مِنی پاکستان کا مزدور

دنیا کی نصف سے زائد آبادی محنت و مشقت کرکے اپنا گزر بسر کرتی ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ افراد روز کماکر کھانے والے ہوتے ہیں، ان کے گھر کا چولہا صبح طلوع ہونے والے سورج کا منتظر رہتا ہے، چنانچہ سورج طلوع ہوتے ہی گھر کے افراد روزگار کے لئے نکل پڑتے ہیں، پھر جب شام ڈھلنے کا وقت ہوتا ہے تو یہی افراد اپنی محنت کی جمع پونجی سمیٹے خوشی خوشی اپنے اہل خانہ کی طرف لوٹتے ہیں، پھر ان کے گھر کا چولہا حرکت میں آتا ہے، پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو کراچی دارالخلافہ تھا، یہاں ہر طرح کی صنعت و تجارت کے مواقع تھے،یہی وجہ تھی کہ اسے مِنی پاکستان کہاجاتا ہے، یہاں محنت مزدوری کے لئے ملک بھر کے غریب افراد آتے جاتے رہتے ہیں، 1960 ؁کے بعد کراچی شہر مزدوروں کی ماں کہلایا جانے لگا، رفتہ رفتہ جس طرح شہر کی آبادی بڑھتی گئی، مزدور پیشہ سے وابستہ افراد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا، بالآخر یہ خوشحالی و ترقی کے حصول میں جدو جہد کرتےہوئے مزدورں کی ماں کو کسی کی نظر لگ گئی، اور جو لوگ اس کو امن و سکون کا گہوارہ سمجھ کر اپنے علاقوںکو خیر باد کہہ کر اپنی روٹی روزی کمانے یہاںآئے تھے وہ اب سخت مایوس و پریشانی کا شکار ہیں۔ اور موجودہ حالات کے باعث خوف وبے یقینی کے کربناک عذاب سے دوچار ہیں۔لیکن کوئی ایسا نہیں جو ان پر ترس کھانے والا ہو اور ان کی مشکلات کو حل کرنےکے لیے کوشش کرتا ہو بلکہ اندھی گولیوں کا نشانہ بھی یہی بنتے ہیں۔جس کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور نامعلوم کہہ کر سپرد خاک کر دیا جاتا ہے۔

میں نےیہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ جس طرح اس شہر نے اپنا مقام بنانا شروع کیا تھا اس حساب سے آج دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتا لیکن اس کے برعکس اس شہر کے امن کو برباد کر کے اس میں رہنے والے ہر فرد کی زندگی کو اجیرن کر دیا۔

یکم مئی لیبر ڈے(مزدوروں کا عالمی دن) کے طور پر منایا جاتا ہے اور بڑے بڑے لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جو کہ صرف ہوا میں معلق رہتی ہیں اور جن کے نام سے یہ دن مناتے ہیں ان کے حال میں بہتری ایک فیصد بھی نہیں ہوتی۔اور وہ اسی طرح ماہ و سال محنت مشقت کے باوجود ذلت والی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں کہ دوبارہ یہ دن آجاتا ہے اور پھر نیا عزم کیا جاتا ہے جو پھر ہوائی دعویٰ ہی رہتا ہے۔یہ دن اب پھر آئے گا اور گزر جائے گا لیکن اس دفعہ ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتر کرنا ہوگا ۔ان مزدوروں سے اگر ان کے حالات سنے اور پوچھے جائیںتو نرم دل انسان کبھی بھی ان کو برداشت نہ کر پائے گاکیونکہ ان کے شب و روز ایسے ہی دل دہلا ہوتے ہیں۔ان کی شب مختلف چورنگیوں پر ہوتی ہے اور روز کام پر اور اگر کام نہیں ملتا تو دن بھی کام ملنے کی امید میں چورنگی پر ہی گزرتا ہے اور ایسے ہی کسی شب یا روز میں ان پر اندھا دھند حملہ بھی ہو جاتا ہے اور ہڑتال و احتجاج کی صورت میں الگ عذاب ان پر مسلط ہوتا ہے ان کے پیٹ کی آگ ان کی دیہاڑی لگنے پھر اس کی اجرت ملنے پر ہی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ان کے انتظار میں بیٹھنے والوں کے پیٹ بھی ان کے جانے سے ہی بھرتے ہیں لیکن اگر ان کو کام نہ ملے یا حالات کی وجہ سے کام نہ ہو سکے تو یہ ان پر قیامت ہوتی ہے اور اگر کام ملنے کی امید لیے بیٹھوں پر فائرنگ ہو جائے تو ان کے انتظار کرنے والوں پر قیامت سے پہلےقیامت ڈھا دی جاتی ہے جبکہ اکثر وبیشتر ان گھرانوں کا سرکل چلانے والے یہ اکیلے ہوتے ہیں اس کی مثال آپ کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں لگی آگ کے نتیجے میں مل سکتی ہے کتنے ہی ایسے مزدور اس آگ میں راکھ ہوئے لیکن ان کے گھر والوں کو رونےکے علاوہ کچھ نہ ملا جبکہ اس خوفناک اور غمگین واقعہ پرہر کسی نے اپنی اسکورنگ ضرور کی۔اسی طرح کی کچھ اور مثالیں میںآپ قارئین کے گوش گزار کرنا چاہوںگاجس سے ان غریبوں کا حال نمایاں ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ اس سے آپ اپنا نمائندہ کسی مخلص اور محب وطن کو بنا کر ان مشکلات سے نجات دلانے میں کردار ادا کریں اور ضرورت بھی اب اسی چیز کی ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں اور اس الیکشن میں سب بے کار لوگوں سے جان چھوڑوائیں اور باصلاحیت و نیک لیڈر شب کو لے کر آئیں۔

کراچی کے مزدور تقریبا ہر چورنگی اور پل کے نیچے مل جاتے ہیں جن میں مختلف ہنر کے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے علاقے،رنگ ،نسل ،زبان یکسر مختلف ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ سب ایک جگہ اکٹھے بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام و خیال لازمی رکھتے ہیں دکھ ،سکھ سانجھا ہوتا ہے کیونکہ سب کچھ مختلف ہونے کے ساتھ لہو کا رنگ تو ایک ہی ہےان بیچاروں سے ویسے تو کوئی حال احوال نہیں لیتا لیکن ایک دن اس مزدور ڈے کا ذہن میں آنے سے میں نے کچھ حال پوچھا تو میں نے محسوس کیاکہ دنیا جہاں کے غم ان میں ہی ہیں جس کی سنوائی کوئی نہیں۔ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ کیا حال بتائیں اس خوف اور بے یقینی کی کیفیت میں کہ آئے روز ہڑتال ،احتجاج ،قتل و غارت گری ،دھرنا، فساد اور پھر رہتی کسر یہ مہنگائی پوری کر دیتی ہے۔پھر کام کے انتظار کے ساتھ اندھی گولی آنے کا بھی خطرہ لیے یہاں بیٹھے ہیں اپنا اور بچوں کاپیٹ بھی تو پالنا ہے۔بے آسرا و نادار ہیں ہم ،نہ جانے مرنے کے بعد کوئی کفن بھی پہنائے گا یا یہ کتے،بلے ہی کھائیں گے ویسے اگر یہ کھا لیں تو ہم غریبوں سے ان غریبوں کا تو بھلاہو ہی جائے گا۔میں نے کہا کہ اتنے مایوس کیوں ہوتے ہو،وہ ہنسے لگا اور کہتا کہ اب اس پر بھی پابندی لگاؤ گے کیونکہ ڈبل سواری کی پابندی نے تو ہمیں اور ننگا کردیا پہلے کسی سے لفٹ لے کر ادھر ُادھر چلے جاتے تھے اب پندرہ یا بیس روپے لگانے پڑتے ہیں پھر ہمارے لیے مایوسی ہی رہ جاتی ہے بڑا سا منہ کھولےاور اب وہ بھی نہ ہوں دوسرا لوگ کہتےہیں کہ قیامت آئے گی میں کہتا ہوں کہ کیا اس سے بری بھی قیامت آئے گی؟زندہ درگو ہو گئے ہیں کچھ ہاتھ میں نہیں بس اللہ کا آسراء ہے، انسان انسان کے خون کا پیاساہوچکا ہے اول تو کام نہیں اگر مل بھی جائے تو لوٹ لیا جاتا ہے۔اس کی یہ بات سن کر حیران ہوئے بغیر نہ رہا گیا کہ تم غریبوں کو کس طرح لوٹ لیا جاتا ہے؟ کہنے لگا کہ چند دن پہلے مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا تو راستے میں دو موٹر سائیکل سواروں نے روکا اور موبائل کا تقاضہ کیا میرے پاس موبائل نہیں تھا میں نے بتا دیا کہ نہیں ہے ایک نے تھپڑ مارا اور تلاشی لی میری جیب میںاس دن والے کام کی مزدوری پر ملی اُجرت کے پیسے تھے جن سے میں اپنے گھر کے لیے راشن لینے کا سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ وہ تو نہ لے سکا سوچتا ہی رہا مگر ان ظالموں نے وہ بھی نہ چھوڑے ۔چور تو چور ہیں پولیس والے بھی کم نہیں کرتے ایک دن کام پر دیر ہو گئی تو واپس جاتے ہوئے راستہ میں پولیس کی ایک گاڑی کھڑی تھی ان کے قریب سے گزر ہوا تو انہوں نے روکا اور کہنے لگے کہ تم چرس بیچتے ہو میں سن کر حیران و پریشان تھا کہ ایک نے زور دار تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ بتاتے کیوں نہیں میں نے کہا کہ صاحب مزدور ہوں ابھی کام سے چھٹی ہوئی تو واپس جا رہا ہوں انہوں نے تلاشی لی جیب میں ایک سو پچاس روپے تھے کیونکہ آج کے دن کی مزدوری کے پیسے نہیں ملے تھے نکالے اور کہا کہ دفع ہوجاؤ مزدوری کے بچے۔میں نے وہاں سے فوراً نکلنے میں ہی اپنی عافیت جانی کہ کسی اور مصیبت میں ہی نہ ڈال دیں کیونکہ مجرموں کا پتہ ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کرتے اور مجھ غریب کو ہی مجرم ہی نہ بنا دیں۔ جب سے شہر کی یہ صورت حال بنی ہے ہمارے آبائی گھر والے بھی پریشان رہتے ہیں وہ بھی پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس یہاں کام نہیں اگر کام ہے تو ہڑتال یا کوئی اور مسئلہ آجاتا ہے۔دوسرا مزدور بولا کہ آپ کو کون کون سی اپنی آپ بیتی سنائیں چند دن پہلے ہی مجھے ایک کار والے صاحب اپنے بنگلہ پر کام کرنے کے لیے لے گئے میں ان سے پانچ سو روپے طے کر کے گیا، جب وہاں پہنچ کر دیکھا تو جو کام انہوں نے بتایا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ کام تھا چارونا چار کیا کرتا کام پر لگ گیا اور پھر رات تک جا کر اس کو ختم کیا تو جاتے ہوئے ان صاحب نے ڈھائی سو روپے میرے ہاتھ میں تھمادیے میں یہ دیکھ کر حیران ہوا اور کہا کہ صاحب آپ سے پانچ سو روپے میں طے ہوا تھا اور پھر جس کام پر طے ہوا تھا کام بھی اس سے زیادہ تھا اب آپ پیسے بھی کم دے رہے ہیں تو اس نے مجھ سے وہ واپس لیے اور کہا کہ نکل جاؤ یہاں سے ورنہ تھکے دے کر نکال دوں گامیں نے اپنی لاچاری کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اچھا یہ ہی دے دو تو اس نے اس میں سے پچاس مزید کم کردیےاور کہا کہ یہ بحث کرنے پر کٹوتی ہوگئی میں خاموش ہو کر نکل آیااور اس کو ہی اپنے لیے غنیمت جانا۔ ہم بے آسرا اور مجبور لوگ ہیں ہم پر سب ظلم کرتے ہیں یا اس طرح کہہ لیں کہ جس کو موقع ملتا ہےوہ ہی اپنا کام دیکھاتا ہے۔

اب میں ان سے حالات زندگی پوچھ تو بیٹھا لیکن یہاں تو سب ہی غمگین تھے اور دنیا کی ہر مصیبت ان کے پاس تھی۔میں بھی ان کے لیے کچھ کر تو نہیں سکتا تھا لیکن سوچا کہ تحریر سے ہی ان کے احساسات دوسروں تک پہنچا دوں کہ شاید کسی کے دل میں اُتر جائےمیری بات اور سوئی قوم کو جگانے کی کچھ کوشش کرسکوں تاکہ ان مظلوموں کی کچھ داد رسی ہو جائے۔یہی سب کچھ میں سوچتا ہوا ان کو ان چورنگیوں پر ہی چھوڑ کر چلتا بنااور حکومتی اداروں اور این جی اوز کے متعلق بھی ذہن کی گاڑی کو دوڑاتا رہا کہ ان کا کیا کردار ہونا چاہیے اور کر کیا رہے ہیں یہ سب۔ پھر اس ملک کے مزدوروں کا یہ حال ہے کہ جس کے حصول کا نعرہ کلمہ طیبہ تھااوراسلامی قوانین کے نفاذکا عزم و وعدہ تھا لیکن یہ سب کچھ باتوں میں ہی رہ گیا اور آج سب کچھ اس کے اُلٹ ہو گیا ہے، بیگانے تو بیگانے ٹہرے اپنے ہی کسی طرح داد رسی کو تیار نہیں بلکہ یہ اپنے ہی بیگانوں کےلیے کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آج یہ صورتِ حال بن چکی ہے۔

ہمیں اسلامی تعلیم مزدور کے بارے میں جو حکم دیتی ہے آج ہم اس سے یکسر رُوگردانی اختیار کر چکے ہیں۔رحمت اللعالمین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بارے میں ہمیں جو احکامات ملتے ہیں جن پر عمل کرنا ہم سب پر لازمی ہے اور اگر ہم ان کو اپنے اوپر لاگو کر لیں تو یہ سب مشکلات ختم ہو سکتی ہیں سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَعْطُوا الأَجِيرَ أَجْرَهُ ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ

سنن ابن ماجة (3/ 510)

مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونےسے پہلے ادا کر دو۔

دوسری حدیث میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ

صحيح البخاري (3/ 108)

قیامت کے دن میں تین آدمیوں سے جھگڑوں گا: ایک تو اس شخص سے جس نے میرے نام پر عہد کیا، پھر اس کو توڑ ڈالا، دوسرا اس شخص سے جس نے آزاد انسان کو فروخت کیا، تیسرا اس شخص سے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا پورا کام لیا اور اسے اجرت پوری نہ دی۔

ان احادیث میں ہمارے لیے جو درس ہے اس پر عمل بھی ہمیں ہی کرنا ہے تب ہی ہماری نجات ممکن ہےاور دوسری حدیث میں جو وعید ہے اس سے بھی بچاجا سکتا ہے۔ ان کا مخاطب صرف مسلمان ہی ہیں اگر ہم ان احادیث کے باوجود بھی اپنے بھائیوں کی مشکلات کا حل کرنے میں کردار ادا نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا آکر ان کے حالات کو بہتر نہیں کرے گا۔ ہمیں ان مزدوروں کے ساتھ ملکر آواز بلند کرنا ہوگی اور یہ صرف یکم مئی کے دن کا کام ہی نہیں بلکہ جب تک ایوان بالا ان ساری مشاکل کا حل نہیں کرتے اور پُر سکون ماحول مہیا نہیں کرتے ۔

پھر یہ سب کام اس وقت ممکن ہوسکیں گے جب ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر، امیری غریبی کے فرق کو ختم کر کے اخوت و بھائی چارے کی فضا کوقائم کریں گے اور خاص کر دوسروں کے صحیح حق کا خیال کریں گے اور حق دار کواس کا حق دیں گے۔ اور اسی طرح اگر ہم اپنے اندر کی غلطیوں کو ختم کریں گے تب حکمران بھی غلطیوں سے پاک آئیں گےجو عوام کی خدمت کرنے والے ہوں گے۔ہمیں اپنی سوچ کو بدل کر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونا ہوگا اس طرح اللہ بھی مدد کرے گا اور اس کا جو وعدہ ہے وہ بھی پورا ہوگاکہ اس دنیا پر حکمرانی کرنے والے مسلمان ہوں گے۔

آج کل ہمارے اردگرد کا ماحول الیکشن کا ہے جس میں نئی حکومت کا انتخاب ووٹ کے ذریعے عوام کو کرنا ہےاگر اس کام کو ہی سوچ سمجھ کر کیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ ہم ان سب مشکلات سے نکل جائیں۔بات صرف اتنی ہے کہ اس کام کے لیے ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جس سے اس ملک کواسلامی و مخلص لیڈر شب مل سکتی ہے اوروہ ان حالات سے ہمیں نکال کر پُر سکون اور اچھا ماحول دے سکتی ہےاور اس ملک کو اسلام کی راہ پہ ڈالتے ہوئے ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔میں اپنی گذارشات کو اس شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔

ہے دل کےلیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے