الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین أما بعد
قال اللہ تعالیٰ:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ 183)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

رمضان مسلمانوں کے لیے رحمت و برکت کا مہینہ ہوتا ہےاور یہ مہینہ اللہ کی طرف سے خاص امت محمدیہ کے لیے تحفہ بے مثال ہے۔ مسلمانوں کو اپنی زندگی میں گناہوں سے توبہ اور رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ نیکیاں کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور پھر عام دنوں کی نسبت رمضان کے دنوں میں کیے جانے والے اعمال کا بدلہ کئی درجے بڑھا کر دیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی انسان کے دشمن کو شیطان کو بھی جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اللہ کی طرف سے کئے جانے والے انعام و اکرام سے پورا فائدہ حاصل کر سکیں۔

اب مسلمانوں پر لازم ہے کہ اللہ کی طرف سے اتنی زیادہ رحمت والے دنوں سے اچھی طرح فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے درجات کو بلند کریں اور جنت کے حق دار بن جائیں۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے لیے ایک ٹریننگ کی حیثیت رکھتا ہےجس کو حاصل کر نے کے بعد پورے سال کو اس طریقے سے گزارنے کی مشق حاصل ہوتی ہے۔اور اس مہینہ کی مثال ایسے ہے جیسے موسموں میں موسم بہار آتا ہےجس کے آنے سے ہر طرف سبز و شادابی پھیلتی ہے اسی طرح رمضان کے آنے سے نیکیوں کی بہار آ جاتی ہے لہٰذا ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

رمضان کی بہاروں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس مہینہ کی ابتداء سے انتہاء تک کے مسائل کو مختصراً قرآن و سنت نبویﷺ کی روشنی میں قارئین کرام کے لیے پیش خدمت ہیں، تاکہ’’ وذکر فان الذکری‘‘ کے تحت اس سے اپنی اور دوسروں کی یادیں تازہ کی جا سکیں اور اس مہینہ کی بہاروں کو سمیٹنے کےلیے کمر بستہ ہو جائیں۔

ماہِ صوم کا چاند دیکھ کر روزہ رکھیں

عَنْ ابْنَ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا ، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ
ولمسلم:فَإِنْ أُغْمِىَ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلاَثِينَ
وللبخاری:فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم چاند کو دیکھ لو تو روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر ہی افطار کرو، اگر مطلع ابر آلود ہے ہو جائے تو اس کا اندازہ لگا لو۔

اور صحیح مسلم میں ہے: اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس دن اندازہ کر لو، اور صحیح بخاری میں ہے کہ تیس دن کی تعداد پوری کرو۔(۱)

وَلَہُ فِی حَدِیْثِ أبِی ھُرَیْرَۃَ:عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ   ثَلاَثِينَ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ تم شعبان کے تیس دن پورے کرو۔(۲)

روزہ رکھنے کے لیے ایک یا دہ آدمیوں کی گواہی کا فی ہے

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ تَرَاءَى النَّاسُ الْهِلاَلَ فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنِّى رَأَيْتُهُ فَصَامَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ چاند دیکھنے لگے تو میں نے نبی ﷺ کو بتایا کہ میں نے چاند دیکھا ہے پھر آپ نے خود روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(۳)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّي رَأَيْتُ الهِلاَلَ ، قَالَ : أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ، أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ: يَا بِلاَلُ ، أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ ایک اعرابی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: بے شک میں نے چاند دیکھا ہے آپ نے فرمایا: کیا تم ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی شہادت دیتے ہو؟ کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: اے بلال! لوگوں میں اعلان کردو کہ کل سے روزہ رکھیں۔(۴)

صوم استقبال

رمضان کا استقبال کرنے کےلیے ایک یا دو دن پہلے کا روزہ رکھنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیںجبکہ آج کل کے مروجہ طریقہ کے مطابق جو استقبال رمضان کے لیے پروگرام منعقد ہوتے ہیں ان کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر کوئی اپنی عادت کے مطابق روزہ رکھتا ہو اور اتفاق سے وہ دن رمضان سے پہلے آجائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ روزہ رکھ لے۔

حدیث نبویﷺ ہے:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ   رضى الله عنه   قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لاَ تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلاَ يَوْمَيْنِ إِلاَّ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، ہاں، اگر کوئی شخص روزہ رکھتا آرہا ہو، تو اسے اس دن کا بھی روزہ رکھ لینا چاہیے۔(۵)

چاند دیکھنے کی دعا:

نبی ﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا رَأَى الْهِلاَلَ قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالإِسْلاَمِ وَالتَّوْفِيقِ لِمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى رَبُّنَا وَرَبُّكَ اللَّهُ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہا: رسول اللہ ﷺ جب چاند دیکھتے تھے تو یہ کہتے تھے: اللہ سب سے بڑا ہے اے اللہ تو اسے ہم پر امن و سلامتی و اسلام کے ساتھ طلوع فرما اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ جس کو تو پسند کرتا ہے اور جس سے تو راضی ہوتاہے(اے چاند) ہمارا اور تمہارا رب اللہ تعالیٰ ہے۔(۶)

روزے کے لیے نیت کرنا

نیت دل سے ارادہ کرنے کا نام ہےاور روزے کی نیت کے جوخود ساختہ الفاظ گھڑے ہوئے ہیں ان کا وجود احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا اور اگر ان الفاظ کے معانی پر غور کیا جائے تو وہ اگلے دن کی نیت کا معنی دیتے ہیں جبکہ روزہ موجودہ دن کا رکھنا ہوتا ہے، ایسے کام اس وقت ہوتے ہیں جب سنت سے ہٹ کر عمل کرنا شروع کر دیا جائے۔وہ کلمات ذیل میں ہیں:

’’وبصوم غد نویت من شہر رمضان‘‘

سنت میں فرض روزے کی نیت طلوع فجر سے پہلے رات کو کرنا ضروری ہےجبکہ نفلی روزے کی نیت فجر کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔ اور اس کے لیے زبان سے ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں

ارشاد نبوی ﷺ ہے:

عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ لَمْ يُبَيِّتِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلاَ صِيَامَ لَهُ

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے صبح صادق سے پہلے رات ہی سے روزہ کی نیت نہیں کی اس کے لیے روزہ نہیں ہے۔(۷)

عَنْ حَفْصَةَ،قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کا روزہ نہیں ہے جس نے اسے رات ہی سے اپنے آپ پر واجب نہ کر لیا ہو۔(۸)

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ فَقُلْنَا لَا قَالَ فَإِنِّي إِذَنْ صَائِمٌ ثُمَّ أَتَانَا يَوْمًا آخَرَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ فَقَالَ أَرِينِيهِ فَلَقَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا فَأَكَلَ

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ ہم نے کہا نہیں، فرمایا: اچھا تو اب میں روزے سے ہوں، پھر دوسرے دن تشریف لائے تو ہم نے کہا: ہماے اللہ کے رسول ﷺارے پاس حیس (حلوہ) تحفہ میں آیا ہے آپ نے فرمایا: لاؤ مجھے دکھاؤ صبح سے میں روزے سے ہوں پھر آپ نے اسے تناول فرمایا۔ (۹)

سحری کرنا

سحری کھانے کو نبیﷺ نے برکت کا باعث قرار دیا ہے، اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان کا فرق سحری کرنے کو بتایا ہے۔

ارشاد نبویﷺ ہے:

تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِى السُّحُورِ بَرَكَةً

سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔(۱۰)

دوسری حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:

فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ

اہل اسلام اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کا فرق ہے۔(۱۱)

فضیلت سحری

جس طرح سحری کرنا برکت ہے اسی طرح سحری کرنا فضیلت بھی ہے سحری کرنے کی فضیلت نبی ﷺ نے بیان فرمائی ہے لہٰذا اس فضیلت کو جانتے ہوئے سحری لازمی کرنی چاہیے۔

ارشاد نبویﷺ ہے:

اِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِینَ

بلاشبہ اللہ تعالیٰ سحر ی کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں اور فر شتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔ (۱۲)

سحری میں کجھور کا استعمال

نبی ﷺ نے سحری میں کھجور کا استعمال کیا اور اس کو مومن کی سحری میں بہترین قرار دیا ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے:

نِعْمَ سَحُورُ الْمُؤْمِنِ التَّمْرُ

مومن کی بہترین سحری کھجور ہے ۔(۱۳)

دوران سحری اگر اذان ہوجائے تو؟

فوراً چھوڑ دینا ضروری نہیں بلکہ حسب عادت جلد از جلد کھا لینا جائز ومباح ہے اور سحری کو مکمل کر لینا چاہیے۔

اِذَا سَمِعَ أَحَدُکُمُ النِّدَائَ وَالْاِنَائُ عَلَی یَدِہِ فَلَا یَضَعْہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہُ مِنْہُ

جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور (کھانے یا پینے ) کابرتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے رکہے مت بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے۔ (۱۴)

سحری آخری وقت میں کھانی چاہیے

آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

سحری کا آخری وقت میں کھانا مسنون ہے۔(۱۵)

افطاری میں جلدی کرنا

جب غروب آفتاب ہوجائے تو فوراً روزہ افطار کر لینا چاہیے ناکہ احتیاط کے نام پر تاخیر کرنی چاہیے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : لَاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے، جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔(۱۶)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِنَّ أَحَبَّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:بیشک میرے محبوب بندے وہ ہیں جو افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔(۱۷)

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ:لاَ يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ (۱۸)

افطاری کے وقت کی دعا

نبیﷺ نے اپنے ساتھیوں اور پوری امت اسلامیہ کو افطاری کے وقت کی دعا سکھلائی ہے دعا کے الفاظ یہ ہیں۔

كَانَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا أَفْطَرَ قَالَ:ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ

جب رسول اللہ ﷺ افطاری کرتے تھے تو یہ کہتے: پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہو گیا۔ (۱۹)

آج کل کےمروجہ کیلنڈروں میں درج دعا صحیح اسناد کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔اس دعا کے الفاظ یہ ہیں:

اَللھُّمَ اِنِّی لَکَ صُمتُ وَبِکَ اٰمَنتُ وَاِلَیکَ تَوکَّلتُ وَعَلٰی رِزقِکَ اَفطَرتُ

افطاری کجھور سے کرنا

إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى الْمَاءِ ، فَإِنَّهُ طَهُورٌ

جب تم میں سے کوئی افطار کرے، تو اسے کجھور سے افطار کرنا چاہیے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے اس لیے کہ وہ پاک ہے۔ (۲۰)

کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُفْطِرُ عَلَی رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ رُطَبَاتٌ فَعَلَی تَمَرَاتٍ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَائٍ

رسول اللہe کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے ، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ افطا ر کرتے ۔ اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ (۲۱)

روزہ افطار کروانا

روزہ دار کو روزہ افطار کروانے کا ثواب بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ خود روزہ رکھنے کا ہے۔

نبیﷺ کا فرمان ہے کہ جو روزہ افطار کروائے اس کا ثواب بھی اتنا ہی ہے جتنا خود اس کا روزہ رکھنے کا ہے۔ (۲۲)

جو روزہ افطار کروائے اس کو یہ دعا دی جائے

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ

تمہارے پاس روزے داروں نے افطارکیا اور تم نے اچھا کھانا کھلایا اور فرشتہ تم پر سلام کرتے ہیں۔ (۲۳)

روزہ کی رخصتی کس کو؟

1۔مریض:

ایسا مریض جس کی صحت یابی جلد ممکن نہ ہو اس لیے روزہ کی رخصت ہے۔ (۲۴)

2۔ مسافر:

ایسا مسافر جس کا سفر میں روزہ رکھنا مشکل ہو جائے اس کو بھی روزہ رکھنا سے استثناء دی گئی ہے۔(۲۵)

3۔ سفر میں وقت سے پہلے روزہ کھولنا:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ – رضى الله عنهما – أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ إِلَى مَكَّةَ فِى رَمَضَانَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ فَصَامَ النَّاسُ ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فَرَفَعَهُ حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ ثُمَّ شَرِبَ فَقِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ فَقَالَ : أُولَئِكَ الْعُصَاةُ أُولَئِكَ الْعُصَاةُ

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال رمضان میں مکہ مکرمہ کی طرف نکلے اور آپ نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ ’’کراع الغمیم ‘‘پہنچے اور لوگوں نے بھی اس دن روزہ رکھا تھا پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے اتنا اوپر اٹھایا کہ لوگوں نے دیکھ لیا پھر آپ نے اسے پی لیااسکے بعد آپ سے کہا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا ہے تو آپ نے فرمایا: وہ لوگ نافرمان ہیں وہ لوگ نافرمان ہیں۔(۲۶)

4۔ حیض و نفاس والی عورت:

جس عورت کو رمضان کے مہینہ میں ایام مخصوصہ شروع ہو جائیں تو اس کے لیے روزہ کی رخصت ہے البتہ بعد میں وہ ان کی قضا دے گی۔ (۲۷)

5۔ حاملہ یا دودھ پلانے والی:

ایسی خاتون جو حاملہ ہو یا اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہو تو اگر وہ محسوس کرے تو روزہ چھوڑ سکتی ہے۔(۲۸)

نوٹ:

ایسا مریض، کمزور لاغرو لاچار یا بوڑھا جس کے صحت یابی کی کوئی امید نہ ہو تو وہ روزہ کسی دوسرے کو رکھوا سکتا ہے یا اس کا فدیہ دے دسکتاہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر روزے کے بدلے کسی ایک غریب، مسکین کو کھانا کھلائے یا اس کے مطابق رقم ادا کرے۔(۲۹)

اور جس کی صحت یابی کی امید ہو یا طاقت آ جائے تو اس پر رمضان کی قضا دینا ضروری ہے۔(۳۰)

قضا کا طریقہ

رمضان کے جو روزے چھوٹ جائیں ان کی قضا دینے میں تواتر کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں بلکہ وقفے وقفے سے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ (۳۱)

حالت مرض میں آنے والے رمضان کی قضا اگر مریض نہ دے سکے تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے قضا دیں۔ ارشاد نبویﷺ ہے:

عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ ، وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص مر جائے اور اس پر روزہ واجب ہو تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھے۔(۳۲)

روزہ کی حالت میں ناجائز امور اور اس کو توڑنے والی چیزیں

1۔ جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اسکی قضا ضروری ہے۔ارشاد نبویﷺ ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ , فَلاَ قَضَاءَ عَلَيْهِ ، وَمَنِ اسْتَقَاءَ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جسے قے از خود آجائے اس پر روزہ کی قضا نہیں ہے لیکن جو شخص جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضا ہے۔(۳۳)

2۔جان بوجھ کر کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو ۔ (۳۴)

3۔ ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے روزہ ٹوٹتاہے۔نیز جو ایسا کرے اس پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ – رضى الله عنه – قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:وَمَا أَهْلَكَكَ؟قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِى فِى رَمَضَانَ قَالَ: هَلْ تَجِدُ مَا تُعْتِقُ رَقَبَةً ،قَالَ لاَ قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، قَالَ لاَ قَالَ: فَهَلْ تَجِدُ مَا تُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِينًا،قَالَ لاَ   قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَأُتِىَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ فَقَالَ: تَصَدَّقْ بِهَذَا قَالَ أَفْقَرَ مِنَّا فَمَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنَّا. فَضَحِكَ النَّبِىُّ- صلى الله عليه وسلم- حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ.

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یوں گویا ہوا یا رسول اللہﷺ میں ہلاک ہو گیا،آپ نے پوچھا: کس چیز نے تجھے ہلاک کر دیا؟ اس نے کہا رمضان میں اپنی بیوی سے مباشرت کر بیٹھا، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس ایک غلام آزاد کرنے کی استطاعت ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا تم لگاتار دو مہینہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتےہو؟ کہا: نہیں، فرمایا: کیا تمہارے پاس اتنا مال ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ کہا: نہیں، پھر بیٹھ گیا اتنے میں نبیﷺ کے پاس کھجور کا ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے صدقہ کردو۔ اس نے کہا اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ کیونکہ دونوں حروں (سیاہ پتھریلی زمین) کےدرمیان کوئی اہل خانہ مجھ سے زیادہ اس کا محتاج نہیں، تو نبیﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے اگلے دانت ظاہر ہوگئے پھر آپ نے فرمایا: جاؤ اسے اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ (۳۵)

4۔حیض و نفاس آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے چاہے غروب آفتاب سے چند منٹ پہلے ہی شروع ہو۔ (۳۶)

5۔ ناک میں پانی چڑھانا:

روزہ کی حالت میں مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی چڑھانے سے نبیﷺ نے منع فرمایاہے۔ حدیث رسولﷺ ہے:

أَسْبِغِ الْوُضُوئَ   وَبَالِغْ فِی الِاسْتِنْشَاقِ اِلَّا أَنْ تَکُونَ صَائِمًا

وضو اچھی طرح پورا کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھایا کرو مگر روزے کی حالت میں (ایسا نہ کیا کرو)۔(۳۷)

6۔ جھوٹ، چغلی، غیبت، دھوکہ، موسیقی، لڑائی جھگڑا، لغو، رفث اور جہالت کی باتیں نہیںکرنی چاہیئں۔حدیث رسول ﷺ ہے:

جو شخص جھوٹ اور بے ہودہ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے کھانے پینے کے چھوڑ دینےکی ضرورت نہیں ہے۔(۳۸)

دوسری حدیث میں ہے: جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو کسی قسم کی فحش بات یا جہالت کا کام نہ کرے، اگر کوئی اس سے جھگڑا یا گالی گلوچ کرے تو اسے چاہیے کہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ (۳۹)

تیسری حدیث میں ہے:روزہ صرف کھانے پینے کا نہیں بلکہ روزہ لغو اور رفث سے بھی ہے۔(۴۰)

اس سارے امور کے متعلق بہت سی احادیث ہیں لہٰذا روزہ دار کو اپنے روزہ کی حفاظت کرتے ہوئے ان سب کاموں سے بچنا چاہیے تاکہ اس کا اجر و ثواب ضائع ہونے سے بچ جائے اور بھوک پیاس کے ساتھ اس کا نامہ اعمال بھی اچھا ہو۔

روزہ دار کے لیے جائز امور

1۔مسواک کرنا:

روزہ کی حالت میں مسواک کرنا جائز ہے۔ (۴۱)

2۔ حالت جنابت میں سحری کھانا:

نبی ﷺ نے حالت جنابت میں سحری کھانے کی اجازت دی ہے البتہ نماز سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے۔ (۴۲)

3۔ کلی کرنا اور سر پر پانی ڈالنا:

ابو بکر بن عبد الرحمن کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے سفر پر دیکھا: کہ آپ ﷺ روزے سے تھے اور پیاس یا گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈال رہے تھے۔ (۴۳)

دوسری حدیث میں فرمایا : اگر تم روزے کی حالت میں ہو تو کلی کر لو۔(۴۴)

4۔ سرمہ لگانا:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کےمتعلق روایت ہے کہ وہ روزے کی حا لت میں سرمہ لگایا کرتے تھے۔(۴۵)

5۔ بوسہ لینا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے اور روزے کی حالت میں بیوی کے ساتھ لیٹ بھی جاتے تھے لیکن آپ اپنے جذبات پر خوب ضبط رکھنے والے تھے۔(۴۶)

نوٹ:یہاں پر یہ یاد رہے کہ ایسا اس وقت کرنے کی اجازت ہے جب اپنے آپ کے نفس پر پورا ضبط کیا جا سکے ورنہ اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

6۔ جوان آدمی کے لیے بیوی سے بوس و کنار مکروہ ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے مسئلہ پوچھا کہ روزہ دار شخص بیوی کے ساتھ لیٹے یا نہ ؟ آپ نے اس کو اجازت دی۔ پھر دوسرا آیا اور اس نے بھی آپ سے یہی مسئلہ پوچھا، آپ نے اس کو منع فرما دیا۔ دراصل آپ ﷺ نے جس کو اجازت دی وہ بوڑھا تھا اور جس کو منع فرمایا وہ جوان تھا۔(۴۷)

7۔ تیل لگانا اور کنگھی کرنا:

سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے کہ یوں صبح کرے کہ اس نے تیل لگایا ہوا ہو اور کنگھی کی ہو۔( ۴۸)

8۔ گرمی کی وجہ سے غسل کرنا:

ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’ میںنے نبی کریمe کودیکھا کہ آپe گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہارہے تھے اور آپeروزہ دار تھے۔ (۴۹)

9۔ بوقت ضرورت ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہنڈیا یا کسی چیز کا ذائقہ معلوم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (۵۰)

10۔ از خود قے کا آنا:

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسے قے از خود آجائے اس پر روزہ کی قضا نہیں ہے۔(۵۱)

11۔ گرد و غبار اور دھواں مٹی:

ان چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (۵۲)

12۔ روزہ کی حالت میں احتلام:

ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسے قے آجائے یا (نیند میں)احتلام ہو جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (۵۳)

13۔ بھول کر کھا پی لینا:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور بھول کر کھا پی بیٹھا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اللہ نے تمہیں کھلایا اور پلایا ہے۔(۵۴)

قیام رمضان

فضیلت:

قیام رمضان کے حوالے سے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ اور امت کو ترغیب دلائی ہے خود نبی اکرمﷺ پورا سال قیام اللیل کیا کرتے تھے، قیام اللیل اورقیام رمضان ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں۔

اس کی فضیلت میں نبی اکرم ﷺ کی حدیث ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے ماہِ رمضان کا قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے گئے۔(۵۵)

دوسری حدیث میں ارشاد ہے:

عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول اللہﷺ اپنی کمر کس لیتے اور رات بھر جاگتے رہتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے۔ (۵۶)

رکعات تراویح:

تراویح کی تعداد میں ہمارے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے اس اختلاف کو ختم کرنے کا بہترین حل یہ ہے کہ آپﷺ کی تراویح کی تعداد کو دیکھا جائے، آپ ﷺ سے رمضان اور غیر رمضان میں قیام کی تعداد برابر ہی ہے، نوافل کی کوئی مقررہ تعداد نہیں ہوتی جو حسب توفیق ادا کر لے اس کو اتنا ہی اجر و ثواب ہو گا لیکن کسی بھی طرح سے کوئی تعداد متعین کر کے آپ ﷺ کی طرف منسوب کر دینا صحیح نہیں ہے۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے مندرجہ بالا سطور میں چند احادیث ہیں۔

1۔ رسول اللہ ﷺرمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ (۵۷ )

2۔سیدنا جابرt فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں رمضان میںآٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ (۵۸)

3۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا تمیم داری اور ابی بن کعب کو گیارہ رکعت تراویح باجماعت پڑھانے کا حکم دیا۔(۵۹)

4۔ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (۶۰)

وتر کی نماز

آپﷺ وتر نماز کے آخر میں ادا کرتے تھے قیام اللیل رات کے پہلے پہر میں کریں یا آخری میں پہر میں لیکن وتر کی نماز کے بعد صرف فجر کی سنتیں ادا کرتے تھے۔

نبی ﷺ وتر نماز کے آخر میں اد اکرتے تھے۔ (۶۱)

آپﷺ نے وتر کی نماز میں ایک ،تین ،پانچ، سات اور نو رکعات بھی پڑھیں ہیں ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نو رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ (۶۲)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس رمضان کو سنت نبویﷺ پر عمل کرتے ہوئے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اس مبارک نعمت سے اپنے گناہوں کو بخشواکر کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں۔ آمین

حوالہ جات

(۱)بخاری 1706، مسلم 3-4

(۲)بخاری 1810

(۳)ابو داؤد 2342، الحاکم 585/1

(۴)سنن ابو داؤد 2340، ترمذی 691، نسائی، ابن ماجہ

(۵)بخاری 1815، مسلم 21

(۶)مسند دارمی باب فی فضل الصلوات ج 2،ح 1729

(۷)سنن نسائی ج 3، ح 2652

(۸)سنن ابن ماجہ ج 2، ح 1700

(۹)صحیح مسلم ج6، ح 1951

(۱۰)صحیح بخاری 1923،صحیح مسلم 2603

(۱۱)صحیح مسلم 2604، سنن ابو داؤد 2345

(۱۲)مسند احمد 10664

(۱۳)سنن ابو داؤد 1998

(۱۴)سنن ابو داؤد 2003

(۱۵)صحیح بخاری 1921، صحیح مسلم 1097

(۱۶)صحیح بخاری 1957، صحیح مسلم 2608

(۱۷)سنن الترمذی 700

(۱۸)سنن ابو داؤد 2355

(۱۹)سنن ابو داؤد 2359

(۲۰)سنن ابن ماجہ 1699، سنن نسائی، سنن الترمذی

(۲۱)سنن ابو داؤد 209

(۲۲)شعب الایمان 3953، سنن الترمذی 807

(۲۳)سنن ابو داؤد 3856

(۲۴)سورۃ البقرۃ آیت 185

(۲۵)سورۃ البقرۃ آیت 185، صحیح بخاری 1943

(۲۶)صحیح مسلم 2666

(۲۷)صحیح بخاری ، صحیح مسلم

(۲۸)سنن الترمذی 715

(۲۹)سورۃ البقرۃ آیت 184

(۳۰)سورۃ البقرۃ آیت 185

(۳۱)صحیح بخاری 1950

(۳۲)صحیح بخاری 1952، صحیح مسلم 2748

(۳۳)سنن ابن ماجہ 1676، سنن ابو داؤد 2380

(۳۴)سورۃ البقرۃ آیت 187

(۳۵)صحیح مسلم 2651

(۳۶)صحیح بخاری 1951، صحیح مسلم 335

(۳۷)سنن نسائی 86، سنن الترمذی 788

(۳۸)سنن ابو داؤد 2362

(۳۹)سنن ابو داؤد 2363

(۴۰)مصنف ابن ابی شیبہ 8975،8882، صحیح ابن خزیمہ 1996، سنن الکبریٰ 8571

(۴۱)صحیح بخاری 887، سنن ابو داؤد 2364

(۴۲)صحیح بخاری 1926

(۴۳)سنن ابو داؤد 2365

(۴۴)سنن ابو داؤد 2385

(۴۵)سنن ابو داؤد 278

(۴۶)سنن ابو داؤد 2382

(۴۷)سنن ابو داؤد 2387

(۴۸)صحیح بخاری کتاب الصوم

(۴۹)سنن ابو داؤد 20272

(۵۰)صحیح بخاری 1209

(۵۱)سنن ابن ماجہ 1676، سنن ابو داؤد 2380

(۵۲)فتح الباری ج، 1 ص 155

(۵۳)سنن ابو داؤد 2376

(۵۴)صحیح بخاری 1831، صحیح مسلم 171، ابو داؤد 2398

(۵۵)صحیح بخاری 372، صحیح مسلم 1815

(۵۶)صحیح بخاری 2024

(۵۷)صحیح بخاری 2013

(۵۸)صحیح ابن خزیمہ 1070، ابن حبان 2401

(۵۹)مؤطا امام مالک ص 115، ج 1، بیہقی ص 496 ج 2

(۶۰)حاشیہ آثار السنن ص 250، سنن سعید بن منصور بحوالہ السخاوی للفتاوی ص 249، ج 1

(۶۱)صحیح بخاری 998، صحیح مسلم 751

(۶۲)سنن ابو داؤد 1351

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے