ہمارا معاشرہ بہت سے مسائل سے دو چار ہے۔دہشت گردی،قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، بے چینی، فکر مندی، بد دیانتی، نافرمانی گویا جہاں دیکھیں بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔بات یہیں تک نہیں قدرتی آفات نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے کبھی بے وقت کی برسات ہے جو سیلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو کہیں خشک سالی کا سامنا ہے۔معاشی بد حالی ہے کہ رکنے میں نہیں آتی، توانائی کے بحران نے ترقی کی راہیں مسدود کردی ہیں۔ دنیا کی پہلی مسلم نیو کلیئر اسٹیٹ ہونے کے باوجود غیر ملکی دراندازی کو روکنے میں ہم ناکام ہیں۔یہ کیفیت روز افزوں بڑھتی جا رہی ہے۔زندگی کے کسی شعبے میں بھی بہتری کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ یہ ملک اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا پھر ہم اسی کے پیارے کے نام لیوا ہیں ۔ماہِ رمضان ہو یا ربیع الاول کی آمد،بڑی بڑی محافل سجاتے ہیں۔ہر طرف روح پرور ماحول بیدار ہوتاہے۔عید الاضحی پر سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور اسمعیل ذبیح اللہ کی یاد میں جانوروں کی قربانیاں دیتے ہیں گویا ہر ہر موقع پر رب سے تعلق جوڑنے کے دعویدار بھی ہیں۔ماہِ صیام کا چاند نظر آئے تو مساجد کی وسعتیں کم معلوم ہوتی ہیں۔پھر آخری عشرے میں معتکفین عبادت میں لگتے ہیں یوں توسال بھر عمرے کی سعادت پانے والے عازم سفر ہیں مگر رمضان المبارک میں تو یہ تعداد لاکھوں میں ہوجاتی ہے۔حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہونے والے بھی ہر سال بڑھ رہے ہیں کتنے ہی ہیں جو تیاری کرتے ہیں مگر مقررہ تعداد پوری ہونے کے بعد مایوس و نا امید ہوکر آئندہ برس مقاماتِ مقدسہ کی دید آنکھوں میں سجائے اداس ہو بیٹھتے ہیں ان تمام عبادات و ریاضتوں کے باوجود معاشرتی مسائل اور نفسانفسی اپنے عروج پرہے آخر کیوں؟

آئیے ذرا اپنی عملی زندگی کا جائزہ لیں کہ خرابی کا آغاز کہاں سے ہو رہا ہے؟اس حوالے سے جو سب سے پہلی چیز سامنے آتی ہے وہ حلال اور حرام کے فرق سے ناآشنائی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان اک خفیف سی لکیر حائل ہے جو غیر محسوس انداز میں عبور ہوجاتی ہے یوں ہم حرام کے دائرے میں داخل ہو کر اپنی عبادات کی اصل روح کو کھو دیتے ہیں جب ہمارا کھانا،پینا،پہننا اور اوڑھنا ہی حرام ہو تو عبادات کیونکر قبول ہوسکتی ہیں اور جب عبادات قبول نہ ہوں گی تو ان کے ثمرات سے استفادہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ذرا گہرائی اور گیرائی سے غور کریں تو یہی حرام ہر برائی کی جڑ ثابت ہوگا۔اس کا تعلق نافرمانی سے ہو یا متوقع پریشانی سے،فکر مندی سے ہو یا بے چینی سے،دہشت گردی سے ہو یا قدرتی آفت سے، بلاشبہ ہر مسئلے کی بناء یہی حرام کی آمیزش ہے۔

آئیے ذرا غور کریں کہ تمام تر جفاکشی،محنت،احساس ذمہ داری کے باوجود یہ حرام کیسے درآتاہے؟اصل میں ہم ایمان کی اس روح کو فراموش کر بیٹھے ہیں جس میں رنج و راحت اور خوش حالی و تنگ دستی کو آزمائش قرار دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔دنیوی زندگی میں جن حالات سے سابقہ پڑتا ہے وہ خوشگوار و تکلیف دہ ہوسکتے ہیں ایسی صورت میں مومن کا رویہ صبروشکر کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اس کا مدد گار و حامی و ناصر تو اللہ رب العالمین ہے اور یہ آزمائش محض وقتی اورمقدور بھر ہے۔اسی موقع کے لیے ارشاد ہوا’’اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘(سورۃ ابراہیم آیت 7ترجمہ سید ابو الاعلیٰ مودودی)

یہ معاملہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔جب اقوام کو کوئی مصیبت،مشکل اور آزمائش درپیش ہو تو ہمت، جواں مردی،حوصلے اور رب کی استعانت کے ساتھ ہی کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی۔ہمیں چاہیےکہ اگر کوئی تکلیف یا مصیبت آپڑے تو اللہ کی رضا کی خاطر صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کاشکر ادا کریں اسی میں دین و دنیا دونوں کی کامیابی ہے۔مگر ہم بے صبرے اور ناشکرے بھی ہیں حرص اور لالچ نے ہمیں آپے سے باہر کر دیا ہے۔ذرا بجلی گئی تو ہم اس کے بغیر چند لمحے گزارنے کو تیار نہیں فوری طور پر غیر قانونی ذرائع سے بجلی حاصل کی جاتی ہے جو یقیناً حرام کے زمرے میں آتی ہے۔اسی بجلی کی روشنی میں آپ پڑھتے ہیں اور محض دنیوی علوم نہیں قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں اسی بجلی سے پانی کھینچنے یا چڑھانے کی موٹر بھی استعمال کرتے ہیں گویا حرام کی بجلی سے پانی حاصل کیا جسے نہانے ،منہ دھونے،کپڑے دھونے،کھانا پکانے،پینے اور یہاں تک کہ وضو کرنے تک بھی استعمال کرتے ہیں اب ذرا سوچئے!جب آپ کی بنیاد ہی حرام ہے تو دیگر امور کے فوائد کیسے مل سکتے ہیں۔رب العالمین نے فرمایا ’’اور نماز قائم کرو یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘(سورۃ العنکبوت آیت 45 ترجمہ سید ابو الاعلیٰ مودودی)

اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم نماز ادا کرتے ہیں اس کے قائم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں یعنی مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے ہیں مگر باہر نکلتے ہیں تو معاشرے میںتبدیلی نہیں۔اس کی دو بڑی وجوہات سامنے آتی ہیں کہ یا تو یہ مفہوم درست نہیں لیکن نعوذ باللہ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ قرآن کریم الہامی کتاب ہے اور اس پر ہمارا ایمان بھی ہے تو پھر ارشاد ربانی کے باوجود نماز ادا کرنے یا قائم کرنے کے بعد بھی برائیوں کا خاتمہ کیوں نہیں ہورہاـ؟تو دوسری وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ جس پانی سے وضو کیا گیا،کپڑے دھوئے گئے،پینے اور کھانا پکانے میں استعمال کیا گیا وہ تو سارا حرام تھا تو تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ ویسے اس کی ایک اور وجہ بھی جو زیرِ بحث موضوع سے ہٹ کر ہے وہ یہ کہ ہم نماز ادا کرنےکے دعویدار ہیں مگر شعوری طور پر اس کے قیام میں مخلص نہیں الا ماشاءاللہ آپ کو کچھ لوگ ملے گےجو اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھنے سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے تک جو کچھ زبان سے ادا کرتے یا جہری نمازوں میں امام سے سنتے ہیں اس کے مفہوم، مطالب، مقاصد اور خود پر نافذ کرنے کے حوالے سے باخبر ہیں ورنہ تمام ہی رٹے رٹائے انداز میں تمام کلمات ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔

حرام کی یہ آمیزش گیس کی چوری یا دیگر مواقع پر بھی نظر آتی ہے مثلاً چوراہوں،بازاروں اور سڑک کے کنارے ٹھیلے والے اکثر کنڈے کی بجلی استعمال کرتے ہیں جو ناجائز و حرام کے زمرے میں آتی ہے۔وہ بڑی محنت و جانفشانی سے روزی کماتے اور گھر لے جاتے ہیں اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے ہیں مگرمسئلہ وہی ہے کہ جب حرام کی بجلی کی روشنی میں کاروبار کیا گیا یا کاروباری اشیاء استعمال کی گئیں تو روزی حلال کہاں رہی؟

سرکاری دفاتر میں کسی جائز کام کو کروانا ہو تو بغیر رشوت دیے یہ کام کرانا ممکن نہیں سب جانتے ہیں کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔رہے رشوت دینے والے تو انہوں نے تو مجبوری،ناکامی اور اضطرابی کیفیت پر ایسے فتاویٰ حاصل کر لیے ہیں کہ جب جائز کام بھی نہ ہو تو بحالتِ مجبوری کراہت و گناہ سمجھتے ہوئے رشوت دی جا سکتی ہے۔سرکاری محکموں کے رشوت خور ملازمین کی توجہ جب اس ناجائز اورحرام طریقے کی طرف دلائی جاتی ہےتو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں یہ رشوت تو نہیں آپ کا کام کرنے کی رقم لی ہے۔اگر ان سے کہا جائے کہ حکومت آپ کو یہی کام کرنے کی تنخواہ دیتی ہے تو جواب ملتا ہے تنخواہ صرف دفتر آنے کی ملتی ہے کام کرنے کے لیے الگ سے نذرانہ دیجیے۔

سرکاری محکموں میں رشوت ستانی میں حکومت اور عدلیہ بھی برابر کی شریک ہے۔جب بھی یہ افسران منظر عام پر آتے ہیں تو کوئی احتساب کرتے ہوئے نہیں پوچھتا کہ جس قدر تنخواہ پر یہ کام کر رہے ہو،پرآسائش زندگی گزارنے، رہن سہن اورآمدورفت میں کیسے کامیاب ہوئے؟اصل میں نظام عدل ہی موجود نہیں کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والا کروڑوں کے مکانات اور لاکھوں کی مالیت کی گاڑیاں رکھتا اور اپنی آمدنی سے کہیں زائد اخراجات کا حامل ہے مگر پکڑ نہیں۔ہاں!خدا ترسی بھی دکھائی جاتی ہے اسی حرام کمائی سے عمرہ،حج،قربانی اور رمضان المبارک میں غریبوں کو راشن دلوا کر اللہ کی خوش نودی اور بندوں کی دعائیں سمیٹی جاتی ہیں۔

آپ جس قدر غور کریں گے اسی قدرہر ایک اس لت میں گرفتار نظر آئے گا۔پرائیویٹ اسکول انتظامیہ فیسوں کی وصولی پرمطمئن نہیں اسے اس بات سے دلچسپی بھی ہے کہ بچہ کتابیں،بیگ،یونیفارم اور جوتے فلاں فلاں دکان سے خریدے۔اسی طرح ڈاکٹر صاحبان کو یہ دلچسپی ہے کہ ادویات فلاں کیمسٹ سے اور ٹیسٹ فلاں لیبارٹری سے کرائے جائیں۔یہی نہیں کارپینٹر،میسن،رنگریز ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس کی بتائی ہوئی دکان سے سامان لیا جائے تاکہ بعد میں وہ اپنا کمیشن حاصل کر سکے۔اس دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہیں۔گاڑی والوں کو شکایت ہے کہ پٹرول پمپوں پر ناپ تول صحیح نہیں توخود ان کا رویہ بھی مسافروں کے ساتھ مشفقانہ نہیں بلکہ مجبوری کافائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

معلم کا پیشہ پیغمرانہ شمار ہوتا ہے۔یہاں بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی کچھ ایسے ذرائع اختیار کیے جا رہے ہیں جو حدود سے متجاوز ہیں۔مثلاً اساتذہ تعلیمی اداروں میں کم وقت دیتے ہیں اور پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز میں زیادہ محنت اور توجہ سے پڑھاتے دیکھے گئے ہیں۔بالکل اس طرح مسیحائی کے دعویدار ڈاکٹرز سرکاری اسپتال میں مریضوں کے ساتھ انتہائی روکھائی اور اکھڑپن سے پیش آتے ہیں کوئی سوال کروتو جواب نہیں دیتے اور جب ان کے کلینک میں جائیں توبالکل ہی مختلف معلوم ہوتے ہیں بڑی باریک بینی کے ساتھ مرض کی نوعیت،پرہیز وغیرہ بتاتے ہیں۔

اب ذرا غور کیجئے! جب ہماری روزی میں حرام کی ہلکی سی آمیزش بھی ہوگئی تو پھر بیوی بچوں کی نافرمانی،والدین اور بزرگوں سے بیزاری،بڑے چھوٹوں کا ادب و احترام کیسے ملحوظ رہ سکتا ہے پھر رزق میں برکت کیسے ہو گی؟ جب عبادات ہی قبول نہ ہوں گی تو اللہ کی مدد کیسے آئی گی؟ پھر تو آفات صحیح آرہی ہیں ہم عذاب کے حقدار ہیں اور خود ہی طلب کر رہے ہیں پھر پریشانی کیوں؟

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے