رسول اللہ ﷺ جس بات کا حکم دیں اس پر عمل کیا جائے اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے رکا جائے۔

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللهَ     ۭ اِنَّ اللهَ شَدِيْدُ الْعِقَاب

ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔ (الحشر 7)

جو کام رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں نہیں کیا وہ کام اپنی مرضی سے کر کے اللہ کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا جائے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللهَ ۭ اِنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات 1)

رسول اکرم ﷺ کی متروک سنتوں کو زندہ کر نے کی جدوجہد کی جائے۔

عن كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُ , حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي ، فَعَمِلَ بِهَا النَّاسُ ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا ، لاَ يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا

ترجمہ: کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی فرماتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے میرے دادا سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری سنتوں میں سے کوئی ایک سنت زندہ کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو سنت زندہ کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا جبکہ لوگوں کے اپنے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔(ابن ماجہ)

جس بات سے نبی اکرم ﷺ اظہار بیزاری فرمائیں اس سے اظہار بیزاری کی جائے۔

عن أبو بردة بن أبي موسى قال وجع أبو موسى وجعا فغشي عليه ورأسه في حجر امرأة من أهله فصاحت امرأة من أهله فلم يستطع أن يرد عليها شيئا فلما أفاق قال أنا بريء مما بريء منه رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم بريء من الصالقة والحالقة والشاقة

ترجمہ:سیدناابوبردہ بن ابو موسی (اشعری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو موسی رضی اللہ کو شدید درد ہوا جس سے وہ بے ہوش ہو گئے ان کا سر ان کے گھر والوں میں سے ایک خاتون کی گود میں تھا ایک خاتون نے چلانا شروع کر دیا۔حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ (غشی کی وجہ سے) اسے روک نہ سکے۔جب ہوش آیا تو فرمانے لگے جس بات سے اللہ کے رسول ﷺ بیزار ہوں میں بھی اس سے بیزار ہوں۔رسول اللہ نے چلانے والی،بال نوچنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی (عورت سے ) اظہار بیزاری فرمایا ہے۔(صحیح مسلم)

آپ ﷺ کی نصرت کی جائے:

لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ   ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ

ترجمہ: (فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں۔ (الحشر8)

وضاحت: رسول اکرم ﷺ کی نصرت سے مراد آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا علم حاصل کرنا ،اس پر عمل کرنا،اس کو پھیلانا اور اسے غالب کرنے کی جدوجہد کرناہے۔

دل و جان سے آپ ﷺ کی عزت اور احترام کیا جائے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يٰآ أَيَّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ وَقَالَ أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَاحْتَبَسَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ يَا أَبَا عَمْرٍو مَا شَأْنُ ثَابِتٍ اشْتَكَى قَالَ سَعْدٌ إِنَّهُ لَجَارِي وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى قَالَ فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ

ترجمہ:سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،اپنی آواز نبی (ﷺ) کی آواز سےاونچی نہ کرو۔تو سیدناثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنے گھر بیٹھ گئے۔ (سیدناثابت رضی اللہ عنہ کی آواز قدرتی طور پر اونچی تھی) اور کہنے لگے میں تو آگ والوں میں سے ہوں۔ اور نبی اکرم ﷺ سے ملنا جلنا ترک کر دیا۔ آپ ﷺ نے سیدناسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے دیافت فرمایا۔ اے ابو عمرو! (سیدناسعد رضی اللہ عنہ کی کنیت) ثابت کہاں ہے،کیا بیمار ہے؟سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا وہ میرا ہمسایہ ہے اور میرے علم کی حد تک تو بیمار نہیں۔چنانچہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کے گھر آئے تو رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کا تذکرہ کیا۔ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے فلاں آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں میری آواز تم سب لوگوں سے زیادہ اونچی ہے تو میں جہنمی ہوگیا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے (واپس آ کر) رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:نہیں وہ تو جنتی ہے۔(صحیح مسلم)

رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور فضائل بیان کیے جائیں ،نعت کہی جائے اور آپ ﷺ کے خلاف ہر قسم کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا جواب دیا جائے۔

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اهْجُوا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ اهْجُهُمْ فَهَجَاهُمْ فَلَمْ يُرْضِ فَأَرْسَلَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ حَسَّانُ قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تُرْسِلُوا إِلَى هَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنَبِهِ ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ فَجَعَلَ يُحَرِّكُهُ فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَعْجَلْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا وَإِنَّ لِي فِيهِمْ نَسَبًا حَتَّى يُلَخِّصَ لَكَ نَسَبِي فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَكَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنْ الْعَجِينِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِحَسَّانَ إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُكَ مَا نَافَحْتَ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفَى وَاشْتَفَى قَالَ حَسَّانُ هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا حَنِيفًا رَسُولَ اللَّهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ ثَكِلْتُ بُنَيَّتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَا تُثِيرُ النَّقْعَ مِنْ كَنَفَيْ كَدَاءِ يُبَارِينَ الْأَعِنَّةَ مُصْعِدَاتٍ عَلَى أَكْتَافِهَا الْأَسَلُ الظِّمَاءُ تَظَلُّ جِيَادُنَا مُتَمَطِّرَاتٍ تُلَطِّمُهُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ فَإِنْ أَعْرَضْتُمُو عَنَّا اعْتَمَرْنَا وَكَانَ الْفَتْحُ وَانْكَشَفَ الْغِطَاءُ وَإِلَّا فَاصْبِرُوا لِضِرَابِ يَوْمٍ يُعِزُّ اللَّهُ فِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ أَرْسَلْتُ عَبْدًا يَقُولُ الْحَقَّ لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ يَسَّرْتُ جُنْدًا هُمْ الْأَنْصَارُ عُرْضَتُهَا اللِّقَاءُ لَنَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ سِبَابٌ أَوْ قِتَالٌ أَوْ هِجَاءُ فَمَنْ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ مِنْكُمْ وَيَمْدَحُهُ وَيَنْصُرُهُ سَوَاءُ وَجِبْرِيلٌ رَسُولُ اللَّهِ فِينَا وَرُوحُ الْقُدُسِ لَيْسَ لَهُ كِفَاءُ

ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا کہ جب تک تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے(کافروں کو) جواب دیتا رہے گا اللہ تعالیٰ روح القدس یعنی جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے تیری مدد فرماتے رہیں گے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ حسان نے کفار کی ہجو کی، اہل ایمان کے دلوں کو سکون پہنچایا اور کافروں کی عزتوں کو برباد کیا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے چند شعر درج ذیل ہیں:

کافروں نے محمد (ﷺ) کی ہجو کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اس کا بدلہ اللہ کے پاس ہے۔

کافروں نے نیک اور متقی محمد (ﷺ) کی برائی کی جو اللہ کے رسول ہیں،وفاداری ان کی فطرت ہے۔

میرے ماں باپ اور میری عزت و آبرو سب کچھ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی عزت اور آبرو کو بچانے کے لیے قربان ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے ایک بندہ بھیجا ہے جو سچ کہتا ہے اور اس کی بات میں کوئی شک نہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے،انصار کا لشکر،جن کا کام کفار سے مقابلہ کرنا ہے۔

ہمارے درمیان اللہ کے رسول اور جبرائیل ہیں اور جبرائیل کا تو کوئی مدمقابل ہی نہیں۔(صحیح مسلم)

رسول اکرم ﷺ کی عزت اور ناموس کا تحفظ کیا جائے۔

ابن عباس رضى الله عنه أن أعمى كانت له أم ولد تشتم النبي صلى الله عليه و سلم وتقع فيه فينهاها فلا تنتهي ويزجرها فلا تنزجر قال فلما كانت ذات ليلة جعلت تقع في النبي صلى الله عليه و سلم وتشتمه فأخذ المغول (المغول بالغين المعجة وهو السكين ) فوضعه في بطنها واتكأ عليها فقتلها فوقع بين رجليها طفل فلطخت ما هناك بالدم فلما أصبح ذكر ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فجمع الناس فقال ” أنشد الله رجلا فعل ما فعل لي عليه حق إلا قام ” قال فقام الأعمى يتخطى الناس وهو يتزلزل حتى قعد بين يدي النبي صلى الله عليه و سلم فقال يارسول الله أنا صاحبها كانت تشتمك وتقع فيك فأنهاها فلا تنتهي وأزجرها فلا تنزجر ولي منها ابنان مثل اللؤلؤتين وكانت بي رفيقة فلما كان البارحة جعلت تشتمك وتقع فيك فأخذت المغول فوضعته في بطنها واتكأت عليها حتى قتلتها فقال النبي صلى الله عليه و سلم ألا اشهدوا أن دمها هدر

ترجمہ: سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی کی لونڈی تھی جو نبی اکرم ﷺ کو گالیاں بکتی اور آپ ﷺ کی ہجو کرتی۔صحابی اسے منع کرتا لیکن وہ باز نہ آتی،صحابی اسے ڈانٹتا لیکن وہ پھر بھی نہ رکتی۔ایک رات لونڈی نے آپﷺ کی ہجو کی اور گالیاں بکنے لگی تو صحابی نے چھرا اس کے پیٹ میں گھونپ دیا اور زور سے دبایا جس سے وہ ہلاک ہوگئی۔ جب صبح ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: جس شخص نے یہ کام کیا ہے میں اسے اللہ کی قسم دے کر اور اپنے اس حق کے حوالہ سے جو میرا اس پر ہے، کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے۔

چنانچہ وہ نابینا صحابی کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھا اور نبی اکرمﷺ کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔وہ آدمی کانپ رہا تھا،عرض کرنے لگا:یا رسول اللہ ﷺ! میں ہوں اس کا قاتل،وہ آپ ﷺ کو گالیاں بکتی تھی اور آپ ﷺ کی ہجو کرتی تھی،میں اسے منع کرتا لیکن وہ باز نہ آتی میں اسے ڈانٹتا لیکن پھر بھی وہ منع نہ ہوتی حالانکہ اس سے میرے موتیوں جیسے (خوبصورت) دو بیٹے بھی ہیں وہ میری (اچھی) رفیقہ تھی لیکن کل رات جب وہ آپ ﷺ کو گالیاں بکنے لگی اور آپ ﷺ کی ہجو کرنے لگی تو میں نے چھرا پکڑا اوراس کے پیٹ میں گھونپ دیا اور زور سے دبایا ،حتی کہ میں نے اسے قتل کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لوگو سنو! گواہ رہنا اس لونڈی کا خون رائیگاں ہے۔ ( یعنی اس کا قصاص نہیں لیا جائے گا) (ابوداود)

رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی شدید تمنا رکھی جائے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَكُونُونَ بَعْدِي يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ

ترجمہ: سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد میری اُمت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مجھ سے اس قدر شدید محبت کرتے ہوں گے کہ ان میں سے کوئی یہ خواہش رکھے گا کہ اپنا اہل و عیال اور مال و منال سب کچھ صدقہ کر کے میری زیارت کرے۔ (صحیح مسلم)

آپ ﷺ کا اسم مبارک سن کر آپ ﷺ پر درور بھیجا جائے۔

عن علي رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم البخيل الذي من ذكرت عنده فلم يصل علي

ترجمہ: سیدناعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ میرے اوپر درود نہ بھیجے وہ بخیل ہے۔(ترمذی)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے