Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

رمضان المبارک کے مسعود لمحات کی آمد

Written by الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی 14 Jul,2013
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَّارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ

اور رمضان المبارک کے مسعود لمحات کی آمد 

کسی بھی معاشرے کی بقاء کا انحصار امن اور فراوانی رزق پر ہوتا ہے اور بدقسمتی سے وطن عزیز انہی دونوں انعامات سے محروم ہو چکا ہے، قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل عرب پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے انہی دو باتوں کا خاص طور پر ذکر کیا:’’الَّذِيْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ   ڏ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ‘‘ جس اللہ نے بھوک کی حالت میں انھیں کھانے کو دیا اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا‘‘(سورۃ قریش:۴) یعنی بھوک کی حالت میں رزق کی فراہمی اور خوف کی حالت میں امن وامان کی فراہمی ، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ۔اسی طرح دعائے ابراہیم کا محور بھی یہی دنوں أمور ہیں : فرمایا: ’’ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ ‘‘اے میرے رب! اس کو پر امن شہر بنادیجئے اور یہاں کے رہنے والوں کو قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمائیے (البقرہ:۱۲۶)

اور ایک مقام پر امن کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ شرک سے بچنے کی دعا بھی کی: رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ‘‘یعنی اے میرے پروردگار ! اس شہر (مکہ) کو پرامن بنادیجئے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچائیے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔(الابراھیم:۳۵)

سورۂ نحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ ایک قوم کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ‘‘اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پرامن اور مطمئن تھی، اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فروانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا ، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کویہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اور اوڑھنا بن گیا(نحل: ۱۱۲)

ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امن وسلامتی کو بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے اور اس کی ناشکری کرنے والوں پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی یہ بدامنی اور بے اطمینانی اللہ کی ناراضی پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو معاشرہ مامون نہ ہو، جہاں کے ساکنین کو ہر وقت اپنی جان ومال کی فکر لگی رہے اور جہاں انہیں اپنی عزت وآبرو کے بارے میں ان دیکھے اندیشوں سے دوچار ہونا پڑے، وہاں بقا ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔بدقسمتی سے وطن عزیز اس وقت شدید بدامنی کا شکار ہے اور اس بد امنی کی وجہ سے ہم ہر اعتبارسے پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

دین اسلام کا فطری مزاج امن وسلامتی پر تعمیر ہے۔ اس کے ماننے والے مؤمن اور مسلم کہلاتے ہیں دیکھا جائے تو یہ دونوں نام اسلام کی امن پسندی کا مظہر ہیں۔ دین اسلام کے متبعین کا مظہر اول یعنی السلام علیکم بھی اسی سلامتی کا مظہر اول ہے ۔

اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مسائل کے حل کے لیے بنیادی محرکات اور أسباب کو تلاش کرتا ہے اور اصل مرض کی شناخت کر کے سب سے پہلے اس کے علاج کی طرف توجہ دیتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بدامنی اور لاقانونیت بھی تاریخ کے صفحات پر رقم ہے لیکن اسلام نے اس خوش اسلوبی سے اس کا علاج کیا کہ وہی لوگ جن کی پہچان وحشت اور جہالت تھی وہ دنیا کے لیے امن کے پیامبر بن گئے۔ اسلام کی برکت سے آپس میں شیروشکر بن گئے۔

لہٰذا اگر ہم پر امن معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بدامنی کے بنیادی محرکات اور اسباب کو تلاش کرکے ان کا سدباب کرنا ہوگا ، تب جاکر معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بنے گا۔

ے ان بنیادی محرکات میں سرفہرست جو عامل کارفرما ہے وہ ’’معاشی محرومی‘‘ ہے

معاشی محرومی کا احساس انسان کو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جائز وناجائز کا فرق کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ یہ حکومت وریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا کو معاش کے اسباب مہیا کرے۔ تاکہ کسی بھی انسان کے دل میں معاشی محرومی کا احساس پیدا نہ ہو۔ان معاشی أسباب میں نظام زکوٰۃوصدقات کو مکمل خدو خال کے ساتھ نافذکرنا ہی پہلا اور آخری حل ہے نظام زکوۃ کے مکمل مفید نتائج سے فیض یاب ہونے کی اساسی شرط اس کا حکومتی سطح پر قائم ہونا ہے عوام کا انفرادی طور پر ادا کرنا قابل مستحسن ضرور لیکن مطلوبہ نتائج کا حصول ناممکن ہے۔

ے دوسرا اہم عامل ’’بے لاگ عدل وانصاف کی فراہمی ‘‘ہے۔

اس لیے کہ ہمارے وطن عزیز میں مصلحت آمیز عدل و انصاف کی فراہمی نے جہاں بد امنی کو پھیلایا وہاں انسانی جان کی قدروقیمت کو بھی ختم کر دیا قاتل اور ڈکیت کو سزا اس لیے نہیں سنائی جاتی کہ اس سے فتنہ اور فساد پیدا ہوگا یہ انتہائی غلط اور خطرناک سوچ ہے ۔جہاں عدل وانصاف کی فراوانی ہوگی اورمظلوم کو ظالم کے خلاف سستا اور فوری انصاف ملے گا، اس کوشفاف عدالتوں کے ذریعہ اپنی زیادتی اور اپنے درد کا درماں ملے گا تو وہ قانونی راہوںپر چلے گا، وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر بدامنی عام نہیں کریگا، اسلام نے عدل وانصاف پر بڑا زور دیا ہے :’’ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان ‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔ (سورۃ النمل)

مشہور ہے کہ حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں۔

قرآن مجید اور فرامین رسالت سے کہیں اس امر کا ثبوت نہیں ملتا کہ مصلحت کی بنیاد پر عدل و انصاف کی فراہمی کو مؤخر کر دیاجائے وطن عزیز کے کئی خطے حکومت وقت کی طرف عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے دیکھ رہے ہیں کہ کب مصلحت کی اجازت ہوتی ہے اور ان کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہوتا ہے۔جس میں سر فہرست پشاور، کوئٹہ، کراچی اور قبائلی علاقہ جات قابل ذکر ہیں۔

ے تیسرا اہم عامل ’’ تعصب کی بنیاد پر قانون سازی اور عہدوں کی تقسیم‘‘ ہے

معاشرے میں بدامنی کے قیام کا تیسرا بڑا سبب کسی بھی تعصب کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم ہے اہلیت اور میرٹ کے قتل عام نے ان خارجی تخریب کاروں کو اس امر کی اجازت دی کہ وطن عزیز کے ہنرکاروں اور ذہانتوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکے ۔ اسلام نے سیاسی سطح پر کسی بھی طبقہ کو ماتحت رکھنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی اسلام ذات پات، رنگ ونسل اور قبیلے کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم کا قائل ہے۔ بلکہ اس کے لیے اسلام نے صلاحیت اور اہلیت کو معیار بنایا ہے۔

المختصر آج ہمیں اپنے معاشرے کو پر امن اور متوازن بنانے کے لیے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے اس معاشرے کو ضرور پیش نظر رکھنا ہوگا جو معاشرہ معاشرتی اور سماجی برائیوں کی آماجگاہ تھا اورظلم وستم اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا لیکن نبی کریم ﷺ کی محنت اور تعلیم وتربیت کے نتیجے میں وہ ایک ایسا فلاحی ،پر امن اور متوازن معاشرہ بن گیا جس کی مثال نہ اس سے پہلے کی انسانی تاریخ میں ڈھونڈی جاسکتی ہے اور نہ اس کے بعد کی تاریخ سے اس کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔

اور حیران کن امر تو یہ ہے کہ اس بدامنی کا شکار صرف عبادت گاہیں ہی کیوںاور صرف مسلمان ہی کیوں؟ اہل اسلام کی تقریبات اور اجتماعات ہی کیوں ؟ کیا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی نہیں کہ ہم عالم کفر کی چہار اطراف یلغار کا شکار ہو چکے ہیں ذریت ابلیس اپنے جد کی مذموم قسم (ثم لآتینہم من بین ۔۔۔۔) کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہے یہود و ہنود کا باہمی اشتراک اپنی پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل ہے ۔

رمضان المبارک کے مسعود لمحات آنے کو ہیں برکات الٰہیہ اور انعامات ربانیہ کے نزول کے خوبصورت أوقات ایک مرتبہ پھر ہمارے دروازوں پر دستک دینے کو ہیں کیا ہم اپنے اصل کی طرف لوٹنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے حکمران کم از کم جن کلمات پر حلف اٹھاتے ہیں ان کی پاسداری کے لیے اپنے آپ کو تیار کر چکے ہیں ؟

یقین کریں یہ بابرکات لمحات اگر آکر اسی طرح گزر گئے اور ہم انہی أحوال میں رہے جس میں ہم ابھی ہیں تو ہم سے زیادہ بدنصیب کوئی نہ ہوگا ۔ رحمت الٰہیہ تو ’’ھل من داع‘‘ کی صدا بار بار لگا رہی ہے ہم میں سے کون ہوگا جو اس صدائے ربانی پر لبیک کہتے ہوئے خود بھی اپنے آپ کو رب العالمین کی حفاظت میں دے اور امت مسلمہ کے لیے بھی دعا کرے۔ آمین اللہم آمین

ہم اپنے حکمرانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ قرن اول کی ان مثالوں کو اپنے لیے لائحہ عمل بنائیں جن کی زندگی اسوۂ حسنہ کی اتباع کی بہترین تصویر تھی ۔ صدیق و فاروق و غنی و علی و ھادی کی ایک طویل فہرست ہے اللہ ہم سب کو توفیق مزید اور سدید عطا فرمائے کہ ہم ان خوبصورت لمحات کا حق ادا کر سکیں اور اگر حاکم وقت اور عوام دونوں نے ان مبارک اور مسعود لمحات کا حق ادا کر دیا تو یقین رکھیں کہ دعائے ابراہیمی کا حصول ناممکن نہیں بلکہ ممکن الحصول ہو سکتا ہے۔

Read 1163 times Last modified on 14 Oct,2015
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in جولائی
الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی

الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی

Latest from الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی

  • مثالی کتب بر دفاعِ صحابہ رضی اللہ عنہم
  • موبائل سوفٹ وئیر اور فہم اسلام
  • لا إلہ الا اللہ...کا مفہوم
  • فكري الحاد قدیم سےحاضر تک
  • فیوض القرآن

Related items

  • روزے کے احکام ومسائل
    in اپریل 2021
  •  فضل شهر المحرم وصوم یوم عاشوراء
    in ستمبر 2018
  • ذو الحجہ کا ابتدائی عشرہ
    in اگست 2018
  • رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس
    in جولائی 2018
  • ماہِ رمضان جو ہم سےالوداع ہو چکا
    in جولائی 2018
More in this category: « سالانہ تقریب تکمیل بخاری شریف How to live a happy life ... In the light of Quran Part:3 »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2022 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2013