نحمدہ   ونصلی علی رسولہ الکریم

لغوی معنی :

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم لفظ ’’صوم ‘‘ جسے قرآن حکیم میں ایک خاص عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا ہے،کہ لغوی معنی متعین کریں اور پھر دیکھیں کہ اس کا کیا مفہوم ہے ۔ اس لفظ کا مادہ ص۔ و ۔ م ہے اور صوم کا لغوی معنی ہے کام سے رک جانا۔کسی جگہ پر ٹھہر جانا ۔ کھانے پینے، گفتگو کرنے اور چلنے سے رک جانے کو بھی صوم کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے لحاظ سے ’’صوم‘‘ کا اطلاق صرف روزے پر ہی نہیں ہوتا بلکہ عربی میں کہتے ہیں: صامت الریح:ہوا تھم گئی۔ صام النہار: ظہر کا وقت ہوگیا۔ (کیونکہ اس وقت آفتاب نصف النہار پر رکا ہوتا ہے) اس سے پھر ’’صامت الشمس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی سورج نصف النہار پر مرکوز ہے۔لہٰذا ’’ صوم الصائم‘‘ سے مراد کھانے پینے اور ان تمام امور سے باز آجانا ہے جن سے اسے منع کیا گیا ہو۔ گفتگو سے رک جانے کو بھی ’’صوم‘‘ ہی کہتے ہیں۔ سورۃ مریم میں ہے:

اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا

کہ میں نے اللہ کے لئے روزہ کی نذر مانی ہے۔

فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا

لہٰذا آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی۔

قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کہ سیدۃ مریم علیہا السلام کا وہ روزہ کھانے پینے سے رک جانے کا نہ تھا کیونکہ اس سے پہلے خود خداوند کریم کی طرف سے انہیں حکم ہوا تھا: ’’فَکُلِیْ وَاشِربِیْ ‘‘کھجوریں کھا اور چشمے کا پانی پی۔

ہاں اگر کوئی آدم زاد آئے تو کہہ دینا کہ میں نے خدا کی رضا کے لیے چپ کا روزہ رکھا ہے۔

عربی میں بعض اوقات ’’قائم ‘‘ کو ’’ صائم‘‘ بھی کہتے ہیں اس لیے کہ وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوتا ہے۔ نابغہ کا ایک شعر ’’صوم‘‘ کے اس لغوی معنی کو واضح کرتاہے:

خیل صیام وخیل غیر صائمۃ
تحت العجاج وخیل تعلک اللجما

غبار جنگ کے سائے تلے کچھ گھوڑے ثابت قدم (صائم) ہیں اور کچھ گھوڑے حرکت کرتے ہوئے (غیر صائمہ) اپنی لگاموں کو چبا رہے ہیں۔

ابو عبیدہ نے لکھا ہے کہ ’’ ہر وہ شخص جانور یا چیز جو کھانے سے گفتگو سے یا چلنے سے رک جائے اسے ’’ صائم ‘‘ کہتے ہیں۔

اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہو اکہ صوم لغوی معنی ہے کام سے رک جانا خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو۔

اصطلاحی معنی:

اس لغوی معنی کو سامنے رکھتے ہوئے ’’صوم ‘‘ کا اصطلاحی معنی یہ ہوگا کہ انسان کا سحری کھا لینے کے بعد غروب آفتاب تک نہ صرف کھانے اور پینے سے رک جانا بلکہ زبان کا جھوٹ، غیبت، چغلی اور یاوہ گوئی سے رک جانا، ہاتھوں کا کسی کو ایذا دینے سے رک جانا، پاؤں کا غیر شرعی سفر سے رک جانا، کانوں کا جھوٹ، غیبت، چغلی اور بیہودہ باتوں کے سننے سے رک جانا، نگاہوں کا خیانت سے رک جانا، غرضیکہ ’’صوم‘‘ کا صحیح مفہوم ہی یہ ہے کہ ہر برائی اور ہر خطا سے اپنے دامن کو بچانا اور خدائے کریم کی مقرر کردہ حدود میں پابند رہنا۔

نماز ایک عبادت ہے۔ اس کی کچھ شرائط اور کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔مثلاً اگر بلا وضو نماز ادا کی جائے تو نماز نہیں ہوتی، یا نماز پڑھتے پڑھتے کسی سے گفتگو شروع کردی تو بھی نماز باطل قرار پائے گی۔ بالکل اسی طرح اگر روزہ رکھ لینے کے بعد انسان جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، بیہودہ گوئی، سبّ و شتم اور دوسرے اعمال بد سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا تو پھر یہ روزہ، روزہ نہیں بلکہ فاقہ ہے۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے:

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

(روزہ رکھنے کے بعد) جو شخص جھوٹ اور غلط کاموں کو ترک نہیں کرتا تو خدا کو اس کی بھوک اور پیاس کی کوئی ضرورت نہیں۔صحيح البخاري ـ (3/ 33)

روزہ کی حکمت:

خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لیے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نماز خدا کے وصال کا ذریعہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے معبود حقیقی سے گفتگو کرتا ہے۔ بعینہ روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ جہاں نماز کے بارے میں یہ ارشاد ہے:

{ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ} [العنكبوت: 45]

کہ نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} [البقرة: 183]

اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بنو۔

اس آیت میں روزے کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ یہ تقویٰ کا باعث ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ روزہ دوسری تمام عبادات سے بوجوہ منفرد ہےکہ یہ خدا اور بندے کے درمیان راز و نیاز کا معاملہ ہے جب کہ دوسری تمام عبادات مثلاً نماز، حج اور قربانی وغیرہ ظاہری عبادات ہیں جو ظاہری حرکات و سکنات سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کے باعث ان عبادات میں ریا وغیرہ کا عمل دخل ممکن ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کا عامل ظاہری حرکات و سکنات سے بے نیاز ہونے کے باعث ریا جیسی بیماری سے جو کہ بڑی بڑی عبادتوں پر پانی پھیر سکتی ہے، محفوظ و مامون ہے اس لیے کہ روزہ دار کے روزہ کی حقیقت (کہ وہ روزے سے ہے یا نہیں) خداوند تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتی۔مثال کے طور پر ایک آدمی وضو کرتے ہوئے تین دفعہ کلی کرتا ہے۔ اس وقت پانی اس کے منہ میں ہوتا ہے، وہ چاہے تو اس پانی کا اکثر حصہ اپنے حلق میں اتار سکتا ہےاور اللہ کے سوا کسی دنیا کی کوئی طاقت اس کی اس حرکت کو نہیں دیکھ سکتی، لیکن ایک چیز اسے پانی کا ایک قطرہ بھی شدید پیاس کے باوجود حلق میں اتارنے سے باز رکھتی ہےاور یہ چیز خداوند کریم کا خوف ہے جس کا دوسرا نام تقویٰ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اپنی خواہش پر اس نے غلبہ پالیا اور یہ تقویٰ (خواہشات کنٹرول) انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے مثلاً اگر وہ دکاندار ہے تو میزان میں کمی پیشی کا مرتکب نہ ہوگا اگر کپڑے کا تاجر ہے تو ماپ میں ہیرا پھیری کی خواہش کا گلا گھونٹ دے گا۔اگر کسی میڈیکل ہال کا مالک ہے تو دواؤں پر ناجائز منافع حاصل کرکے حصول زر کی خواہش کا احترام نہ کرے گا اور اگر ڈاکٹر ہے تو پانی میں رنگ ملاکر غریب مریضوں کا خون چوسنے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کا حصول اس کے لیے ناممکن ہوگا۔ علیٰ ہذا القیاس روزہ انسان کے نفس کی اس طرح سے تربیت کرے گا کہ ہر لمحہ خوف خدا اس کو گناہوں سے باز رکھے گا اور رضا الٰہی اس کا مقصود ہوگی جو خداوند کریم سے اس کی قربت کا باعث بنے گی۔ اس لیے خداوند کریم نے فرمایا:

يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ

کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر عطا کروں گا۔صحيح البخاري (9/ 175)

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ روزہ کے علاوہ باقی عبادات خداوند کریم کے لیےنہیں ہیں اور ان کا اجر بھی کوئی اور عطا کرے گا بلکہ اس کی وجہ روزے کی افضلیت ہے کیونکہ یہ خالق و مخلوق مالک و مملوک اور بندہ و آقا کے درمیان ایک راز کی حیثیت رکھتا ہے جس کی حقیقت ماسوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کا خصوصی اجر عطا فرمائیں گے۔

دوسری حکمت یہ بیان فرمائی:

{وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [البقرة: 185]

تاکہ تم روزوں کی گنتی پوری کرو۔ (یعنی روزے پورے رکھو) اور ساتھ ساتھ خداتعالی کی بزرگی اور عظمت کے گن گاؤ اس لیے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی تاکہ تم اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ۔

گویا روزے میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ ہم خداوند کریم کی قدرومنزلت پہچانیں اور اس کی ان نعمتوں کا جو ہم کھاتے ہیں شکر بجالائیں اور ظاہر ہے یہ چیز بھی رضا و خوشنودی الٰہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے قربت کا ایک ذریعہ ہے۔

روزے کے فوائد مادی اور روحانی

اسلامی عبادات میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی پاکیزگی کا التزام ہر جگہ موجود ہے۔نماز اگر آئینہ دل کو مجلّی اور مصفی کرتی ہے تو وضو جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے لیے نماز کی اولین شرط قرار پایا۔ اسی طرح عورت کو نقاب اوڑھنے کا حکم دیا تو ساتھ قید بھی لگائی:

{قُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ}

کہ اے رسول ﷺ مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔[النور: 31]

اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس عورت کی نگاہ عصمت و عفت اور فطری حیا سے خالی ہے اس کے لیے اگر لاکھ نقابوں کا اہتمام بھی کر لیا جائے تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لیے ’’يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ ‘‘ کی ضرورت پیش آئی۔

روزہ بھی اس حکمت سے خالی نہیں۔ روزہ سے جہاں انسان کی باطنی طہارت اور روحانی صحت کا التزام کیا گیا ہے وہاں اس کی جسمانی صحت اور نظام انہظام کی خرابیوں کا علاج بھی اس میں موجود ہے۔

پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کثرت خوری اور وقت بے وقت کھانا معدے کی امراض کا موجب ہیں۔اس سے جسمانی نشوونما صحیح طریق پر نہیں ہوتی بلکہ غیر متناسب غذا کھانے کے غیر متعین اوقات کی بدولت اکثر لوگ لب گور پہنچ جاتے ہیں۔ سال بھر کی ان بے قاعدگیوں کو روکنے و صحت اور تندرستی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کے لیے یہ لازم تھا کہ انسانوں کو تیس روز تک پابند کیا جاتا کہ وہ متعینہ وقت پر کھائیں پئیں اور مقررہ وقت کے بعد کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لیں۔یہ کیسی حکمت ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی صحت بھی حاصل کرتا ہے اور روح کی بالیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت بتدریج کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ رمضان میں اکثر لوگوں کی بیماریاں محض کھانے کے اوقات کی پانبدی کی بنا پر خود بخود دور ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے مفسرین اور ائمہ مجتہدین نے روزے کی دوسری حکمتوں کے ضمن میں حکمت صحت جسمانی کا ذکر بھی کیا ہے۔

خود نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے۔ یعنی جس طرح زکوٰۃ دینے سے مال پاک ہو جاتا ہےاسی طرح روزہ رکھنے سے جسم بھی بیماریوں سے پاک ہو جاتا ہے۔

بسیار خوری سے مادیت کا غلبہ بڑھتاہے اور شہوانی جذبات حملہ آور ہوتے ہیں۔ روزے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے سے جسمانی اعضاء میں کچھ کمزوری آجاتی ہے جس سے شہوانی جذبات کے حملے ٹھنڈے پڑجاتے ہیں بھوک اور پیاس جنسی جذبات کی برانگیخت کو کچل دیتے ہیں۔

رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

’’الصوم جنۃ‘‘ کہ روزہ ڈھال ہے۔

اس سے مراد صرف یہی نہیں کہ یہ صرف دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ روزہ جنسی ہیجان نیز مادی اور روحانی ہر قسم کی بیماریوں کے لیے ڈھال ہے۔ اس طرح کہ بھوک پیاس اس کی جنسی خواہشات کو دبا کر اسے خداوندکریم کی طرف راغب کرتے ہیں۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ(صحيح البخاري ـ(7/ 3))

اے نوجوانو! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی توفیق ہو اسے چاہیے کہ ضرور نکاح کرے کیونکہ نکاح شرم و حیا اور شرمگاہ کی حفاظت کےلیے سب سے زیادہ مفید ہے اور جس نوجوان کو نکاح کی استطاعت نہ ہو اسے لازم ہے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ جنسی ہیجان کا تدارک کرتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزہ جسم اور روح کے توازن کو برقرار رکھنے کانام ہے جسد انسانی سے مادیت کے طوفان ہر آن اٹھتے رہتے ہیں۔ اگر ان طوفانوں کے سامنے بند نہ باندھا جائے تو یہ خاکی بدن ہویٰ و ہوس کا مظہر بن کر رہ جائے، خواہشات نفسانی اس قدر سرکش اور غالب ہو جائیں کہ انسان ان پر کنٹرول نہ کر سکے۔ لہٰذا خداوند کریم نے ضبط نفس اور مادیت کے غلبے سے بچانے کے لیے روزے جیسی عظیم عبادت کا انعام اسے عطافرمایا تاکہ اس کی روح اور جسم میں توازن برقرا ر ہے اور نفس انسانی مطیع و منقاد ہو کر خدا کی یاد میں مگن رہے۔

یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے مذکورہ بالا حدیث سے یہ مطلب ہر گز اخذ نہیں کرنا چاہیےکہ اسلام رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے اور بدھ مذہب یا ہندومت کی طرح نفس کشی کی ترغیب دیتا ہے بلکہ اس حدیث کے بارے میں فقہاء کا استدلال یہ ہے کہ روزے سے انسان خوراک کی ایک متناسب مقدار پر قناعت کرنے پر مجبور ہوتا ہے جس سے اس کے بدن میں کمزوری تو ضرور آتی ہے جو بدن میں جنسی تحریک کی مدافعت کا باعث بنتی ہے لیکن غذا کی کمی اسلام کا منشا نہیں۔ اسلام یہ سبق نہیں دیتا کہ انسان ایسی ضروری غذا سے بھی اپنے آپ کو محروم کرے جس سے اس کی صحت کا دیوالیہ نکل جائے۔ غذا کو اس حد تک کم کر دینا جو بدن میں قوت و توانائی برقرار نہ رکھ سکے یا ایسی ریاضت یا محنت شاقہ جس میں بدن ٹوٹ ٹوٹ جائے، ریاضت یا عبادت نہیں بلکہ وہ ایک سزا ہے اور خدا اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، وہ نہیں چاہتا کہ انسان اپنے آپ کو خواہ مخواہ ہلاکت کے سپرد کر دے۔ اسی لیے فرمایا:

{وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ}[النساء: 29]

کہ تم اپنی جانوں کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو۔

دوسری جگہ فرمایا:

{يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ}

وہ (خدا) تمہیں سہولت دینا چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔[البقرۃ: 185]

پھر رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے:

الْمُؤْمِنُ الْقَوِىُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِى كُلٍّ خَيْرٌ

طاقتور مومن خدا کو نحیف و نزار مومن سے زیادہ محبوب ہے اور ان دونوں میں بھلائی ہے۔صحيح مسلم (8/ 56)

پس روزے کا مقصد یہ نہیں کہ اس سے جنسی جذبات کا خاتمہ مقصود ہے بلکہ روزہ تو ایک ایسی پوشیدہ عبادت ہے جس کا ظاہر داری سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی اہمیت بھوک پیاس نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان ہر قسم کی خواہشات نفس سے بچا رہے، خطاؤں سے اجتناب کرے، اپنے نفس کی اصطلاح اور اس کی پاکیزگی و طہارت پر کمر بستہ رہے تاکہ روزہ اس تقویٰ کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے جس کے لیے یہ فرض کیا گیا ہے۔

روزہ مشکل مہمات میں ثابت قدم رہنے میں بھی ممد و معاون ہے۔ روزے کا مقصد ضبطِ نفس ہے اور ضبط نفس اصل جہاد ہے۔ اگر انسان میں بھوک پیاس برداشت کرنے کی ہمت پیدا نہ ہوگی تو وہ مشکلات کا مقابلہ نہ کر سکے گا۔ اسلام میں جہاد بھی ایک فرض اور ایک عبادت ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے بلند حوصلہ استقامت اور مہم جوئی کی خصوصیات مطلوب ہیں۔ ہر قسم کے تلخ اور تندو موسم میں سفر کرنے والے مجاہدوں کے لیے صبر اور بھوک پیاس برداشت کرنے کی عادت ایسی صفات ہیں کہ ان کے بغیر مجاہد صحیح معنوں میں مجاہد نہیں کہلا سکتا۔نبی کریم ﷺ نے ننگے پاؤںچلنے کی مشق کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ مسلمان کی زندگی میں ایسے حالات بھی رونما ہو سکتے ہیں جہاں اسے جسمانی مشقتیں برداشت کرنا پڑیں یا فاقہ کشی کی نوبت آئے۔ موسم گرم ہو یا سرد، دن ہو یا رات، سفر ہو یا حضر، مجاہدین اسلام کو ہر حال میں دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ مجاہدین کی جسمانی تربیت اور فوجی ٹریننگ کا ذریعہ بھی ہے۔ تاریخ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ غازیان صف شکن کئی کئی فاقے کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے بھی دشمن کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں۔ غزوۂ خندق کے موقع پر صحابہ کرام اور نبی اکرم ﷺ کو بھی تین روز سے فاقہ تھا مگر اس کے باوجود حوصلے بلند اور ولولے جوان تھے اور یہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ مسلمانوں نے بڑے بڑے معرکے رمضان کے مہینے میں ہی سرکئے۔ کفر اور اسلام کا پہلا معرکہ غزوہ بدر رمضان المبارک میں ہی سر ہوا۔

روزے کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ روزہ ایک مسلسل عبادت ہے اور روزہ دار سحری سے غروب آفتاب تک کا سارا وقت خدا کی عبادت میں بسر کرتا ہے۔ ایک نماز پڑھ لینے کے بعد ممکن ہے آپ دوسری نماز تک یاد خدا سے غافل ہوجائیں۔ کاروبار حیات میں غفلت انسان کو خدا سے دور رکھے،مگر روزہ رکھ لینے کے بعد اگر زبان سے خدا کو یاد نہ کریں تو بھی آپ خدا کی عبادت میں تصور کیے جائیں گے۔ اگرچہ تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ روزہ دار سحر سے لے کر افطار تک ہر لمحہ اور ہر گھڑی خدا کی یاد میں مگن رہتاہے کیونکہ جب اس کے دل میں یہ احسا س جاگ اٹھتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس کو برداشت کرنے کی پابندی قبول کر چکا ہے تو وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا کوئی بھی لمحہ یاد خدا سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ چہ خوب

صرف عصیاں ہوا وہ لحظۂ عمر

جو تری یاد میں بسر نہ ہوا

اطاعت کا اصل مقصود ہی خدا کی یاد ہے اور اس کی یاد ہی اس کی اطاعت کی اساس ہے اور یاد خدا انسان کو تمام برائیوںسے روک دیتی ہے۔ اس عبادت کا یہی اہم تقاضا ہے کہ ہم دن بھر میں کوئی ایسا کام نہ کریںجس سے اس عبادت کی روح زخمی ہو۔

یہ پہلے عرض کیا جا چکاہے کہ صرف کھانے پینے سے رک جانا ہی ’’روزہ‘‘ نہیں کہلاتا بلکہ روزے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہ صرف کبیرہ گناہوں سے رک جائیں بلکہ لڑائی جھگڑے، گالی گلوچ، چھینا جھپٹی، غیبت، جھوٹ اور مکرو فریب جیسی حرکات شنیعہ سے بھی باز آجائیں۔

رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ ، فَلاَ يَرْفُثْ ، وَلاَ يَجْهَلْ ، فَإِنْ جَهِلَ عَلَيْهِ أَحَدٌ ، فَلْيَقُلْ : إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ.(سنن ابن ماجة(2/ 592)

جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو اسے بد زبانی کج روی اور جہالت سے باز رہنا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی شخص روزے دار کے ساتھ زیادتی کرے تو اسے کہہ دینا چاہیے میاں میں تو روزے سے ہوں۔

ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا:

الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا(سنن النسائي (4/ 167)

کہ جس طرح میدان جنگ میں دفاع کے لیے ڈھال ہے روزے تمہارے لیے اسی طرح آگ کے لیے ڈھال ہیںجب تک کہ انسان اس ڈھال کو جھوٹ سے نہ توڑ ڈالے۔

نبی کریم ﷺ نے ہی ایسے روزے دار کے متعلق فرمایا:

رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلاَّ الْجُوعُ ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلاَّ السَّهَرُ.

کتنے روزے دار ہیں جن کےحصے میں ان کے روزے سے صرف بھوک آتی ہے اور کتنے شب بیدار ہیں جنہیں بیداری کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔سنن ابن ماجہ (2/ 591)

ان گزارشات کے پیش نظر روزے کی اہمیت کو ذہن نشین کر لینا چاہیے بد بخت ہوں گے وہ لوگ جو رمضان کی فضیلتوں سے فائدہ نہ اٹھائیں گے۔

نبی کریم ﷺنے فرمایا:

عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لاَ مِثْلَ لَهُ

تم پر روزہ رکھنا فرض ہے کہ روزے جیسی عبادت کی کوئی مثال نہیں۔(السنن الکبری للنسائی 3/ 133)

ایک جگہ یوں ارشاد نبوی ﷺ ہے۔

مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ ، وَلاَ مَرَضٍ لَمْ يَقْضِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ وَإِنْ صَامَهُ

(صحيح البخاري ـ (3/ 41)

جس نے ماہ رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی (شرعی) عذر یا بیماری کے ترک کیا تو وہ قیامت تک بھی لگاتار روزے رکھتا رہے تو اس روزے کی قضا ادا نہیں ہو سکتی۔

روزہ کی فضیلت

جب ہم روزےکی فضیلت کا ذکر کرتے ہیںتو دو چیزیں ذہن میں ابھرتی ہیں۔ بعض لوگ رمضان کی فضیلت اور روزے کی فضیلت کو ہم معنی سمجھتے ہیں لیکن اگر بنظر غائر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ماہ رمضان کی فضیلت ایک الگ پہلو ہے اور روزے کی فضیلت ایک جدا موضوع ہے۔ ہم رمضان کی فضیلت کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں یہاں صرف روزے کی فضیلت یا روزہ رکھنے وا لے کی عزت و عظمت پر بحث کرتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ جس طرح ’’رمضان‘‘ تمام مہینوں سے افضل ہے اسی طرح روزہ بھی عبادات میں افضل ترین نہیں تو افضل تر ضرور ہے۔ روزہ دار کی جو قدر و منزلت خدا کی نگاہ میں ہے اسے حدیث کے الفاظ ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِى وَأَنَا أَجْزِى بِهِ فَوَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخِلْفَةُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ (صحيح مسلم3/ 157)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ابن آدم ہر عمل اپنے لیے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے روزے دار کے منہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزاہے۔

ذرا غور کریں کہ وہ خالق و مالک وہ جبار و قہار اپنے حقیر بندے کی کتنی تعظیم کرتا ہے کہ ہمارے منہ کی بُو بھی اسے کستوری سے زیادہ پاکیزہ معلوم ہوتی ہے۔

روزے دار کی دوسری فضیلت آپﷺ نے یہ فرمائی:

لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.صحيح البخاري ـ (3/ 34)

روزے دار کےلیے دو خوشی کے مواقع ہیں۔ پہلا موقع تو وہ ہے جب ہر شام وہ روزہ افطار کرتا ہے تو اسے ایک خاص روحانی خوشی ہوتی ہے۔اور دوسرا موقع وہ ہے کہ جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے بہت خوش ہوگا۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

نمازی کو جنت میں داخل ہونے کے لئے ’’باب الصلوٰۃ‘‘ سے بلایا جائے گا۔ جو مجاہد ہے اسے ’’باب الجہاد‘‘سے ندا دی جائے گی۔ جو شخص روزے دار ہے اسے ’’باب الریّان‘‘سے پکارا جائے گا۔ جو صاحب الصدقہ ہے اسے ’’باب الصدقہ‘‘سے جنت میں داخلے کی دعوت دی جائے گی۔

سیدنا سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا،جنت میںایک دروازہ ہے جسے ’’ریان‘‘ کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزے دار جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کسی دوسرے کو اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی۔ فرشتے پکاریں گے روزے دار کہاں ہیں؟ روزے دار اس آواز کو سن کر جنت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازے کی طرف بڑھیں گے اور جب روزے دار جنت میں ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی شخص اس دروازے سے داخل نہ ہو سکے گا۔

قارئینِ کرام! روزے کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ قیامت کے دن روزے داروں کو امتیازی حیثیت سے جنت میں بھیجا جائے گا۔

سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِى سَبِيلِ اللَّهِ إِلاَّ بَاعَدَ اللَّهُ بِذَلِكَ الْيَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا(صحيح مسلم (3/ 158))

کہ جو شخص لوجہ اللہ ایک دن کا روزہ رکھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایک روزے کی برکت سے اس کے چہرے کو ستر برس مدّت کی مسافت تک آگ سے دور کر دیتا ہے۔

اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اگر ایک روزہ رکھنے والا آگ سے اس قدر دُور مسافت پر ہو سکتا ہے تو رمضان المبارک کے سارے روزے رکھنے والا کس قدر عظیم ثواب اور انعام کا مستحق ہو گا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحيح البخاري ـ (1/ 16))

کہ جس شخص نے ایمان اور ایقان کی دولت سے سرشار ہو کر رمضان کے روزے پورے کر لئے اس کے پچھلے گناہ سب معاف ہو جائیں گے۔

ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا:

فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا , خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ(سنن ابن ماجة (2/ 355))

کہ جس نے رمضان کو ایمان اور احتساب سے پورا کر لیا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح بری ہوتا ہے جیسے اس کی ماں نے آج ہی اسے جنا ہے۔

روزے دار کے لئے یہ خوشخبری کس قدر عظیم ہے کہ رمضان المبارک کے پہلے دس دن خدا تعالیٰ کی رحمت کا باعث ہیں۔ ’’اوّلہ رحمۃ‘‘ اگلے دس دن اس کی مغفرت کے لئے مقرر ہیں ’’اوسطہ مغفرۃ‘‘ اور آخری دس دن دوزخ سے نجات حاصل کرنے کا پروانہ ہیں’’ آخرہ عتق من النار‘‘۔(اس میںعلماء کا کلام ہے)

یہ فضیلت بھی روزے دار کے حصے میں آئی ہے کہ ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں ایک رات ایسی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ’’لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ‘‘ وہ لوگ جو تنو مند اور توانا ہو کر بھی روزہ رکھنے کی سعادت سے محروم رہتے ہیں کتنے بد بخت اور بد نصیب ہیں کہ وہ اس رات کی فضیلتوں سے اپنی جھولیاں نہیں بھرتے اور کتنے خوش نصیب اور بامراد ہیں وہ روزے دار جو اس رات کے انوار اپنے سینوں میں سمیٹ لینے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ وہ رات ہے جس رات جبرائیل علیہ السلام اپنے لاؤ لشکر سمیت بندگان خدا کو اپنے آقا کے حضور سر بسجود دیکھنے کو زمین پر اتر آتے ہیں۔

تَنَزَّلُ المَلـٰئِكَةُ وَالرّ‌وحُ فيها بِإِذنِ رَ‌بِّهِم مِن كُلِّ أَمرٍ (سورة القدر4)

اس رات کی فضیلت کوئی صاحبِ دل ہی بتا سکتا ہے۔

سَلـٰمٌ هِىَ حَتّىٰ مَطلَعِ الفَجرِ‌ (سورة القدر5)

کہ فجر کا نور طلوع ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

رات کی تنہائیوں میں کیونکر آقا و غلام ہم کلام ہوتے ہیں اور آقا اپنے غلاموں پر رحمت اور برکت کی کون سی بارشیں نازل کرتا ہے یہ سب راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ ہم تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ روزے داروں کے لئے رمضان میں اس رات سے بڑھ کر کوئی فضیلت نہیں۔

روزہ کیسی عبادت ہے کہ یہ خود بھی فضیلت ہے اور اس کی افطاری بھی فضیلت ہے۔

محمد ﷺ کا فرمان ہے:

مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ ” قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفْطِرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يُعْطِي اللهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ

کہ جس نے کسی روزے دار کی افطاری کا انتظام کیا تو یہ افطاری اس کے گناہوں کے لئے بخشش اور اسے دوزخ سے بچانے کا ذریعہ ہو گی اور جس کی افطاری کروائی گئی، اور جس نے افطاری کروائی ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گزارش کی، اے اللہ کے رسول ﷺ ہم سب کو تو کسی کی افطاری کا اہتمام کرنے کی توفیق نہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی برابر عطا کرتا ہے جو ایک کھجور، پانی کے ایک گھونٹ یا دودھ کی ایک چُلّی سے کسی کا روزہ افطار کروا دے۔شعب الايمان (5/ 224)

ایک جگہ فرمایا:

من اسقی صائما سقارہ اللہ من حوضی شربة لا یظماء حتی یدخل الجنة

کہ جو شخص کسی روزے دار کو جی بھر کر پانی پلا دے (یا پُرتکلف افطاری کا اہتمام کرے) تو خدا تعالیٰ اس کو میرے حوض کوثر سے اس طرح سیراب کریں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس محسوس نہ ہو گی۔

محمد الرسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُورٌ

کہ جب روزہ افطار کرنا چاہو تو کھجور سے افطار کرو کیونکہ یہ باعثِ برکت ہے۔ اگر کھجور میسر نہ آئے تو پانی سے چھوڑ لو، یہ باعثِ طہارت ہے۔(سنن الترمذی (3/ 123)

ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے سیدناسعدرضی اللہ عنہ کے پاس روزہ افطار کیا اور فرمایا:

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ

(سنن أبي داود(3/ 433))

تمہارے پاس روزہ داروں نے روزہ افطار کیا اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور تم پر فرشتوں نے دعا کی۔

ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ نے سیدہ اُم عمارہ رضی اللہ عنہاسے مخاطب ہو کر فرمایا:

إِنَّ الصَّائِمَ تُصَلِّى عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ حَتَّى يَفْرُغُواوَرُبَّمَا قَالَ حَتَّى يَشْبَعُوا

کہ جب کچھ لوگ کسی روزہ دار کے ہاں روزہ افطار کریں تو فرشتے اس روزہ دار پر درود بھیجتے ہیں۔ جب تک وہ افطاری سے فارغ نہ ہو جائیں۔ یا جب تک افطاری والوں کا پیٹ نہ بھر جائے۔(سنن الترمذی (3/ 333))

ایک روایت میں ہے:

الصَّائِمُ إِذَا أَكَلَ عِنْدَهُ الْمَفَاطِيرُ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ (سنن الترمذى (3/ 332))

اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ سب سے زیادہ محبوب ہے جو افطاری میں جلدی کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

أَحَبَّ عِبَادِى إِلَىَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا

(السنن الكبرى للبيهقي (4/ 237))

ایک جگہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ

لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک کہ وہ افطاری میں جلدی کریں گے۔(صحيح البخاري(3/ 47))

ایک جگہ فرمایا:

لاَ يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ

(سنن أبي داود(2/ 277))

کہ یہ دین اس وقت تک دوسرے تمام دینوں پر غالب رہے گا جب تک لوگ افطاری میں جلدی کریں گے!

اب تصور کیجئے کہ اللہ نے ہمیں روزے کا حکم دیا مگر ساتھ ہی اس کی منشا یہ ہے کہ اس کے بندے حد سے زیادہ تکلیف نہ اُٹھایں۔ لہٰذا اس آسانی اور سہولت کو بھی ایک انعام قرار دیا۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ افطاری میں جلدی ہی اصل بھلائی اور نیکی کی راہ ہے۔ روزہ جلدی افطار ہم کریں، اپنی پیاس ہم بجھائیں اور ساتھ اس کی رحمت اور برکت کے مستحق قرار پائیں۔

قارئینِ محترم! روزے کی فضیلتوں کا بیان کہاں تک کیا جائے۔ روزہ خود بھی برکت، اس کے لئے سحری کھانا بھی برکت اور روزہ افطار کرنا بھی برکت ہے۔ سحری اور افطار کی خوراک اگرچہ دیسی ہی ہوتی ہے جو ہمارے روز مرہّ کے معمولات میں داخل ہے مگر روزے دار کے لئے یہ بھی باعثِ فضیلت بن جاتی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً(صحيح البخاري ـ (3/ 37)

تم سحری ضرور کھایا کرو کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔

ایک جگہ فرمایا:

اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ

کہ دن کا روزہ رکھنے کے لئے سحری کے کھانے سے مدد لیا کرو۔(سنن ابن ماجہ(2/ 593))

یہ بات بھی سحری کھانے کی ترغیب کے لئے کہی گئی۔ ایک جگہ فرمایا:

عَلَيْكُمْ بِغَدَاءِ السَّحُورِ فَإِنَّهُ هُو الْغَدَاءُ الْمُبَارَكُ (السنن الكبرى للنسائي (3/ 115))

کہ سحری تم پر لازم ہے کیونکہ وہ مبارک کھانا ہے۔ ایک جگہ فرمایا:

السحور أكله بركة فلا تدعوه ولو ان يجرع أحدكم جرعة من ماء فان الله وملائكته يصلون على المتسحرين

سحری کا کھانا پینا سب برکت ہے لہٰذا تم اسے ہرگز نہ چھوڑو۔ خواہ انسان پانی کا ایک گھونٹ پی کر ہی سحری کیوں نہ کرے (یعنی اگر کھانے کی حاجت نہیں تو پھر بھی کم از کم پانی کا ایک گھونٹ ضرور پی لینا چاہئے) بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے مقرب فرشتے سحری کھانے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔ (مسند أحمد بن حنبل (3/ 44))

ذرا سوچئے! کھانا ہم کھاتے ہیں۔ رب العزت کی انواع و اقسام کی نعمتوں پر ہاتھ ہم صاف کرتے ہیں۔ مگر لذتِ کام و دہن اور زبان کے چٹخارے کے ساتھ ساتھ اس کی رحمتوں اور برکتوں کے سزاوار بھی گردانے جاتے ہیں۔ الحمد للہ!

دل سے ایک صدا اُٹھتی ہے۔ مولا یہ تیرا اتنا بڑا کرم ہے، یہ بے پایاں انعام، یہ تیری رحمتوں کے خزینے، یہ تیری برکتوں کے خزینے، یہ تیری برکتوں کی موسلا دھار برسنے والی بارشیں۔ ہم عاجز بندوں پر، ہم گنہگار اور پاپی انسانوں پر! مولا تو کتنا عظیم ہے! مولا تو کتنا کریم ہے! مولا تو کیسا خالق و مالک اور آقا ہے! ہم نے دیکھا ہے کہ اس دنیا میں انسان دولت کے چند سکوں کی شہ پا کر انسان کو انسان نہیں سمجھتے! مگر تو قادرِ مطلق ہو کر بھی!’’علٰی کل شیء قدیر ‘‘ ہو کر بھی، جبار و قہار ہو کر بھی۔ اپنے بندوں پر درود بھیجتا ہے۔ تو ہی نہیں تیری نورانی مخلوق بھی ان بندوں پر درود بھیجتی ہے جو سحری کھا کر اپنے ہی پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ یہ تیرا کتنا بڑا کرم ہے کہ تو ان بندوں کو اپنے سلام اور درود کا مستحق جانتا ہے۔ جو سارا سال تیری یاد سے غافل رہتے ہیں۔

مولائے کریم! تو واقعی بڑا عظیم ہے۔ تو غفور و رحیم ہے۔ مولا! یہی دعا ہے کہ تو ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اسوۂ رسول ﷺ پر عمل کرنے کی توفیق دے (آمین) اے اللہ! ’’رحمتی وسعت کل شیء‘‘تیرا فرمان ہے۔

اے باری تعالی! ’’رحمتی سبقت علٰی غضبی‘‘

تیرا ارشاد ہے۔

یا الٰہ العالمین!

’’انت مقصودی ورضاک مطلوبی‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے