کسی کے دنیاسے چلے جانے سے کاروان حیات رک تو نہیں جاتا لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے چلے جانے سے عرصہ دراز تک ان کا خلا محسوس ہوتا رہتا ہے،میرے بھائی اور دوست مولانا عبدالرحمٰن میمن رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق بھی ایسےہی لوگوں سے ہے۔

سراپا :

سفید رنگت ،میانہ قد ،سنت کے مطابق بغیر تراش خراش ڈاڑھی ،اُجلا لباس ، سر پر سفید ٹوپی ،ٹخنوں سے اوپر شلوار ، دھیمے لہجے میں بات کرنا ، فضول باتوں سے گریز کرنا ،علمی انداز سے جواب دینا ۔

نام :

والدین نے اسید علی نام رکھالیکن اہلحدیث ہونے کے بعد اپنا نام عبدالرحمٰن رکھا بعد ازاں مولانا عبدالرحمٰن میمن کے نام سے مشہور ہوئے۔

پیدائش :

گوٹھ گل جی وسی نزد مٹیاری میں 5 اگست 1961 ءکو پیدا ہوئے۔

تعلیم :

ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم مولوی معروف سے حاصل کی جو کہ مٹیاری میں علم تجوید وقرأت میں مشہور و معروف عالم تھا۔ پرائمری تعلیم مانکن شاہ جی وسی میں حاصل کی میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول مٹیاری اور ایف اے گورنمنٹ کالج مٹیاری سے کیا۔ایم اے عربی اور اسلامک کلچر بھی کیا۔جبکہ مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث لیاقت کالونی حیدرآباداور جامعہ رحمانیہ لاہور میں بھی زیر تعلیم رہے۔اور بعد ازاں محدث دیار سندھ علامہ ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کیا۔

اساتذہ کرام :

مولانا عبدالرحمٰن میمن نے جن علماءکرام ومشائخ عظام سے تعلیم حاصل کی ان میں سے کچھ کےاسمائے گرامی مل سکے ہیں۔ مولوی عبداللہ نصیر نھڑیو،مولانا محمد راسخ مرحوم، مولاناگل محمد لوہارمرحوم،قاری نعیم الحق نعیم مرحوم (سابق ایڈیٹر ہفت روزہ الاعتصام لاہور)،شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناءاللہ مدنی حفظہ اللہ،شیخ العرب والعجم علامہ ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ۔

ہمعصر ساتھی:

آپ کے ساتھ علم حاصل کرنے والے علماءساتھیوں میں سے چند کے اسماء گرامی یہ ہیں :مولانا عبد الخالق جونیجو،مولانا عمر ھنگورجو،مولانا ارشد علی حفظہ اللہ (کراچی)،مولانا حافظ محمد اسحٰق زاہد حفظہ اللہ (کویت)، مولانا شیخ ارشاد احمد حفظہ اللہ(کوٹ ادو)۔

تنظیمی وابستگی :

1988ءمیں جب جمعیت اہلحدیث سندھ کی باقاعدہ تنظیم سازی کی گئی تو اس کا پہلا اجلاس علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرامارت نیو سعید آباد میں منعقد ہوا تو اس اجلاس میں ہمارے ممدوح بھی موجود تھے۔اور جمعیت کے ابتدائی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ تادم واپیس جمعیت اہلحدیث سندھ سے منسلک اور وابستہ رہےاور جمعیت اہلحدیث ضلع حیدرآباد کے امیر تھے۔آپ کا جمعیت اہلحدیث سندھ کی شوری میں صائب رائے اور مشورہ دینے والے چیدہ افراد میں شمار ہوتا تھا،جمعیت اہلحدیث سندھ سے منسلک ہونے کے باوجود آپ میں تنظیمی تعصب نہ تھابلکہ مسلک اہلحدیث کے تمام علماءکرام وقائدین عظام سے اچھے مراسم تھےآپ چاہتے تھےکہ تمام اہلحدیث تنظیمیں ایک امیر کے تحت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔

کتب سے تعلق:

مولانا عبدالرحمٰن میمن رحمۃ اللہ علیہ کو دینی کتب سے گہرا اور قلبی لگاؤ تھاجب بھی ملاقات ہوتی کتابوں پر ہی زیادہ وقت بات چیت ہوتی رہتی تھی۔اور آپ اکثر کسی نہ کسی کتاب کی پروف ریڈنگ کر رہےہوتے تھے ۔آپ نے سب سے پہلے ’’پیارے رسولصلی اللہ علیہ وسلمکی پیاری دعائیں‘‘(مؤلف شارح سنن نسائی مولاناعطاءاللہ حنیف بھیوجیانی رحمۃ اللہ علیہ)سندھی میں شائع کی۔اور پھر آپ نے شاہ صاحب مرحوم سے مشورہ کرکے 1985ء میں باقاعدہ ’’مکتبہ الدعوۃ السلفیہ‘‘ میمن کالونی مٹیاری ضلع حیدرآباد کاآغاز کیا۔اور اسی مکتبہ کے تحت بہت سی کتابیں شائع کیں۔بعض کتب کاسندھی سے اردو اور اردو سے سندھی ترجمہ بھی خود کیاجیسا کہ مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ (سابق امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان) کی کتاب ’’رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلمکی نماز‘‘کا بھی سندھی میں ترجمہ کیا اور بعض کتب کے دوست واحباب سے بھی ترجمے کروائے جیسا کہ راقم الحروف سے علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کی عظیم’’ کتاب تمییز الطیب من الخبیث بجواب رسالۃ تحفۃ الحدیث‘‘ مروجہ فقہ کی حقیقت اور اصلی مسنون تراویح(مؤلف ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں)کا ترجمہ کروایا۔

چند کتب کا تعارف جو کہ مولانا عبدالرحمٰن میمن نے چھپوائیں

خطباتِ راشدیہ:

مولانا عبدالرحمٰن میمن مرحوم کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے محدث دیار سندھ علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی خطبات جوکہ پردہ عدم میں تھے انہیں باہر نکالا اور زیادہ تر جو کہ سندھی زبان میں تھے ان کا اردو ترجمہ کیااور ازسر نو مرتب کر کے کتابی شکل دی۔ان میں پہلا خطبہ 1945ء کا ہے جو کہ شیخ الاسلام فاتح قادیان علامہ ثناءاللہ امرتسری رحمۃاللہ علیہ کی زیر امارت جمعیت اہلحدیث ہند بٹالہ ضلع گورداسپور میں منعقدہ سیرت کانفرنس میں بطور خطبہ صدارت پیش کیا گیاجس میں اہلحدیث کے دس امتیازی مسائل پر انتہائی مدلل اور بلیغانہ انداز میں سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔دوسرا خطبہ تقریباً 1960ء کا ہے جو کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر پیش نہیں ہو سکا تھا اس طرح سے یہ تیرہ خطبات ہیں جن میں سے اکثر جمعیت اہلحدیث سندھ کی سالانہ کانفرنسوں میں پیش کئے گئے تھے ان خطبات میں مسلک اہلحدیث کی حقانیت کو واضح کیا گیا اور خدمات محدثین کرام کو باحسن طریق اجاگر کیا گیا۔

رموزِ راشدیہ :

مولانامیمن مرحوم نے شاہ صاحب رحمہ اللہ سے آپ کے خاندان کے حالات پرمشتمل تفصیلی انٹرویو کیا اور اس کے ساتھ ماہنامہ ’’صراط مستقیم‘‘ کراچی میں شائع ہونے والے شاہ صاحب کے انٹرویو کو یکجا کر کے کتابی شکل میں شائع کیا تاکہ عوام الناس کو راشدی خاندان کی خدمات سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

توحید خالص :

شاہ صاحب رحمہ اللہ علیہ نےتوحید کے موضوع پر عظیم کتاب تحریر فرمائی تھی جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ ناپید ہوگئی تھی ہمارے ممدوح مولانا عبدالرحمٰن میمن نے اس کو ازسر نو کمپوز کروایا اور شائع کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے پہلے ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

مروجہ فقہ کی حقیقت :

سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ درس میں فقہ کا مسئلہ’’تعلیم الفقہ اولی من تعلیم تمام القرآن‘‘ اور طلب الحدیث حرفۃ المفالیس‘‘ بیان کیا جس پر ایک دوست کے توسط سے مولوی عبدالحی گھوٹو سے تحریری طور پر بات چیت یعنی مناظرہ ہوا جو کہ بعد ازاں سندھی زبان میں ہمارے ممدوح مولانا میمن مرحوم نے کتابی شکل میں شائع کیا پھر اس کااصحاب اردو کے لیے راقم الحروف سے ترجمہ کروایا اور چھپوائی کے لیےکتاب پریس میں موجود تھی کہ آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

عذاب قبر کی حقیقت:

شاہ صاحب نے اپنی کتاب میں منکرین عذاب قبر کے انتیس اعتراضات کے مدلل و مسکت جوابات دئیے ہیں بطور عرض ناشر مولانا عبد الرحمٰن میمن مرحوم لکھتے ہیں کہ رواں صدی کے وسط میں ایسا ہی ایک فتنہ ’’ انکار عذاب قبر ‘‘ نمودار ہوا،ہندوستان کے شہر جودھپور کے ایک مولوی صاحب نے اسے خوب ہوا دی اور اس کے حق میں ایک رسالہ بنام’’الجزاءبعد القضاء‘‘ لکھ کر اس مسلک کا پرچار کیا اور قرآن وسنت کی صریح نصوص کا انکار کیا۔اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطاءفرمائے شیخ العرب والعجم کو جنہوں نے قرآن وسنت کے ٹھوس دلائل پر مبنی یہ رسالہ بنام ’’القضاء والجزاء بامراللہ متی یشآء‘‘(عذاب قبر کی حقیقت)لکھ کر جو دھپوری صاحب کے تمام باطل نظریات واعتراضات کو ھباءمنثوراً کر کے ان کا علمی پوسٹ مارٹم کیا۔یہ کتاب انہوں نے جولائی 1999ء میں شائع کی۔

تنقید سدید بجواب اجتھادوتقلید:

مولانا ادریس کاندھلوی کے جواب میں شاہ صاحب نے لکھی تھی اور آپ کی زندگی میں شائع ہوئی تھی مولانا عبدالرحمٰن میمن رحمۃ اللہ اس کتاب کو دوبارہ شائع کرنا چاہتے تھےاس کی کمپوزنگ بھی ہوچکی تھی اور میں نے خود مولانا مرحوم کے ساتھ اس کی پروف ریڈنگ کی تھی لیکن آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔

انسان کی عظمت :

پیرعبدالکریم بیر والے کی کتاب کے جواب میںلکھی تھی جنوری 1999؁ءمیں سندھی زبان میں شائع کی تھی اور پھر خود ہی مولانا مرحوم نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا تاکہ اس سے اردو داں طبقہ بھی مستفید ہوسکے لیکن اردو ایڈیشن شائع نہ کرسکے۔

ان کےعلاوہ اور بھی بہت سی شاہ صاحب اور دیگر علماءکرام کی کتب شائع کیں۔جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمۃاللہ علیہ کی کتاب ’’حقیقی ولی کی پہچان ‘‘ دکتور علی بن محمد ناصر فقہی کی کتاب ’’بدعت اور امت پر اس کی اثرات‘‘ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی کتاب’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں کی کتاب اصلی مسنون تراویح(سندھی واردو زبان میں)اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟اور دیگر کتب شائع کیں۔جوکہ اندرون سندھ ایک بہت بڑے ادارے کاکام تھاجوکہ مرحوم نےاکیلےسرانجام دیا۔علامہ سید بدیع الدین کی تقریباًپنتیس کتابیں شائع کیں جوکہ شاہ صاحب سے مرحوم کی محبت اور تعلق کا واضح ثبوت ہے۔

ماہنامہ دعوت اہلحدیث کی اشاعت میں کردار:

جمعیت اہلحدیث سندھ نے اپنا ترجمان ماہنامہ دعوت اہلحدیث نکالنے کا فیصلہ کیا تو مولانا عبدالرحمٰن میمن پیش پیش تھے مجلہ کی پہلی باقاعدہ اشاعت جولائی 2001ء بمطابق ربیع الثانی 1422ھ میں ہوئی۔اس کے ٹائٹل اور دیگر لوازمات چھپوانےکے لیےخود لاہور گئے اور وہیں سے پہلا شمارہ چھپوا کر لائےایک عرصہ تک ہمارے ممدوح مولاناعبدالرحمٰن میمن ، قاضی عبدالحق انصاری رحمۃ اللہ علیہ(سابق ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث سندھ)اور راقم الحروف ماہنامہ دعوت اہلحدیث کی مل کرپروف ریڈنگ کیا کرتے تھے اور ہم تینوں مجلس ادارت کے رکن بھی تھے۔

راقم الحروف سے ذاتی تعلق:

مولانا عبدالرحمٰن میمن رحمۃاللہ علیہ سے میرا ذاتی تعلق تقریباً پندرہ سالوں پر محیط ہے۔ہماری پہلی ملاقات نیوسعید آباد کانفرنس کےموقع پر ہوئی ،جو بعد میں بھائیوں والے تعلقات میں تبدیل ہوگئی ہمیشہ تعلقات مضبوط رہےکبھی بھی اس میں کمزوری نہ آئی بلکہ میری خوشی و غمی میں شریک ہوتے رہے۔اسی طرح تقریباً دوسال قبل دسمبر 2010ءمیں میں جب اچانک بیمار ہوا اور حیدرآبادکے ہسپتال میں داخل ہوا تو ہر روزصبح شام میرے پاس آتے اور طبیعت کا احوال دریافت کرتے گویا کہ ان دنوں میں آپ کی ہسپتال آنے کی ڈیوٹی لگی ہو۔

احباب جماعت سے تعلق :

مولانا عبدالرحمٰن میمن رحمۃاللہ علیہ ملک بھر کے علماء سے رابطہ و تعلق رکھتے تھے اور اندرون سندھ تقریباً نوے فیصد لوگوں سے تعلق تھا۔آپ گاؤں گوٹھوں میں مساجد کے ذمہ داران اور جماعتی ساتھیوں کو ان کے ناموںسے جانتے تھے اور ہر کسی کی خوشی وغمی اور دکھ درد میں شریک ہوتے تھےاگرچہ مرحوم نے خود کانفرنسوں اور جلسوں سے خطاب نہیں کرنا ہوتا تھالیکن جہاں سے بھی دعوت ملتی تھی وہاں ضرور شریک ہوا کرتے تھے۔اور اپنی بیماری کو بھی ان سفروں میں حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔مسلک اہلحدیث کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہاکرتے تھے اس کے لیے اپنی ذاتی جیب سے خرچ کیا کرتے تھے مولانا مرحوم گورنمنٹ ہائی اسکول میں استاد تھے اور عرصہ سے سترہویں گریڈ میں کام کررہے تھے جہاں سے اچھامشاہرہ ملا کرتا تھا اور اس رقم کا اکثر حصہ کتابوں کی اشاعت اور جماعتی کاموں میںخرچ کیا کرتے تھے۔

دوستوں سے تعلق :

آپ کا تعلق ملک بھر میں پھیلا ہوا تھاآپ کے دوست اور رفیق قاضی مقصود احمد صاحب آف مٹیاری تحریر کرتے ہیں کہ 2002ء میں عبدالرحمٰن میمن کے کہنے پر میں نے الرحیق المختوم کا سندھی میں ترجمہ شروع کیا اور یہ ترجمہ کافی عرصہ تک زیراشاعت نہ آسکااس لیےکچھ قدر مایوسی بھی ہوئی اس دوران بچوں کے ناموں پر مشتمل میری کتاب ’’مسلمان بچوں کے نام‘‘2003ء میں شائع ہوئی اس کتاب کی کمپوزنگ میں نے خود کی تھی باقی ٹائٹل بنوانے سے لے کر چھپوائی کی ذمہ داری آپ نے خود اٹھائی۔اس دوران میری کتاب تاریخ مٹیاری تیار ہوئی جوکہ آپ کے تعاون سے 2006ء میں شائع ہوئی آ خر کار الرحیق المختوم کی اشاعت کا ذریعہ بھی عبدالرحمٰن میمن نے تلاش کر لیا۔یہ کتاب سندھی میںالمرکز الاسلامی للبحوث العلمیۃ کراچی سندھ کی طرف سے شائع کرائی گئی۔میرے ساتھ تعلق کے پہلے روز سے ہی آپ شوگر کے مرض میں مبتلا تھے پرہیز بھی سخت کرتے تھے اور علاج بھی مکمل کرواتے تھے لیکن یہ بیماری آپ کو اندر سے کھا رہی تھی گذشتہ پانچ سالوں سے آپ کا تکیہ کلام یہ بن چکا تھا کہ ’’میں نے اپنی ٹکٹ بک کرالی ہے ‘‘ آپ کی زندگی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ طویل بیماری بھی آپ کو تھکا نہیں سکی۔آپ نوکری بھی کرتے تھےاس کے علاوہ جماعتی کاموں کے سلسلے میں ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔جس کے لیے اکثر سفر میں ہوتے تھے۔سندھ کے مختلف علاقوں میں اور خاص طور پر تھرپارکر میں کنوؤیں بنوائے اور مساجد تعمیر کروائیں۔اس لیے ان علاقوں کے لوگوں کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے تھے۔

آخری ملاقات :

مولانا عبدالرحمٰن میمن رحمۃ اللہ علیہ نے 28 دسمبر 2012ء بروز جمعہ فون کر کے مجھے اپنی علالت کے بارے میں آگاہ کیا30دسمبر بروزاتوار میں آپ کی عیادت کے لیے مٹیاری میں حاضر ہوا گھر پر ملاقات ہوئی گھر کا ایک ہی کمرہ تھا جس کے آگے برآمدہ ،کمرے میں دو چارپائیاں،دو کرسیاں،ایک الماری چند بستر اور چند کتب کا مجموعہ تھا۔یہ تھی کل کائنات اس درویش صفت انسان کی،جس نے دنیا طلبی کے بجائے ہمیشہ آخرت کو ہی نگاہ میں رکھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ایک لے پالک بیٹی ہے جس کی عمر تقریباً نوسال ہے۔

آخری خواہش :

آخری ملاقات میں فرمانے لگے کہ دنیا تو جیسے کیسے کٹ جائے گی میرے لیے دعا کرو کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔میں یہ الفاظ سن کر سوچنے لگا کہ جس انسان نے ہمیشہ دین کو ترجیح دی اور دنیا سے منہ موڑے رکھا اب بھی یہ تمنا کہ خاتمہ ایمان پر ہو واقعتاً ایسے لوگ ہی اللہ کے ولی ہوا کرتے ہیں۔آخرکار وہ وقت آن پہنچا جس سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے 6 اور 7 جنوری 2013ء کی درمیانی شب کو رات دو بجکرپندرہ منٹ پر اسری ہسپتال حیدرآباد میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔(انا للہ واناإلیہ راجعون)اگلے دن صبح پورے سندھ میں آپ کی وفات کی خبرآناًفاناً پھیل گئی ہر ساتھی غمزدہ ہوگیا اور ایک عظیم انسان کے بچھر جانے پر حزن وملال میں ڈوب گیا بعد از دوپہر ڈھائی بجے حافظ محمد سلیم صاحب شیخ الحدیث المعھد السلفی کراچی کی امامت میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں بہت بڑی علماء کی تعدادنےشرکت کی اور اہلحدیث عوام کا جم غفیر بھی شریک تھا جنہوں نےاس محسن جماعت کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔پورے سندھ میںآپ کی مغفرت اور بخشش کے لیے دعائیں کی گئیں اور نماز جنازہ غائبانہ اداکیے گئے۔

اللھم اغفرلہ وارحمہ واعفہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ(آمین)

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے