اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ۝ۧ

ترجمہ:

(1)اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے ۔

(2)تمام تعریفات اللہ ہی کے لیے جو سب جہانوں کا پالنہارہے۔

(3)جو رحمن ہے رحیم ہے ۔

(4) جو روز ِ جزا و سزا کا مالک ہے۔

(5)ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔

(6)ہمیں سیدھی راہ پر استقامت عطا فرما۔

(7)ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان کی راہ جن پر تیرا غضب ہوا اور وہ جوراہ راست سے بھٹکے۔

اہم الفاظ :

الحمد: تعریف اور ہر قسم کی تعریف اور مکمل تعریف جس میں کوئی کمی یا نقص کا تصور نہ ہو

’’ الحمد ‘‘ کے ساتھ ’’للہ‘‘ کا استعمال شکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے

رب: پالنہار ، دیکھ بھال کرنے والا نشوونما دینے والا ، آقا، مالک

الرحمن: اسم ذات ہے صیغہ مبالغہ ہے یعنی بے پایاں رحمت کا مالک جس کی رحمت اس کے غضب پر غالب آ جائے اور جو تمام انسانوں کو بلا تفریق رزق عطا کرے۔

رحیم:اسم صفت ہے جس کی رحمت مستقل اور دائمی ہو بالخصوص آخرت میں اہل ایمان کے ساتھ خاص ہو گی۔

الدین: جزا و سزا کا دن ، قیامت کے دن پر ایمان لا کر تنہا اللہ تعالی کو مختار کل مانا جائے۔

عبادت: غلامی، اطاعت اور فرمانبرداری۔

مضامین :

آیت ایک سے ۴ تک آداب دعا کا بیان ہے ،

آیت نمبر 5 میں استحقاق دعا شامل بیان ہے ،

آیت نمبر 6 اصل دعا کا بیان ہے جو قرآن مجید کا خلاصہ بھی ہے

اور آخری آیت میں مانگی جانے والی دعا کی وضاحت کی گئی ہے

قرآن مجید کی تلاوت سے قبل تعوذ یعنی

(اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم)

ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ؀ )النحل:98)

جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے

اور یہ امر واضح ہے کہ پناہ کسی ضرر رساں چیز سے درکار ہوتی ہے اور یہ ایسی ہستی سے طلب کی جاتی ہے جو اس ضرر رساں چیز سے زیادہ طاقتور ہو ۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذا یہ کلمات درحقیقت تلاوت قرآن کے دوران کسی بھی قسم کی کج فکری سے بچنے اور ہدایت حاصل کرنے کی دعا کے مترادف ہیں۔ بلکہ ان کلمات کا شمار ان دعاؤں میں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔

سورۃ فاتحہ کے نام :

اس کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحہ ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی جس سے ابتدا کی جائے ، مقدمہ ۔یہ سورۃ بندوں کو آداب دعا سکھاتی ہے کہ وہ اس طرح اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی مکمل قرآن اس دعا کا جواب ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام سورۃ الدعاء بھی ہے۔ اور یہ سورۃ مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورۃ کا خلاصہ آیت

( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ )میں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن کے ناموں سے یاد فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ قرآن کا خلاصہ ہے۔

اس سورۃ کے ناموں میں سے الشفاء اور الرقیہ بھی ہے یعنی اس سورت کے ذریعے دم بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ دم کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً ناجائز ہیں ۔

اس کے علاوہ اس سورۃ کے ناموں میں سے معروف سورۃ الصلوٰۃ بھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور امام اور مقتدی سب پر اس کا پڑھنا فرض ہے خواہ نماز جہری ہو یا سری۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا:

لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

(بخاری کتاب الاذان )

اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔

(وجوب القرأۃ للامام والمأموم فی الصلوۃ کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت) اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔

یعنی سورۃ فاتحہ کے کل دس نام معروف ہیں

الفاتحة، الحمد، سبعا من المثانی، أم القرآن، أم الکتاب، الشفاء، الرقیۃ، الدعاء، تعلیم المسئلۃ اور الصلوۃ

اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں ۔

ترتیب نزول کے اعتبار سے اس سورت کا نمبر پانچواں ہے۔ یہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی بلکہ یہی پہلی سورت ہے جو پوری کی پوری یکبارگی نازل ہوئی۔ اس سے پہلے سورۃ العلق، سورۃ المدثر اور سورۃ المزمل کی بعض آیات نازل ہو چکی تھی۔

رحمن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے’’ ر ح م ‘‘سے مشتق ہیں۔ لیکن رحمن میں رحیم کی نسبت مبالغہ زیادہ ہے۔رحمن اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بے شمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً

اَلرَّحمٰن عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ   (الرحمن:2)
اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى (طه:5)
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى (الإسراء:110)

یعنی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جاسکتی ہیں سوائے رحمن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر رحمن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبداللہ ، دوسرا عبدالرحمن۔

(ترمذی: ابواب الادب، باب ماجاء ما یستحب من الاسماء)

حمد اور شکر میں فرق:

حمد کا معنی تعریف بھی ہوسکتا ہے اور شکر بھی۔ حمد عام ہے اور شکر خاص۔ حمد کا تعلق قابل تعریف اعمال سے ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے کائنات کا اس قدر مربوط اور منظم نظام بنا دیا ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس پر اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اور شکر کا تعلق خاص انعامات سے ہوتا ہے جو کسی خاص ذات سے متعلق ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا انسان کو احسن تقویم پر پیدا کرنا۔ کسی کو صحت اور رزق کی فراوانیوں سے مالا مال کرنا۔ ایسی نعمتوں کے اعتراف کو شکر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کی حمد اور شکر کا مستحق ہوا۔

اللہ دراصل الا لٰہ ہے یعنی معبود حقیقی

الٰہ کا ہمزہ حذف کر کے اس پر تعریف کا الف لام داخل کر کے اللہ کا لفظ بنا ہے اور یہی توجیہ سب سے بہتر ہے۔ یعنی وہ تمام صفات جو الٰہ کے مفہوم میں پائی جانی چاہئیں وہ صرف اللہ میں ہی پائی جاسکتی ہیں ۔ لہٰذا دوسرے سب الٰہ باطل اور ناقابل اعتبار ہیں ۔

’’رب‘‘ کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے:

(١) کسی چیز کی درجہ بدرجہ تربیت اور خبرگیری رکھتے ہوئے اسے حد کمال تک پہنچانے والا ۔

(٢) تربیت (پرورش) کرنے والا مالک جیسے سورۃ یوسف میں آتا ہے ۔

فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا (یوسف:41)

(٣) مالک جیسے حدیث میں ہے کہ کسی صحابی نے اپنی شہادت کے وقت فرمایا:

فزت برب الکعبۃ

کعبہ کے مالک کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔

العالمین:

اس آیت میں عالم سے مراد جنس ہے یعنی عالم غیب، عالم شہادۃ، عالم انس، عالم جن، عالم ملائکہ وغیرہ ۔اور اس میں زمان و مکان کی تقسیم کو بھی مدنظر رکھا جا سکتا ہے ۔ یعنی دور بدلنے پر عالم بھی بدل جاتا ہے۔ اس طرح عالم کی سینکڑوں اور ہزاروں اقسام بن جاتی ہیں اور ان سب کی تربیت اور پرورش کرنے والی ذات صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ آیت کے پہلے جزو میں بتایا گیا تھا کہ تمام تعریفات صرف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے اور اس جزو میں اسکی وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تمام جہانوں کا تربیت کرنے والا ہے۔

بلکہ یہ آیت اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کے آداب میں سے پہلا ادب ہے۔ حسن طلب کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ جب کسی سے کچھ مانگنا ہو تو اس کی ابتدا اس کے محاسن کے تذکرہ سے کی جاتی ہے۔

رحمن اور رحیم:

ان الفاظ کو یہاں دوبارہ لانے کا مقصد صرف اس بات کا اظہار ہے کہ تمام جہانوں کی ربوبیت عامہ کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں جب ان عالمین کا پروردگار رحمن بھی ہو اور رحیم بھی ہو ۔ اگر اللہ تعالیٰ رحمن اور رحیم نہ ہوتا تو یہ دنیا کبھی آباد نہ رہ سکتی بلکہ کب کی فنا ہوچکی ہوتی۔

دین :

دین کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں استعمال ہوا ہے:

(١) مکمل حاکمیت الٰہی

(٢) انسان کی مکمل عبودیت

فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ (الزمر:2)

خالص اسی کی عبادت کرو ۔ سن لو مکمل حاکمیت خالص اللہ ہی کے لئے ہے ان دونوں آیات میں دین کا لفظ مذکورہ بالا دونوں معنی دے رہا ہے۔

(٣) قانون سزا و جزاء یا تعزیرات

مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ (یوسف:76)

یوسف علیہ السلام کے شایان شان نہ تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو رکھ سکتا۔

(٤) قوت نافذہ

فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْنِيْنَ ( الواقعة:86)

‘پھر اگر تم سچے ہو اور قانون کی گرفت سے آزاد ہو تو اسے لوٹا کیوں نہیں لیتے؟

اور اس آیت میں دین کا لفظ مندرجہ بالاچاروں معنی دے رہا ہے۔

اس آیت میں آخرت پر ایمان اور اس دن اللہ تعالیٰ کے عملی اقتدار و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا بدلہ دے گا۔ وہ ایسا بدلہ دینے کی اور اپنے اس فیصلہ کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

عبادت:

یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ غلامی، اطاعت اور فرمانبرداری یہاں یہ لفظ اپنے تینوں معنوں میں مستعمل ہے۔

عبادت کا مفہوم:

عبادت مسلمان کی مکمل زندگی پر محیط ہے یعنی تمام قلبی، بدنی اور مالی اعمال و أفعال اور اقوال اللہ ہی کے لئے ہیں قلبی عبادات میں توکل، خوف و رجاء، محبت، تذلل اور خشوع و خضوع شامل ہیں ۔ بدنی عبادات سے مراد فرض نماز اور نوافل نمازیں، روزہ اور حج اور دوسرے احکام الٰہی کی عملاً پیروی کرنا ہے اور مالی عبادات سے مراد زکوٰۃ، صدقات و خیرات، قربانی اور نذر و نیاز وغیرہ ہیں ۔ وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون۔ کا مفہوم یہی ہے کہ زندگی برائے بندگی لیکن یہ صرف ایک ہی صورت میں ہو سکتی ہے جب یہ خالص اللہ تعالی کے لیے ہو اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو تو ایک مسلمان کا سونا ،جاگنا، کھانا، پینا، الغرض حیات انسانی کے تمام شعبہ جات اس میں آ جاتے ہیں اور لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ہم زندگی کے پہلے سانس سے آخری سانس تک حیات طیبہ کو ہی اپنا ھدف اصیل بنا لیں۔

لہٰذا روز مرہ زندگی کے معاملات میں اگر ہم جانتے بوجھتے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کریں گے تو گویا ہم عبادت کی نفی کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ کے ساتھ شرک کے مرتکب ٹھہر رہے ہوتے ہیں۔

استعانت:

استعانت: (مدد چاہنا) انسان دنیا میں جو کام بھی کرتا ہے وہ یا تو کسی فائدہ کے حصول کے لئے ہوتا ہے یا کسی تکلیف یا نقصان کو دور کرنے کی خاطر۔ ان کاموں کو عربی زبان میں جلب منفعت اور دفع مضرت کہتے ہیں ۔ اب انہی کاموں میں سے کسی کے لئے اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو یا اللہ کے سوا کسی بھی دوسری ہستی کو پکارے یا اس سے مدد طلب کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو (یعنی ظاہری اسباب مفقود ہوں) تو یہ صریح شرک ہے ۔دعا یا پکار کو اللہ تعالیٰ نے عبادت ہی قرار دیا ہے دیکھئے (60:40) اور احادیث صحیحہ میں سے ایک کے الفاظ یہ ہیں ۔

الدُّعَآءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (سنن ابی داؤد551/1)

(دعا ہی اصل عبادت ہے) اور دوسری یہ کہ

الدعآء مخ العبادۃ (سنن الترمذیفی سندہ کلام.316/5)

دعا ہی عبادت کا مغز ہے

ہاں اگر کسی حاضر شخص سے ایسے کام میں مدد چاہی جائے جو اس کے اختیار میں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ بلکہ ایسی امداد و تعاون کے بغیر تو دنیا میں کوئی کام ہوہی نہیں سکتا۔ اور جو کام اللہ کے سوا کسی دوسرے کے بس میں نہیں۔ مثلاً اولاد عطا کرنا، رزق میں کمی بیشی کرنا، گناہ بخشنا، عذاب سے نجات دینا وغیرہ وغیرہ ایسے کاموں کے لئے کسی زندہ موجود شخص سے بھی مدد چاہنا شرک ہوگا۔ مگر کسی خطرہ مثلاً سانپ یا دشمن سے بچنے کے لئے مدد حاصل کرنا اور تعاون چاہنا درست ہوگا۔

اس آیت میں (نَعْبُدُ) اور (نَسْتَعِیْنُ) سے پہلے (اِیَّاکَ) کا لفظ لایا گیا ہے جو حصر کا بھی فائدہ دے رہا ہے اور تاکید کا بھی اور اس کے معنی ہیں کہ ہم صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ تیرے سوا نہ کسی کی عبادت کرتے ہیں یا کریں گے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ مانگیں گے۔ گویا شرک کی جملہ اقسام کے رد اور سد باب کے لیے یہ اکیلی آیت ہی کافی ہے۔

نیز اس آیت میں جمع متکلم کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ واحد متکلم کے نہیں ہوئے۔ کیونکہ اسلام نماز باجماعت کی بھی تاکید کرتا ہے اور معاشرتی اجتماعی زندگی اور نظم و ضبط کی بھی۔ علاوہ ازیں (نَعْبُدُ) کے فوراً بعد (نَسْتَعِیْنُ) کا لفظ لایا گیا تاکہ انسان کو اپنی عبادت پر غرور نہ پیدا ہوجائے بلکہ اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے عبادت کی توفیق بھی اللہ ہی کی مدد کی بنا پر میسر آئی ہے۔

ان کلمات میں جبریہ اور قدریہ دونوں کاردموجود ہے۔کیونکہ جب ہم’’ نَعْبُدُ ‘‘کہتے ہیں۔

یعنی ہم عبادت کرنے کا اقرار کرتے ہیں، تو اختیار ثابت ہوگیا اور اس میں جبریہ کا رد ہے اور جب ہم مدد چاہتے ہیں ۔ تو اس سے بندہ کا محتاج ہونا ثابت ہو جاتا ہے یعنی وہ مختار مطلق نہیں اور اس میں قدریہ کا رد موجود ہے۔

اس کے علاوہ آیت میں اس امر پر دلیل موجود ہے کہ سوال کرنے، دعا مانگنے یا مدد چاہنے سے پہلے وسیلہ ضروری ہے اور وہ وسیلہ عبادت ہے۔جس کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے :

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے سنا، جس نے نہ تو اللہ کی حمد بیان کی تھی اور نہ ہی نبی پر درود بھیجا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے جلدی کی۔ پھر اسے بلایا اور فرمایا: تم میں سے کوئی شخص بھی جب دعا کرے تو اپنے پروردگار کی تعریف اور ثنا سے شروع کرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔ (احمد۔ ترمذی۔ نسائی۔ ابوداؤد۔ بحوالہ سبل السلام ج١ ص١٩٢ باب صفۃالصلٰوۃ حدیث نمبر ٤٨)

صراط مستقیم:

اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ وہ سیدھی راہ ہے جو بندے کو اللہ تک پہنچانے والی ہے۔ اور اس میں کوئی پیچ و خم یا افراط و تفریط نہیں اور یہ ایک ہی ہوسکتی ہے جبکہ باطل راہیں لاتعداد ہوتی ہیں ۔ اسی راہ کو حبل اللہ بھی کہا گیا ہے اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ سے تعبیر فرمایا ہے اور صراط مستقیم کی دوسری تعبیر توحید سے بھی کی جا سکتی ہے کہ ہر نبی کی دعوت کا محور رہا ہے ۔

منعم اور مغضوب لوگ :

قرآن کے مطابق ان سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں ۔ (٤:٦٩) وہ لوگ نہیں جنہیں مال و دولت یا حشمت و جاہ کی فراوانیاں حاصل ہیں ۔ اور مغضوب سے مراد آپ کے ارشاد کے مطابق

(آیت مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)

سے مراد تو یہود ہیں جو گناہ کے کاموں پر دلیر ہوگئے تھے اور ان پر اللہ کا عذاب اور پھٹکار نازل ہوئی اور ضَالِّیْن سے مراد عیسائی حضرات ہیں جو تثلیث اور گمراہی کا شکار ہوئے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ سورۃ فاتحہ)

دور نبوی میں تو واقعی یہی فرقے مغضوب علیھم اور ضالّین تھے۔ مگر آج مسلمانوں کے اکثر فرقے ان میں شامل ہوچکے ہیں اور صراط مستقیم پر تو مسلمانوں کا صرف وہی فرقہ ہے جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا

مَا اَنَاعَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ
(ترمذی، کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ)

گویاکہ مغضوب اور ضالین کا مفہوم عام ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے