موت سے کسی انسان کو مفر نہیں ہے اور اللہ کا ہر فیصلہ ہر ذی روح کے لیے محکم ہے۔لیکن کچھ ہستیاں اس کرہ ارض پر ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ صدا نکلتی ہے کہ اے کاش!انہیں زندگی کچھ اور مہلت دے دیتی، جن کی بیاض حیات، داستان حرم کی طرح غریب و سادہ و رنگین ہوتی ہے۔ اور جن کی تخلیق کسی اعلیٰ و ارفع ہدف کے لیے کی جاتی ہے، جن کے مقاصد جلیل اور امیدیں قلیل ہوتی ہیں۔جو تلاش حق میں قدم بڑھا دیں تو پھر مڑ کر نہیں دیکھتے اور اس راہ میں بچھے خار دار کانٹوں کی آبلہ پائی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

امیر المجاہدین جمیعۃ عالیہ ہندیہ چمرکند آزاد محترم فضل الہٰی رحمہ اللہ دبستان سر فروشاں کے وہ گل سرسبز تھے جنہیں وقت و حالات کی تیز و تند آندھیاں بھی مرجھا نہ سکیں اور وہ آج بھی کروڑوں انسانوں کے قلب و ذہن میں زندہ ہیں۔مولانا رحمہ اللہ اپنے وقت کے درویش صفت، صدق و صفا ء کا پیکر، اجلے دامن ، پاکیزہ کردار، دینی حمیت و غیرت سے لبریز قلب کے مالک او ر اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے ایک مضبوط اور آہنی ستون کی مانند تھے۔

محترم و مکرم فضل الہٰی رحمہ اللہ سید احمد شہیدرحمہ اللہ کی پیدائش سے پوری ایک صدی بعد ۲۷ رمضان المبارک ۱۲۹۹ ھ جمعۃ المبارک کے دن علی الصبح پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم وزیر آباد کے مشن اسکول میں حاصل کی، لیکن دیندار خاندان میں پرورش پانے کی وجہ سے بچپن سے ہی نماز کے پابند رہے۔ اوائل عمر ہی میں شیخ الحدیث العلامہ حافظ عبد المنان صاحب رحمہ اللہ سے ناظرہ قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھ لیا تھا، اور انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ حافظ صاحب سے دینیات کی کتابیں بھی پڑھتے رہے۔ چنانچہ عربی اور فارسی کی مکمل تعلیم فضیلۃ الشیخ حافظ صاحب سے حاصل کی، اور بعد میں ان سے ہی مولانا صاحب نے احادیث کی تعلیم کے ساتھ ہی قرآن مجید بھی حفظ کر نے کی سعادت حاصل کی۔ دوران حفظ کا ہی ایک واقعہ ہے کہ محترم یکسوئی کی خاطر عام طور پر وزیرآباد کے مشرقی جانب ایک باغ میں چلے جاتے اور وہاں سارا دن قرآن پاک یاد کرتے،حسن اتفاق کہ اس سال باغ میں وافر مقدار میں پھل آئے، باغ کے مالک نے پھلوں کا ایک ٹوکراہدیتہ آپ کو پیش کیا کہ آپ کے دورۂ قرآن کی برکت سے اس سال پھل بہت کثرت سے آئے تھے،اس لیے اسے قبول فرمالیجیے، لیکن مولانا صاحب نے پھلوں کا ٹوکرا واپس کر تے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں دنیاوی منفعت کے لیے وہاں نہیں جاتا تھا یہ تمہارا ہی حق ہے، اسے لے جائو۔بلکہ باغ میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت مرحت فرمانے پر آپ کا شکریہ ادا کرتاہوں۔ مولانا محترم بے پناہ ذہانت کےمالک تھے،اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر ایسا عبور حاصل تھا کہ نہ صرف روانی سے گفتگو فرما تے بلکہ ان زبانوں میں نہایت فصیح و بلیغ انداز میں تقریر بھی کر لیتے تھے۔علاوہ ازیں روسی، جرمنی، اور ترکی زبان بھی سمجھ لیتے تھے اگرچہ ان پر مکمل طور پر عبور حاصل نہ تھا۔

مولانا فضل الہٰی رحمہ اللہ کے دل میں جذبۂ جہاد کی تڑپ۱۹۰۳ء میں امیر المجاہدین، میر عبد الکریم کے پاس مرکز مجاہدین اسمست لے گئی اور وہاں آپ نے امیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی اور اس کے بعد آپ نے خود کو مستقل طور پر جماعت کے کاموں کے لیے وقف کردیا۔

میر عبد الکریم نے ۱۹۰۲ ء میں اپنا مرکز اسمست کو بنایا اور سب سے بڑا کام یہ کیا کہ ہندوستان کے مسلمانوںاور لیڈروں سے تعلقات استوار کیے۔ اور غالباً ان ہندوستانی مراکز میں یک جہتی ، ذہنی اور قلبی ہم آہنگی قائم کرنے کی غرض سے۱۹۰۶ء میں مولانا فضل الٰہی صاحب کو امیر لمجاہدین ہند کا عہدہ تفویض کیا۔ اس سے قبل مولانا رحمہ اللہ کو مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے اور مجاہدین کو یاغستان بھیجنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی ، ان دونوں امور کو آپ نے پوری لگن اور تندہی سے پورا کیا تھا۔

محترم وزیر آبادی صاحب کا بیشتر وقت دورے کرنے میں اور مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے میں ہی گزرتا تھا۔لیکن جب یورپی طاقتیں منظم ہو کر حکومت ترکی کے خلاف اعلان جنگ کرنے لگیں ، اور اکتوبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کرکے جنگ بلقان کی ابتداء کیاور اس کے ایک سال بعد ہی خود برطانیہ بھی ترکی کی جنگ میں کود پڑا، تو ترک اکیلا ہوگیا کیونکہ اس کے زیر نگیں عرب حکومتیں انگریزی پالیسی کی وجہ سے ترکوں سے باغی ہو چکی تھیں۔ ان حالات میں ترکوں کی شدید خواہش تھی کہ انگریزو ں کے خلاف اس کی مدد کی جائے۔چنانچہ مولانا فضل الہٰی صاحب نے زیادہ بھاری مقدار میں چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ہجرت کے لیےبھی لوگوں کو ابھارنا شروع کیاتاکہ مجاہدین یاغستان کی آزاد فوج کو تربیت دے کر انگریز کے خلاف استعمال کیا جائے۔مولانا صاحب کی اس کوشش کے نتیجے میں چودہ لڑکے ، جن میں سے چار میڈیکل کالج کے طلباتھے ہجرت پر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔مرکز چمر کند میں مولوی عبد القادر قصوری کو فوجی تنظیم و تربیت کا کام سونپا گیا۔ مولانا بشیر صاحب کو وزارت خارجہ کا عہدہ دیا گیا، چنانچہ افغانستان سے تمام امور پر گفتگو انہیں کی معرفت ہوتی تھی۔

مولانا فضل الہٰی صاحب فرماتے ہیں کہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی سیاسی غلطی وہ ہے جو گزشتہ جنگ عظیم(۱۹۱۴۔۔۱۹۱۸)کے دوران امیر شہید حبیب اللہ خان ، شاہ افغانستان سے سر زد ہوئی۔ان دنوں برطانوی اقتدار کا سورج ڈوب رہا تھا۔ امیر مذکور اگر جہاد کا عَلم بلند کر دیتا تو انگریزوں کے لیے زیادہ عرصہ تک ہندوستان پر قابض رہنا ممکن نہ ہوتا۔اور افغانستان ، صوبہ سرحد اور کشمیر وغیرہ تمام مقبوضہ علاقے واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ خلافت ترکیہ کا سقوط عمل میں آتا اور نہ ہی اس سرزمین پر کہیں اشتراکیت اور دور جدید کی سرمایہ داری کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کرتا ۔ مولانامحترم اوریاغستان کے دیگر مجاہدین امیر حبیب اللہ سے سخت نالاں تھے، ان کا خیال تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں انگریز کی کامیابی کاذمہ دار امیر حبیب اللہ ہے۔ اگر امیر مذکور انگریز کا حمایتی نہ ہوتا تو ہندوستان اور مشرق میں انگریز کا نام و نشان ہی مٹ جاتا۔

جنگ عظیم۱۹۱۴ ءمیں شروع ہوئی تھی اور۱۹۱۵ ء میں بہت سے آزادی کے متوالے اور عدم موالات کے حامی لیڈروں کو سیفٹی ایکٹ کےتحت گرفتار کر لیا گیا، جن میں مولانا محمد علی جوہر اور مولاناا بو الکلام آزاد بھی شامل تھے۔۔ اور جب نومبر ۱۹۱۸ ءمیں جنگ بند ہوئی تو انگریزوں نے ترکی کے سامنے بیشتر شرائط رکھیں،ترکی نے مغلوبیت کے باوجود اپنی ایک یہ شرط انگریز کے سامنے رکھی کہ تمام سیاسی قیدی رہا کر دئے جائیں، چنانچہ انگریز نے ۱۹۱۸ ءمیں تمام سیاسی قیدی رہا کر دئے، جن میں مولانا فضل الٰہی بھی شامل تھے۔

مولانا فضل الٰہی صاحب جب ہجرت کرکے یاغستان پہنچے تھے تو اس وقت اسمست میں امیر نعمت اللہ،مجاہدین کے امیر تھے جو مولانا کی ہجرت کرنے کے چند ماہ بعد ہی شہید کر دئے گئے۔ اسمست والوں کی طرف سے متواتر عملی کوتاہیوں کے باعث جہاد کے کاموں میں جمود واقع ہونےکے سبب جماعت کے اکابرین نےعارضی طور پر ان کا بائیکاٹ کر لیا تھا۔پھر مولوی بشیر احمد صاحب نے اتحاد کی آخری کوشش کرتے ہوئے ،چمرکند والوں اور اسمست والوں کو جلال آباد میں دعوت دی اور ان کے ساتھ صلح کی بات چیت مکمل کر کے حکومت افغانستان کی طرف سے چمر کند احکام بھجوا دئے کہ دونوں مراکز کا اتحاد نہایت ضروری ہے، اس لیے آپ صلح کے لیے متحد ہو جائیں ، چنانچہ یکم مارچ ۱۹۲۶ ء کو دونوں جماعتوں کااتحاد ہو گیا۔

۲۷ اگست ۱۹۲۶ ء کو سنڈا کئی بابا صاحب کی دعوت پر خال کے مقام پر ایک بہت بڑی مجلس مشاورت کا اہتمام کیا گیا ،جس میںتمام خوانین و رئوساکو مدعو کیا گیا تاکہ آزاد سرحد کی آزادی کو ہمیشہ برقرار رکھنے کے لیے سوچ و بچار کی جائے۔ چنانچہ اس اجلاس میں ایک جمیعتہ احرار صوبہ سرحد کی بنیاد رکھی گئی جس کے معتمد خصوصی (سیکریٹری) مولانا فضل الٰہی صاحب کو منتخب کیا گیا۔اس مجلس میں ریاست صواب کی تسخیر کا سوال پیداہوا کیونکہ ۲۶اپریل ۱۹۲۶ ء کو والیٔ صواب نے باقاعدہ طور پر سیاست کا الحاق حکومت برطانوی ہند سے کر لیا تھا۔

ہندوستان کے دیگر سیاسی اکابرین کی طرح مولانا فضل الٰہی صاحب کا بھی ابتداء میں یہ موقف تھا کہ پہلے ہندو مسلم دونوں مل کر انگریز سے آزادی حاصل کرلیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی مولانا ایک آزاد علاقہ (احرارستان) یعنی آزاد سرحد کا علاقہ قطعی الگ رکھنا چاہتے تھے ، کیونکہ مولانا ہندو ذہنیت کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے۔جب ۱۹۳۵ ءمیں صوبوں میں کانگریسی حکومت بنی تو اس نے اسلام دشمنی کی انتہاء کر دی۔ چنانچہ مولانا صاحب نے جو رسالہ ۳۵ ءایکٹ میں لکھا اس میں اس رویے کی پر زور تردید کی۔

حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جب مولانا صاحب ہندوستان واپس پہنچے تو ہندوستانی لیڈروں سے ملا قاتیں کیں، اس وقت یہاں کا ماحول کام کرنے کے لیے نہایت موزوں تھا۔ قائد اعظم کی مولانا سے ملاقاتیں ان کے لیے (قائد اعظم)انتہائی مفید ثابت ہوئیں۔ کیونکہ ابھی تک مسلم لیگ کے سامنے کوئی مثبت پہلو نہیں تھا کہ کیا کریں؟ چنانچہ مولانا صاحب کی صحبت کی بنا پر جناح صاحب نے ایک الگ اسلامی حکومت (پاکستان) حاصل کر نے کی منصوبہ بندی کی۔ مولانا صاحب نے جناح صاحب سے کہا کہ خواہ تھوڑی ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ جگہ ضرور حاصل کر لو۔ہندو اپنی متعصبانہ فطرت کی وجہ سے ہم سے کوئی تعاون نہیں کر سکے گا۔اور اس کے ساتھ ہی سرحدوں پرہم (مجاہدین) کو آباد کر دینا، پھر ہم جانیں اور ہندو جانیں۔۔ حافظ محمد یوسف صاحب فرماتے ہیں کہ میں۱۹۴۶ ءمیں مولانا صاحب سے ملا تو انہوں نے پرزور انداز سے مسلم لیگ کی حمایت کی اور فرمایا کہ جناح کو صرف داڑھی منڈا نہ دیکھو، اس کے پہلو میں اللہ تعالیٰ نے سیمابی دل رکھا ہے جس میںبے انداز تڑپ اور مسلمانوں کی ہمدردی ہے اورمولانا محترم نے یہ بھی حکم دیا کہ مسلم لیگ کو ہر قیمت پر کامیاب کروا ئو۔

مولانا را غب احسن صاحب سابقہ امیر جماعت مجاہدین شمالی ہند (۴۰ ۱۹۔۱۹۴۸ ء)ایک تعارفی چٹھی میں لکھتے ہیں: مولانا فضل الٰہی صاحب علیہ الرحمہ امیر جماعت مجاہدین سلسلہ سید احمد شہید بریلوی مرکز چمرکند کا ہندوستان میں داخلہ، تحریک خلافت۱۹۱۹ء سےبرٹش گورنمنٹ نے ممنوع کر رکھا تھا۔جب۱۹۴۰ ء میں قرارداد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی تومحترم امیر المجاہدین چمر کند، یاغستان اور آزاد سرحد سے خفیہ طور پروارد ہوچکے تھے۔اور انہوں نے اکابر مسلم لیگ اور قائد اعظم سے کئی کئی ملاقاتیں کیں۔بنگال ، بہار، چھوٹا ناگپور اور دکن میں جماعت مجاہدین کی از سر نو تنظیم کی اور کئی شاخیں قائم کیں۔قائد اعظم کے ساتھ مجاہدین کا میثاق استوار کیا۔ قائد دکن نواب بہادر یار جنگ صدر مجلس حیدرآباد دکن ، اس خادم کی تحریک پر باضابطہ طور پرمولانا فضل الٰہی رحمہ اللہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر کے داخل جماعت ہوئےاورعلاقہ دکن کے امیر مقرر کیے گئے۔ بنگال، بہار، سی پی اور یو پی کے اکابر نے بھی جماعت کی رکنیت اختیار کی اور اس طرح کلکتہ میں تنظیم مجاہدین کا ایک مرکز قائم ہوا۔

محترم مولانا فضل الٰہی صاحب پاکستان کے متعلق تمام مشوروں میں برابر شریک رہے اور بقول ’’ قومی دلیر‘‘ (مجریہ۲۱اگست ۱۹۶۲ء) جب دہلی میں تقسیم ہند پر بحث ہورہی تھی اس وقت بھی مولانا دہلی ہی میں موجود تھے اور جب شملہ مشن سے گفت وشنید ہو رہی تھی اس وقت بھی آپ نفس نفیس تشریف فرما تھے۔ حافظ محمد یوسف گکھڑوی فرماتے ہیں:میں نے جہاد کشمیر کی مہم پر جانے کے لیے مولانا محترم کو اطلاع دی توآپ نے مجھے بھی اجازت مرحمت فرمائی اور اپنے اکلوتے بیٹے محمد سلیمان کو بھی تیار کیا اور اپریل۱۹۴۸ ء میں ہمیں الوداع کہنے آئے اور اپنی ذاتی رائفل جو ترکی کی حکومت کا اسلحہ تھااورجرمنی ساختہ تھی اور دو ہزار گز تک مار کرتی تھی، سردار عبدالقیوم صاحب کے (سابق صدر آزاد کشمیر)ہاتھ سے دلوائی، کیونکہ سردار صاحب نے بھی مولانا صاحب کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی ہوئی تھی۔

محترم مولانا فضل الٰہی صاحب کی وفات کا سانحہ فاجعہ کا سبب حکومت کا کشمیر کے محاذ پرجنگ بندی کا حکم بنا۔ اس حادثہ کا وزیرآبادی کو اتنا شدید صدمہ ہواکہ زندگی کی بازی ہی ہار بیٹھے ۔ کشمیر کے محاذ پر جنگ بندی کے دکھ نے مولاناکو صاحب فراش کر دیا اور اسی جا نکاہ صدمہ اور رنج و الم کی کیفیت میں اسلام کی عظمت و سربلندی کا یہ بطل جلیل۵ مئی ۱۹۵۱ ء کو اس عالم فانی سے پردہ کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مولانا فضل الٰہی کی وفات پر اللہ کے ایک بہت بڑے ولی کامل، صاحب کشف و کرامات بزرگ حاجی عبد العزیز رحمہ اللہ نے لوگوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: آج دنیا سے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسب سے بڑا خیر خواہ مجاہد اٹھ رہا ہے جو را ت رات بھر امت کے لیے سجدوں میں روتا تھا۔اب اس امت پر اس طرح رونے والا کون ہوگا؟ اس وقت اس دنیا میں اس مجاہد کی مثال نہیں ہے۔

امیر محترم مولانا فضل الٰہی صاحب نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے مشہدبالاکوٹ میں لے جاکر دفن کرنا۔ چنانچہ بذریعہ ٹرک میت کو بالا کوٹ لے جاکر لب سڑک اس قبرستان میں دفنا دیا گیا ، جہاں امیر المجاہدین سیدین شہیدین سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ اور شاہ اسمٰعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ بھی آسودۂ خاک ہیں۔

آسما ں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے