قولہ تعالی :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْهُ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ؀ لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ؀

ترجمہ: با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں توجب تک آپ سے اجازت نہ لیں نہیں جاتے۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔

معانی الکلمات:

دعاء : دعا کے معنی کسی کو پکارنے اور بلانے کے ہیں۔(تاج العروس )

ابن فارس نے لکھا ہے کہ اس کے بنیادی معنی کسی کو اپنی آواز یا بات سے اپنی طرف مائل کرنا ۔

اصطلاحاً:یہ لفظ انسان اپنی آرزوؤں کو برآنے کے لیے درخواست کرتاہے درحقیقت یہ دعائیں انسان کی آرزو کی شدت کا مظاہرہ ہوتی ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ آداب بیان کئے گئے ہیں جن کی موجودگی دعا کی قبولیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

نحوی اعتبار سے اگر دعا کے ساتھ ’’لہ‘‘ لگایا جائے تو دعا رحمت اور مثبت معانی میں مذکور ہوگی اور اگر اس کا صلہ ’’علیٰ‘‘ ہوگا تو یہ بربادی اور ہلاکت یعنی منفی معانی میں مذکور ہوگی۔

اس آیت میں دعا اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقدس وجود تمہارے لیے کوئی بددعا کریں تو اس کو معمولی نہ سمجھو کیونکہ وہ مستجاب الدعوات کی ذات مقدس ہے۔

ایک بات دلچسپی کی حامل ہے اکثر قرآنی دعائیں بھی اجتماعیت کی علامت ہیں یعنی اللہ رب العزت نے ہمیں دعاؤں میں بھی وحدت ویگانگت کا درس دیاہے۔

يَتَسَلَّلُونَ: السَّلَکسی چیز کو نرمی اور سہولت کے ساتھ نکال لینا۔

ابن فارس نے نرمی اور سہولت کے ساتھ چپکے سے خفیہ

طور پر نکال لینے کا اضافہ کیا ہے ۔ (تاج العروس)

يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ : جو تم میں سے چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔

لِوَاذًا : اللّوذ بالشیء : کسی چیز کے پیچھے چھپ جانا اور اس طرح محفوظ ہوجانا ۔

اللّوذ: پہاڑ کا کنارہ وادی کا موڑ ۔ ( تاج وراغب)

يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا:

یعنی جو تم میں سے چپکے چپکے کھسک کر نکل جاتے ہیں ۔ لیکن زجاج نے کہا ہے کہ اس کے معنی مخالفت کرنے کے ہیں اور اس پر آیت کے اگلے لفظ بھی دلالت کررہے ہیں ۔ ( تاج وراغب)

گو کہ پہلے معنوں میں بھی حکم عدولی کا تصور موجود ہے کہ چپکے چپکے ہی کھسکتے ہیں جو تعمیل حکم نہیں کرنا چاہتے۔

فَلْيَحْذَرِ : حِذرٌ ، حَذَرٌ             خوف زدہ کرنے والی چیز سے بچنا ، محتاط رہنا ، اجتناب کرنا ۔

ابن فارس نے اس کے بنیادی معانی بچاؤ اور چوکنا رہنے کے کیے ہیں۔ (تاج ومحیط)

اجمالی معانی :

یہ آیت گوکہ آیت 57 جوکہ منافقین کے باب میں بیان کی گئی تھی اس سلسلہ میں تکملہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ آیات بطور تنبیہ بعد میں نازل کی گئی کہ منافقین کے رویّے کا تذکرہ کرنے کے بعد مؤمنین کی صفات میں سے کچھ کا تذکرہ کیا جارہاہے۔

اور یہ اہل ایمان کی زندگی پر محیط صفت ہے فرمایا کہ :

اصل اہل ایمان وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر سچا اور پکا ایمان رکھتے ہیں اور ان کے ایمان کی کیفیت کی وضاحت اس طرح کی کہ جب وہ کسی اجتماعی کام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو منافقین کی طرح ان کا ساتھ چپکے سے چھوڑ کر کھسک نہیں جاتے بلکہ ضرورت وحاجت کے وقت اجازت لیکر جاتے ہیں ، فرمایا اجازت لینے والے سچے مؤمن ہیں اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب ہے کہ اگر کوئی اپنی ضرورت کے تحت اجازت طلب کرے تو اس کو اجازت دے دیا کرو اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہا کرو ۔

آیت 63 میں خطاب گو کہ عموم کےلیے ہواہے لیکن حقیقتاً وہ منافقین کے لیے تنبیہ اور تحذیر ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں بلائیں تو ان کے بلاوے کو آپس کے بلاوے کی طرح سمجھ کر نظر اندازنہ کرو یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بددعاؤں کو اتنا معمولی نہ سمجھو کہ ان کی ہر بات قبولیت کا شرف پاتی ہے۔

اور اس میں تمہیں کوئی دھوکہ یا فریب دینے کی ضرورت نہیں ہےکہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کی مکاری سے آگاہ ہے کہ کیسے تم لوگ نبوی مجلس سے چپکے چپکے کھسک جاتے تھے۔

اور جو لوگ مخالفت کررہے ہیں وہ اپنی مخالفت کو معمولی نہ سمجھیں کہ وہ اس مخالفت کے نتیجے میں کسی بہت بڑی آزمائش میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور کسی دردناک عذاب سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں۔

تفسیر وتوضیح :

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ:

مختلف معاشرتی آداب کے بیان کرنے کے بعد اہل ایمان اور منافقین کے طرز عمل کا موازنہ پیش کیا جارہا ہے کہ اہل ایمان اہل نفاق کے مقابلےمیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والےہوتے ہیں اور إِنَّمَا کے ذریعے اس میں تخصیص کر دی کہ اہل ایمان وہ لوگ ہیں جو اقتداءًاس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں ایسا ایمان جو اخلاص اور متابعت کاخوبصورت امتزاج جس میں کوئی شک و شبہ کا پہلو نہ ہو۔

وَاِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْهُ :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مجلس کے آداب بیان کئے جارہے ہیں جو کہ اہل ایمان کی دوسری بڑی صفت بھی ہے کہ جب وہ کسی مسئلے پر غور وفکر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مجلس میں اکٹھے ہوتے تھے تو اپنی ضروریات و حاجات کے پیش آنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کیے بغیر نہیں جاتے تھے۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کےلیے امیر کامقام رکھتے تھے لہذا اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مجلس میں مجلس کے امیر کی اجازت کے بغیر مجلس کو چھوڑ کر جانا خلاف ادب ہے جوسوءادب شمار کیا جائے گا۔کیونکہ بلانے والی ذات امیر کی ہے لہٰذا یہ اس کا حق ہے کہ مجلس کے شرکاء اس کی دعوت پر جب پہنچیں تو اس کی اجازت کے بغیر دیار سے رخصت نہ ہوں خواہ عارضی طور پر یا مستقل ،دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس سے بغیر اجازت چلے جانا نفاق تھا۔

إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ:

ایک مرتبہ پھر اہل ایمان کی یہ صفت دھرائی گئی اس صفت کی تکرار اس کی اہمیت کو اجاگر کر رہی ہےاور واضح کیا گیا کہ امیر کے اپنی رعایا پر حقوق کی نوعیت کیا ہےاور رعایا پر اپنے امیر کی اطاعت کے ضمن میں کیافرائض ہیں لازمی بات ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اتنی چھوٹی بات کر دی کہ مجلس سے مجلس کے امیر کی اجازت کے بغیر اٹھنا جائز نہیں تو باقی معاملات میںاطاعت کی کیا نوعیت ہوگی اس سے اندازہ ہوجاتا ہے۔یعنی معاشرتی زندگی کے آداب امیر اور امیر کی مسئولیت کے زیر سایہ افراد دونوں پر مشترکہ فرض ہیں۔یہاں تک تو رعایاکے فرائض اور امیر کے حقوق کا بیان تھا آیت کے اگلے جزومیں رعایا کے حقوق اور امیر کے فرائض پر روشنی ڈالی گئی ہے جو کہ آداب مجلس کے ضمن میں بیان کیے گئے ہیں۔ چونکہ آیت کے پہلے جز میں اہل ایمان کو آداب مجلس کے بارے میں بتایا گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں کسی اجتماع میں بلائیں تو اس اجتماع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اجازت کے بغیر جانا بہتر نہیں ہےاور اگر تم اپنی کسی شدید ضرورت کے تحت اجتماع ختم ہوئے بغیر چلے جانا چاہتے ہو تو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت لینی چاہیے کیونکہ مومن کی شان ہی یہ ہے کہ وہ آتے ہوئے بھی اجازت لے اور جاتے ہوئے بھی پوچھ کر جائےیہ ادب ہے اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا جس کی تم دل سے اطاعت کرتے ہو اور اس کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کرتے ہو۔نماز جمعہ،نماز عید یا دوسری نمازیں باجماعت یامجلس شوری کے اجتماعات کے مواقع پر منافقین تو کچھ دیر بعد نکل بھاگنے کی فکر میں ہوتےہی تھےکہ جب ان اجتماعات میں انہیں اپنا کوئی فائدہ نظر نہ آیاتو وہ ان مجالس کو بےکار سمجھ کر بغیر بتائے چلے آتے تھے ان منافقین کی دیکھا دیکھی کچھ مؤمنوں نے بھی یہ وطیرہ اختیار کر لیا تھا ان کی اس تربیت کی خاطر یہ آیت نازل ہوئی۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ :

پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ اختیار دیاگیا کہ ان اجتماعات کے مواقع پر کسی بھی شخص کو جانے کی اجازت دے سکتے ہیں اگر آپ یہ سمجھتے ہوں کہ کسی شخص کو واقعی کوئی بہت ضروری کام ہے یا وہ بیمار ہے یا کسی تکلیف میں یا اس کے گھر پر کوئی بیمار ہے تو آپ اس کی مجبوری اور معقول عذر کی صورت میں اسے جانے کی اجازت دے سکتے ہیں اگر آپ چاہیں تو، یعنی یہ أمر امیر کی مرضی پر منحصر ہے۔آیت کے اس جزءمیںامراء کے لیے ہدایت نامہ موجود ہے کہ انہیں کس طرح اپنے ساتھیوں کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک روا رکھنا چاہیے اور رفق و نرمی سے معاملات کرنے چاہئیں کہ جبروزبردستی کسی بھی صورت میں محبوب عمل نہیں ہے جس دین کو اختیار کرنے میں فلاح ہی فلاح ہے اس میں بھی جبر نہیں ہے توباقی معاملات میں حدوداللہ کو نہ توڑا جائے احکام الہٰی کی مخالفت نہ ہو تو جبر سے گریز کرنا چاہیے۔ 

وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ :

آداب اجازت میں سب سے اہم ترین ادب اور فریضہ جو امیر کے کاندھوں پرعائد ہوتا ہے۔امارت یا مسئولیت کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ محسوس کیا جائے تو بہت عظیم ذمہ داری ہےزیر امارت افراد اور اشخاص کے لیے دعائیں،استغفار میں تسلسل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے چنانچہ فرمایا گیا کہ جب وہ مومن آپ سے اجازت طلب کرکے مجلس سے جانے لگیں توآپ اس کے لیے دعائے مغفرت کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی غیر حاضری معاف فرمائے اور اس غلطی کے باوجود اسے بخش دے کہ وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر خود اکیلا مجلس سے جا رہاہے اللہ اسے معاف فرمائے جب آپ اس کے لیے دعائے مغفرت فرمائیں گے تو بے شک اللہ تعالیٰ بھی اس کی غلطی کو معاف فرما دے گا اور اس پر اپنا رحم کرے گا۔

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا :

آیت کے مفہوم میں علماء کے دو اقوال پائے جاتے ہیں۔أول : لفظ دعاءرسول کی طرف مضاف ہے اس طرح آیت کا مفہوم ہے کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بلانے میں وہ طریقہ اختیار نہ کرو جس طرح تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کوبلاتے ہو اس میں احترام کاعنصر غالب ہونا چاہیے،جیسے یارسول اللہ،یانبی اللہ،وغیرہ وغیرہ اس مفہوم پرقرآن مجید کی کئی آیات دلالت کرتی ہیں مثلاً:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ   ۝

اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ ۝ (الحجرات 2،3)

ترجمہ:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے۔ (احکام القرآن قرطبی 322/12)

دوم : ایساگمان نہ کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی پردعا فرمائیں تو وہ ان دعاؤں جیسی ہے جس طرح تم لوگ ایک دوسرے کےلیے اورایک دوسرے پر کرتے ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائیں قبولیت کے شرف سے ہم کنار ہوتی ہیں اور اس بات سے ڈرو کہ وہ تمہارے اوپر دعافرمائیں اور تم ہلاک ہو جاؤ(تفسیر ابن کثیر 307،308/3)

مختصراً:اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لیکر پکارتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح مت پکارو۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ رسول کی بددعا کو دوسروں کی بددعا کی طرح مت سمجھو اس لیے کہ آپ کی دعا تو قبول ہوتی ہے اس لیے رسول کی بددعا مت لو وگرنہ تم ہلاک ہو جاؤ گے۔

قَدْ يَعْلَمُ اللهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا:

اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے بخوبی واقف ہے جو آپ کی اس طرح کی مجالس سے چپکے چپکے کھسک لیتے ہیں یعنی جب وہ اپنا مفاد یا فائدہ نہ دیکھیں تو ایسی مجالس میں اوّل تو آتے ہی نہیں اگر آ بھی جائیں تو خاموشی سے بغیر بتائے کھسک جاتے ہیں جو نفاق کی علامت ہے۔

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اور ان کی حکم عدولی کا نتیجہ زبردست فتنہ یعنی آفت یا دردناک عذاب ہوتاہے ۔

’’عَن أَمرِہِ‘‘ میں ’’ہ‘‘ ضمیر اللہ کی طرف راجع ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ایک ہی معنی ہے کہ ’’مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ‘‘مخالفۃ الامر یا مخالفۃ عن الامر دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔

نکتہ : فقہاء اس آیت سے ایک اصول اخذ کرتے ہیں کہ قرائن سے خالی أمر وجوب پردلالت کرتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کو اطاعت الٰہی کی ہر مخالفت پر فتنہ اور عذاب کی خبردی ہے اور اس سے ان کو مخالفت سے ڈرایا اور یہ وجوب پر ہی دلالت کرتاہے یہاں تک کہ کوئی ایسا قرینہ نہ آجائے جو سیاق وسباق کے أمر کو وجوب سے پھیر کر کسی اور حکم کی طرف کر دے۔

أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ: ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد قتل ہے ۔ ( ابن عباس)

کہاگیا کہ :

اس سے مراد مصائب وآزمائش ہے۔ (عطاء)

کہا گیا کہ:

ا س سے مراد ظالم حکمران ہے ۔ ( جعفر بن محمد)

کہا گیا کہ:

دنیا کی محبت مراد ہے جس کا نتیجہ آخرت کا عذاب ہوگا ۔

لیکن قرآن مجید میں فتنہ کثیر معانی میں استعمال ہوا ہے۔

شرک، کفر، عذاب، ابتلاء، جہنم کی آگ سے جلانا، قتل، روکنا یا منع کرنا ، گمراہی ، جنون ، حجت ، اختیار کا نتیجہ جو برا ہو اور یہاں پر سبھی مفہوم مراد ہیں اسے صاحب اضواء البیان نے بھی اختیار کیا ہے۔ ( سورۃ النور 6/173)

مختصراً : اس مخالفت کا نتیجہ عذاب الٰہی میں ہوسکتاہے خواہ وہ اس دنیا میں ہو یا آخرت میں۔

تربیتی پہلو/ فوائد :

اس آیت کا شان نزول یا تفسیر وتوضیح سے قطع نظر ہم سے کچھ باتوں کا تقاضا کرتی ہے جن کا تعلق ہماری اجتماعی زندگی سے ہے وہ باتیں مختصراً درج ذیل ہیں :

1۔ یہ آیات جماعت اور اس کے امیر کے درمیان تنظیمی آداب وامور پر مشتمل ہیں جماعت کا معاملہ اس وقت تک سنور نہیں سکتا جب تک یہ آداب شعور وادراک اور ضمیر کی گہرائیوں سے نہ پھوٹے اور پھر وہ اس کی زندگی سے نافذ ہوںاورجماعتی قانون بلکہ عرف عام بن جائیں یعنی عادت ثانیہ بن جائیں ورنہ جماعت اور افراد کے معاملات میں لا قانونی کارفرما رہتی ہے ان سے یہ فرمایا گیا کہ مؤمن وہ ہیں جو دل وجان سے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان ویقین لائیں اور صرف ذہنی اعلان پر اکتفاء نہ کریں بلکہ قول وفعل دونوں اس پر شاہدہوں۔

امر جامع سے مراد وہ جماعتی امر ہے جس میں ساری جماعت کا مشورہ اور اشتراک بحیثیت جماعت ضروری ہو مثلاً جہادی معاملات، فلاح عامہ کے کام، دعوتی وتربیتی امور ،تنظیم سازی کا تقاضا یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں لوگ اپنے سربراہ اور امیر کی اطلاع اور اجازت کے بغیر کہیں نہ جائیں ورنہ اجتماعی امور میں گڑبڑ اور بدنظمی واقع ہوتی ہے اور سچے ایمان داروں کا طرز عمل یہ ہوتاہے کہ صرف اس وقت اجازت طلب کریں جب حاجت وضرورت شدید ہو اور اس کے بغیر گزارا نہ ہو رہا ہو تاکہ جماعتی کاموں سے غیر حاضر نہ رہیں کیونکہ ان کاموں کی شرعی ضرورت صرف اجتماع سے ہی پوری ہوگی اور اس کی اجازت پر اصرار نہیں ہونا چاہیے کہ امیر چاہے تو اجازت دےدے ورنہ خاموش رہے کہ وہ مکمل حالات سے آگاہ ہوتاہے کہ کس وقت کس کو رخصت دینے سے کوئی مسئلہ نہ ہوگا یعنی اس سے یہ فائدہ اخذ کیاجاتاہے کہ آخری بات خواہ اثبات میں ہو یا نفی میں امیر جماعت کی ہوگی ، اور امیر کو استغفار کی ہدایت سے اندازہ ہوتاہے کہ اجازت نہ مانگنا اور نہ جانا ہی بہتر ہے کہ ان کے جانے سے جماعت کا کیا نقصان ہوسکتاہے۔

2۔ ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذاتی ادب واحترام کا بھی تذکرہ کیاگیاہے اور حکم دیاگیا کہ آپ کی ذات اقدس کو نام لے کر مت پکارو مثلاً : یہ مت کہو یا محمد یا ابا القاسم وغیرہ جس طرح مسلمان باہم ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔

یہ بات ادب نبوی کے خلاف ہے افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ جو محبت رسول کا دعویٰ کرتے ہیں اور احترام رسول کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اس کے باوجود ’’یا محمد‘‘ کے لفظ کو ہی اپنی سنت کی علامت بنا کر اپنی مساجد میں لکھواتے ہیں اور اس آیت کی مخالفت کرتے ہیں یعنی ’’یا محمد‘‘ علامت حبِ محمد بن کر رہ گیا ہے اور اس پر اصرار کیا جاتاہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

میری ان قابل احترام بھائیوں سے گزارش ہے کہ غور کریں پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خالق کائنات اور معبود حقیقی ہونے کے باوجود کہیں آپ کو نام سے نہیں پکارا بلکہ یایھا الرسل، یایھا النبی ، یایھا المدثر ، یایھا المذمل جیسے خوبصورت اور قابل فخر القابات سے مخاطب کیا اور ہم کس طرح ’’یا محمد ‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔

3۔ اور اس سے یہ فائدہ بھی معلوم ہوا کہ مربی، راہنما، امیر جماعت کا عزت واحترام از حد ضروری ہے خود امیر کا منکسر المزاج ہونا الگ امرہے مگر جماعت کو اگر اپنے مقاصد میں کامیابی چاہیے تو اپنے امیر کا وقار واکرام اور اطاعت کرنا بہت اہم امر ہے لیکن صرف ظاہری ادب نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے کیونکہ جو چیز دل کی گہرائیوں میں ہوتی ہے اس کے ظاہر پر اثرات ہونا لازمی ہیں لہٰذا اچھا سوچیں گے تو اچھا ہوگا۔

4۔ واضح رہے کہ عصر حاضر میں اسلام اس مقام پر کھڑاہے جہاں ابتدائے اسلام میں کھڑا تھا اور ایسے زمانہ میں اسلام کی عمارت کی تعمیر ثانی اور استحکام کے لیے ایک ایک اینٹ انتہائی اہم ہے ۔ مومن کی حیثیت اس ایک اینٹ کی ہے جو عمارت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے اور ایسے مواقع پر جب جماعت افرادی قوت کی قلت کا شکار بھی ہو تو اس صورت میں ایک مسلمان کی کمی بھی بہت بری طرح محسوس ہوتی ہے خاص طور پر جب کوئی مومن اجتماع میں شامل ہوکر اجتماع ختم ہونے سے قبل جانے کی اجازت طلب کرے تو بہت گراں گزرتاہے اس لیے یہ امر امیر پر چھوڑا گیا کہ اس کی مرضی ہے کہ اجازت دے یا نہ دے کیونکہ وہ تمام معاملات سے آگاہ ہوتاہے اور بعض دفعہ ایک ایک رائے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔

5۔ مخالفت اتباع رسول کسی بھی انداز سے جائز نہیں ہے نہ تو قولی نہ عملی بلکہ اشارتاً بھی نہیں اور نہ ہی ایسے کسی سبب میں حصہ لینا جائز ہے جو مخالفت رسول پر ابھارتا ہو کہ ایسا عمل جو گناہ کی طرف لے کر جائے وہ بھی گناہ ہے اس سے بھی بچنا واجب ہے۔

6۔ اسلام نے اجتماعی زندگی کو پسند کیا ہے اختلافات اور افتراق کی زندگی کو سخت ناپسند کیا ہے اس لیے قرآن مجید کی تعلیمات ،دعائیں وغیرہ سب اجتماعیت،یگانگت کی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

اَلَآ اِنَّ لِلهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ ۭ وَيَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا ۭ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ  

آگاہ ہو جاؤ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ جس روش پر تم ہو وہ اسے بخوبی جانتا ہے اور جس دن یہ سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اس دن ان کو ان کے کئے سے وہ خبردار کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔

معانی الکلمات :

اَلَآ: یہ أداب استفتاح میں شمار ہوتاہے جوکہ ہمزہ استفہام اور لائے نافیہ کا مجموعہ ہے۔

اور یہ ایسی تنبیہ پر دلالت کرتا ہے جو امر اس کے بعد پیش کیاجائے اور اس کا اقرار شامل ہوتاہے۔

يُرْجَعُوْنَ: رجوع کا مطلب ہے پلٹنا،لوٹنا،واپس ہونا یعنی تم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے۔

فَيُنَبِّئُهُمْ: پس وہ ان کو خبردار کردے گا۔

اجمالی مفہوم:

سورت کے آخر میں انہیںخبردار کیاگیا کہ یہ بات جان لو کہ زمین وآسمان اور اس کل کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اسے سب خبر ہے تمہارے ظاہری اعمال کی جن کی بدولت تم لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہو اور ان پوشیدہ اعمال کی بھی جو حقیقتاً ہوس،حرص،حسد اور شیطانیت پر مبنی ہیں اور یہ بھی اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہیں پلٹ کر تو اس رب حقیقی کی طرف آنا ہے اس روز وہ تمہارے ظاہری اور پوشیدہ اعمال اور تمہاری نیتیں کھول کر تمہارے سامنے رکھ دے گا اور پھر تمہارے ہاتھ ندامت ،شرمندگی،پچھتاوا اور آہ وزاری کے سوا کچھ نہ رہے گا۔اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کے علم سے مکمل طور پر باخبر ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور یا تو مکمل طور پر رسول کے مطیع وفرمانبردار بن جاؤ کہ فلاح پاؤ یا پھر مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر لو یہ دو کشتیوں میں سوار ہونا ختم کر دو ورنہ تم گہرے سمندر میں ڈوب جاؤ گے۔

تفسیر وتوضیح :

اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ :

سورت نور کی آخری آیت تنبیہ سے شروع ہوتی ہے کہ سورت میں بیان ہونے والے تمام اوامر ونواہی اور اخلاق وآداب کی نگرانی کرنے والی سوچ کا یہی عقیدہ ہے جس کی بنیاد توحید ربوبیت ہے اور انتہا توحید الوہیت ہے اور جس کا زاد راہ توحید اسماء وصفات ہے۔

قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ :

اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے ظاہر وباطن سے باخبر ہے اور اس سے کوئی بھی امر مخفی نہیںہے خواہ اس کا تعلق زمین سے ہو یا آسمان سے ہو۔

وَيَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا :

عقیدئہ آخرت کا بیان بھی انہی عقائد کا حصہ ہے کہ جو احکام اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اگر ان کی پابندی اور عمل میں خوف آخرت شامل نہ ہو تو یہ اعمال وافعال کبھی بھی مطلوبہ نہج پر نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ فکر آخرت صراط مستقیم پر رہنے میں سب سے بڑا وسیلہ ہے۔

وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ   :

اللہ تعالیٰ ہر قسم کے احوال سے واقف ہے اس سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے آیت کے اس مفہوم پر قرآن مجید میں دیگر آیات بھی دلالت کرتی ہیں ، مثلاً : یونس :61۔ ھود 5،6۔ الرعد :10،33۔ الشعراء : 217،220۔ الملک : 13،14۔ الانعام : 59

خاتمہ

سورت نور کی تعلیمات پر مبنی اس ترجمانی کو میں تفسیر کا نام تو نہیں دیتا کہ تفسیر مفسرین کا کام ہے جبکہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے مطالعہ کو پیش کرتے ہوئے علماء اور قارئین سے اس التماس کے ساتھ کہ اس تحریر میں کہیں بھی کوئی غلطی نظر آئے تو مجھے اس کے بارے میں مطلع کریں اللہ تعالیٰ اس کو جزائے خیر دے ۔ آمین

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى کے مصداق مجھے مثبت اور قابل اصلاح تنقید پر خوشی ہوگی۔

میں نے اس ترجمانی کے لیے جس نہج کو اختیار کیا وہ درج ذیل ہے:

1۔ آیت اور اس کا ترجمہ

2۔ آیت کے وہ کلمات جو معانی اور شرح کے محتاج تھے۔

3۔ آیت کا اجمالی مفہوم  

4۔ آیت کی توضیح وتشریح

5۔اخذ کردہ مسائل سوال جواب کی صورت میں جہاں ضروری ہوا

6۔ فوائد جو آیت سے ماخوذ کیے گئے۔

اس ترجمانی کے لیے میں نے جن کتب سے استفادہ کیا وہ چار انواع پر منقسم ہیں:

1۔ کتب لغات          2۔ کتب تفاسیر

3۔ کتب احادیث       4۔ کتب فقہ

مذکورہ بالا کتب سے استفادہ کی کیفیت میں صحت کا خیال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سےدعا گو ہو ں کہ مسلمان سورت نور کی تعلیمات کو اپنے گھروں میں نافذ کریں اور خود بھی مستفید ہوں تاکہ آخرت کا سامان ان کے ساتھ ہو اور روزِ محشر فلاح اور کامیابی ان کا نتیجہ ہو۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے