تجھ کو پرائی کیا پڑی

پاکستان الحمد للہ اپنے قیام کی نصف صدی گزارنے کے بعد ماشاءاللہ مزید پندرہ سال سے کچھ اوپر وقت نبھا چکا ہے اللہ اسے سلامت رکھے بد خواہوں کے منہ خاک آلود ہوں یہاں بہت سے تجربات ہو چکے مختصر تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جو دن گزرے واپس لوٹ کر نہیں آئےبرے سے برے ترین دن ہی دیکھنے کو ملے یہاں تک کہ کراچی میں ہمارے ایک دوست اپنی والدہ کے حوالے سے بات کر رہے تھے اللہ ان کو سلامت رکھے ان کی بوڑھی آنکھوں نے پاکستان سے پہلے کے ہنگاموں کو دیکھا تھا کہتی ہیں ہم اتنے پریشان نہیں ہوتے تھے جیسے اب اپنے بچوں کے تاخیر سے گھر آنے پہ پریشان ہوتے ہیں اللہ رحم فرمائے اب تو امن و امان کی ضامن جگہیں بھی محفوظ نہیں اسلام تو کلیساءو معبد میں پناہ لینے والوں کو حفاظت فراہم کرتا ہے۔کلمہ نہ پڑھ کر بھی مسلم ریاست کے شہری ہونے کے ناطے ان کے جان ومال کی ذمہ داری قبول کرتا ہے مگر کیا کہا جائے اس ملک خداداد میں اب مسجدیں محفوظ ہیںنہ بازار،منبرو محراب محفوظ ہیں نہ ان کے وارث، کہیں امام مقتول ہے اور کہیں مؤذن،راہگیر محفوظ ہے نہ دوکاندار مگر اس کے ذمہ دار اپنے شبستانوں میں اور اونچے ایوانوں میں محفوظ تر

پہلے بات کہیں کہیں چوری کی تھی جو اب ڈاکے سےآگے بڑھ کر تاوان اور بھتہ خوری پہ جا پہنچی ہےوعدہ روٹی کا تھا مگر اب مسئلہ آٹے کا چل نکلا ہے بات CNG بحران سے چلی تھی مگر اسلام آباد میں پٹرول کے لیے لائنیں لگ گئیں۔دودھ 30 روپے کلو سے بڑھتے بڑھتے 70 اور 80 کے درمیان آ پہنچا ہے۔ساٹھ سال میں قوم پہ چھ (6) ٹریلین قرض تھا اب کے عوامی حکومت نے صرف پانچ سال میں اس قدر تیز ترقی کی ہے کہ یہ قرض 14 ٹریلین کی حدود کو چھو رہا ہے۔عوام کو کیا ملا ہے گیس بندش، بجلی بند، ریلوے کی بہت سی ٹرینیں بند، اسٹیل مل کی پیداوار بند، عوام کی آواز بند، اور حکام کی آنکھیں بند مگر عشرت کدے آباد شبستانوں میں عیش ہی عیش ان کے بیرونی اکاؤنٹس میں کیش ہی کیش۔یہ سب صورت حال دیکھتے ہوئے اکثر ستائے ہوئے لوگ انتخابات سے امید باندھتے ہیں کہ چلو کچھ ہی عرصہ رہ گیا حکومت بدلے گی چین پائیں گے    ؎ مگر مر کے بھی چین نہ پایاتو کد ھر جائیں گےـــ ۔جب نظام وہی حکام وہی باپ حزب اختلاف میں اور بیٹا اقتدار میں یہی ہوتا آیا ہے اور یہی کچھ ہو گا۔سہانے خواب توڑنے پہ معذرت، مگر بات وہی ہے جو اپنے جنرل حمید گل صاحب نے کہی کہ تھور کا درخت اُگا کر امید آموں کی رکھنا دانشمندی نہیں جمہوریت آزما چکے سوشلزم پہ منہ کی کھا چکے اب کیا رہ گیا خدارا اس نظام کی طرف آجاؤ جس کے لیے یہ پاکستان بنایا تھا جمہور کا نعرہ اس وقت بھی یہی تھاپا کستان کا مطلب کیا لا إلہ الا اللہ اب بھی اکثریت یہی چاہتی ہے یہی فلاح کا راستہ ہے مگر اغیاریہ ہرگز برداشت کرنے کو تیار نہیں مثال مصر میں اخوان کی حکومت ہے، جہاں وہ اصلاح کے کچھ ہی قدم اٹھاپائے ہیں مگر قابض پڑوسی کے پیٹ میں شدید درد ہے ایک خبر کے مطابق مصر میں فسادات کے لیے اسرائیل نے 70 ملین ڈالر مختص کیے ہیں ادھر ہم نے اپنے متعصب و تنگ نظر پڑوسی کو خوش کرنے کے لیے دین، غیرت پس پشت ڈال کر کچھ موسیقی کے طائفوں کا تبادلہ کر کے یا کچھ فکسڈمیچز کی ہار جیت کے ساتھ چاہاکہ ان کے دل جیت لیں یا پھر سودوزیاں سے بے نیاز ہو جا ئیں اور بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیکر پاکستان کی مارکیٹ میں بھارتی منڈی قائم کریں دوستی کے ناطے پاکستان کی زرخیز زمین قلتِ آب سے بنجر ہو اور بھارت دریائے سندھ پہ 292 ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ رکھے یہ سب ہمیں قبول ہم اس کے دھشت گرد چھوڑنے کے لیے بے تاب اور وہ ہمارے بے گناہ مچھیروں تک کو تشدد سے نیم پاگل کر دے ہمارےآزاد خیال ان کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر تصویریں بنوا کر سمجھیں کہ دوستی پکی مگر وقت آنے پہ وہاں کہ ہندو اخبار سرخیاں جمائیں کے پانچ منٹ کی تیاری بٹن دبانے کے ساتھ پاکستان ختم۔پاکستان تو ان شاءاللہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت بھی بحمداللہ موجود مگر ایسی لاف زنی نہ کبھی پاکستان نے کی نہ اب کر رہا ہے ہاں وقت پڑنے پہ سب آشکار ہو جائے گا مگر ان لن ترانیوں سے ہندو کی گندی فکر اور مکروہ چہرہ سامنے آتا ہے ہندو سے دوستی کے لیے ہلکان ہونے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہییں۔جو اپنے ملک کے شہریوں کو مسلمان ہونے کی وجہ سے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اس کے دل میں پاکستان کے لیے کیسے جگہ ہو سکتی ہے وہاں بھارت اسمبلی کا رکن اکبر اویسی ہو جو مسلمانوں کے خون ناحق یہ آوا زبلند کرے یا بھارتی فلموں کا ہیرو شاہ رخ خان ہو جو فلموں کے سوا کچھ بھی نہ کرے کوئی بھی قابل قبول نہیں شاہ رخ خان جس کی بیوی ہندو جس نے اپنے بچوں کے نام بھی ہندوانہ رکھے ہیں یہی نہیں بلکہ اپنے گھر میں ایک چھوٹا سامندر بھی بنا رکھا ہے مگرایسے مسلمان بھی انہیں قبول نہیں سچ یہ ہے کہ ممتا زمفتی کا تجزیہ کچھ کےتصرف ساتھ ہندو معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔کریم دین سے رام دین نام رکھ کر داڑھی منڈوا کر تلک لگا کر گھر کے آنگن میں صنم سجا کر بھی سالوں ساتھ رہنے والے صرف نام کے مسلمان ہندوستان میں مسلے،ملیچھ اور ناقابل اعتبارہی ٹہریں اس لیے کہ یہ بات تو بہت پہلےسے قرآن نے بتا دی ہے ’’ وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمَْ ‘‘ ترجمہ:اور یہود و نصاریٰ تو آپ سے اس وقت تک کبھی خوش نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ ان کےدین کی پیروی نہ کرنے لگیں۔

ہندو کا یہ متعصبانہ رویہ ان واجبی مسلمانوں کوبھی پختگی کی طرف لا رہا ہے۔

سلام ہے ان وفا شعاروں کو جو ان حالات میں بھی اپنے دین پہ مکمل عمل پیرا ہو کر زندگی گزارتے ہیں جنکے گھر جلتےہیں کاروبار تباہ کیے جاتے ہیں مگر وہ ثابت قدم ہیں مسلمانوں سے نفرت ہی حب الوطنی کی دلیل بنتی ہے ان حالات میں زندگی بسر کرنا یقیناً صبر و عزم کی زندگی ہے اللہ تعالیٰ انہیں ظلم سے نجات دے ’’آمین‘‘یہاں کوئی یہ کوئی یہ نہ کہہ دےکہ     ؎ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو،کیونکہ وہ بھی اپنی ہی ہے اور ظلم کا ڈیرا تو یہاں بھی ہے بے ضمیر یہاں ترقی پاتے ہیں اور باضمیر یہاں قتل کیے جاتےہیں کامران فیصل کیس قوم کے لیے امتحان سے کم نہیں سچائی کی خاطر جان تک دے دینا یقیناً شہادت کا بلند رتبہ ہی ہے قاتل بچ کر کہاں جائیں گے ایک دن تو قاتل و مقتول سب اکٹھے ہونے ہی والے ہیں۔عدل ہو کر رہے گا۔

ربیع الاول کا مہینہ جو کائنات عالم کے لیے خیر و برکت اور امن کا پیغام لیکر آیاایک طرف تو میلاد محفلوں سے ماہ کو سجا دیا گیا ہے بطورخاص 12 ربیع الاول جو بالاتفاق وفات سرورِکونین کا دن ہے اور بالاختلاف ولادت باسعادت کا دن جب کہ تحقیق 9 ربیع الاول کو صحیح بتلاتی ہے۔ مگر عجیب امر ہے اتفاق بالائے طاق اور اختلاف میں جشن تابعداری اسوہ رسول،نہ پس باطن میں نہ ظاہر داری میں یہ نعمت کیا ایسی نعمت ہے جس کی خوشی ایک دو دن میں مانند پڑ جائے بہت سی عمارتوں سے جگمگاتے برقی قمقمے اتر چکے وہاں اب پھر وہی پرانی ویرانی و سناٹا ہے اور باقی جگہوں سے بھی آئندہ چند دنوں میں یہ بہار سمٹ جائے گی دلوں کی ویرانی اپنی جگہ برقرار ذرا سوچیے کیا اسی لیے آپ رحمۃ للعالمین تشریف لائے تھے آپ تو بازار میں شور مچانے والے نہ تھے آپ تو طبلہ و ساز ختم کرنے آئے تھے یہاں اسی کی تھاپ پہ آپ کا ذکر،آپ امن و عدل قائم کرنےآئے تھے یہاں اسی ماہ میں قتل و غارت گری بدامنی اور پھر ذکر رسول بھی یہ محبت نہیں دھوکہ ہے حقیقت میں یہ طریقے شفیع المذنبین کو خوش کرنے کے نہیں ۔اس نعمت کی خوشی پورا سال رہنی چاہیے اور اس کا اظہار آپ علیہ السلام کی سچی تابعداری سے ہی ہو سکتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے