جب تک سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف فرما رہے اس وقت تک علم وفتویٰ کی مرکزی حیثیت کے حامل رہے۔ آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم جو شریعت کے راز دان اور احکام اسلامی کے شناس تھے آپ کے جانشین ہوئے۔

سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے جب کوئی نیا مسئلہ پیش ہوتا تو وہ تمام علماء کو بلاتے اور ان سے مشورہ کرتے اگر کسی کو کوئی حدیث یاد ہوتی تو وہ بیان کرتا ورنہ احکام منصوصہ پر قیاس کرکے فیصلہ کردیا جاتا۔ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے مدینہ طیبہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبد اللہ بن عباس، سیدنا ابوہریرہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی شخصیات زیادہ تر فقہ وفتاویٰ کی مجلس کی مسند نشین ہوئیں۔ غیر منصوص احکام کے بارے میں ان کے پیش نظر مختلف اصول تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کا مسلک تھا کہ اگر پیش آمدہ مسئلہ کے متعلق کتاب وسنت اور اثر سے کوئی جواب معلوم ہوتا تو مسئلہ بتا دیتے اور اگر کوئی آیت یا حدیث یا خلفائے راشدین سابقین کے آثار معلوم نہ ہوتے تو خاموش ہوجاتے۔ (1)

جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قرآن وحدیث میں مسئلہ کو نہ پاتیں تو عقلی قیاس کرتیں۔ آپ جو بات فرماتی تھیں اور جو توجیہ آپ کرتی تھیں وہ بالکل عقل کے مطابق ہوتی تھی اور مشکل سے کوئی حدیث ایسی ملے گی جسے باور کرنے کے لیے عقل انسانی کو دور دراز کی تاویلوں سے کام لینا پڑے۔ (2)

فقہی اعتبار سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف خواص عورتوں پر بلکہ دیگر تمام ازواج مطہرات پر بھی جو شرف حاصل تھا وہ بذات خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام، عظمت وفقاہت کی رفعت کی واضح دلیل ہے۔ کتاب وسنت اور فقہ واحکام میں ان کا مرتبہ اس قدر اعلیٰ ہے کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ کا شمار سیدنا عمر فاروق، سیدنا علی اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کی صف میں کیا جاسکتاہے۔

ایک فقیہ یا فقیہہ کے لیے جن اوصاف حمیدہ سے متصف ہونا،جن شرائط کی پاسداری کرنا، جن تقاضوں کا لحاظ کرنا، فہم وفراست کے جس معیار پر پورا اترنا، حکمت ودانائی کے اظہار کی جس قوت پر قادر ہونا اور اصابت رائے کے جس ملکہ کا ہونا ضروری ہے وہ تمام کے تمام بدرجہ اتم آپ میں موجود تھے ۔

سیدنا عطاء بن ابی رباح آپ کو ’’افقہ الناس‘‘ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

كانت عائشة أفقه الناس، وأعلم الناس، وأحسن الناس رأیا فی العامة.(3)

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے بڑی فقیہہ ، سب سے زیادہ علم اور عوام میں سب سے زیادہ اچھی رائے والی تھیں۔‘‘

سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

ما رأیت أحدا أعلم بفقه ولا بطب ولا بشعر من عائشة.(4)

’’میں نے فقہ، طب اور شعر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘

سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں :

مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صلّى الله علیه وسلم، وَلَا أَفْقَهَ فِیْ رَأْیٍ إِنِ احْتِیجَ إِلَى رَأْیِهِ، وَلَا أَعْلَمَ بِآیَةٍ فِیمَا نَزَلَتْ، وَلَا فَرِیضَةٍ مِنْ عَائِشَةَ(5)

’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو جاننے والا ، رائے طلب کرنے پر ان کی ضرورت پڑے تو ان سے زیادہ فقیہہ اور آیت کے شان نزول اور فرائض کے مسئلہ کا واقف کار، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا ۔‘‘

ایک اور روایت میں ان الفاظ سے آپ کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں :

ما رأیت أحدا أعلم بالقرآن ولا بفریضة ولا بحلال ولا بحرام ولا بفقه، ولا بطبّ، ولا بشعر، ولا بحدیث العرب ولا بنسب من عائشة- رضی الله تعالى عنها(6)

’’ قرآن ، فرائض، حلال، حرام،فقہ، شاعری، طب، تاریخ عرب اور روایت نسب میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی عالم کو نہیں دیکھا ۔‘‘

سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

مَا أَشْكَلَ عَلَیْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدِیْثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا.(7)

’’ہم صحابہ کو کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی کہ جس کو ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہو اور اس کے متعلق ان کے پاس کچھ معلوما ت ہمیں نہ ملی ہوں۔‘‘

قبیعہ بن ذویب فرماتے ہیں :

كانت عائشة أعلم الناس یسألها أكابر الصحابة(8)

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں میں زیادہ جاننے والی تھیں۔ اکابر صحابہ ان سے سوال کرتے تھے۔‘‘

کسی نے سیدنا مسروق تابعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرائض سے واقف تھیں تو جواب دیا :

والذی نفسی بیدہ لقد رأیت مشیخة أصحاب رسول الله صلّى الله علیه وآله وسلّم الأكابر یسألونها عن الفرائض. (9)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ کو دیکھا وہ ان سے فرائض کے بارے میں سوال کرتے تھے۔‘‘

مصطفیٰ قدودۃ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :

وکان القضاۃ یجتمعون عندھا لحل بعض مشاکل ۔ (10)

’’قاضی ان کے ہاں جمع ہوکر بعض مشکلات حل کیا کرتے تھے۔‘‘

مشکوۃ المصابیح میں صحیح مسلم، کتاب الفضائل کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ

أَنَا تَارِكٌ فِیكُمْ ثَقَلَیْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِیهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ” فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِیهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَیْتِی أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فی أَهْلِ بَییتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَیتی(11)

’’میں تم میں دو پختہ چیزیں چھوڑ رہا ہوں پہلی ان میں کتاب ہے اس میں ہدایت ونور ہے تو اللہ کی اس کتاب کو پکڑو،پھر فرمایا اور میرے گھر والے ، میرے گھر والے ، میرے گھر والے ۔‘‘

خاندان نبوت میں سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کو ایک خاص مقام حاصل تھا اس لیے کہ کتاب اللہ کے اسرار ورموز سے نقاب کشائی کرنے والا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عملی مظاہرہ کرنے والا ان سے بہتر اور کون ہوسکتاتھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف جلوت میں دیکھتے تھے اور آپ کو جلوت وخلوت دونوں میں ہم نشینی کا اعزاز حاصل تھا۔ اسی لیے (وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى) (12) کے مقام پر فائز ہونے والی شخصیت نے ارشاد فرمایا :

فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَآءِ، كَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلٰى سَائِرِ الطَّعَامِ(13)

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو عام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو عام کھانوں پر۔‘‘

ابن حزم الاندلسی نے اپنی تالیف ’’رسالۃ فی المفاضلۃ بین الصحابۃ ‘‘ میں ازواج مطہرات کی فضیلت کے بارے میں لکھا ہے :

أن أفضل الناس بعد الأنبیاء علیھم السلام نساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم أبو بکر ۔(14)

’’انبیاء علیہم السلام کے بعد لوگوں میں سب سے افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔‘‘

اور پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کے بارے میں استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَیْكَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ. قَالَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: أَبُوهَا.۔ (15)

’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے نزدیک لوگوں میں سے افضل کون ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا ، اور کہا : مردوں میں سے کون سب سے زیادہ افضل ہے تو فرمایا اس کا باپ (یعنی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ )۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فقہی استدلال :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مختلف مسائل میں اپنی رائے پیش کی، خاص طور پر کتاب سے استدلال، استنباط اور قیاس کرنے میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکمت بالغہ سے سرفراز کیاتھا۔ ذیل میں مختلف فقہی مسائل میں آپ کی چند آراء پیش کی جاتی ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

حَافِظُواعَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطٰى (16)

’’ نمازوں کی پابندی کرو خصوصاً درمیانی نماز کی۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں صلوٰۃ الوسطی کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ کوئی فجر کو صلوٰ ۃ الوسطی اور کوئی مغرب کو قرار دیتاہے جبکہ آپ کی رائے میں صلوٰۃ الوسطیٰ سے مراد نماز عصر ہے۔

ایک غلام ابو یونس آپ سے روایت کرتے ہیں : ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے قرآن کریم لکھنے کے لیے کہا اور فرمایاجب اس آپ (حَافِظُوْا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطٰى)پر پہنچو تو مجھے بتانا‘‘ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہوں نے اس کی تفسیر لکھنے کو کہی جوکہ عصر کی نماز کے بارے میں تھی کہ صلوٰۃ وسطی نماز عصر ہی ہے۔(17)

آپ کی بیان کردہ روایات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ جن احکام اور واقعات کو نقل کرتی ہیں، اکثر ان کے اسباب اور علل کو بھی بیان کرتی ہیں اور وہ خاص حکم دن مصالح پر مبنی ہوتاہے ساتھ ساتھ اس کی تشریح بھی کرتی جاتی ہیں۔ صحیح بخاری میں جمعہ کے دن غسل کرنے کے بارے میں مختلف احادیث ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی شامل ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی فقہی بصیرت کی بناء پر نہ صرف واقعہ کو روایت کرتی ہیں بلکہ اس کی علت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے کہا :’’جمعہ کے دن لوگ مدینہ منورہ کے باہر کی آبادیوں سے آتے تھے اور گرد وغبار اور پسینہ میں شرابور ہوتے تھے ایک دفعہ ان میں سے ایک صاحب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے حالانکہ وہ میرے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بہتر ہوتاکہ اگر تم اس دن غسل کر لیا کرو۔‘‘ (18)

ایک دوسری روایت ہے کہ سیدنا عروہ نے غسل کے بارے میں پوچھا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ لوگ اپنے کام کاج اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے (یعنی کھیتی باڑی وغیرہ) جب وہ جمعہ میں جاتے تھے تو اسی ہیئت میں چلے جاتے اس لیے ان سے کہا گیا کہ تم غسل کر لیا کرو۔‘‘ (19)

متعدد مسائل ایسے ہیں جن میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے اجتہاد یا کسی روایت کی وجہ سے کوئی مسئلہ بیان کیا لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ذات واقفیت کی بناء پر اس کو رد کردیا اور آج تک ان مسائل میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہی مستند سمجھا جاتاہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فتویٰ دیتے تھے کہ نہاتے وقت چٹیا کھول کر بالوں کو بھگونا ضروری ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو فرمایا :’’ کہ وہ عورتوں کو یوں کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ اپنے چونڈے منڈوا لیں جبکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہاتی تھی اور بال نہیں کھولتی تھی۔ (20)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ بیوی کا بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جاتاہے یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوئی تو فرمایا ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کا بوسہ لیا پھر نماز پڑھی مگر وضو نہ کیا۔‘‘(21)

فرض غسل کے لیے خروج ماء کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ سیدنا جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ضروری ہے کیونکہ

الماء من الماء

جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو فرمایا کہ ’’ جابر رضی اللہ عنہ نے غلطی کی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب دو شرمگاہیں مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتاہے۔‘‘ (22)

ایک دفعہ اپنی بھتیجی کو باریک دوپٹہ اوڑھے ہوئے دیکھا تو اسے پھاڑ دیا اور فرمایا :’’ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورت النور میں کیا فرمایا ’’ اور پھر ان کے لیے موٹا دوپٹہ منگوایا۔‘‘ (23)

ایک شخص نے پوچھا کہ اہل عجم اپنے تہواروں میں جانور ذبح کرکے مسلمانوں کو ہدیہ بھیجتے ہیں ، کیا ان کا کھانا جائز ہے تو فرمایا ’’ان کا ذبیحہ مت کھاؤ اور ان کے پھلوں سے کھاؤ۔‘‘(24)

ایک مرتبہ یہ مسئلہ پیش ہوا کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق لینے کا اختیار دے اور بیوی اس اختیار کو واپس کرکے اپنے شوہر کو قبول کرے تو کیا پھر بیوی پر کوئی طلاق پڑےگی۔ سیدنا علی اور سیدنا زید رضی اللہ عنہما کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک اس صورت میں ایک طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔ اور قیاس اس واقعہ پر کیا کہ جب رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا کہ خواہ دنیا قبول کریں یا کاشانہ نبوت میں رہ کر فقروفاقہ کی زندگی پسند کریں تو سب نے دوسری صورت کو قبول کیا اور ان پر کوئی طلاق واقع نہ ہوئی۔ (25)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نحوست تین چیزوں میں ہے ، گھوڑا، گھر اور عورت۔ یہ سن کر آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمایا ’’ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ ہرگز نہیں فرمایا البتہ فرمایا کہ اہل جاہلیت ان سے نحوست کی فال لیتے تھے۔(26)

اسلام میں نکاح کے لیے لڑکیوں کی رضا مندی ضروری ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ’’ دو عورتوں سے اس کا حکم طلب کیاجائے اور کنواری عورتوں سے اجازت لی جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو جو فطری حیا اور شرم عطا کی ہے اس کی بناء پر زبان سے رضا مندی کا اظہار مشکل ہے تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے اس مسئلہ کی مشکل کشائی کے لیے فرمایا کہ ’’باکرہ کی خاموشی میں اس کی رضا ہے۔‘‘ (27)

حواشی :

1۔ محمد سرفراز ، ڈاکٹر نعیمی ، سیدنا عائشہ کی فقہی بصیرت ، 78، مطبع مکتبہ نعیمیہ لاہور

2۔ نیاز فتح پوری، صحابیات ، 57، نفیس اکیڈمی کراچی 1974ء

3۔ العسقلانی ، ابن حجر، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، 4/360، دارصادر بیروت ، 1328ھ

4۔ أیضاً

5۔ سید سلیمان ندوی ، سیرت عائشۃ رضی اللہ عنہا ، 124، مطبع معارف اعظم گڑھ انڈیا 1940ء

6۔زرقانی ، محمدبن عبد الباقی، شرح علی المواھب اللدنیۃ 2/ 234، دار المعرفۃ ، بیروت

7۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ ، جامع ترمذی، 2/ 251، مطبع ملک سراج الدین ، لاہور

8۔ الذہبی ، شمس الدین محمد ، تذکرۃ الحفاظ 1/28، دار إحیاء تراث العربی ، بیروت 1377ھ

9۔ العسقلانی ، ابن حجر، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، 4/360، دارصادر بیروت ، 1328ھ

10۔ مصطفیٰ قدورۃ، عائشہ ام المؤمنین 131۔132، مطبع القاھرۃ ، قاھرۃ 1947ء

11۔ ولی احمد بن عبد اللہ ، مشکوٰۃ المصابیح 1/ 568، اصح المطابع دہلی

12۔ القرآن : 53:3

13۔ بخاری، محمدبن اسماعیل ، الجامع الصحیح 1/ 532، مطبع نور محمد ، 1961ء

14۔ ابن حزم الاندلسی، رسالۃ فی المفاضلۃ بین الصحابۃ، 172، مکتبہ ہاشمیہ ، 1940ء

15، أیضا ص، 189

16۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ ، جامع ترمذی، 2/ 144، مطبع ملک سراج الدین ، لاہور

17۔بخاری، محمدبن اسماعیل ، الجامع الصحیح 1/ 121، مطبع نور محمد ، 1961ء

18۔ أیضا 1/123

19۔ مسلم بن حجاج القشیری ، الصحیح للمسلم ، 1/149، نور محمد اصح المطابع 1956ء

20۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ ، جامع ترمذی، 1/31، مطبع ملک سراج الدین ، لاہور

21۔ سیوطی، جلال الدین، عین الاصابۃ، 3، مطبع معارف اعظم گڑھ 1957ء

22۔ الواقدی ، محمد بن سعد الطلبقات الکبیر ،5/50 للطباعۃ والنشر

23۔ ابن کثیر ، عماد الدین اسماعیل ، تفسیر القرآن العظیم ، 1/ 205، سہیل اکیڈمی لاہور 1972ء

24۔ بخاری ، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ، 2/ 792

25۔ سید سلیمان ندوی ، سیرت عائشہ ، 285

26۔ بخاری ، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ، 2/ 771

27۔ أیضاً ، 2/ 771

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے