موتُ العالِم موتُ العَالَم

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

وہ شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

نام ونسب:قاری عبد الوکیل صدیقی رحمہ اللہ بن ملک فضل الرحمٰن۔

ولادت:قاری عبدالوکیل صدیقی خانپوری1955ء میں خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور ہزارہ کے شہرمیں پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت: میرے مربی و محسن قاری عبد الوکیل صدیقی نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے تمام مراحل اپنے گھر میں طے کیے اور اعلی دینی تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ کا رخ کیا اور دوران تعلیم اپنے وقت کے نامور شیوخ الحدیث محدثین اور ممتاز علماءسے کسب فیض کیااور قاری صاحب رحمہ اللہ دوران تعلیم ہی دارالعلوم کراچی تشریف لے گئے۔وہاں دیوبندی عالم مفتی محمد شفیع مرحوم سےفقہی علوم سے متعلق موضوعات پر خصوصی اخذ حاصل کیا۔جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میںمتعددباردورہ تفسیرالقرآن کےعلاوہ قرآن مجید میں متذکرہ مقامات پرخصوصی اخذ حناص دروس لیے اور علمی رموز سمجھے۔

قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ کے اساتذہ کرام:آپ نے جن ممتاز اساتذہ کرام سے علم فیض حاصل کیا ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

قاری قمر الدین حفظہ اللہ

شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ

شیخ الحدیث ابو البرکات رحمہ اللہ

شیخ الحدیث مولانا محمد اعظم رحمہ اللہ

شیخ الحدیث مولانامحمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ

مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ

شیخ الحدیث محمد الیاس اثری حفظہ اللہ

مولاناعبدالحمید ہزاروی حفظہ اللہ اور دیگراساتذہ کرام کی تعلیم وتربیت کے نقوش ہمیشہ قول و فعل میں نمایاں چھلکتے نظر آتے۔

شخصیت:پیکروفامجسم اخلاص ایثارعالم باعمل اور نمونہ سلف صالحین جناب قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ جہاں بھی تشریف فرما ہوئے قائدانہ جرأت مندانہ اور مدبرانہ کردار ادا کرتے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتے تو سبھی کی نگاہیں ان کے خطاب کی سحر آفرینی کی منتظر رہتیں کسی محفل میں ہوتے تو امیر محفل کہلاتے کسی کارواں میں ہوتے تو میر کارواں ٹھہرتےمسلک حقہ کی غیرت وحمیت رگ و ریشہ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نہ کبھی مدعوبیت کاشکار ہوتےنہ مداہنت کا اور نہ بھی کبھی بے جاکر ختگی اور خشونت کا اظہار کیاجس چیز کو حق سمجھا بڑی دلیری سے بیان کیا سرکاری آفیسرایجنسیوں کے اہلکار قاری صاحب کی دینی فراست اور عالمانہ دبدبہ اور طنطہ سے جی حضوری پرمجبور ہوجاتے۔جھوٹے مقدمات کاسامنا کرناپڑا لیکن کبھی بھی بھیک نہ مانگتے سرکاری دفاتر کے چکر نہ لگائےبلکہ مستحکم کردار علمی تفوق اجلی سوچ فکری نکھار ایثارواخلاص کی دولت اور اللہ وحدہ لاشریک کی ذات پرکامل اعتماد کے بل بوتے تھے۔

قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ خانپوری نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان وامیر ضلع رحیم یار خان اور رئیس جامعہ محمدیہ مرکز اہل حدیث کے نام سے معروف تھے۔قاری صاحب سفید رنگت کشادہ سینہ گفتگو میں ررانت دراز قد وقامت چہرہ بشرہ میں وجاہت زبان میں حلاوت سر پر سفید یاسرخ رومال حجازی کرتہ میں ملبوس آنکھوں پر نظر کا چشمہ رعب دار آواز سپاہیانہگفتگو اور خوبصورت امتزاج کہ نوجوانوں کو رشک آتا اور بڑے بوڑھے جو عقیدت میں گندھے رہتے۔

خانپور آمد1974ءمیں:بقول ناظم اعلیٰ مرکز اہلحدیث خانپورماسٹر عطاءاللہ محمدی صاحب اور ناظم جماعت عزیز الرحمن علوی صاحب خانپور میںایک مدرس وخطیب کی ضرورت تھی۔تو ہم نے اخبار الاعتصام لاہور کے شمارے میں دے دیا۔توبہت سارے خطیب آئے اور جمعہ پڑھا کر واپس چلے گئے اور اسی سال ہی خانپور میں سیلاب آیا ہوا تھا کچھ عرصہ بعد قاری صاحب تشریف لائے اور آپ بھی خطبہ جمعہ دے کر پندرہ دن کا وعدہ کرکے واپس چلے گئے اور پھر واپس بیس سے پچیس دن کے بعد آئے تو لیٹ آنے کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے جب میں واپس جارہا تھا تو بہاولپور کراس کیاتو واپس آنے کا ارادہ بدل گیالیکن ایک رات میں گھر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ قیامت کے دن خداوند کریم نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میرا خستہ حال اور ٹوٹا بچھونا گھر کیوں چھوڑ آئے تو میں کیا جواب دوں گا میں نے ارادہ بدل لیا اور واپس خانپور چلاآیا۔قاری عبدالوکیل صدیقی اور ناظم اعلیٰ جامعہ خانپور ماسٹر عطاءاللہ محمدی صاحبان نے تقریباً پانچ سال کا عرصہ اکٹھے گزاراایک ہی چارپائی پر ناشتہ دوپہر کا کھانا اور شام کا کھاناکھاتے تھے اور صبح درس کے بعد روزانہ پانچ چھ میل کی سیر اکھٹے کرتے تھے ابھی تک قاری صاحب کی شادی نہیں ہوئی تھی۔

قاری صاحب کا خانپور میں دعوتی کام:بقول عباس میں اور ایک آدمی دفتر میں بیٹھے تھے تو قاری صاحب مجھے فرمانے لگے بیٹا عباس میں خانپور آیا یہ پورا علاقہ شرک وبدعت کاگھر بناہوا تھایہاں خانقاہیں آستانیں بدعات ورسومات عروج پرتھی یہاں جہالت لوگوں کے سینوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور مسلک اہلحدیث کا تعارف نہ ہونے کے برابر تھا۔اگر کوئی شخص سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق نماز ادا کرتاتھا تو اس آدمی کو وہاں سے دھکے دے کر نکال دیاجاتا اور مسجدوں کو دھویاجاتا۔

ایک دفعہ احمد پورشرقیہ میں دھکے دے کر مسجد سے نکالا گیااور رحیم یارخان کی ایک بستی میں پتھراؤ کے ساتھ ساتھ کتے بھی چھوڑ گئے تھے۔لیکن مالک کریم نے عزت دی

تُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ

قاری صاحب رحمہ اللہ ایسی ابتلاؤں کو راہ حق کالازمہ قراردیتےتھےکبھی بھی واویلے کے طورپرنہیں بلکہ صرف محض تحدیث نعمت کے طور پر یا متلاشیان راہ حق کی راہنمائی کےلیے۔ایک دفعہ تحریک ختم نبوت شروع ہوئی خانپور میں طے یہ ہوا کہ تمام مکاتب فکر کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔غلہ منڈی کی جامعہ مسجد میں پرگرام تھا اور تھا بھی رات کا تو جماعت اہلحدیث کی طرف سے قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ اورماسٹر عطاءاللہ محمدی جواب ناظم اعلیٰ ہیں مرکز کے یہ دونوں حضرات گئے قاری صاحب کی ڈاڑھی کے چند بال تھےتوانتظامیہ نے کوئی خاص توجہ نہ دی اور جب قاری صاحب رحمہ اللہ کی خطاب کی باری آئی تو لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ عش عش کر اٹھےکہ ہمارے علاقے میں اتنا باہمت اور بے باک مقتدرشخص موجود ہے اس ایک تقریر نے عوام کے دلوں کو گھیر لیااور اپنے پرائے آپ سےمحبت کرنےلگے کیونکہ قاری صاحب رحمہ اللہ انداز بیان خطابت میںشروع سے ہی فصیح وبلیغ الفاظ کااستعمال کرتے مختصر مگرجامع الفاظ فرمایا کرتے تھے۔

خانپور شہر میں دین کا اتنا کام کیا ہے کہ آج آپکو خانپور کے تقریباً ہر کونے میں مسجد اہلحدیث نظرآئے گی اور دین کے کام کرنے میں قاری صاحب نے رات دن کا فرق کرناچھوڑ دیا تھاجب دارالسلام مسجد کی تعمیر مکمل ہورہی تھی اور صبح جمعہ کا دن تھا۔افتتاحی خطبہ جمعۃ المبارک بھی قاری صاحب رحمہ اللہ نے ہی دیا،باوجود اس کے کہ رات تین بجے تک خود کام کی نگرانی کرتے رہے۔اور صبح پھر وقت سے پہلے مسجد میں موجود تھے۔

خانپور کی چند ایک مشہور مساجد:جامع مسجد دارالسلام جو کہ پچھلے سال مکمل ہوئی ہے۔

nجامع مسجد بیت المکرم nجامع مسجد ریاض الجنۃ

nجامع مسجدقباءاہلحدیثnجامع مسجدحقانیہ غریب آباد

یہ چند ایک مساجد خانپور شہر اور مینمین جگہ پر بنائی گئی ہیں اس کے علاوہ پچاس مساجد خانپور کے اردگرد گاؤں اور بستیوں میں بنائی گئی ہیں۔

شہر سے باہر تبلیغی سلسہ:اب قاری صاحب نے شہر سے باہر دروس کا سلسہ شروع کر دیا ماسٹرعطاءاللہ محمدی صاحب اور قاری صاحب سائیکلوں پرجاتے ۔عصر کی نماز کے بعد سپیکر وغیرہ پیچھے رکھ لیتے اور گاؤں دیہات میں جا کر قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت دیتےتھےاسی طرح مغرب کی نماز کے بعد اور عشاء کی نماز کے بعد بھی اورکھانے کےلیےکسی کو تکلیف نہ دیتےاورضرورت کاسامان بھی ساتھ لیےجاتے تھے لوگ حیران ہوتےتھے کہ یہ لوگ کیسے ہیں ضرورت کاسامان بھی خود لاتےہیں ہمیں دین کی باتیں بتاتے ہیں اور لیتے بھی کچھ نہیں اور کھاتے پیتے بھی کچھ نہیں۔

خانپور میں سالانہ کانفرنس کاانعقاد:1975ء میں بڑی سادگی سے پہلے جلسے کا انعقاد کیا۔اور دوسری سالانہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم کانفرنس 1976ء میں ہوئی۔جس میں مولانا عبد القادر روپڑی صاحب مولانا محمد رفیق مدنپوری صاحب فیصل آبادی پروفیسر حافظ عبد اللہ بہاولپوری صاحب مولانا عبد الرشید سیف صاحب مولانا حبیب الرحمٰن صاحب کامونکی اور مولانا محمدسلیمان انصاری صاحب ایڈیٹر الاعتصام لاہور(رحمہم اللہ جمیعاً) نے خطاب فرمایا تھا اس کانفرنس کی آخری نشست کی صدارت خواجہ منظور احمد صدیقی کو دی گئی تھی۔قاری صاحب کی زندگی کا ایک خاصہ یہ تھا کہ جو کام کرتے پوری دلجمعی اور شاندار انداز سے کرتے اور مستقل مزاجی سے کرتے تھےسب سےپہلےاپنی جیب سے سالانہ فنڈ میں جمع کراتےاور ہرمسجدیاپرگرام میں بھی اپنی جیب سےآغازکرتے۔ یہی وجہ ہے کہ چھتیس مرتبہ ہونے والی سالانہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم کانفرنس پورے ملک میں منفرد اور جداگانہ اعزاز رکھتی ہے اسی طرح تحفظ ناموس رسالت،دفاع اسلام اور استحکام پاکستان کے حوالے سے نکالی جانے والی ریلیاں پورے ملک میں ٹاپ کلاس گردانی جاتی ہیں۔

پاکستان سے باہر کے تبلیغی پروگرام:قاری صاحب نے برطانیہ،بیلجیم،ہالینڈ،مصر،افغانستان،بنگلہ دیش،متحدہ عرب امارات،سعودی عرب،عمان اور ترکی وغیرہ میں بھی مسلم کمیونٹی اور مختلف اسلامی تنظیموں کی دعوت پر دورے کئے اور کانفرنسوں جلسوں مذاکروں اور سیمیناروں سے خطاب کرکے توحید وسنت کے پیغام کو عام کیا۔تین مرتبہ سعودی مندوب کے طور پر حج کی سعادت سے مالامال ہوئے۔وفات سے چار ماہ قبل میدان منٰی میں مسجد خیف کے بالمقابل شاہی خیموں میں راقم الحروف سےملاقات ہوئی خاصے بیمار تھےلیکن پُر عزم تھے یرقان کی وجہ سے جگر متاثر تھا۔

ذکرِالٰہی سے ہر وقت اپنی زبان کو تَر رکھتے تھے:سال 2007ء سے 2012ءکے شروع ہونے تک طالب علم عباس کو قاری صاحب اپنے ساتھ کانفرنسوں اور مختلف پرگرام میں ساتھ لیے جاتے تھے۔اسی کے بقول قاری صاحب رحمہ اللہ اکثر اوقات اپنی زبان کو ذکر سے تَر رکھتے تھےکہ حسبی اللہ نعم الوکیل نعم المولیٰ ونعم النصیر اور حسبی اللہ لاإلٰہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم یا پھر کبھی کبھی فرماتے تھےکہ اے میرے اللہ معاف فرمادے جو بھی بولتے تھے خیر کا کلمہ بولتے تھے۔

عظیم الشان جامعہ محمدیہ کی تعمیر: قاری عبد الوکیل صدیقی نے چودہ جون انیس سو چھساسی میں خانپور کے علاقہ رحمان کالونی بائی باس روڈ پرجامعہ محمدیہ اہلحدیث کی بنیادرکھی۔1989ء میں جامعہ کے افتتاح کے لیے امام کعبہ فضیلۃ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل تشریف لائے قاری صاحب فرماتے تھے خانپور میںجامعہ کی تاسیس ان انتہائی نامساعدحالات میں آج سے تیس سال پہلے رکھی گئی ابتداء میں چھوٹا سا مدرسہ تھالیکن رات دن کی محنت نہایت اعلیٰ ومثالی کارکردگی کی وجہ سے یہ مدرسہ ایک عظیم الشان جامعہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

مرکز اہل حدیث کی تاسیس:اس مرکز کو تعمیر کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب دعوتی و تبلیغی کام روز افزوںاضافہ ہوتاگیا۔یہ چوبیس کنال کا پلاٹ لاکھوں روپے کے زرکثیر سے خریداگیاجس میں عظیم الشان جامع مسجد درسگاہیں دارالافتاء،دارالاقامہ،مدرسہ للبنات،عظیم الشان اور خوبصورت لائبریری،شعبہ نشرواشاعت،شعبہ تعمیر مساجد اور دیگر شعبہ جات جوکہ بفضل اللہ آج احسن انداز سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہے ہیں۔اور آج اس ادارے کو ایشا کے بڑے بڑے اداروں میں شمار کیا جاتاہے۔

جامعہ محمدیہ اہلحدیث للبنات:جس طرح للبنین کاخوبصورت اور عظیم الشان مرکز ہے اسی طرح ہی قاری صاحب نے للبنات کا جامعہ قائم کیا جہاں قوم کی بچیوں کے لیےتعلیم وتربیت کامثالی اور عمدہ بندوبست فرمایا اب تک دوسو سے زائد عالمات فاضلات قرآن مجید کی حافظات تعلیم کی تکمیل کرکے سندفراغت پاکرملک کے طول وعرض میں قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کر رہی ہیں۔

محلہ خواجگان کی مسجد میں ذمہ داریاں:جب قاری صاحب خانپور تشریف لائے تو ان کے سامنے خطبہ جمعہ کے بعد ذمہ داریوںکا پلندہ سامنے رکھ دیا کہ پانچ وقت اذان،نماز خطبہ جمعہ،جمعہ میں آنے والے لوگوں کےلیے ہرجمعہ شامیانہ لگانہ،مسجدکی صفائی،دو وقت بچوں کو پڑھانا،نلکے اور کنوے سے پانی نکال کر نمازیوں کے وضو کے لیے حوض بھرنا،نکاح پڑھانا، جنازے پڑھانا وغیرہ وغیرہ۔

قاری صاحب نے ذمہ داریوں کاسن کر جی داری سے فرمانے لگے مجھے منظور ہے مشاہرے کی باری پرفرمایا کچھ دینا چاہو توتمہاری مرضی ہے نہ دو گے تومیرا مطالبہ نہیں ہے میں یہاں کچھ کام کرنے کے جذبہ سے آیا ہوں میرے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالنابلکہ ممدوومعاون بننا۔

محلہ خواجگان میں ترجمعہ وتفسیر کی کلاس:مرکزی جامع مسجدمحلہ خواجگان میں قاری صاحب رحمہ اللہ ہر روزنماز مغرب کے بعد ترجمعہ قرآن وتفسیر کی کلاس لیتے تھےیہ کلاس چار مرتبہ مکمل ہوگی لیکن آخری مرتبہ ستائیس پارے مکمل ہوچکے تھے کہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

قاری صاحب رحمہ اللہ کی علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات:قاری صاحب ایک مرتبہ ملتان میں تقریر کرکے فارغ ہوئے توشہید ملت علامہ صاحب بڑےتپاک سے ملےپتہ معلوم کیا اور پھر پسندیدگی کااظہار کرتے ہوئے رفیق سفر بننے کی پیشکش کی اس کے بعد اکثر جلسوں میں ان کے ہمسفر رہے۔میں نے خود قاری صاحب سے سناتھاکہ مجھے علامہ صاحب نے کہاتھا اگر اللہ مجھے آپ جیسے دس بارہ رجال کاردے دئے تومیں آل پاکستان میں اسلام کے جھنڈے لہرا سکتا ہوں۔کیونکہ مالک کریم نے قاری صاحب کو روز اول سے شاندار خطابتی اور تنظیمی صلاحیتوں سے نوازرکھا تھا پورے ایشاءمیں دعوتی وتبلیغی دوروں پر مدعو کیے گئے اور بڑےبڑے اجتماعات خواہ وہ سیاسی یادینی ہوں اور اپنے دل سے نکالی ہوئی مدّبر ومدلل بات کو سامعین کے دل میں اتار لیتے تھے۔

صعوبتیں اور مشقتیں برداشت کرنا:جماعتی سطح پر جو چیلنجزتھے سوتھےگویاملکی سطح پربھی تحریکیں چل پڑیں خصوصاً ابتدائی دنوں میں ہی 1974ء کی تحریک ختم نبوت اور 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے قائدانہ کردار اداکیااس دوران گجرات،میانوالی،رحیم یارخان کی جیلوں میںقیدوبند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔اورجب کبھی عالمی یاملکی بحران پیدا ہوئے۔امریکی،بھارتی یاروسی جارجیت کےخلاف سڑکوں پرنکلنا پڑااور تحفظ ناموس رسالت،تحفظ تقدس قرآن حوالے سے جلسے جلوس کیے گئے۔

آخر زمین کھاگئی آسمان کیسے کیسے:آخرکارقاری صاحب کو بیماری نے نڈھال کردیا اورقاری صاحب کایہ خاصہ رہا ہے کہ اگرچے بذات خود بیمار ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود دین کے کام کو نہیں چھوڑا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ اکثر اوقات میں قاری صاحب کا رفیق ہمسفر ہوتا کار میں تین آدمی ہوتے تھے عباس، امان اللہ اور قاری صاحب تو ایک مرتبہ ہم ملتان سے ڈی جی خان مرکز التوحید میںپہنچے وہاں عصر کی نماز کے بعد قاری صاحب کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور میں ساتھ بیٹھ کر دبا رہا ہوں اور سامنے دیکھ بھی رہا ہوں کہ طبیعت زیادہ خراب ہورہی ہے اللہ کا شکر ہے کہ تھوڑی دیر بعد دوائی کھانے سے طبیعت صحیح ہوگئی ۔پھر وہاں  سے یعنی ڈی جی خان سے لے کر خانپور تک قاری صاحب کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹے آئےاور زبان پر یہ کلمہ تھا حسبی اللہ لاإلہ الاھو علیہ توکلت اور حسبی اللہ نعم الوکیل نعم المولی ونعم النصیر۔ قاری صاحب بذات خود کوشش کرتے چاہے جتنے بھی بیمار ہوں دینی پرگراموں کو ترجیح دیتے تھے۔خصوصاً محلہ خواجگان روزانہ جاتے رمضان المبارک میں تو بالخصوص جاتے تھے عصر کی نماز کے بعد گاؤں دیہاتوں میں دروس کے لیے چلے جاتے تھےاور پھر عشاء کی نماز اور فجر کی نماز محلہ خواجگان کی مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے عشاء اور فجر کی نماز میں تلاوت کیے ہوئے قرآن مجید کاخلاصہ بیان فرماتے تھے اور بیماری کے باوجود آخر سانس تک دفتر باقاعدگی سے آتے تھےاگرچہ چلنے کی طاقت جسم میں نہ ہوتی تھی تو موٹر سائیکل پرامان اللہ قاری صاحب کو گھر سے دفتر لیے آتا اور پھر واپس چھوڑ بھی آتا قاری صاحب فرماتے تھے بیٹامجھے میرے والدصاحب نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دین کا کام کرنا لیکن اس کام کو ذریعہ معاش نہ بنانا۔

طبیعت کا زیادہ خراب ہونا:20جنوری 2013ء کے بعد بیماری نے بالکل ہی نڈھال کردیا اور طبیعت ایسی بگڑی کہ بحال نہ ہوسکی اورضلع رحیم یارخان کے شیخ زید ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ڈیڑھ دوہفتے بعد صحت نے کچھ ساتھ دیا توواپس گھر خانپور آئے ڈاکٹروں نےقاری صاحب کو جگر کی پیوندکاری کا مشورہ دیا یہی وجہ تھی کہ سالانہ کانفرنس کو بھی ملتوی کرنا پڑا۔کیونکہ پیوندکاری کے لیے انڈیا جانا تھا پھر واپس آکر کانفرنس رکھنی تھی۔اب انڈیا جانے کی تیاری ہی تھی۔وفات سے تین دن پہلے قاری صاحب نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی نماز کے بعد اشارہ کیا کہ مجھے دفتر لیےجاؤ پھر دفتر لے جایاگیادفتر کو کھول کر دیکھا پھر جامعہ کو ایک نظر دیکھا اورطلبہ سے آخری ملاقات کی اور فرما رہے تھے بیٹا دعاکرنا میں علاج کے لیے جارہاہوں کیا پتہ کہ یہ ملاقات ہی آخری ہو اس کے بعد قاری صاحب نے سفر شروع کیا خانپور سے خیبرمیل ٹرین میں اسلام آباد کی طرف روانہ تھے کہ راستے میں ہی طبیعت کافی ناساز ہوگئی پھر اسلام آباد کی بجائے لاہور ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ لاہور اسٹیشن پر میاں محمد جمیل اور عطاءالرحمٰن حقانی نے ڈاکٹرزہسپتال لاہور پہنچایا اسی دوران یکم مارچ 2013ء بروز جمعۃ المبارک صبح6بجکر30منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔اناللہ واناراجعون

اس عظیم ہستی کی وفات کی خبر پورے ملک اور بیرون ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔یہ خبر سنتے ہی ہرشخص غم سے نڈھال ہوگیا۔

نمازجنازہ:قاری صاحب رحمہ اللہ کی نمازجنازہ ان کے آبائی علاقہ ہری پور ہزارہ میں ادا کی گئی۔نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد نے دوردراز کے علاقوں سے سفر کر کے شرکت کی اسی روز 10بجکر15منٹ پر مین بازار ہری پور میں گورنمنٹ ہائی سکول میں محقق عصر علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے پڑھائی ۔ملک بھر سے قافلے آتے رہے ۔خانپور سے شیخ الحدیث اسلم شاکر،الشیخ زکریا،قاری ابوبکرصدیق،قاری سیف اللہ، راقم الحروف تجربہ کار استاذ حافظ محمد اصغر سلفی کی قیادت میں جامعہ کے تمام اساتذہ ،بعض طلبہ اور جماعتی احباب نے شرکت کی۔

دوسراجنازہ قاری عبدالسلام عزیزی صاحب نے پڑھایا۔تیسرا جنازہ قاری عبدالرحیم صاحب نے پڑھایا۔ چوتھا جنازہ جب خانپور کا قافلہ پہنچا توراقم الحروف کی امامت میں قبر پر جاکر ادا کیا گیا۔اسی طرح پروفیسر عبدالرحمٰن لدھیانوی اور خواجہ حافظ محمد راشد خانپوری کی امامت میں بھی لوگوں کی کثیر تعداد نے جنازہ پڑھا۔

غائبانہ نمازجنازہ:7-3-2013 بروز جمعرات کو جامعہ محمدیہ اہلحدیث خانپور میں قاری صاحب کاغائبانہ جنازہ شیخ الحدیث حافظ مسعودعالم کی امامت میں اداکیاجس میںلوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اس سے پہلے مرکزی قائدین ،سیاسی،سماجی،مذہبی اور علماء کو پانچ پانچ منٹ کا ٹائم دیاگیا جس میں حافظ عبدالکریم ناظم اعلیٰ مرکزی پاکستان شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ شیخ الحدیث شریف چنگوانی حفظہ اللہ،حافظ اسلم حنیف حفظہ اللہ،حافظ محمد اصغر سلفی حفظہ اللہ، مولانا عبدالرشیدحجازی حفظہ اللہ اور قاری صاحب کے حقیقی بیٹے حافظ عامر صدیقی نے بھی عوام سے خطاب کیا۔

پورے ایشا میں جگہ جگہ غائبانہ جنازے ادا کئے گئے جامعہ محمدیہ اہلحدیث لیاقت پور میں حافظ اسلم حنیف صاحب نے پڑھائی۔اسی طرح جامعہ ابی بکرالاسلامیہ کراچی میں 3مارچ بروز اتوار کو نماز ظہر کے بعد شیخ طاہر باغ حفظہ اللہ نےپڑھائی۔جامعہ ستاریہ اورمعھد السلفی میں اداکئے گئے۔ضلع راجن پور میں سید عبدالرحمٰن شاہ صاحب اور پل دھندی میں مولاناعبدالوکیل ناول نے پڑھائی۔اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر پڑھائے گئے۔

مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور پھر تادم اخیر نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث ضلع رحیم یارخان کے عہدوں پر فائز شخصیت ان شاءاللہ العزیز خلد یریں میں اس سے زیادہ اعزازواکرام سے نوازاجائیگا۔

اللھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجتہ فی المھدین واخلف فی عقبہ

قاری صاحب رحمہ اللہ کی بیٹے کو آخری وصیت:بقول حافظ عامرصدیقی صاحب کہ جب ہم ہسپتال میں تھےتو اباجان مجھے فرمانے لگےبیٹا پہلے پارے کاآخری رکوع پڑھو۔میںشروع کرنے ہی والا تھاکہ خود اباجان نے پڑھنا شروع کردیا:

اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا   ښ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ

کہتے ہیں بیٹا میری بھی آپ کو یہ وصیت ہے جو سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو کرکے گئے تھے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے