وعصمت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گمراہی کی فرصتوںکو کم سے کم کیاجائے اور ایسے امور سے اجتناب کیا جائے جو برائیوں کی طرف لے کر جاتیں۔ بے پردگی بھی بہت بڑی برائی ہے اور بہت سے فتنوں میں بنیادی سبب ہے۔
10۔ مسلمان کے مصالح سے اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر واقف ہیں لہٰذا اس کے سارے احکام فوائد پر مبنی ہیں اسی طرح استئذان کے احکام ہے۔
نوٹ : آداب استئذان کے لیے سورۃ نور کے دونوں موضوعات کو ملاکر پڑھیں ۔ (27تا 29) (58تا 60)
(جاری ہے)