جب دنیائے اسلام کے ہر حصےپر زوال و انحطاط کی گھٹائیں مسلط تھیں اسلامی دنیا اپنی خستہ حالی کی انتہائی گہرائیوں تک پہنچ چکی تھی اضطراب و افتراق کی بجلیاں جا بجا کوند رہی تھیں۔ اسلامی آداب و اخلاق تہذیب و تمدن کے تمام آثار تقریبا مٹ چکے تھے ان کی جگہ رسم و رواج، بدعات و خرافات، دین سے بیزاری اور جہاد فی سبیل اللہ سےفرار نے لےلی تھی سونے پرسہاگہ یہ کہ ان تمام اسلام دشمن سر گرمیوں کی پشت پناہی عیش پرست خاندان کررہے تھے عوام بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قعرمذلت میں جا گرے تھے علم و ہنر کا چراغ بھی گل ہوتا جا رہا تھا مراکز تعلیمہ بھی اپنی وقعت کھو چکے تھے حکومت کی زمام کار ناخلف ظالم جابر بادشاہوں نوابوں اور مہاراجوں کے ہاتھ میں تھی۔ اور ان کے وزیر مشیر بھی بے رحم بددماغ اور خوشامدی تھے عوام بھی ان کے ظلم و جبر سے محفوظ نہ تھے ہر طرف بدامنی عدم تحفظ قتل و غارت گری اس قدر زیادہ تھی کہ کسی کی بھی جان مال عزت و آبرو محفوظ نہ تھیں مذہبی لحاظ سے بھی زبوں حالی تھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و ربوبیت کو چھوڑ کر تعویز گنڈوں، غیرشرعی وظائف میں روحانی سکون تلاش کیا جاتا تھا۔ قبر پرستی ایک دستور کی حیثیت اختیار کرچکی تھی قرآن کریم کو قیمتی ترین جزدانوں میں لپیٹ کر طاق نسیان پر رکھ دیا گیا تھا، شعائر اسلام سے بغاوت اور لاپرواہی عام تھی شراب نوشی بدکاری فحاشی کھلم کھلا ہو رہی تھی۔

تیرہویں صدی ہجری الموافق اٹھارویںصدی عیسوی کے اواخر جب ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اللہ تعالیٰ نےمرد آہن مجاہدکبیر مجدد اسلام کو سید احمد رحمہ اللہ کی صورت میں پیدا کیا جس سے برصغیر میں ایک ایسی ایمان افروز بادصبا چلی جس سے قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو گئی۔ سید احمد شہید نے ایک ایسی ایمان آفرین تحریک اورصادقین و مخلصین کی ایسی مربوط اور منظم جماعت کی بنیاد رکھی جس کا روئےسخن عامۃ الناس کے عقائد، اخلاق اور اعمال کی اصلاح تھا چنانچہ بلاریب کہا جاسکتا ہےکہ ہندوستان میں سید احمد رحمہ اللہ ہی نے سب سے پہلے ہر دل عزیز دینی اور سیاسی راہنما کا اعزاز حاصل کیا اور عقیدہ توحید کا آوازہ اس جرأت اور بلند صوتی سے لگایا جس سے دشت و جبل گونج اٹھے۔ ملت اسلامیہ کے ان اصحاب دعوت و عزیمت اور نفوس قدسیہ جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ رضائے الہٰی کے لیے وقف تھا جنہوں نے فی سبیل اللہ میں ؎ ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا ‘‘کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دعوت دین کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ان پاکباز ہستیوں نے یہ سب کچھ صرف اور صرف ثواب اُخروی کے شوق و یقین کی دولت سے سرشار ہو کر انجام دیا۔ ایک موقع پر جب سید احمد رحمہ اللہ حج کے لیےتشریف لے جا رہے تھے کلکتہ کے ایک بہت بڑے تاجر نے آپ سے عرض کیا کہ آپ جس جہاز سے جارہے ہیں وہ بہت معمولی قسم کا جہاز ہے مناسب یہ ہے کہ آپ ’’ عطیۃ الرحمان ‘‘ نامی جہاز سے تشریف لے جائیں اس لیے کہ اس پر ساٹھ دور تک مار کرنے والی توپیں چڑھی ہیں۔ محمد حسین ترک اس کا ناخدا ہے اور وہ چالیس جہازوں کا کپتان ہے آپ اس پر سوار ہوں جس وقت آپ ملک عرب میں پہنچیں گے وہاں کے لوگ آپ کا عزت واکرام کرینگے۔ یہ سن کر آپ کا چہرہ غصہ سے متغیر ہو گیا، فرمایا کہ غلام حسین خاں ! یہ تم نے کیا کہا عزت و حرمت تواللہ رب العزت کی طرف سے ہوتی ہے بندے کی طرف سے نہیں ہم دنیا کی قدرومنزلت کو ایسا جانتے ہیں جیسا سڑا کتا۔اور اسی طرح سید احمد کی جماعت کے بارے میں جماعت مجاہدین کا سب سے بڑا دشمن ڈاکٹر سرولیم ہنٹر اپنی کتاب ’’ مسلمانان ہند ‘‘ میں لکھتا ہے: ’’یہ لوگ مشنریوں کی طرح انتھک کام کرتے تھے وہ بے لوث و بے مثال لوگ تھے جن کا طریق زندگی ہر شعبہ سے بالا تر تھا۔ ان کا کام محض تزکیۂ نفس اور اصلاح مذہب تھا۔‘‘ میرے لیے ناممکن ہے کہ میں عزت و عظمت کے بغیر ان کا ذکر کروں ان میں سے اکثر نہایت مقدس و مستعد نوجوانوں کی طرح زندگی شروع کرتے تھے ان میں سے بہت سے اخیر تک مذہب کےلیے اپنی جانفشانی اور جوش قائم رکھتے۔ اس بات پر تاریخ بھی شاہد ہےبقول سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ ’’تاریخ اسلام میں جب کبھی ایمان کی ہوائیں چلیں تو عقائد، اعمال اور اخلاق تینوں شعبوں میں حیرت انگیز واقعات بلکہ عجائبات کاظہور ہوااور شجاعت و جوانمردی یقین واعتماد عفت و امانت ایثار خود شکنی ہمدردی و جذبۂ خدمت ، ایمان و احتساب خارجی آرائش و زیبائش کی بے وقعتی ، خودداری اور بلند نگاہی نیز عدل و انصاف، رحم دلی اور محبت اور وفاداری و جان نثاری کے ایسے نادر نمونے اور زندہ نظیریں یا تصویریں لوگوں کے سامنے آئیں، جو انسانیت کے حافظہ سے رفتہ رفتہ محو ہوتی جا رہی تھیں اور جن کی تجدید و احیاء کی کوئی امید باقی نہ رہی تھی۔

ایمان کے یہ تروتازہ جھونکے تاریخ کے مختلف وقفوں میں چلے، کم مدت کے لیے کبھی زیادہ عرصہ کےلیے، تاہم کوئی دورخزاں ان سے خالی نہ رہا اور تجدید و احیاء اور دعوت اسلامی کی تاریخ میں ان سب کا ریکارڈ اچھی طرح محفوظ ہے۔ہندوستان میں ایمان کی یہ بادِ بہاری اور نسیم جانفزا تیرہوں صدی ہجری کے آغاز میں اس وقت چلی جب سید احمد شہید اور ان کے عالی ہمت رفقاء کے اس ملک میں توحید تجدید دین اور جہاد فی سبیل اللہ کا عَلم بلند کیا اور اسلام کی ابتدائی صدیوں کی یاد تازہ کردی۔

سید صاحب نے دین خالص کی دعوت پر اپنے مشن کی بنیاد رکھی انہوں نے مسلمانوں میں ایمان و یقین، جذبۂ اسلامی اور جہاد فی سبیل اللہ کی روح پھونک دی ایک بڑی جماعت کو داعیانہ و مجاہدانہ بنیادوں پر منظم کیا اور ہندوستان کی شمال مغربی سرحد کو اپنی دعوت و جہاد کا مرکز بنایا ان کا منصوبہ دراصل یہ تھا کہ آگے چل کر وہ پورے ملک سے انگریزوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کریں گے اور کتاب و سنت کی بنیاد پر یہاں حکومت شرعیہ قائم کریں گے ان مجاہدین نے پنجاب میں سکھوں کو (جو پنجاب پر قابض تھے اور جنہوں نے وہاں کے مسلمانوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کر رکھا تھا) کئی معرکوں میں شکست فاش دی۔

ان مجاہدین نے صوبہ سرحد پشاور اور اس کے اطراف پر بالفعل ایک اسلامی حکومت قائم کی حدود شرعیہ کا اجرا عمل میں آیا اور اسلام کا نظام مالی و دیوانی بے کم و کاست قائم کیا گیا لیکن وہاں کے قبائل نے اپنی ذاتی اغراض اور قبائلی عادات و روایات کی خاطر اس نظام کا بالآخر خاتمہ کردیا،آخر میں بالا کوٹ کے میدان میں ان سربکف مجاہدین کی سکھوں سے آخری جنگ ہوئی اور اس معرکہ میں سید احمد صاحب اور شاہ محمد اسمٰعیل صاحب اور ان کے بہت جلیل القدر رفقاء اور مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا۔‘‘شہدائے بالاکوٹ نے اپنی شہادت سے عوام اور خواص کے لیے سند جاری کردی کہ اگر دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتے ہو، شہروں محلوں قصبوں اور دیہاتوں میں امن و سکون اور سلامتی چاہتے ہو، قرآن و سنت اور جہاد فی سبیل اللہ کو اپنی زندگی کا مشن بنالو عرب و عجم کے مالک بن جاؤ گے۔

مذکورہ بالا سطور میں عظمت و عزیمت کے نفوس قدسیہ کے حالات و واقعات ذکر کرنے کا مقصد ملک میں بننے والی نئی مرکزی حکومت کو یہ باور کروانا ہے کہ اگر ملک میں امن ، ترقی اور خوشحالی چاہتے ہو تو ان برگزیدہ ہستیوں کی طرح خشیت الٰہی تواضع و انکساری اور اخلاص کو مشعل راہ بنانا ہو گا جنہوں نے پاکستان بنانے کی راہ ہموار کی اور اگر آج پاکستان کو ہر شر سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی نظام عدل اور حدود شرعیہ کو نافذ کرنا ہوگا ان شاء اللہ کامیابی و کامرانی آپ کا مقدر ہوگی۔ ملکی تعمیر و ترقی امن و سلامتی کے لیے مندرجہ ذیل واقعہ پر بھی درد دل سے غور فرمائیں۔

فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم میر پوری حفظہ اللہ اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چند سال پہلے مجھےبرطانیہ کے ہیتھرو ائیر پورٹ پر حکام نے روک لیااور سات دن تک روکے رکھا۔ وہاں سہولت یہ ہے کہ اگر آپ اپنا وکیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں توگورنمنٹ وکیل فراہم کرتی ہے اور وہ وکیل آپ سے کوئی بد دیانتی نہیں کرتا اور آپ کے قانونی حقوق کا تحفظ کریگا بریڈ فورڈ کے ایڈورڈلائیڈ اور مشتاق احمد صاحب نے مجھے اسپانسر کیا تھا اور میرا دفاع کیا ایڈورڈلائیڈ وہاں کی پارلیمنٹ کےممبر بھی ہیں۔بری ہونے کے7 دن بعد میں شکرئیے کےلیے ایڈورڈلائیڈ کے پاس گیا تو بریڈ فورڈ کے سب سے نامور ایم پی اے کے دروازے پر کوئی چوکیدار نہ تھا بلکہ وہ خود دروازے پر میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ملاقات کے دوران شکرئیے کے روایتی کلمات کے بعد میں نے ایڈورڈلائیڈ سے سوال کیا کہ آپ کے ہاں حکومت شہریوں کو احترام دیتی ہے ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہے۔ ایسی طرز حکمرانی آپ نے کہا سے سیکھی؟ میرے سوال پر ایڈورڈ لائیڈ مسکرایا اور اس نے جواب دیا اگر میں جھوٹ بولوں تو یہ امانت و دیانت کے خلاف ہے اور اگر سچ بولوں تو حقیقت یہ ہے کہ یہ طرز حکمرانی ہم نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء سے سیکھی ہے یہ سارا نظام ہم نے تمہارے دین اسلام سے لیا ہے اس نے برملا کہا کہ ہم خلفائے راشدین کے نقال ہیں۔ تمہاری بدقسمتی ہے کہ تم نے انہیں چھوڑ رکھا ہے ایڈورڈلائیڈ نے مجھے معروف انگریز۔ سیاستدان گبن کی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا اس کتاب کے ایک عنوان ’’The Life of Mohammad‘‘ ہے۔ جس میں مصنف نےلکھا ہے کہ ’’اگر دنیا میں امن چاہتے ہو تو اس کے لیے ایک ذات ہے جنہیں اللہ نے اپنا آخری رسول بناکر بھیجا اس کی تعلیمات پر عمل کرو۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے