اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے لیے جہاں لا تعداد نعمتیں مہیا کی ہیں وہاں ایک نعمت امام کائنات کا عملاً فعل تجارت بھی ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔اللہ عزوجل کے کلام سے خرید وفروخت کامشروع ہونا ثابت ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے۔ :

وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(البقرۃ 275)

حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام

اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قولاًوعملاً بیع کی مشروعیت ثابت ہے از خود امام کائنات نے بھی خرید وفروخت کی ہے اور فرمایا:

لَا یبع حَاضر لباد ، دعوا النَّاس يرْزق الله بَعضهم من بعض

ترجمہ: شہری دیہاتی کے لیے نہ بیچے لوگوں کو چھوڑ دو اللہ ان کو ایک دوسرے سے روزی دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)

بیع کی مشروعیت کی حکمت یہ ہے کہ ضروریات زندگی کسی کو نقصان پہنچائے بغیر پوری ہو جائیں اور ہر کام کے لیے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اسی طرح امام کائنات نے بھی تجارت کے کچھ ارکان مقرر فرمائے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

بیع کے ارکان

1۔بائع: بائع کہتے ہیں سامان بیچنے والے کو اور اس کے لیے لازم وضروری ہے کہ جو چیز وہ بیچ رہا ہےوہ اس کا مالک ہو یعنی وہ چیز اس کی ملکیت میں ہونی چاہیےیا پھر بائع کو وہ چیز بیچنے کی اجازت حاصل ہو اور یہ لازمی ہے کہ وہ صاحب ِ فہم ہو۔

2۔ مُشتری :مُشتری کہتے ہیں خریدار کو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم عقل اور نابالغ نہ ہو بلکہ عقد و تصرّف کرنے کی استعداد رکھتا ہو۔

3۔مبیع : جو چیز بیچی جارہی ہے اور اس کی قیمت طے ہو رہی ہے وہ مباح اور پاک ہونی چاہیے اور خریدار کو اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔

4 ۔ عقد : ایجاب و قبول یعنی سامان کے بیچنے والے اور خریدار دونوں کو زبان سے اقرار کرنا چاہیے۔

5 ۔ باہمی رضا مندی : فریقین کی باہمی رضا مندی کے بغیر کوئی بیع صحیح نہیں ہو سکتی وہ اس لیے کہ امامِ کائنات نے فرمایا۔ ( انما البیع عن تراض )

ترجمہ : بیع رضا مندی کی بنیاد پر ہی درست ہے۔(سنن ابن ماجہ بسندٍ حسن)

خرید و فروخت میں شرطیں لگانا:

1 ۔ صحیح اور جائز شرائط :

بیع میں کسی صفت کی شرط لگانا درست ہےاور وہ صفت اس چیز میں موجود ہو گی تو وہ بیع صحیح ہو گی ورنہ وہ بیع باطل ہو جائے گی۔مثلاً کوئی آدمی مکان خرید تے ہوئے کہتا ہے کہ میں وہ مکان خر یدوں گا جس کے دروازے لوہے کے ہوں گے اور اسی طرح اگر کوئی کہے کہ میں وہ کتا ب خریدوں گا جس کے اوراق زرد رنگ کے ہوں گے اور اسی طرح کسی خاص منفعت کی شرط لگانا بھی جائز ہے مثلاً جانور بیچنے والا کہتا ہے کہ میں فلاں جگہ تک اس پر سواری کروں گا پھر مشتری کے حوالے کروں گا اور ایسے ہی مکان فروخت کرنے والا شرط لگائے کہ میں ایک ماہ اس میں رہوں گا پھر مکان خالی کر دوں گا تو شریعتِ محمدی کی رو سے ایسی شرائط لگانا جائز ہیں۔

2 ۔ غیر صحیح اور ناجائز شرائط :

ایک بیع میں دو شرطیں لگانا جائز نہیں ہیں مثلاً ایک لکڑی خریدنے والا کہے کہ لکڑی کاٹ کر اور فلاں جگہ تک پہنچا دو ،تب میں لکڑی خریدوں گا ورنہ نہیں خریدوں گا۔جبکہ فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

لا یحل سلف وبیع ولا شرطان فی بیع

ترجمہ: قرض اور بیع (کو ایک دوسرے سے نتھی کرنا)( سنن ابی داؤد و سنن ترمذی)

یعنی یہ کہنا کہ پہلے قرض دو پھر سودا کرونگا ، یہ حلال نہیں اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں لگاناجائز ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ( من اشترط شرطاً لیس فی کتاب اللہ فھو باطلٌ وإن کان مائۃ شرط)

ترجمہ: جو ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہیں وہ باطل ہے چاہے سو شرطیں ہوں۔( صحیح بخاری ومسلم)

ممنوع اور ناجائز تجارت کی اقسام

1 ۔ قبضے میں لانے سے پہلے ہی فروخت کر دینا:

کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ سامان خرید کر اسے اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے فروخت کر دے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :

من اتباع طعاما فلا یبیعہ حتی یستوفیہ

ترجمہ: جو طعام خریدتا ہے اسے مکمل وصولی سے پہلے فروخت نہ کرے۔(بخاری و مسلم)

2 ۔ ایک مسلمان کی بیع پر دوسرا بیع نہ کرے:

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :

لا بیع بعضکم علی بیع بعض (بخاری و مسلم)

ترجمہ :تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے۔ مثلاً ایک مسلمان نے ایک چیز پانچ روپے میں خریدی ہے دوسرا اسے کہے تم یہ چیز واپس کر دو میں تجھے یہ چیز چار روپے میں دیتا ہوں یا چیز بیچنے والے کو کہا جائے اپنا کیا ہوا سودا توڑ دے میں تمہیں بڑھا کر قیمت دیتا ہوں یہ چیز مجھے دے دو۔

3 ۔ بیع نجش :

جس میں ایک شخص خود سامان خریدنا نہیں چاہتالیکن اپنےآپ کو خریدار ظاہر کرتے ہوئے چیز بیچنے والا کا طرف دار بن کر بولی کے دوران قیمت بڑھاتا رہتا ہے تاکہ دوسرے لوگ جو خریدنا چاہتے ہیں وہ زیادہ قیمت دیں جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ( نھیٰ رسول اللہ عن النجش ) (بخاری و مسلم )

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع نجش سے منع کیا ہے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لا تناجشوا ) بخاری و مسلم ، ترجمہ : بیع میں تناجش نہ کرو (بلا ارادہ خرید ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی نہ دو)۔

4 ۔ حرام اور ناپاک چیزوں کی تجارت :

مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ حرام اور ناپاک چیزوں کی خرید و فروخت کرےاور اسی طرح وہ چیزیں جو حرام تک پہنچا دیں اور ایسی چیزیں خریدنا بھی جائز نہیں ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

إن اللہ حرّم الخمر والمیتۃ والخنزیر والأصنام

ترجمہ : بے شک اللہ نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع حرام قرار دی ہے۔ (بخاری و مسلم)

5 ۔دھوکے کی تجارت :

ایسی تجارت جس میں دھوکا ہو وہ جائزنہیں ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

نھیٰ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الثمار حتی تزھیٰ قال تحمرّ وقال إذا منع اللہ الثمرۃ فبم تستحیلُّ مال أخیک   (بخاری ومسلم)

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ ہونے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ جب اللہ نے پھل روکا ہے (سرخ نہیں کیا) تو اپنے بھائی کا مال کیوں حلال سمجھتا ہے۔یہ تو بیوع تھی جو کہ کچھ زینتِ قرطاس کر دی ہیں۔اب ایک ایسی بیماری کاتذکرہ کرتے ہیں جس میں اکثر و بیشتر افراد ملّوث نظر آتے ہیں وہ بیماری جھوٹ کی وباء ہے جس نے تقریباً ہر فرد کو گھیر رکھا ہے۔

6 ۔ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنا :

آج ہمارے اوپر دنیا دن بدن تاریک ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہےتمام شعبہ ہائے زندگی بے اعتمادی کا تیزی سے شکار ہو رہے ہیں یہاں تک کہ کاروبار میں سابقہ قوموں کی طرح ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں کاروبار میں دھوکا، فریب اور دغابازی عام ہوتی جا رہی ہےاشیاء میں ملاوٹ عام ہوچکی ہے اور ہر چیز کی نقل اتارنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں رہاحتی کہ لوگ یہ مثال دینے پر مجبور ہو گئے ہیں ’’بھینس کے بچےکے سوا کسی کو خالص دودھ نہیں ملتا‘‘ خوردونوش کی اشیاء اور ضروریاتِ زندگی صحیح اور اصل ملنے کی توقع بالکل جاتی رہی ہے۔ ایسے دور میں لوگ اعتماد بحال کرنے کے لیے یا اپنے دھوکے اور فریب کو مزید چار چاند لگانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں اور اس میں مزیدشدت پیدا کرنے کے لیے جھوٹی قسمیں کثرت سے اُٹھاتے ہیں تاکہ گاہک (خریدار) کو ضرور پھنسالیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قسم اٹھاکر کہا جاتا ہے کہ اتنے روپے میں مَیں نے خود خریدا ہے آپ سے تو میں معقول سا منافع لے رہا ہوں۔ حالانکہ ایسے لوگ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض اللہ تعالیٰ کو اپنے جھوٹ پر گواہ بنالیتے ہیں۔ ایسی عظیم ذات کو گواہ بناتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ثلاثۃ لا یکلم اللہ یوم القیامۃ ولا ینظر إلیھم

ترجمہ:قیامت کے دن تین آدمیوں کو اللہ تعالیٰ بلائے گا نہیں اور نہ ان کی جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ کسی مسلمان آدمی کا مال لے اڑے۔(بخاری کتاب المساقاۃ،مسلم کتاب الایمان)

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ثلاثۃ لا یکلم اللہ يوم القيامة ولا يزکيهم ولهم عذاب أليم رجل یبایع رجلا بسلعۃبعد العصر فحلف بالله لقد أعطي بها کذا وکذا فصدقه فأخذها ولم يعط بها( بخاری، الاحکام)

ترجمہ :تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات تک نہ کرے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور اس کے لیے درد ناک عذاب ہو گا ، ایک آدمی جو عصر کی نماز کے بعد بازار میں کچھ سامان کا سودا کسی آدمی سے کرتا ہے اور قسم اٹھاتا ہے کہ مجھے اتنے ملتے تھے وہ اسے سچا سمجھ لیتا ہے اور خرید لیتا ہے حالانکہ اسے اتنے نہیں ملتے تھے۔

عن ابی ہریرۃ ان رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم قال اربعۃ یبغضھم اللہ عزوجل البیّاع الحلّاف والفقیر المختال والشیخ الزانی والامام الجائر

(نسائی کتاب الزکوٰۃ باب الفقیر المختال )

ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ چار قسم کے آدمیوں سے دشمنی رکھتا ہے ایک وہ جو قسمیں کھاکھا کر سودا بازی کرتا ہو، دوسرے اکڑ باز محتاج کو، تیسرے بوڑھے زانی سے اور چوتھے ظلم کرنے والے حاکم سے۔

7 ۔ مال کا عیب چھپانا :

عن واثلۃ ابن الاسقع قال سمعت رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمیقول من باع عیباً لم یتبہ لم یزل فی مقت اللہ او لم تزل الملائکۃ تلعنہ

(ابن ماجہ ،مشکوٰۃ کتاب البیوع )

ترجمہ : واثلۃ بن الاسقع سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جس شخص نے اپنی عیب دار چیز عیب بتائے بغیر فروخت کی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا یا فرشتے اس پر ہمیشہ لعنت کرتے رہیں گے۔

آج کل عیب دار مال کو اچھے مال میں اس طرح چھپا دیا جاتا ہے تاکہ خریدنے والے کو اس عیب کا پتا بھی نہ چلے یہ کام باقاعدہ ایک فن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور جو شخص فریب کاری میں مہارت رکھتا ہو اسے بہت سمجھ دار تصور کیا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک صریح دھوکہ بازی ہے اور ایسی خرید وفروخت کرنا حرام ہے اور درج ذیل حدیث اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلاً فَقَالَ « مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ » قَالَ أَصَابَتْهُ السَّمَآءُ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ « أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ كَىْ يَرَاهُ النَّاسُ مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّى

ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلّہ کے ڈھیر پر گذر ہوا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ہاتھ ڈالا تو آپ کی انگلیوں مبارک کو نمی محسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے غلّے والے یہ کیا؟ وہ کہنے لگا اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم بارش ہو گئی تھی۔امام کائنات نے فرمایا تو تم نے (اس نمی والے غلّے کو ) ڈھیر کے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکتے،پھر فرمایا جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں۔صحيح مسلم ـ (1/ 69)

اب اندازہ لگائیے کہ امام کائنات فریب کار آدمی سے کس قدر بیزاری کا اظہار فرما رہے ہیں کہ ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔لہٰذا ایسی فریب کاریوں سے پرہیز کیجئے یا پھر امام کائنات سے لا تعلقی کا اظہار کر لیجئے۔

چوری کے مال کی بیع :

چوری شدہ مال کی خرید وفروخت قطعاً حرام ہے چوری کا مال خریدنا دراصل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ لا تعاونوا علی الاثم والعدوان ‘‘ کی صریح خلاف ورزی ہے جبکہ ہمارے ہاں تو چوری کے سامان کے باقاعدہ بازار لگائے جاتے ہیں اور لوگ بڑے ذوق سے خریداری کرتے ہیں اور ارشادِنبوی ہے :

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ :« مَنِ اشْتَرَى سَرِقَةً وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهَا سَرِقَةٌ فَقَدْ اشْرَكَ فِى عَارِهَا وَإِثْمِهَا

ترجمہ : جس نے چوری کا مال خریدا اور وہ جانتا تھا کہ وہ چوری کا مال ہے تو وہ (خریدنے والا) چوری کے گناہ اور اس کی عار میں برابر کا شریک ہے۔(السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (5/ 335)

سودا واپس موڑ لینا کارِثواب ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (سنن ابن ماجة (3/ 318)

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو سامان بیچنے والا کسی مسلمان کا سودا واپس کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ کو موڑ دے گا۔یعنی سودا مکمل ہو جانے کے بعد خریدنے والے کی خواہش پر سودا واپس لے کر اس کی قیمت اسے لوٹا دے تو اللہ ایسے شخص کے گناہ معاف فرما دیگا۔جبکہ ہمارے ہاں اکثر دکانوں پر لکھا ہوتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس نہیں ہو گا۔

الغرض :

آج لوگوں کو دھوکا دیکر اور اللہ کو گواہ بنا کر اور اس کے نام کی جھوٹی قسمیں اٹھا کر جو سب کچھ جاننے والا ہے۔اور اس کام کو دکانداری کے اصولوں میں شامل کیا جاتا ہے حالانکہ ایسے لوگوں کو معلوم نہیں کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے:

وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَي اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ

ترجمہ : اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوگئے ہوں گے ،کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیںہے۔( سورۃ الزمر 60 )

سچ بولنے کے فوائد :

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:

عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِى إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِى إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا (صحيح مسلم (8/ 29)

ترجمہ ـ: سچ ضرور بولو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے،اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جب آدمی سچ بولتا رہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے۔(سبحان اللہ)

امام کائنات کا شغلِ تجارت :

عرب میں خصوصاً قریش یعنی بنی اسماعیل ظہورِ اسلام کے ہزاروں برس پہلے سے تجارت پیشہ تھے اور امام کائنات کے جدّ اعلیٰ ہاشم نے قبائل عرب سے تجارتی معاہدے کر کے اس خاندانی طریقہ اکتساب کو اور زیادہ مستحکم اور مضبوط کر دیا تھا۔اور امام کائنات کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اس بنا پر سنّ رشد کو پہنچنے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فکر معاش کی طرف توجہ ہوئی تو تجارت سے بہتر کوئی پیشہ نظر نہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ بعض تجارتی سفر کر چکے تھے جس سے ہر قسم کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ معاملات کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی اور لوگ عموماً اپنا سرمایہ کسی تجربہ کار اور امین شخص کے ہاتھ میں دے کر اس کے منافع میں شرکت کر لیتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرکائے تجارت کی شہادتوں سے جو احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ امام کائنات کس دیانت اور راست بازی کے ساتھ اس کام کو انجام دیتے تھے۔اور تاجر کے محاسن اخلاق میں سب سے زیادہ نادر مثال ایفائے عہد اور اتمام وعدہ کی ہوسکتی ہے لیکن منصب نبوت سے پہلے مکہ کا تاجر امین صلی اللہ علیہ وسلم اس اخلاقی نظیر کا ایک بہترین نمونہ تھا۔سیدنا عبد اللہ ابن الحماء ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خرید وفروخت کا کوئی معاملہ کیا تھا اور کچھ باقی تھا میں نے وعدہ کیا کہ پھر آؤنگا اتفاق سے تین دن مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیاتیسرے دن جب میں وعدے والی جگہ پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ منتظر پایا لیکن اس وعدہ خلافی سےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر بل تک نہ آیا صرف اس قدر فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی ہے،میں اس مقام پر تین دن سے موجود ہوں۔ (سنن ابو داؤد جلد 2 صفحہ 326 )

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاروبار تجارت میں ہمیشہ اپنا معاملہ صاف رکھتے تھے نبوت سے پہلے بھی جن لوگوں سے تجارت میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کا سابقہ تھا وہ بھی اس کی شہادت دیتے تھے۔سیدنا سائب رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہو کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے ان کی تعریف کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں اور سائب رضی اللہ عنہ نے فرمایا امام کائنات پر میرے ماں باپ قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو میرے شریک تجارت تھے لیکن ہمیشہ معاملہ صاف رکھا۔ (ابوداؤد جلد 2 )

اور اسی طرح قیس بن سائب مخزومی ایک اور صحابی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تجارت تھے وہ بھی انہی الفاظ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاملہ کی شہادت دیتے ہیں۔ (ابو داؤد ،جلد 2،صفحہ 317 )

لہٰذاتاجروں اور صنعتکاروں کو خاص طور پر اس امر کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی بات کے پابند رہیں اپنے مؤقف پر جمے رہیں اور اسی طرح تمام شعبہ جات کے ملازمین کو اپنے عہد کے مطابق فرائض سر انجام دینے چاہئیں۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا

اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔(الاسراء 34 )

نہایت افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت میں وعدہ خلافی اور حدود پھلانگنے کی عادت پڑ چکی ہے جب کہ یہ صریحاً عملی جھوٹ ہے اور شریعت میں جھوٹے وعدوں کو نفاق کی علامت قرار دیاہے ایفائے عہد مردانگی کی علامت ہے۔سیدنا جابر بن عبد اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے مال میں سے کچھ عطیہ دینے کا وعدہ فرمایا لیکن ایفائے عہد سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔جب بحرین کا مال خلیفۂ اول کے پاس آیاتو لوگوں میں منادی کرادی کہ جس کسی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ کیا ہو یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا قرض ہو تو وہ ہمارے پاس آکر وصول کر لے۔ (بخاری کتاب الھبۃ )

توثابت ہوا کہ ا یفائے عہد اتنا اہم ہے کہ ورثاء کو بھی اس کا پاس رکھنا پڑتا ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے وعدوں کو خلفائے راشدین پورا کرتے رہے۔تووعدہ ایسی ذمہ داری ہے جس سے کبھی بھی سبکدوش نہیں ہوا جا سکتا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ عزوجل ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور دینِ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے