قال اللہ تعالٰی:نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُo وَاَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُo

قرآن حکیم کی ان آیات میں اللہ تعالی نے اپنےنبی محمدرسول اللہ ﷺکودو خبریں یادوباتیںبیان کرنے کا حکم دیاہےکہ ان کو میرےبندوں تک پہنچادیجئےبظاہر ان دونوں باتوں میں تضاد ہےلیکن وہ دونوںایمان کا ایک حصہ ہیںفرمایا’’ نَبِّئْ عِبَادِيْٓ ‘‘میرےبندوں کوخبر دےدیجئے’’ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘کہ میں غفورالرحیم ہوں غفورکامعنی گناہوں کو بخشنے والااوررحیم کا معنی نہایت رحم کرنے والا، توپہلی خبر تو یہ ہےکہ میرےبندوں کوبتادیجئےکہ میں غفورالرحیم ہوں وَاَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ اوردوسری خبر یہ بھی دےدیجئےکہ میرا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔غفور الرحیم بھی ہوںاوربہت بڑےعذاب کا مالک بھی ہوں یہ دونوںچیزیں بظاہرایک دوسرےسےٹکرارہی ہیںلیکن انسان کا تعلق ان دونوںمیں سےایک کےساتھ ضرورہوتاہے۔اور اللہ نےاپنےبندوں کو دونوں باتوں کےبارےمیںبتلا کران کو راستے کے انتخاب کےلیےآزادکردیا۔اورقرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ان کاذکرفرمایا۔اوران دونوں خبروں میںسےانتخاب کرنےوالےکواس کی جزاوسزاکابھی بتادیا۔

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا هِيَه ْنَارٌ حَامِيَةٌ( القارعۃ:6تا11)

جس کانیکیوں کا ترازوبھاری ہوگاوہ جنت میںجائے گااورجنت میں بڑی پسندیدہ زندگی گزارے گااورجس کاگناہوں کاپلڑا بھاری ہوگااور اس کاٹھکاناہاویہ ہوگا یعنی دہکتی ہوئی آگ۔

یہاں بھی دونوںچیزیں جمع کردیں ہیں ایک پسندیدہ زندگی اوردوسری نا پسندیدہ زندگی۔

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهْo وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (الزلزال 7،8)

پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔

یہاں بھی خیراورشردونوں جمع ہیںرسول اللہ ﷺکی بہت سی حدیثیںاسی مضمون کوبیان کرتی ہیں۔

الجنۃأقرب إلٰی احدکم من شراک نعلہ والنار مثل ذلک (صحیح البخاری6488،مسند احمد 3923،3667 اسنادہ علی شرط الشیخین،صحیح ابن حبان 661 )

جنت بھی تم سے ایک فٹ کے فاصلے پر ہےاورجہنم بھی ایک فٹ کے فاصلےپر ہے۔

نیز رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

دخل رجل الجنۃفی ذناب ودخل رجل النار فی ذباب (مصنف ابن ابی شیبہ37809،33038۔شعب الایمان 6962 )

سابقہ امتوں میں سےایک شخص مکھی کی وجہ سےجنت میںداخل ہوگیااوردوسراشخص مکھی کی ہی وجہ سےجہنم میں داخل ہوگیا۔

یہاں پر اللہ کے پیارے نبی محمدعربیﷺ نے دونوں چیزوں کابرابرذکرفرمایا،کہ جوجس طرح کرےگاوہ اسی کا پھل پائےگا۔ان احادیث میں دونوں پہلوں خیر اورشرکوجمع کیا گیا ہےتویہی ایک مومن کے ایمان کا تقاضا ہےمستقبل میں اچھی چیز ہواور اس کی توقع ہواوراس کاانتظارہواوراس کی امیدہویہ رجاءہےکہ بندے کے ایمان کے ساتھ اچھی امید وا بسطہ ہو مایوسی نہ ہو بلکہ ایمان رجاءکے ساتھ ہو۔

ارشاد ربانی ہے:

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (الزمر 53 )

آپ لوگوں سے کہہ دیجئے: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے۔

رسول اللہﷺ کافرمان ہےکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔میں بندے کے اس گمان کو پورا کروںگا جوگمان وہ میرےساتھ وابسطہ کیے ہوئے ہےفرمایاکہ ’’ فلیخرج من النار وھو یحسن باللہ الظن ‘‘جب انسان دنیا سے کوچ کرے تو اس کا اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہو،حسن ظن لے کر جائے اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی توقع ہو، رجاءہو ۔یہ ایمان کا بہت اہم حصہ ہے اس کے وعدوں پر یقین کامل ہو تو اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالی کی مغفرت کی آرزواس کے سامنے ہو۔رسول اللہﷺ کے وہ فرامین جن میں اللہ تعالی کی مغفرت کا وعدہ ہے اللہ کی رحمت کا ذکر ہے وہ حدیثیں اس کے علم میں ہوں۔رسول اللہﷺ کی حدیث ہے

قضی اللہ الخلق کتب فی کتابہ فھوعندہ فوق العرش ان رحمتی سبقت غضبی

(مسند احمد 7491،7520 )

جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیداکیاتمام انسانوں کی خلقت ہوگی یہ عالم عروہ کی باتیں ہیں تو سب کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے ایک کتاب لکھی۔ ’’ فھوعندہ فوق العرش ‘‘ وہ کتاب اصلی اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے وہ جملہ کیا ہے ’’ ان رحمتی سبقت غضبی  ‘‘ (بخاری 7554 مسند احمد 7491)

اسی طرح بعض احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی مغفرت فرمائے گا اور ابلیس کو بھی تکبر ہو جائے گا کہ میری بھی مغفرت ہو جائے یہ رجاء ہے اللہ کی رحمت کی امید ہے

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:ـ

مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَلِ۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ گواہی دے کہ اللہ ایک ہے وحدہ لا شریک لہ ہے اس کے ساتھ کوئی شرک نہ کرے اور یہ بھی گواہی دے کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور رسالت کے تقاضوں کو پورا کرےاور اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ عیسی علیہ السلام اللہ کےبندے اور اس کے رسول ہیں عیسائیوں کے عقیدے کی نفی کرے جو کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں صرف ان کی رسالت اور عبدیت کی گواہی دے کہ عیسی اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔اور مریم علیہا السلام کی طرف القاء کیے الفاظ پر یقین رکھے اور یہ بھی گواہی دے کہ قیامت برحق ہے مشرکین مکہ والا عقیدہ نہ ہو کہ جب ہم قبر میں پہنچ جائیں گےگوشت گل جائے گا ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو پھر ہم دوبارہ کیسے پیدا کیے جائیں گے۔اللہ کی قدرت پر کامل یقین ہو اور جنت کے حق ہونے کی گواہی دے اور جہنم کے حق ہونے کی بھی گواہی دے ۔جب یہ سب گواہیاں دے دے گا تو قیامت کے دن جنت میں داخل ہوگا،اللہ انسان کے دوسرے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

بلکہ رسول اللہﷺ کی ایک حدیث ہے جس کے راوی سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیںفرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےمجھےکہا کہ جو شخص اللہ کی توحید کی گواہی دے دے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔سیدنامعاذرضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسولﷺسے عرض کی یا رسول اللہﷺ ’’ أفلا أبشر الناس‘‘کیا میں لوگوں کو خوشخبری دے دوں بشارت دےدوں۔نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں وہ اس پر بھروسہ کر لیں گے اعتماد کر لیں گے عمل نہیں کریں گے۔(بخاری)۔ اس کا مفہوم الٹ لیں گے غلط سمجھیں گے لہٰذا خاموش رہو پھر آپ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے۔حدیث میں آتا ہے کہ ’’وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا. ‘‘سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی خبر گناہ کے بوجھ سے ڈرتے ہوئے عین موت کے وقت دی یعنی کہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ اب موت کا وقت قریب ہے تب انہوں نےاس ڈر سے بتلادیا کہ علم کو چھپانا بھی منع ہے اور اس کے بارے میں بڑی بڑی وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایاکہ جو شخص علم کو چھپا لے قیامت کے دن اس کے منہ میں جہنم کی لغام تیار کر کے ڈال دی جائے گی۔تو ان وعیدوں سے ڈرتے ہوئےسیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے بتلا دیا۔آج ہمیں بھی ان وعیدوںسے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ سے اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنی چاہیے۔اوراللہ کی رحمت سے اپنی مغفرت کی امید رکھنی چاہیے۔

رسول اللہﷺ کافرمان ہے کہ اللہ فرماتا ہےاگر بندےگناہ کرنا چھوڑدیںتو اللہ تعالی ایک ایسی مخلوق پیدا کرے گا کو گناہ بھی کرے اور استغفار بھی کرے۔تو یہ صفات اس آخری امت میں پائی جاتی ہیں اس لیےاللہ تعالی نے فرمایا ’’ نَبِّئْ عِبَادِيْٓ ‘‘ میرے بندوں کو بتا دیجیے ’

’ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘

کہ میں بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔تاکہ یہ مخلوق اپنے رب کی طرف لوٹتی ہی رہے۔

دوسرا پہلو

’’ وَاَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ ‘

‘ کہ میرا عذاب بڑا درد ناک ہے،اور اس دردناک عذاب کا مالک پھر کیسا ہو سکتا ہے؟

رسول اللہﷺ کی حدیث ہے

’’ نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ‘

‘کہ دنیا میں جتنی بھی آگ ہے جو جلائی جاچکی یاجلائی جا رہی ہے یاقیامت تک جلائی جائے گی اس ساری آگ کو اللہ تعالی نے ایک بار گرم کرکے دنیا میں بھیج دیا ہے۔صرف ایک بار گرم کیا اور جہنم کی آگ کو ستر (70) بار گرم کیا گیا ہے۔ اس کی تیزی اوراس کی شدت دنیا کی آگ سےستر گناہ زیادہ ہوگی۔(بخاری)یہ عذاب الیم ہےجس کی مختلف کیفیات قرآن وحدیث میں بیان ہیں۔

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ بعض لوگوں کا عذاب ایسا ہوگا کہ انہیں مستقل جہنم کے اوپر سے پھینکا جائے گا وہ جہنم کی تہہ میں جا کر گریں گے ریزہ ریزہ ہو جائیں گے پھر ان کو بنایا جائے گا پھر پھینکا جائے گا بار بار یہ عمل ہوگا اور بعض لوگوں کا عذاب ایسا ہو گا کہ انہیں ایک مکان میںایسا جکڑلیا جائے گاکہ پلٹنے تک نہیں دیا جائے یہ عذاب الیم ہوگااس دن کے مالک کا۔

رسول اللہﷺ کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی۔

رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ یہ آواز کیسی ہے؟صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔تو آپﷺنے فرمایا اللہ نے ایک پتھر ڈالا تھا جہنم کی آگ میں،تاکہ جہنم کی گہرائی ماپی جاسکے حالانکہ اللہ تو گہرائی جانتا ہے لیکن اس نے اپنے بندوں کو بتانے کے لیےجہنم کی آگ میں پتھر ڈالا ہے۔اور یہ کب ڈالا گیا ہے اس کی مدت نبیﷺ نے ستر سال پہلے کی بتائی کہ یہ پتھر آج سے ستر سال پہلے جہنم میں ڈالا گیا تھا اور آج یہ جہنم کی تہہ میں جا کر لگا ہے۔

رسول اللہﷺ کافرمان ہے کہ آسمان سے کوئی چیز اگر زمین کی طرف پھینکی جائے تو وہ سورج غروب ہونے سے پہلے زمین پر گر جائے گی جہنم کی اتنی زیادہ گہرائی کو اللہ نے انسانوں اور جنوں سے بھرنا ہے۔فرمایا:

لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ   (السجدہ 13 )

میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کر دوں گا ۔

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ نے جہنم کو مخاطب کیا اور جنت کو بھی مخاطب کیا اورکہا کہ میں تم دونوں کو بھر کے جھوڑوں گا ۔اور فرمایا کہ یہ عذاب الیم کا بھی مالک جو اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اللہ کے عذاب کا خوف ہو اور یہ خوف پیدا ہونا چاہیے اس خوف کے بغیرایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے محدثین نے اس پوری کیفیت کو بیان کیا کہ ’’ الایمان بین الخوف والرجاء ‘‘انسان کا ایمان خوف اور امید کے درمیان رہنا چاہیے۔ اللہ کا خوف بھی ہو اور اللہ کی رحمت کی امید بھی ہولیکن کسی طرح افرادتفریط نہ ہو جس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص شراب کا پیالہ ہاتھ میں لے کر پیتا رہےاور ساتھ ساتھ کہتا رہے کہ اللہ غفورالرحیم ہے اورذہن میںیہ سوچ ہو کہ اللہ بخشنے والا ہے یہ زیادتی اور غلو کا پہلو ہے۔اس نے اللہ کی مغفرت اور رحمت کو پہچانا ہی نہیں رجاء کا پہلو عمل صالح کے ساتھ ہو اور خوف کا پہلو گناہوں کے ساتھ ہو اور اگر ایک شخص شریعت میں اپنے اوپر اس طرح خوف طاری کر لیتا ہے کہ شرعی حدود کو پامال کر جاتا ہے اللہ کی اطاعت میں تو یہ بھی کبیرہ گناہ ہے۔جس کی نبی علیہ السلام نے بڑی شدت اور پر زور طریقے کے ساتھ مذمت کی ہے۔ان تین صحابہ پر ایسا خوف طاری ہوا کہ ایک نے کہا کہ میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سؤں گا اور دوسرے نے کہا کہ میں جب تک زندہ ہوںروزے رکھوں گااور تیسرے نے کہا کہ میں اپنا گھر بار چھوڑ دوں گامسجد میں بیٹھ جاؤں گا یہ خوف کی باتیں ہیں ان کے دل تقویٰ سے معمور تھے دلوں میں خوف الٰہی تھا اور اس کے عذاب کا ڈر رہتا تھا ۔اللہ کے عذاب کے خوف سے رونے والےاور آہ وپکار کرنے والے تھے۔جب بنی علیہ السلام کوصحابہ کی ان باتوں کی خبر ہوئی تو اس وقت آپﷺکی کیفیت بدل گئی اور آپﷺکا چہرہ مبارک غصے کی وجہ سے سرخ ہو گیا اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے ایک سرخ انار آپ کے چہرے مبارک پر نچوڑ دیا گیا ہواتنا غصہ آیا۔یہ خوف تو ہے لیکن خوف کے ان تقاضوں کو صحیح طور پر پورا نہیں کیا گیا جبکہ خوف اور رجاء میں ایک رضا کا پہلو ہونا چاہیےرسول اللہﷺ نے فرمایااگر تم اپنے اس عمل پر قائم رہو گے تو میری جماعت اور میرے دین سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ تینوں صحابی اعلیٰ شان کے مقام والے تھے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ خوف اور رجاءدونوں ایمان کے جزء ہیں لیکن دونوں شریعت کے تابع ہیں۔رجاء کی ایسی کیفیت نہ ہو کہ انسان گناہوں کو بے دریغ کرنا شروع کر دے شراب کے گھونٹ بھی بھرتارہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا رہے کہ اللہ غفور الرحیم ہےاور نماز بھی نہ پڑھے اور کہے کہ اللہ غفورالرحیم ہےبخش دے گا۔جسارت اور جرأت سے گناہ کرتے ہوئےاللہ کی رحمت سے بے نیاز ہو جائے اورعبادت میں ایسے اعمال کرے جن اعمال کا شریعت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو جیسے کچھ لوگ تارکِ دنیا بن جاتے ہیں،کھانا پینا کم کر دیتے ہیں اللہ کی نعمتیں نہیں کھاتے اور بعض لوگ تو انتہائی گندی اور غلیظ چیزیں کھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ نیکی کا راستہ ہے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر نیکی کا راستہ سمجھتے ہیں۔یہ ان کے خوف کا مظہر ہے حالانکہ ان اعمال کا خوف سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ تقویٰ کے کسی معیار پر اترتا ہے۔رسول اللہﷺ کا یہ اعلان ہے کہ’’ إنی اتقاکم لِلہِ ‘‘پوری کائنات سے زیادہ متقی اور پرہیز گارمیں محمدﷺہوں۔ذرا سوچئے کہ نبیﷺنے کونسا عمل کیا جس عمل کی وجہ سے آپ متقی بن گئےاور کائنات کے سب سے بڑےمتقی کہلائے۔نبیﷺ کے ان اعمال میں ہی ہمارے لیے تقویٰ کا راستہ ہے یہ راستہ کوئی جدا راستہ نہیں ہے۔نبیﷺجب سفر حج میں تھے تو آپﷺنے ازدحام دیکھا تو اپنے صحابہ سےپوچھاکہ یہ بھیڑ کیسی ہے؟تو آپﷺکو بتلایاگیا کہ ایک شخص بے ہوش ہو گیا ہے ، آپﷺنے وجہ پوچھی تو بتلایا گیا کہ اس نے یہ سوچا کہ حج کے سفر پر جا رہا ہوں نیکی کا سفر ہے جتنی زیادہ تکلیف و مشقت برداشت کروں گا اتنا زیادہ ثواب ملے گا۔رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ مومن بندے کو ایک کانٹا بھی چھب جائے اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہےاور ایک گناہ مٹادیا جاتا ہے۔ان تکالیف کو برداشت کرنے سےدرجات کی بلندی حاصل ہو گی اور گناہوں کی بخشش حاصل ہو گی۔

چنانچہ نظر مان لی کہ جب تک سفر میں ہوں نہ کھاؤں گا نہ پیوں گا نہ سائے تلے بیٹھوں گا نہ سواری پر سوار ہوں گا پیدل چل کر ہی سفر کروں گا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے ہوش ہو گئے طاقت اور ہمت ختم ہو گئی۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو خبر دے دو کہ اللہ کا دین تمہاری اس پوری تکلیف سے بالکل بری ناراض اور غصے میں ہے اللہ کے دین سے ان اشیاء کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے۔خوف اور خشیت کا یہ راستہ تو ان کے زمرے میں آتا ہےجس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ جو شخص اس ناچ کا پیروکار ہو گا نہ اس کا میرے دین سے کوئی واسطہ ہو گااور نہ میری جماعت سے کوئی واسطہ ہے۔

الغرض خوف اور رجاءایمان کا ایک حصہ ہےلیکن دونوں شریعت کے دائرے میں ہونے چاہیں اللہ کی رحمت کی امیدبھی اوراس کے عذاب کا خوف بھی ہو۔عذاب کے خوف کا معنی یہ ہے کہ انسان ہر اس عمل سے ڈرتا رہے جو عمل اللہ کے عذاب کا موجب بنتے ہیںاور رجاءکا ہر وہ عمل اختیار کرے جو اللہ کی رحمت کاموجب بنتا ہےیہ شرعی اعتدال اس کی کمی بیشی پر ہو گا اور یہ افراط و تفریط ہے۔

رسول اللہﷺ کی اس حدیث پر غور کریںجس میں صحابہ نے ایک ہی نشست میں دو سوال کر ڈالے۔

نبیﷺ سے ایک ہی نشست میں پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺوہ کون سے اعمال ہیںجو انسان کو زیادہ جنت میں داخل کرتے ہیں اور وہ کون سے اعمال ہیں جو انسان کو زیادہ جہنم میں داخل کرتے ہیں۔یہ دونوںچیزیںبالکل یک جا ہوں تاکہ ایمان کا یہ جو مقام ہے خوف اور رجاء کا ،یہ بندے پر واضح ہو جائے۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اکثر ما یدخل الرجل الجنۃ ‘‘ زیادہ جو چیزیں انسان کو جنت میں داخل کرتیں ہیں وہ ایک اللہ کا تقویٰ اور اس کا خوف اور حسن الخلق ہے۔

اور جو چیزیں انسان کو جہنم میں داخل کرتیں ہیں وہ بھی دو چیزیں ہیں’’ الفم و الفرج ‘‘ ایک انسان کا منہ یعنی انسان کی زبان اور دوسرا انسان کی شرمگاہ۔ایسی حدیث جو وعد و وعید پر مشتمل ہے ذرا ان پرغور کریں۔ان میں سے ایک حدیث ہےآپﷺنے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا’’ ألا أخبرکم أھل النار ‘‘کیا میں آپ کو یہ نہ بتاؤں کہ جہنم میں کون جائے گا،زیادہ جہنم کا ایندھن بننے والے وہ لوگ ہیںجوفضول گوئی کرتے ہیں، بداخلاق ہیں،جھگڑالو ہیں،اونچی آواز سے لوگوں پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔فرمایا کہ یہ لوگ زیادہ جہنم کا ایندھن بنتے ہیں ۔تو خوف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی حیات کو اپنی زندگی کو سامنے رکھے اور ان اعمال سے اپنے آپ کو دور رکھےاور اس کوشش میں رہے کہ ان مذکورہ اعمال میں سےکوئی عمل میرے اندر موجود نہ ہو اور ان سے بچتا رہے،یہ ہے اللہ کے خوف کا تقاضا۔

صحیح بخاری شریف میں ایک تابعی کا قول مذکور ہے جن کا شمار چوٹی کےمحدثین میں ہوتاہے،فرماتے ہیں

’’أدرکت ثلاثین من أصحاب رسول اللہﷺ کل یخاف نفاق علی نفسہ ‘‘

کہ میں نےتقریباًتیس(30) کے قریب صحابہ کو پایا، ان کی زیارت کی،ان سے ملاقات کی اور ہرصحابی کو اس حال میں پایا کہ وہ اپنے بارے میں اپنے اوپر نفاق سے ڈرتا ہے۔کبھی یہ نہ ہو کہ میں منافق ہو جاؤں یامنافق ہوگیا ہوں۔ہر صحابی کویہ خوف تھااس خوف کی اساس کیا تھی؟ یہی اعمال۔اعمال الصالحہ اور اعمال السیئہ کہ انسان اپنے ظاہر اور باطن کو دیکھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ظاہری باتیں کچھ اور ہوں،اندرونی کچھ اور ہوں۔جو نفاق کی علامتیں قرآن وحدیث میں بیان کی گئ ہیںان کو دیکھا جائےمثلاًوعدہ خلافی نفاق ہے،ترک جہاد نفاق ہے، اعتدال کے پہلو کو چھوڑدینا نفاق ہے۔ایمان قبول کرتے ہی انسان یہ طے کر لے کہ اب میری محبت کے لائق کون ہے اورعداوت کے لائق کون ہے۔جو محبت کے لائق ہے ان سے تاحیات محبت کرے اور جو نفرت کے قابل ہے ان سے تاحیات نفرت کرے۔منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّاوَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ(البقرہ)

ایسے لوگ جب ایمانداروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں۔اورجب علیحدگی میں اپنے شیطانوں (کافر دوستوں) سے ملتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ (حقیقتاً تو) ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں ۔

جس کے منہج میں توحید وسنت نہ ہو اس میں بھی نفاق ہے۔جس کی مجلس میں اچھاآدمی ہو انسانیت کا علمبردار ہولیکن توحید وسنت سے لگاؤ نہ رکھتا ہو تو اس میں بھی نفاق پایا جاتا ہے۔اسی طرح اگر آپ کا تعلق کسی ایسے شخص سے ہے کہ جس کامنہج توحید وسنت کے خلاف ہے تو یہ نفاق ہے اور اگر آپ کا تعلق کسی سیاسی یا کسی ایسی مذہبی پارٹی کے ساتھ رہتا ہے جو اسلامی تعلیمات کو پس پشت ر کھتی ہوتو یہ اس کا نفاق ہے۔ آپ کی محبت کا مرکز وہ ہونا چاہیےجس کا عقیدہ توحید پر قائم ہواور آپ اس کو ہی اپنی محبت اور تعلق کے قابل رکھیں۔اب عقیدے کی بنا پر وہ آپ کا بھائی اور آپ اس کے بھائی ہیں،اس میں اگر تعلق توڑ لیا گیا تو آپ گناہ گار ہوں گے نبیﷺ کا فرمان ہے،اللہ تین دن کی مہلت دیتا ہے تین دن کے اندر اندردونوں میں ناراضگی ختم ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اللہ فرشتوں سے کہہ دیتا ہےکہ ان دونوں کی کوئی نیکی نہیں قبول کرنی۔رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ اللہ کے ہاں جب اعمال پیش کیے جاتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے کہ سب کو معاف کر دو لیکن ان دو انسانوں کو معاف نہیں کرنا جو آپس میں ناراض ہیں،اور اس کو جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو مہلت دیتا ہے تاکہ یہ آپس میں صلح کر لیں اور اپنے معاملات کو ٹھیک کر لیںاوردوسرا شرک سے توبہ کر کے اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف لوٹ آئے۔ منافقین اس سے دور تھے ان کی خیر خواہی صرف ان لوگوں کے لیے تھی جن کا منہج قرآن وحدیث کے خلاف تھا اوروہ بھی منافق ہی ہے کہ خود مومن ہو اور کسی کفریہ اور بدعیہ یاشرکیہ احقار باٹنے والی جماعت سے کوئی تعلق رکھتا ہو،اس تعلق کی بیس کچھ بھی ہو سکتی ہے،انسانیت ایک بیس ہے قومیت ایک بنیاد ہے سیاست ایک بنیاد ہے اس کا ساتھ دینے والے میں نفاق ہو گا۔جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر قرآن مجید میں ہےکہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں،روزے رکھتے ہیں، عمرے اداکرتے ہیں، زکاتیں ادا کرتے ہیں، صدقات کرتے ہیں،تہجد پڑھتے ہیںاوراللہ سے ڈرتے بھی ہیںاور ڈر بھی اس چیز کا ہے کہ یہ نیکیاں قبول بھی ہو رہیں ہیں کہ نہیں۔

عقیدہ خوف ورجاء کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ شیطان ایسے ایسے پہلوں سے وار کرتا ہے کہ انسان ان کو سمجھ نہیں پاتا۔اگر ایک انسان نیکیاںکرتا ہے،دن رات نیکیاں کرتا ہےشیطان اس کے لیے یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسا مادہ پیدا کر دیا جائے کہ اس کی کوئی نیکی اللہ کے حضور قبول نہ ہو سکے۔مثال کے طور پر ایک بہت بڑا نیک کار ہو لیکن ریاکار بھی ہو تو اس کے نیک و کار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس کی ساری نیکیاں ریاکاری کی وجہ سے ضائع ہو جائیں گی اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی ساری نیکیوں کو ایک ہی پھونک سے اڑا کر ’’ھباءًمنثورا ‘‘کر دے گا۔

بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ دین کی سب سے اونچی چوٹی پر فائز ہیں جہاد کرتے ہیںاور اس کے تذکرے لوگوں میں بیان کرتے ہیں کہ ہم نے یوں جہاد کیا اور یوں جہاد کیاتاکہ لوگوں کی نظر میں وہ اپنے آپ کو بہادر اور دلیر بنوا سکے ،یہ سب ریاکاری اور دکھلاوا ہے اس سے ان کی یہ نیکی ضائع ہو جاتی ہے برباد ہو جاتی ہےاور یہ شیطان کاجال ہوتا ہے جس کو وہ بچھا کر انسان کو پھانستا ہے اور انسان کو آگ کی طرف دھکیل کر وہ اپنا کام پورا کر لیتا ہے لیکن انسان کو اس کا پتہ بھی نہیں پڑنے دیتا۔ اسی طرح بعض لوگ نیکی کرتے ہیں نیک کام کرتے ہیں اور پھر اس کی تشہیر کرتے ہیںیہ بھی ریاکاری ہےاوریہ وہ مواضع ہیں جو انسان کی نیکیوں کو قبول ہونے سے روک دیتے ہیں،بعض لوگ نیکیاں کرتے ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ شرک بھی کرتے ہیں شرک کی موجودگی میں کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی،بعض لوگ نیکی بھی کرتے ہیں اور بدعات بھی کرتے ہیں بدعت کے ساتھ کیا ہوا عمل بھی قابل قبول نہیں ہوتا،بعض لوگ نیکی کرتے ہیں اور بد اخلاق بھی ہیں ان کی یہ بد اخلاقی ان کے اعمال کو قبول نہیں ہونے دیتی۔

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:

بے شک بندہ اہل جنت والے اعمال کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس کے منہ سے ایسے کلمات نکلتے ہیں کہ اس کے عمل اہل النار والے ہوجاتے ہیں۔

رسول اللہﷺ کے سامنے ایک شہید کی لاش پڑی ہوئی تھی اور اس کی والدہ اس کے پاس بیٹھی ہوئی اس کے چہرے سے مٹی صاف کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ کہہ رہی ہے’’ھنیئاً لک الجنۃ‘‘ بیٹا تمہیں جنت مبارک ہو۔ رسول اللہﷺ نے الفاظ سن لیے اور فرمایا کہ تمہیں کس نے بتایا ہو سکتا ہے کہ اس نےاپنی زندگی میں ایسی بات کہہ دی ہوجو نہ کہنے والی ہو۔یہ ہے خوف کی حقیقت کہ انسان بہت ساری نیکیوں کے مجموعے کے باوجود بھی خوف میں مبتلا رہے کہ کہیں کوئی ایسا کام ہی نہ ہو جائے جو ان نیکیوں کے قبول ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے جو انسان ان شواہد سے پاک ہو،صحیح عقیدہ کا حامل ہو عمل صالح کرتا ہو پھر اللہ کی رحمت پر پختہ امید رکھنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’

’ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللہِ   اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا‘‘ (الزمر 53)

تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔

خوف اور رجاء یہ دونوں ایمان کے جزء ہیں اور دونوں شریعت کے تابع ہیں اور دونو ں کو پرکھنا ضروری ہے اور ان کو شریعت کے تابع رکھتے ہوئے عمل کرنا لازمی ہے تاکہ ہمارا ایمان درست اور مکمل ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا خوف عطا فرما دے جو ہمارے اور ہماری معصیہ پر حاوی ہوجائے اور ایسی رجاء عطا فرما دے کہ اللہ کی رحمت کا ایسا پختہ یقین ہو جائے کہ اللہ کی رحمت کا اور اس کی مغفرت کاعقیدہ بنالیں اور اس کو اپنے اوپر قائم کر لیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے یہ حدیث بیان فرما دی کہ اللہ نے اپنے پاس ایک کتاب لکھ رکھی ہے اور وہ کتاب اللہ کے پاس عرش پر موجود ہےاور فرمایا کہ جو میری رحمت ہے وہ میرے غضب پر غالب ہے۔تو اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں اپنی رحمت کا وہ حصہ عطا فرما دےجو ہمارے لیے اللہ کے غضب پر غالب آجائے ورنہ ہمارے اعمال صالح اس قابل نہیں کہ ہم اپنے ان حقیر اعمال کے ذریعے اللہ کی رحمت کے امیدوار بن سکیں اور ہم اپنے اعمال کو ہمیشہ اپنی نگاہ میں رکھیں ان کو جانچیں اور پرکھیں اس لیے کہ ان اعمال پر بہت حد تک عقیدہ رجاء اور عقیدہ خوف کا دارومدار اور انحصار ہے۔رجاء اور خوف میں غلط پہلو نہ ہو،نہ غلو ہو،نہ تکبر ہو بلکہ یہ دونوں چیزیں بالکل شریعت کے تابع ہوں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں شریعت کا سچا تابع بنادے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے