بلا شبہ یہ امت مسلمہ اپنے بعض خصائص و امتیازات کی بنا پر دیگر اقوام عالم سے مختلف ومنفرد ہے۔اس کی ایک نمایاںصفت جودیگر اقوام ومِلل سے جداگانہ ہے۔جس کی کثیر مقدار میںآمیزش اس امت کے خمیر میںکردی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے پیروکاروں (FOLLOWERS)نے ہمیشہ اختلاف و افتراق کی موجودگی کو سخت ناپسند کیا ہے۔گزشتہ چودہ سو سا لہ تاریخ میں انفرادی اوراجتماعی طور پر اتحاد امت کے داعیان ومبلغین نے تفرقہ واختلاف کی نہ صرف شدید مذمت کی ہے بلکہ اس برائی کو مٹانے کی سعی وجدوجہد میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔ان میں امام ابن تیمیہ،شاہ ولی اللہ،اورشاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ کے نام نمایاں ہیں۔ مگر اس افسوسناک حقیقت سے انکار نہیں کہ پھر بھی امت میں تفرقہ پیدا ہوا،اور اس تفرقہ نے امت کو سخت نقصان پہنچایا۔اورآج بھی اتحاد امت کی کوششوں کے باوصف تفرقے اور اختلافات کی بادِسموم نے اس امت کے فکروعمل کو زہر آلود کیا ہوا ہے۔

اس سلسلے میں فکر انگیز پہلو،تقویٰ،للٰہیت اور اسلامی شعور کا فقدان ہے جس پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی۔دوسرے اتحاد کی فضا قائم کرنے کے لئے عوام کی اکثریت نے مذہبی اختلاف کے خاتمے یا ان کی موجودگی میںاتحاد کی تلقین کرتے رہنے تک خود کو محدود رکھا۔اور تیسرے اتحاد و اتفاق کی ضرورت کو ارادی یا غیر ارادی طور پر ملکی حدود اربعہ تک ہی محسوس کیا گیا۔حالانکہ یہ امت عالمی سطح پر پھیلی ہوئی اکائی کا نام ہے۔اس وقت یہ امت مرحومہ جن نا مساعد،ناموافق اور شکست خوردگی کے حالات سے نبردآزما ہے۔اس کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں،ہرپہلو اور ہر جہت سے امت کی شیرازہ بندی کی جائے جس سے اس دنیا میں بھی امن وسکون اوربقاء وسلامتی کا حصول ممکن ہو سکے اور آخرت میں بھی اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کے سبب گرفت نہ ہو سکے۔فرمان الٰہی ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ

ترجمہ:(مسلمانو! اس وقت) تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے: تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔ (آل عمران 110)

ایک اور مقام پر اختلاف سے سختی سے باز رہنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمُُ (آل عمران 104،105)

ترجمہ:اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونا چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں۔ وہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیںنیز تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور روشن دلائل آجانے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ یہی لوگ ہیں جنہیں بہت بڑا عذاب ہوگا

سورۃ شوریٰ کی آیت نمبر 13میں اقامت دین کا حکم فرما کر انتہائی تاکید کے ساتھ تفرقہ فی الدین سے ان الفاظ کے ذریعے روک دیا گیا:

ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیہ

قرآن حکیم کی ان تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک تو اس امت کامزاج اختلاف سے بیزاری ہے اس لیے کہ اس کے خمیر میں یہ صفت گوندھی گئی ہے اور دوسری طرف امت مسلمہ کا فرض منصبی تفرقے سے پرہیز اور اتفاق واتحاد قائم کرنے کی تلقین پر مبنی ہے۔

اب اس تناظر میں چند اہم امور کو عملی طور پر اپنانا ناگزیر ہے اور استحکام امت اور اتحاد ملت کے لیے لازمی ولابدی ہے۔اس ضمن میں اولین شے تقویٰ کا حصول ہے۔آخرت کا خوف اور اپنے اعمال کی بازپرس کا صحیح شعوروادراک تقویٰ کی اصل بنیاد ہے۔اس لیے کہ انسان کا ہر وہ عمل اجروثواب سے محرومی کا باعث اور غیر مؤثر ثابت ہوتاہے جوروحِ تقویٰ سے عاری ہو۔اسلام کا یہ شدید تقاضا ہے کہ ہر مسلمان انفرادی سطح پر للٰہت،پاکیزگی اور نفاست آمیز زندگی گزارے۔اپنے نفس کے منہ زور گھوڑے کی لگامیں کھینچ کر رکھے،بغض وعداوت،ضد اور ہٹ دھرمی والی زندگی سے گریز کرے کہ یہ اعمال سیّئہ اختلاف و افتراق کا محرک بنتے ہیں۔

ارشادِربانی ہے:

وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢـا بَيْنَهُمْ )البقرۃ 213)

ترجمہ : اور واضح دلائل آجانے کے بعد جن لوگوں نے اختلاف کیا تو (اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق بات کا علم نہ تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی) کہ ان میں ضد بازی اور اَنا کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔

ایک متقی انسان،جس کی فکروعمل کا محور محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہو اوراس کے لیے وہ اپنے نفس کی شرارتوں سے حتی الامکان بجتا رہے۔اور اپنے ہر مسئلہ اور ہر نزاع کا حل قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں تلاش کرے تو وہ ہرگز نہ چاہے گاکہ اس کے یا کسی دوسرے شخص کے کسی غیر متوازن اور غیر اسلامی طرز عمل سے اتحادامت کو کوئی گزند پہنچے۔نفرت و اختلاف کی آگ سے وہ نہ صرف خود بچے گابلکہ عوام الناس کے خرمن اتحاد کو منتشر نہ ہونے کی جدوجہد بھی کرتا رہے گا۔یہی اصلاً تقویٰ کا حاصل ہے۔ایسا انسان ہمیشہ ذات پات،رنگ ونسل اوراونچ نیچ کی سطح سے بلند ہو کر اتحاد امت کے گُلِ سر سبد کو کبھی مر جھانے نہیں دیتا۔

الغرض ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ کا ہرفرد اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ذہن میں آخرت کی جواب دہی اور خشیت الٰہی کو سامنے رکھے۔کیونکہ قرآن وسنت ِرسولﷺہر فرد کو زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔بفحوائے قرآنی وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا (مریم ۵۹)

(سبھی قیامت کے دن اس کے حضورتنہاآئیں گے)۔

لیکن اس امت کا المیہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کی اس ہدایت نامّہ کی جتنی اہمیت اور افادیت ہے،امت کے مصلحین(Reformers)اس طرف سے اتنے ہی غافل ہیں۔حصول تقویٰ کا قوی تر پہلو،ان کی نظروں سے اکثر اوجھل رہتا ہے۔

دوسری مؤثر ترین شے اسلامی شعور ہے۔اس کی موجودگی اسلامی معاشرے میںاختلاف و تفرقے کا باعث بنتی ہے۔چنانچہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں جن کی اسلامی نقطہ نظر سے کوئی اہمیت نہیںہوتی وہ تنازعات کی فضا پیدا کر دیتے ہیں۔اسلامی شعور کی کمی باہمی اخوت ومحبت اور اتحادویگانگت کو ختم کر دیتی ہے اور انسان کے اندروسعت قلبی اور خیر خواہی کے جذبات سردپڑنے لگتے ہیں اور اس طرح آپس میں چپقلش کے ساتھ ساتھ مساجد،عبادات گاہیں سیاسی اور مذہبی عناصر کی آماجگاہ بن کر رہ جاتی ہیں۔چنانچہ اقامت دین اور اتحاد ملی کے پیش نظر ان اعمال قبیح سے دامن بچاتے ہوئے قرآن وسنت کی سنہری اور خورشید تابناک آیات پر عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ تعصب اور گھٹن کی فٖضامیں تازہ ہوا کاگزر ہوسکے۔

تیسری چیز اللہ کے رسولﷺکی اطاعت ہے۔اگرچہ قرآن حکیم انسانوں کی ہدایت لے لیے مینارۂ نور ہے،جس کی روشنی میں ہر مسئلہ کا حل بخوبی تلاش کیا جا سکتا ہے۔اس لیے مشکل یہ پیش آتی ہے کہ اس میںتفصیل ووضاحت نہیں ہوتی۔اور اسی چیز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان صفت اور اپنے نفس کے غلام لوگ قرآن حکیم کی آیات کی من مانی تاویلات کر کے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور امت کے سادہ لوح عوام کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔جس سے انسانوں کے مابین اختلاف وافتراق جنم لیتا ہے۔چنانچہ مصور کائنات نے اس کی روک تھام کے لیے کتابوں کا نزول اور رسولوں کی بعثت کا سلسہ جاری فرمایا تاکہ وہ اللہ کے حکم کو قولاًو عملاً بنی نوع انسان کے سامنے پیش کریں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس (النحل ۴۴)

ترجمہ:اور آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن) اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو واضح طور پر بتا دیں۔

چنانچہ یہ لا زم ہے کہ ہر مسئلہ اور تنازع کا حل رسول کریمﷺکے قول وفعل کی روشنی میں کیا جائے۔اگر کسی معاملے میں ایک جیسی کئی حدیثیں،ایک ہی سند اور صحت کی آجائیں تو اقرب الی المفہوم القرآن، حدیث لے کر دوسری کی تطبیق یا توجیہ کردی جائے، ورنہ ہر دو پر عمل کی آزادی دے دی جائے۔ا س طرح ممکن ہے کہ اختلاف کی دھند صاف ہو جائے۔ اور یوں اتحاد امت کے لیے ایک مضبوط بنیاد حاصل ہو سکے۔امت مسلمہ کے درمیان اختلاف وافتراق کو مٹانے کے لیے رسول کریمﷺکی سنت آج بھی ایک قول فیصل کا درجہ رکھتی ہے۔

آخری اور اہم ترین شے،خلافت اسلامیہ کی احیاء کے لیےجدوجہدہے۔رسول کریمﷺنے ارشاد فرمایا: ’’مومن آپس کی محبت،ہمدردی اور مہربانی میں تن واحد کی طرح ہیں کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو پورا جسم اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم) گویا اس امت کی حیثیت ایک عمارت کی مانند ہے،جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت دیتا ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ امت اپنی آفاقی قدروں کو اپنے ہی ہاتھوں پامال کر بیٹھی ہے۔قوموں،فرقوں اور جغرافیائی حدود میں تقسیم ہو کر یہ اپنی مرکزیت کھو چکی ہے۔امت مسلمہ کو وطنیت، قومیت اور نسلی تفاخرنے اپنے اجتماعی مفادات کی فکر سے آزاد کر دیا ہے۔سید ابو الحسن علی ندویؒاپنی تصنیف ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘میں لکھتے ہیں : ’’یہ اسلام دشمن قوتوں کا مؤثر ہتھیار ہے کہ انہوں نے اسلامی ممالک کو اپنی ذات اور اپنے ہی مسائل میں الجھا رکھا ہے اور کمال ہوشیاری اور مربوط منصوبہ بندی سے مسلمانوں کے ہر گروہ اور ہر جماعت کو یہ سبق پڑھایا ہے کہ درد مندی اور حقیقی محبت صرف وہی ہوتی ہے جو اپنی مٹی،اپنے وطن اور اپنی ہی قوم سے کی جائے۔اور اس فکرکی جڑیں مسلم ممالک کی اکثریت میں اتنی گہری ہو چکی ہیںکہ جن کو ہلانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔چنانچہ یہی منفی فکر امت مسلمہ کے زوال و انحطاط کا ایک بڑا سبب ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ایک ہی مذہب کے پیروکار ذہنی اور فکری اعتبار سے امت واحدہ ہونے کے باوجود دوردور ہیں‘‘۔

ان احوال وظروف کے تناظر میں امت مسلمہ کے اتحاد اور آفاقیت کو واپس لانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسے با اختیار اجتماعی ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو اس کی دینی اور دنیوی معاملات میں قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی کر سکے۔جوامت کی جانب سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکافریضہ انجام دے سکے۔ امت کی جا بجا بکھری ہوئی صلاحیتوں اور منتشر توانائیوں کو مجتمع کر کے ایک مربوط اور منظم پلیٹ فارم پر لا کر امت کی فلاح و بہبود اور اسلامی روایات اور اقدار کو بالفعل نافذ کیا جائے۔اور امت کے قلوب و اذہان میں رسول کریمﷺکے اسوہ کو جاگزیں کر کے عملی اور فکری اعتبار سے ایک سچا اورپختہ کار مسلمان بنایاجائے۔اس تدریجی عمل کو خلافت علیٰ منہاج النبوّۃکانام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ یہی راستہ مسلمانوں کی قوت کا مظہر اور مرکزیت کا سرچشمہ ہے۔

قرآن وسنت کی تعلیمات امت مسلمہ کی فکری اساسات ہیں اور خلافت اسلامیہ کاقیام اس کی عملی وحدت کی اساس ہے۔خلافت اسلامیہ کا احیاء اس وقت کی تمام اسلامی تحریکوں اور اسلامی حکومتوں کی اولین ترجیحات ((Prioritiesمیں ہونا چاہیے۔دوسری جانب اسلام کے متعلق مغرب کے منفی پروپیگنڈے کے جواب میں اور تبلیغ کا مؤثر طریق پر حق اداکرنے کے لیے تمام جدید ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لایا جائے تاکہ اسلام کی حقانیت کی نشرواشاعت میں آسانی پیدا ہو سکے۔

اتحادامت کے لیے یہ حقیقی اساسات ہیں اور عملاًواتفاق پیداکرنے کے لیے یہ تمام کام انتہائی ضروری اور مثبت نتائج کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے ایک مسلمان کو اپنے خود ساختہ معیارات کو ترک کر کے قرآن و سنت کے بتائے ہوئے راستے پر اپنے فکر وعمل کو گامزن کرنا ہی کامیابی اور فلاح کا راستہ اور قصدالسّبیل ہے۔اور اتحاد امت کے لیے مؤثر ترین ہتھیار بھی ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے