ان الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد

روزہ افطار کرنے کا صحیح وقت کیا ہے؟ آئیے جائزہ لیں

اہل تشیع سورج غروب ہونے کے کافی دیر بعد اندھیرا چھا جانے پر روزہ افطار کرتے ہیں۔

احناف سورج غروب ہونے کے بعد پانچ یا تقریباًسات منٹ دیر سے روزہ کھولتے ہیں۔

اہل حدیث سورج غروب ہونے کے فورا بعد ہی روزہ افطار کر لیتے ہیں۔

آیئے شرعی دلائل سے تجزیہ کرتے ہیں کہ ان تینوں  میں سےکون روزہ صحیح وقت پر افطار کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے:

ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ (البقرۃ 187)

پھر رات تک اپنے روزے پورے کرو ۔

اللیل (رات) کی وضاحت ازروئے لغت

1۔ امام محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی المصری اپنی عربی لغت کی مشہور اور متداول کتاب میں لکھتے ہیں:

اللیل: عقیب النہار و مبدوہ من غروب الشمس۔

رات دن کے بعد آتی ہے اور اس کی ابتداء غروب آفتاب سے ہوتی ہے۔(لسان العرب ج/11ص/611)

2۔ صاحب المنجد الابجدی بیان کرتے ہیں:

اللیل: من مغرب الشمس الی طلوع الفجر او الی طلوع الشمس۔

یعنی رات سورج غروب ہونے سے لے کر طلوع فجر یا طلوع آفتاب تک ہے۔(المنجد الابجدی ص 885)

3۔ صاحب المعجم العربی الحدیث لکھتے ہیں:

اللیل: وھو من مغرب الشمس الی طلوعھا وفی الشرع من مغرب الشمس الی بزوع الفجر

یعنی رات سورج کے غروب ہونے سے اس کے طلوع ہونے تک اور شریعت میں سورج غروب ہونے سے فجر کے پھیلنے تک ہے۔ (المعجم العربی الحدیث لاروس ص 1049)

4۔ حسن عمید رقمطراز ہیں:

شب از غروب تا طلوع آفتاب

رات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک ہے۔ (فرہنگ عمید، طبع شدہ ایران تھران جلد دوم ص 1529)

مندرجہ بالا لغات کے حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ باتفاق اہل لغت سورج غروب ہوتے ہی رات کی ابتداء ہو جاتی ہے۔

اللیل (رات) اور افطاری کے وقت کی وضاحت ازروئے تفاسیر:

1۔امام ابن کثیر آیت ’’ اتموا الصیام الی اللیل‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:

یقتضی الافطار عند غروب الشمس حکما شرعیا

یعنی شرعی حکم کے تحت سورج غروب ہوتے ہی روز کھولا جائے۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 223)

2۔ جلالین مع حاشیہ الصاوی میں ہے:

’’ثم اتمواالصیام ‘‘من الفجر ’’ الی اللیل ‘‘ ای الی دخولہ بغروب الشمس۔

یعنی پھر تم روزوں کو رات کے داخلہ تک غروب آفتاب کے وقت تک پورا کرو۔ (تفسیر جلالین ص/86)

3۔ اسمعیل حقی البروسوی لکھتے ہیں:

’’ الی ‘‘ غایہ ’’ اللیل ‘‘ وھو دخول اللیل و ذاک بغروب الشمس۔

کہ الی کی حد رات تک ہے اور وہ رات کا داخلہ ہے جو غروب آفتاب کے ساتھ ہے۔ (تفسیر روح البیان ج 2 ص 300)

4۔ عبد الرحمن بن محمد الثعالبی بیان کرتے ہیں:

واللیل الذی یتم بہ الصیام مغیب قرص الشمس

اور رات جس کے ساتھ روزے پورے ہوتے ہیں سورج کی ٹکیہ کا غائب ہونا ہے۔(تفسیرالثعالبی ج 1 ص 149)

5۔ قاضی ثناءاللہ پانی پتی وضاحت کرتے ہیں:

پس اس آیت سے روزہ کی حقیقت واضح ہوئی کہ وہ ارادہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک مفطرات ثلثہ (کھانے پینے اور جماع) سے رکے رہنا ہے۔

(تفسیر المظہری جلد 1 صفحہ 206)

6۔ مولانا عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:

لیل عرف عرب میں غروب آفتاب سے گنی جاتی ہے اور نیزاحادیث صحیحہ میں بھی غروب کے متصلا آنحضرت علیہ السلام کا افطار کرنا ثابت ہو گیا ہے تو پھر دیر کرنا تکلیف بے فائدہ ہے۔(تفسیر حقانی ج / 3 ص 33)

7۔ مولانا مودودی مذکورہ صدر آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے لہٰذا غروب آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔( تفہیم القرآن ج/1 ص/146)

باتفاق مفسرین رات کی ابتداء غروب آفتاب سے ہوجاتی ہے سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرلیا جائے۔

الی اللیل (رات تک) کی وضاحت ازروئے عربی گرائمر

شرح مأۃ عامل میں ’’ اِلٰی ‘‘ کی بحث کے تحت شیخ عبدالقاہر جرجانی لکھتے ہیں:

’’وقد لا یکون ما بعدھا داخلا فی حکم ما قبلھا ان لم یکن بعدھا جنس ما قبلھا نحو قولہ تعالیٰ ثم اتموا الصیام الی اللیل‘‘

یعنی کبھی ’’الی ‘‘ کے بعد والا ’’الی ‘‘ کے پہلے والے حکم میں داخل نہیں ہوتا اگر ’’الی ‘‘کا بعد والا ’’الی ‘‘سے پہلے والے کی جنس سے نہ ہو تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے پھر روزوں کو رات تک پورا کرو۔

شیخ موصوف یہ قاعدہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ یہاں ’’الی ‘‘ ابتدائی حدکے لیے ہے چونکہ رات کی ابتداء سورج غروب ہونے سے ہوجاتی ہے اس لیے سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کر لیا جائے روزہ کے پورا کرنے کا تعلق دن سے ہے نہ کہ رات سے چونکہ دن اور رات دونوں کی جنس مختلف ہے اس لیے یہاں الی کے بعد لیل ’’الی ‘‘سے پہلے فجر کے حکم میں داخل نہیں ہے۔

افطار کے وقت کی وضاحت ازروئے احادیث

1۔عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُصحيح البخاري ـ (3/ 46)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب ادھر سے رات نمودار ہونے لگے اور ادھر سے دن جانے لگے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار نے روزہ افطار کرلیا۔

یعنی رسول اللہ ﷺ نے روزہ دار کے لیے سورج غروب ہونے کو ہی افطاری کا وقت قرار دیا ہے۔

2۔عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : لَاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ (صحيح البخاري (3/ 47))

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک روزہ جلدی افطارکرتے رہیں گے۔

کیونکہ لوگوں کی بھلائی شریعت سے وابستہ رہنے میں ہے اور لوگ جب تک شریعت سے وابستہ رہیں گے خود ساختہ توہمات اور رسومات سے کنارہ کش رہیں گے روزہ وقت پر افطار کرنا بھی شریعت کی تابعداری ہے اس لیے آپﷺ نے لوگوں کی بھلائی و بہتری روزہ جلدی افطار کرنے میں فرمائی۔

3۔عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ ﷺقَالَ:لاَ يَزَالُ الدِّيْنُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَلأَنَّ الْيَهُوْدَوَالنَّصَارٰى يُؤَخِّرُوْنَ(سنن أبي داود ـ محقق وبتعليق الألباني (2/ 277))

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے کیونکہ یہودی اور عیسائی دیر کرتے ہیں۔

مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یعنی مسلمانوں کا جلدی روزہ افطار کرتے رہنا دین کے غلبہ کا سبب ہے معلوم ہوا کہ سنتوں بلکہ مستحباب کی پابندی مسلمانوں کی شوکت اور دین کے ظہور و دبدبہ کا باعث ہے پھر فرائض کا کیا پوچھنا۔

ہندوستان کے مسلمان اذان اور گائے کی قربانی پر کفار سے لڑتے رہے کیوں؟ غلبہ اسلام کے قائم رکھنے کے لیے۔

خیال رہے کہ یہاں جلدی سے مراد وقت جواز میں جلدی ہے جب سورج ڈوب جائے تو پھر دیر نہ لگائے بلاوجہ دیر لگانا سنت کے خلاف ہے اور اتنی دیر کہ تارے گتھ جائیں ( مکروہ تحریمی)

یعنی دیر سے افطار کرنے میں اہل کتاب سے مشابہت ہے مرقاہ اور اشعہ میں فرمایا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام کی درستی سارے کفار کی مخالفت سے وابستہ ہے ان سے مشابہت میں دین کی کمزوری ہے افسوس ان مسلمانوں پر جو محض عیسائیوں کی مشابہت کے لیے داڑھیاں منڈائیں کھڑے ہو کہ پیشاب کریں گےسر پھریں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے ’’لا تتخذوا الیھود والنصاری اولیاء‘‘ اور فرماتا ہے: ’’ومن یتولھم منکم فانھم منھم‘‘ ۔ اس سے لوگ عبرت پکڑیں جو بہت دیر کر کےروزہ افطار کرنے کو دین سمجھتے ہیں۔ اس لیے رب تعالیٰ نے فرمایاہے: ثم اتمواالصیام الی اللیل، فی اللیل نہیں فرمایا یعنی روزے کو رات میں بالکل داخل نہ کرو رات آتے ہی روزہ ختم کردو۔

(مراۃ شرح مشکوۃ ج/3 ص/157)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عجلوا بالافطار واخروالسحور (رواہ الطبرانی فی الکبیر)

افطاری میں جلدی کرو اور سحری میں دیر کرو۔

سیدنا ابو عطیہ کہتے ہیں کہ میں اور مسروق عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے پھر ہم نے کہا کہ اے مومنوں کی ماں حضرت محمد ﷺ کے صحابہ میں دو شخص ہیں ایک ان میں جلدی افطاری کرتا ہے اور جلدی نماز پڑھتا ہے اور دوسرا دیر سے افطاری کرتا ہے اور دیر سے نماز پڑھتا ہے انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے پوچھا کہ ان دونوں میں کون جلدی افطار کرتا ہے اور جلدی نماز پڑھتا ہے ہم نے کہا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (تو سیدہ عائشہ نے) فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اس طرح کرتے تھے اور دوسرے ابو موسیٰ ہیں۔ یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل کو سنت نبوی قرار دیا۔(سنن الترمذي (3/ 83))

افطاری کے وقت کی وضاحت ازروئے کتب فقہ حنفی

’’افطاری میں جلدی سحری میں دیر کرنا اور مسواک کرنا رسولوں کی سنت ہے‘‘ (درمختار مترجم ج/1 ص /545، ہدایہ ج/1 ص/934 ، بہشتی زیور حصہ نمبر 3 صفحہ 16-17)

آپ نے دیکھا کہ نہ صرف قرآن و حدیث، لغت و تفسیر، نحو بلکہ فقہ حنفی کی رو سے بھی روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب ہے جلدی روزہ افطار کرنا یعنی سورج غروب ہونے کے بعد سرخی وغیرہ کی پرواہ نہ کرنا اسلامی طریقہ ہے لہٰذا ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اہل تشیع اور آج کل کے اکثر احناف روزہ افطار کرنے میں غلطی پر ہیں اور اہلحدیث صحیح وقت پر روزہ افطار کرتے ہیں ہمارے شیعہ اور حنفی دوست آنکھوں سے سورج غروب ہوتا دیکھ لیں یا جس نے غروب ہوتے دیکھا ہو وہ انہیں بتادے یا ریڈیو غروب آفتاب کا وقت بتائے وہ کبھی بھی اس کے مطابق روزہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ سائرن گولہ وغیرہ کا انتظار کرتے رہتے ہیں یا مولویوں  کے چھپے ہوئے نظام الاوقات کی تقلید کرتے ہیں ان نظام الاوقات میں خود ساختہ غیر شرعی احتیاط کے تحت اصل افطاری کے وقت سے تاخیر پائی جاتی ہے حالانکہ احتیاط وہاں ہوتی ہے جہاں شک پایا جائے یہاں غروب آفتاب کے یقینی وقت کو پہلے مشکوک فرض کر لیا جاتا ہے پھر خواہ مخواہ احتیاط کی جاتی ہے جبکہ مسلمہ اصول ہے جو فقہ حنفی کی اصول کی کتابوں میں بھی موجود ہے ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘   کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا پھر اس خود ساختہ احتیاط میں رب کی نافرمانی بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے ساتھ ہی روزہ افطار کرنے کا حکم دیتا ہے۔لیکن ہمارے شیعہ اور حنفی دوست اللہ کے حکم کو ٹالتے ہیں اور اپنی ضد پر اڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کی مثال اس نافرمان نکمے طالبعلم کی ہےجسے استاد کسی وجہ سے کھڑا کر دے پھر سے بیٹھنے کا حکم دے لیکن وہ نافرمان طالبعلم اکڑ کر کھڑا رہے گویا وہ احتجاج کر رہا ہے کہ استاد نے کھڑا کیوں کیا میں اس کے کہنے پر کیوں بیٹھوں یا اگر فوج اور پولیس کو ہوشیار باش کا حکم دیا جائے پھر آسان باش کا حکم دیا جائے اور فوج یا پولیس والے آسان باش کی فوری تعمیل نہ کریں بلکہ اپنی طرف سے کچھ تاخیر کر کے تعمیل کریں تو کیا ان کا سر براہ ایسی فوج یا پولیس سے راضی ہو گا؟ یقینا وہ ان سے ناراض ہوگا بالکل اسی طرح اللہ کو وہ بندے پسند ہیں جو سورج غروب ہوتے ہی فورا روزہ افطار کرلیتے ہیں نہ کہ وہ جو اپنی مرضی سے دیر کرکے روزہ افطار کرتے ہیں لیکن یہاں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ ہے شیعہ اور احناف روزہ دیر سے افطار کرتے ہیں جو سراسر غیر شرعی طریقہ ہے اور پھر گھورتے اہلحدیث کو ہیں جو شرعی طریقہ کے مطابق صحیح وقت پر روزہ افطار کرتے ہیں صرف یہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ آپ جب بھی کسی مسئلہ میں تحقیق گفتگو کریں گے تو اہلحدیث کا موقف درست پائیں گے۔ (فللہ الحمد)

اس تحقیقی گفتگو سے افطاری کے متعلق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ (الحمدللہ علی ذلک) کیا آپ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہیں؟

وما علینا الا البلاغ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے