اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ اپنے ماننے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔اور مخالفین کی عزت و آبرو کی حفاظت اور مکمل حقوق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اس لیے کہ اسلام کا تصور حقوق انسانی جامع و ہمہ گیر ہے جبکہ اہل مغرب کا تصور حقوق انسانی صرف نعرے کی حد تک محدود ہے حالانکہ وہ حقوق انسانی کے محافظ و نگہبان ہونے کے دعویدار بھی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں پہلے اہل مغرب کا تصور حقوق انسانی اور اس کے ارتقاء کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جائے گا اور پھر اسلام کے عطاکردہ انسانی حقوق کو بیان کیا جائے گا۔

مغرب میں حقوق انسانی کی تاریخ

بنیادی حقوق کی جدوجہد کا اصل آغاز گیارہویں صدی میں برطانیہ سے ہوا جہاں 1037 میں کانریڈ ثانی (Conrad ii)ءنے ایک منشور جاری کر کے پارلیمنٹ کے اختیارات متعین کیے اس منشور کے بعد پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات میں توسیع کی کوشش کر دی1188  میں الفانسونہم (Alfonse) سے قانون حبس بے جا تسلیم کرایا گیا۔ 15جون 1215؁ کو میگنا کارٹا (Magna carat) جاری ہو ا جیسے’’ منشور آزادی ‘‘قرار دیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ (Magna carat) برطانیہ میں ’’بنیادی حقوق ‘‘ کی اہم ترین اور تاریخ ساز دستاویز ہے۔

اہل مغرب کا یہ قاعدہ رہا ہے کہ وہ ہر اچھی چیز کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ نعمت بس ہمارے ذریعے سے دینا کو ملتی ہے ورنہ دنیا ان چیزوں سے ناآشنا اور نری جہالت میں تھی بڑے دعوے سے کہا جاتا ہے کہ حقوق انسانی کا تصور لوگوں کو برطانیہ کے میگنا کارٹا کے ذریعے سے نصیب ہوا ہے۔ اگرچہ میگناکارٹا اسلام کےچھ سو سال بعد کی چیز ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ سترہویں صدی سے پہلے اہل مغرب میں حقوق انسانی اور حقوق شہریت کا کوئی تصور موجود نہ تھا سترہویں صدی کے بعد بھی ایک مدت دراز تک فلسفیوں اور قانونی افکار پیش کرنے والے لوگوں نے ضرور اسی خیال کو پیش کیا تھالیکن عملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکہ اور فرانس کے دستوروں اور اعلانات ہی میں ملتا ہے اس کے بعد مختلف ملکوں کے دستوروں میں بنیادی حقوق کا ذکر ضرور کیا گیا ہے مگر یہ صرف کاغذی کاروائی تک ہی محدود رہا عملاً اس کا مظاہرہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور متعدد نئے یورپی ممالک کے دساتیر میں بنیادی حقوق شامل کئے گئے 1940؁میں مشہور ادیب ایچ، جی ویلز (H.G.wells) نے کانگریس سے چار آذادیوں کی حمایت کرنے کی اپیل کی۔ اگست 1941 میں منشور اوقیانوس (Atlantic charter) پر دستخط ہوئے جس کا مقصد بقول چرچل ’’انسانی حقوق‘‘ کی علمبردار کے ساتھ جنگ کا خاتمہ تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد تحریری دساتیر میں بنیادی حقوق کی شمولیت مزید نمایاں ہو گئی۔ فرانس نے اپنے 1947؁ کے دستور میں 1889؁ کے منشور انسانی حقوق کو شامل کیا اسی سال چاپان نے بنیادی حقوق کو دستور کا حصہ بنایا 1947؁ میں اٹلی نے اپنے دستور میں انسانی حقوق کی ضمانت دی۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کی جانی والی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر 10 ستمبر 1947 ؁ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی منشور کا اعلان کیا جس میں وہ تمام حقوق سمیٹنے کی کوشش کی گئی جو مختلف یورپی ممالک کے دساتیر میں شامل تھے۔ جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے وقت اس منشور کے حق میں 48 ووٹ آئے۔ 8 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جن میں روس بھی شامل تھا۔

انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات

اسلام زندگی کا ایک عملی نظام ہےاور اس دنیا کے تمام اور جملہ مسائل پر حاوی ہے اور ان کا کوئی پہلو اس کی گرفت سے آزاد نہیں۔ دراصل اسلام حقوق انسانی کا بہت وسیع تصور رکھتا ہے اسلامی نقطہ نظر سے اس میں وہ تمام حقوق شامل ہیں جو حالت جنین سے لےکر زندگی کے آخری مراحل تک بلکہ قبر کی مٹی میں حلول کرنے تک بحیثیت انسان ایک شخص کےلیے قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ یہ شریعت اسلامیہ کے پورے مجموعہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور قانون کی کسی خاص شاخ یا شق میں محدود نہیں ہیں اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسانی زندگی کے تمام تعلقات و روابط کو منضبط کرتا ہے خواہ وہ مسائل سیاسی ہو یا اقتصادی ومعاشرتی ان کےلیے موزوں ضابطے اور قواعد مرتب کر کے انہیں عملاً نافذ کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بحیثیت انسان مخاطب کرتے ہوئے اس کے اہم ترین مسائل کو حل کرنے کا راستہ بتایا ہے ان مسائل میں یہ مسئلہ بھی شامل ہے کہ انسان اپنے دیگر انسانی بھائیوں کےساتھ کیا رویہ اپنائے۔اللہ رب العزت نے انسانوں کو پیدا کرنے کے بعد انہیں دو چیزوں کے بارے میں ڈرنے اور لحاظ رکھنے کا حکم دیا ایک تو اللہ تعالی کی ذات اقدس سے اور دوسرا رشتے ناطے توڑنے سے۔ رشتوں کا اطلاق اسی انسانی سلسلہ پر ہوتا ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے چاہے ان کے درمیان زمان و مکان کی دوری ہو خواہ ان کی زبانیں اور رنگ جتنے بھی ہوں اور چاہے ان کے سماجی و اقتصادی حالات میں جتنا بھی فرق ہو۔ بنی نوع انسان کو بلا تخصیص مذہب و ملت اس کا پابند بنایا گیا کہ وہ انسانی اخوت اور باہمی تکافل سے غافل نہ ہوں چونکہ اللہ تعالیٰ ہمہ وقت ان کی نگرانی کر رہا ہے اسی طرح اجتماعی زندگی میں بھی انسان مختلف حیثیتوں یا رشتوں سے ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور ایک دوسرے پر بہت سے حقوق کا پابند بھی ہے اسلام کا تصور حقوق انسانی ان تمام سے بحث کرتا ہے جن کا مختصراً جائزہ پیش ہے۔

1۔ حرمت جان یا جینے کا حق:

اسلام میں ہر شخص کو خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم یہ حق دیا گیا ہے کہ اس کی جان محفوظ رہے گی لیکن یہ حفاظت اور زندگی کی ضمانت دو شرطوں سے مشروط کر دی گئی ہے اول یہ کہ وہ کسی دوسری جان کو ختم نہ کرے۔ دوم یہ کہ وہ زمین میں فساد برپا نہ کرے قرآن مجید میں دنیا کے سب سے پہلے واقعہ قتل کا ذکر کیا گیا ہے یہ انسانی تاریخ کااولین سانحہ تھا جس میں ایک انسان نے دوسرے انسان کی جان لی اس وقت اللہ رب العزت نے انسان کو انسانی جان کا احترام سکھایا اور اسے بتایا کہ ہر انسان جینے کا حق رکھتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا} [المائدۃ: 32]

جس شخص نے کسی دوسرے کو علاوہ جان کے بدلہ یا زمین میں فساد بپا کرنے کی غرض سے قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو ہی مار ڈالا اور جس نے کسی کو (قتل ناحق سے) بچا لیا تو وہ گویا سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوا

ایک اور مقام پر فرمایا:

{وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ}

اور یہ کہ جس جان کے مارنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو الا یہ کہ حق کے ساتھ ہو ۔ [انعام: [151

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص کی لاش ملی مگر اس کے قاتل کا پتہ نہ چل سکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کے عالم میں خطبہ دیا اور فرمایا ’’ اے لوگوں کیا بات ہے؟ میرے ہوتے ہوئے آدمی قتل کیا جاتا ہے اور اس کے قاتل کا پتہ نہیں چلتا ایک آدمی کے قتل پر اگر آسمان و زمین کی تمام مخلوق بھی متفق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو سزا دیئے بغیر نہ چھوڑے گا۔

2 ۔ تحفظ ملکیت:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تحفظ ملکیت کا واضح طور پر حکم دیا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔[البقرۃ: [188

یعنی اللہ رب العزت نے ان تمام طریقوں کو باطل قرار دیا ہے جن کے ذریعے کسی دوسرے شخص کا مال یا کوئی ملکیت ناجائز طریقے سے حاصل کی جاسکتی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے لیے جو زمین منتخب کی وہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی انہوں نے اپنی افتادہ زمین بلاقیمت دینے کی پیشکش کی مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت کا تخمینہ لگوایا اور اس وقت کی عام شرح کے مطابق معاوضہ دے کر یہ زمین حاصل کی۔ اسلام میں کسی شخص یا حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون توڑ کر اور ان متعین شکلوں کے علاوہ جو خود اسلام نے واضح کر دی ہیں کسی کی ملکیت پر دست درازی کرے۔

خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمت جان کے ساتھ حرمت مال کے بارے میں بھی واضح طور پر احکامات جاری کئے۔ تحفظ ملکیت کے حق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے۔

3۔ مساوات کا حق:

اسلام نے تمام نوع انسانی میں مساوات قائم کی اور رنگ، نسل، زبان اور قومیت کی بنا پر سارے امتیازات کی جڑ کاٹ دی۔ اسلام کے نزدیک یہ حق انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْاۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ [سورہ الحجرات 13]

اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لئے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں بھی ارشاد فرمائی، فرمایا:

لاَ فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلاَ لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ , وَلاَ أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ , وَلاَ أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ إِلاَّ بِتَقْوَى اللهِ (مسند احمد جلد 5 صفحہ411)

کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر،ماسوا تقویٰ کے۔

یعنی نسبی لحاظ سے کسی کو کوئی فضیلت نہیں،یعنی اللہ رب العزت حسب نسب کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔

اگر اللہ رب العزت حسب نسب کی طرف دیکھ کر فیصلہ فرماتے تو ابراہیم علیہ السلام کا والد، نوح علیہ السلام کا بیٹا اور لوط و نوح علیہما السلام کی بیویاں اپنے کفر کے باوجود یہ سب لوگ بخشے جاتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ غرض یہ کہ تمام انسان یکساں ہیں اگر کسی کو فضیلت حاصل ہے تو وہ اخلاق و تقویٰ کے اعتبار سے ہے۔

4۔ کمزوروں کی مدد و نصرت:

کمزوروں کی مدد و نصرت میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا ایک مستحسن عمل ہے جس کی اسلام قدر کرتا ہے اور ایسا شخص قربت خداوندی اور اللہ کی مدد و نصرت کا مستحق ٹہرتا ہے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

وَاللَّهُ فِى عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِى عَوْنِ أَخِيهِ (صحيح مسلم ـ(8/ 71)

اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد میں لگارہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔

اسلام ہمیشہ کمزور بے سہارا اور معزور لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی اور انکی مدد و نصرت پر زور دیتاہے مالدار لوگوں کو اپنے سے کمتر اور کمزوروں کی مدد کی تلقین کرتا ہے جیسے کہ زکوٰۃ کا نظام ہے جو کہ امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔

5۔ تحفظ ناموس خواتین :

اسلام کا ایک اور عطاکردہ اصولی حق جس کی مکمل تفصیلات ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہیں وہ عورت کی عزت و عصمت کا تحفظ ہے حتی کہ اگر جنگ میں بھی دشمنوں کی عورتوں سے سابقہ پیش آئے تو اسلام ان پر ظلم کرنے سے منع کرتا ہے۔

6۔ تحفظ آبرو:

اسلام اپنی حدود میں رہنے والے ہر شہری کو اس کا حق ادا کرتاہے او راسکی عزت و آبرو کا تحفظ کرتا ہےجیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حج الوداع میں جان ومال کے ساتھ حرمت نفس اور تحفظ آبرو کا بھی حکم دیا اسلام کسی کا مذاق اڑانے یا کسی کو اپنے سے کمتر سمجھنے سے منع کرتاہے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ [الحجرات 11]

اے ایمان والو! (تمہارا) کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں ۔ نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی نہ کرو ۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے برے نام رکھو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں ۔

حتی کہ اسلام کسی شخص کی اسکی پیٹھ پیچھے برائی کرنے سے بھی روکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا [الحجرات 12]

اور نہ ہی تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت کرے۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنےمتعدد ارشادات میں لوگوں پر ظلم کرنے انکی توہین کرنے انکی تذلیل و تحقیر کرنے اور غیبت کرنے سے سختی سےروکا ہے۔

7۔ نجی زندگی کا تحفظ:

اسلام نےلوگوں کی نجی زندگی کو مکمل تحفظ فراہم کیا ہے اور گھر کی چاردیواری کو ایک محفوظ قلعہ کی حیثیت دی گئی ہے جس میں مداخلت کا کسی کو بھی حق نہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَاۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ، فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ [النور 27۔28]

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو ۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ تو جب تک تمہیں اجازت نہ ہے اس میں داخل نہ ہونا۔ اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ۔ یہ تمہارے لئے زیاد پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے گھر میں بھی آواز یا دستک دے کر داخل ہونے کی ہدایت فرمائی ہے اسی طرح گھروں میں تاک جھانک سے بھی منع کیا گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شخص کسی گھر میں جھانکتے دیکھے کسی کو دیکھے اور وہ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔

اسلام میں نجی زندگی کا تحفظ اس حد تک کیاگیا ہے کہ کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان کی جاسوسی یاعیب جوئی سے بھی منع کردیا گیا ہےجیسا کہ ارشاد ربانی ہے ’’ولاتجسسوا‘‘اور تم کسی کی جاسوسی (تجسس) نہ کرو۔اسلام نجی زندگی معاملات کی ٹوہ میں لگے رہنے اور تجسس میں لگے رہنے کی سخت مذمت کرتاہے۔

8۔ شخص آزادی کا تحفظ:

شخصی آزادی کے تحفظ سےمراد اسلام کا عطاکردہ وہ حق ہے جس کے ذریعے کسی انسان کو بلاوجہ قید نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی کے گناہ کی سزا کسی اور کو دی جاسکتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام: 164]

اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

اس آیت کی رو سے اسلام تمام انسانوں کو بلا تفریق مذہب و ملت شخص آزادی کا تحفظ فراہم کرتا ہے حتی کہ اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو اسلام عفوودرگزر سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے تاکہ انسانیت زندہ رہے آپس میں الفت و محبت کا جذبہ برقرار رہے۔

9۔حفاظتِ مال:

اسلام تمام انسانوں کو ان کی املاک کے تحفظ کا حق دیتا ہے کسی کا مال ناجائز طریقے سے ہڑپ کرنے کی ممانعت اللہ رب العزت نے اس طرح کی ہے۔

{وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔[البقرۃ: [188

اسی طرح کسی کے مال یا املاک کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے جیسا کہ آجکل سیاسی و مذہبی جماعتیں جب تک لوگوں کے املاک کو نقصان نہ پہنچادیں اس وقت تک ان کو اپنا احتجاج مکمل احتجاج نہیں لگتا اسلام اس قسم کے احتجاج کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

10۔ اظہار عقیدہ کی آزادی:

اسلام ہر انسان کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کا آزادانہ اظہار کر سکتاہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ‘‘ دین میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں۔(سورۃ البقرۃ (256

یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ مسلمانوں نے کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کردیا ہے اسلام تو ایک مکمل نظام حیات ہے جو تمام انسانوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں مذہب اختیار کرلیں لیکن یہ ضرور بتاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی دین قابل قبول ہے تو وہ دین اسلام ہے۔

درج بالا حقوق کے علاوہ اور بھی بہت سے حقوق ہیں جیسے عزت کا حق عمل غیر سے برأت کا حق ظلم کے خلاف احتجاج کا حق و غیرہ جن کی تفاصیل کتب احادیث و تفاسیر میں تفصیلاً موجود ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے