یوم مئی اورمآل سکندری

یکم مئی کی چھٹی سے شروع ہوکر تقریباً یہ پورا مہینہ مزدوروں کے حقوق کی باتوں اور مختلف تنظیموں کی اپنی اپنی گھاتوں میں گزر جاتا ہے شکاگو کے مزدوروں کو یاد کیا جاتاہے جن کامطالبہ تھا کہ کام کے اوقات مقرر کئے جائیں جو آٹھ گھنٹوں سے زائد نہ ہو کیونکہ ان بیچاروں سے بے پناہ کام لیا جاتا تھا اپنے حقوق کے لیے ہڑتال کرنے والے ان مزدوروں پہ اندھا دھند فائرنگ کی گئی یہ 1886 کا واقعہ ہے اس ظلم کے خلاف لوگ ہائی مارکیٹ میں مظاہرے کےلیے جمع ہوئے وہاں پولیس کے پاس بم پھٹ گیا۔7 پولیس والے اور 5 دوسرے لوگ مارے گئے مزدوروں کی قیادت کو پابند سلاسل کیا گیا اور پھر انہیں سزائے موت دے دی گئی یوں یہ دن لیبر ڈے بن گیا جسے کمیونسٹوں نے اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا اور اسکا کریڈٹ لینے کےلیے خوب مزدوروں کی حمایت کی پھر انسانیت کا دعویٰ کرنے والے امریکہ نے اپنے چہرے سے ان خونی دھبوں کو دھونے کےلیے 1958 میں کانگریس کے فیصلہ کے مطابق اس دن کو وفاء عہد کے لیے خاص کردیا اگر کچھ اور پیچھے تاریخ میں جھانکا جائے تو مزدوروں کے حقوق اور انکے لیے ایک دن مخصوص کرنے کا خیال سب سے پہلے 1856 میں آسٹریلیا میں ابھرا ، پھر 1869 میں امریکہ میں حقوق مزدور کے لیے ایک تنظیم بنائی گئی جس نے 1886 میں یکم مئی کو ہڑتال کا اعلان کیا جو بعد میں خونریزی پہ منتج ہوئی مگر یہ مزدور خون دیکر اپنے ساتھیوں کے لیے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کروانے میں آخر کار کامیاب ہو ہی گئے یہ تو تھا ایک مختصر تاریخی جائزہ اس ترقی یافتہ دور میں مزدوروں کو اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنا پڑا۔ وہ مزدور جسکا خون پسینہ ترقی کے پہیے کو حرکت دینے کا سبب ہے جسکے ہاتھوں سے بنی ہوئی بلند و بالا عمارتیں بہار دکھاتی نظر آتی ہیں جنکی بدولت کارخانوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا ہے کہیں کپڑا بنتا ہے کہیں برتن اگر ہم تھوڑا غور سے دیکھیں تو ہمارے گھر میں استعمال ہونے والی شاید ہی کوئی چیزایسی ہو جس کی تخلیق میں مزدور کا ہاتھ نہ ہو کتنی ہی چیزوں میں وہ خوبصورتی کا رنگ بھرتے ہوئے بیچارے اپنا رنگ گنوا بیٹھتے ہیں بلکہ بسا اوقات کسی تخلیق کی خاطر جان ہار دیتے ہیں مئی جون کی تپتی دوپہر میں پتھر کوٹتے ہیں پھر آگ سے پگھلائی ہوئی تار کول ڈال کر پختہ سڑکیں بناتے ہیں بھٹوں پہ اینٹیں تپاتے ہیں فیکٹریوں میں بھٹیاں دہکاتے اور کبھی کبھی اپنے حقوق کے مطالبے کی پاداش میں انہی بھٹیوں کی نذر کر دیے جاتے ہیں ایک طرف سرمایادارنہ نظام نے مزدور کا لہو چوسا ہے تو دوسری طرف اشتراکیت کی ڈگڈگی نے اس سے خوب مذاق کیا ہے یورپ کے اکثر ممالک جہاں اب فلاحی ریاستوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں حکومتیں اپنے عوام کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرتی ہیں وہاں دین سے دوری کی وجہ سے انکا خاندانی نظام تباہی کے کنارے کھڑا ہے۔ باپ بیٹا ماں بیٹی اور بیوی اپنے حقوق اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر واجبات اور ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں نتیجتاً اکثر جوان ہوتی اولاد مادر پدر آزادگھروں سے نکل جاتی ہے اور بوڑھے والدین اولڈ ہاوسز میں انتہائی بیچارگی اور تنہائی میں اپنی زندگی کے دن پورے کرتے ہیں یورپ نے اسکا حل مختلف دن منانے سے نکالا ہے مدر ڈے، فادرڈے، عورتوں کا دن، بچوں کا دن اور اسی قسم میں مزدوروں کا دن۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پہ نظر دوڑاتے ہیں تو ان میں حقوق و واجبات کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں بلکہ یہاں تو ہمہ وقت حقوق سے زیادہ واجبات پہ توجہ دی گئی ہے جن حقوق کا مطالبہ یورپ میں سوا صدی پہلے کیا گیا ہے ان حقوق کا ذمہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے بغیر کسی مطالبے اور احتجاج کے دیا ہے اور عدل و احسان کا حکم دیکر ظلم وزیادتی سے روکا ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(سورۃ النحل 90)

اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے اور تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔

اسی عدل و انصاف کے مبدا فیض سے عامل و اجیرنوکر و مزدور کے حقوق کی وضاحت فرماکر اسکی عزت کو محفوظ کیاگیا ہے مشہور ارشاد نبوی ہے:اجیر کو اسکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔مزدور کے حقوق کی اتنی اہمیت ہے کہ اسکی اجرت دبانے والے کو کل اللہ تعالیٰ کا سامنا کرنا ہوگا۔حدیث قدسی ہے اللہ پاک فرماتے ہیں:

ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ بخاري (3/ 108)

قیامت کے دن میں تین آدمیوں سے جھگڑوں گا: ایک تو اس شخص سے جس نے میرے نام پر عہد کیا، پھر اس کو توڑ ڈالا، دوسرا اس شخص سے جس نے آزاد انسان کو فروخت کیا، تیسرا اس شخص سے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا پورا کام لیا اور اسے اجرت پوری نہ دی۔

آج جبکہ دنیا گلوبل ولیج کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور عالمی سطح پہ مزدوروں کا دن منایا جارہا ہے تو ہمیں بھی اس سلسلہ میں اسلام کے عطاکردہ حقوق کو واضح کرنا چاہیے۔اسلام نے تو اسی دن حقوق انسانی کے لیےدستور وضع کردیاتھا جس دن یہ آیت نازل ہوئیـ اور رحمت عالم نے ارشاد فرمایا:

كلكم لآدم وآدم من تراب (مسند الربيع بن حبيب 103 (ص: 170))

تم سب آدم کی اولاد ہواور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔

عامل و اجیر کا پورا حق ادا کرنا رب رحمٰن کی رضا کے حصول اور اسکی رحمتوں کے نزول کا ذریعہ ہےجیسا کہ تین غار والوں کا مشہور قصہ بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا ہے۔ ان میں ایک شخص وہ تھا جس نے عامل کو پوری اجرت دی تھی یہاں تک اس اجرت پہ ہونے والا منافع بھی اس کے حوالے کردیاتھا اس کی برکت سے غار کا بند منہ کھل گیا تھا اسی طرح معاملہ عکس بھی ہے کہ اگر حق دبا لیا جائے مزدوری نہ دی جائے تو پھر اس مظلوم کی بد دعا لگ جاتی ہے جو کتنے مالداروں کو فقیر بناڈالتی ہے کچھ لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ نوکروں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے یا بدزبانی کرتے ہیں۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے غلام کو اسکی ماں کی طرف سے طعنہ دے کر بات کی آپ علیہ السلام نے فرمایا: ابو ذر تم نے اس لیے اسکی ماں کا طعنہ دیا ہے تمہارے اندر جاہلیت پائی جاتی ہے۔(بخاری) عامل ہونا اور مزدوری کرنا عار کا سبب نہیں بلکہ اسلام تو عمل کی شان بڑھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو بھی نیک عمل کرے گا مرد ہو یاعورت وہ ایمان دارہے تو ہم اسے بہترین زندگی سے نوازیں گے اور جزاء کے طور پہ بہترین اجر دیں گے۔ انبیاء کرام نے عمل کو عار نہیں جانا آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے داؤد علیہ السلام لوہار کا کام کرتے، عیسی علیہ السلام چمڑا رنگتے اور خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکریاں چراتے تھے کسب حلال کو قربت الٰہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے عزت نفس کی حفاظت کی گئی ہے۔ سیدنا ابو مسعودانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے آواز سنی ابو مسعود اللہ تم پہ زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی تم اس غلام پہ رکھتے ہو۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ آپ علیہ السلام تھے میں نے کہا اے اللہ کے رسول میں اسے اللہ کی رضا کے لیے آزاد کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نہ کرتے توآگ تمہیں جلاتی۔ آپ علیہ السلام کے پاس ایک یہودی ملازم تھا وہ بیمار پڑگیا تو آپ خود اسکی تیمار داری کے لیےتشریف لے گئے (بخاری) آپ نے فرمایا کہ جو کام انکی طاقت سے باہر ہو اسکا انہیں مکلف نہ بناؤ ورنہ خود بھی اسکی مدد کرو غلاموں کو وہی پہنانے کی نصیحت فرمائی جو خود پہنے۔یہ تو ہیں تعلیمات اسلام جنکے متعلق مغرب سوچ بھی نہیں سکتا مگر ہم نے بھی ان تعلیمات کو خیر باد کہہ دیاہے۔ یہاں تک کہ بہت سے دین دار لوگ بھی مالداری کے گھمنڈ میں اپنی حقیقت بھول جاتے ہیں فیکٹری کارخانے کے مالک ہیں ماشاءاللہ سال میں کئی عمرے کرتے ہیں حج میں جاکر خوب کھانے بانٹتے ہیں مگر قریب میں اپنے ملازم نظر نہیں آتے انکی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تنخواہیں وہی ماتھے پہ محراب بھی برابر ہے مگر دل کی قسادت بھی کم نہیں ہوتی مگر یہ معاملہ کہیں کہیں ہوتا عموماً دین کی برکت سے اللہ دل میں رحم ڈال ہی دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ مال و دولت یہ جاہ و حشمت یہ سب ڈھلتا سایا ہے آج کوئی بااختیار تو کل بے اختیار بھی ہو سکتا ہے مثالیں بہت ہیں۔ کل تک سکندراعظم کی فتح کے چرچے تھے آج اسکی قبر کا نشان نہیں ملتا دور کیا جاناہے آجکل مختلف عدالتوں میں چکر کاٹتے ہوئے مشرف جو کبھی کمانڈر انچیف تھے ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے ڈالروں کے عوض اپنے ہی لوگ پکڑ کر دیتے رہے حد یہ کہ قوم کی بیٹی عافیہ کو بھی سپرد کیا، لال مسجدکو خون شہیداں سے سرخ کیا طالبات ماری گئیں دین اور دین داروں کا مذاق اڑایا لوگوں کو اٹھانے اورغائب کرنے کی طرح ڈالی ہر طرف آگ لگائی کوئی کونہ دستبرد سے محفوظ نہ رہا۔پنجاب کے’’ وزیراعظم ‘‘کو کان سےپکڑ کر نکال دیا،شمالی وزیرستان اور سرحدی علاقوں پہ ڈرون حملوں کی اجازت دی، افغانستان پہ حملے کے لیے پاکستان کے کندھے پیش کیےانکے سفیر کو دھوکے سے امریکہ کے حوالے کیا بلوچستان میں سردار اکبر بگٹی کو قتل کروایا، سندھ کی بے نظیر قتل ہوئی جسکا الزام موصوف پر ہے آخر وہ کونسا صوبہ تھا جہاں ہمدردی کے بیج بوئے جسکی فصل کاٹنے کو آبراجے،کیا چیز تھی جو اسے واپس لیکر آئی کچھ تو کہتےہیں کہ یہ اقتدار کی ہوس تھی جس نے عقل پہ پردہ ڈالا۔

’’؎ چھٹتی نہیں ہے ظالم منہ سے لگی ہوئی ‘‘   کے مصداق نشہ اقتدار کھینچ لایا سوچا الیکشن کی ہاہو کار میں یہ بھی کھپ جائیں گے کسی کا کچھ تبصرہ ہے کسی کا کچھ مگر ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ اسباب و ذرائع جو بھی رہے ہوں انہیں اللہ تعالیٰ گھیر کے لایا ہے تاکہ تکبر کا بول بولنے والے کو جوتا بھی پڑے اور کرسی سے بھی پٹے وہی کرسی کل جس پہ ناز تھااسی کرسی کو کل بھٹو صاحب نے بہت مضبوط کہا تھامگر جب پائےہلے تو کوئی سہارا نہ رہا خود نواز شریف صاحب جب بھاری مینڈیٹ پہ اترائے تو بساط لپیٹ دی گئی۔ بہر کیف تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ یہ (فتح و شکست وغیرہ کے) دن تو ہم لوگوں کے درمیان پھراتے رہتے ہیں۔عقل مند وہی ہے جو دوسروں سے نصیحت پکڑے عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مظلوموں کا بدلہ لیا جائےعدلیہ کا بول بالا ہو اسلام کی آبیاری ہو اب تو آرمی چیف بہت واضح الفاظ میں کہہ چکے کہ اسلام کو پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا مطلب یہ کہ جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ آنے والی حکومت کسی کی بھی ہو اگر عدل وانصاف ترجیحات میں رہا تو دن پِھر جائیں گے حالات سنور جائیں گےورنہ اےبسا آرزو کہ خاک شد۔

جب تک کہ غم انسان سے جگر انسان کا دل معمور نہیں

جنت ہی سہی دنیا لیکن جنت سے جہنم دور نہیں

ارباب ستم کی خدمت میں بس اتنی گذارش ہے اپنی

دنیا سے قیامت دور سہی دنیا کی قیامت دور نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے