رمضان المبارک ایک ایسا مہمان ہے جو طے شدہ پروگرام کے ساتھ آتا ہے اور اپنے ساتھ بے شمار تحائف لاتا ہے اس مہمان کی تکریم کرنے والوں کو رب تعالیٰ کی رضا و مغفرت کی بشارتیں ہیں اورگھر آئے مہمان کی ناقدری کرنے والوں کے لیے محرومی ہی محرومی ہے جنہوں نے اپنے گھر پہ دستک دینے والی رحمتوں سے منہ موڑ لیاسعادت کی بابرکت گھڑیوں سے فیض یاب ہونے کے بجائے نقصان و خسارہ اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ مگر توبہ کا دروازہ رب رحیم کی طرف سے رمضان گزرنے کے بعد بھی بند نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ اس نے چند فرائض کو زمان و مکان کی شرط کے ساتھ فضیلت دے کر باقی نیکیوں کو ان قیود سے آزاد رکھا ہے دن کا کوئی لمحہ ہو یا رات کی کوئی گھڑی اللہ رحیم و کریم کی طرف سے اعمال صالحہ کی قبولیت کے در کھلے ہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومن کے عمل کے لیے موت کے علاوہ کوئی انتہاء نہیں رکھی یہ بات کہہ کر انہوں قرآن پاک کی یہ آیات پڑھی۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ

، اور اپنے پروردگار کی عبادت کیجئے تاآنکہ آپ کے پاس یقینی بات (موت) آجائے۔(سورۃ الحجر 99)

یہ درست ہے کہ رمضان المبارک گزرنے کے ساتھ زندگی کا ایک مرحلہ بھی گزر گیا جو واپس لوٹنے کا نہیںاور ہر ماہ کا چاند یہی پیغام لیکر طلوع ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ ساتھ ہر چیز گزرے دن کے ساتھ اپنے انجام کے قریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ بہرحال رمضان کا موسم گزرنے کے بعد بھی نمازوں کا موسم تکرار کے ساتھ دن رات میں ہمارے سامنے ہے پھر ہفتوں کی گنتی میں جمعۃ المبارک کا موسم موجود ہے نمازوں کی پابندی کرنے والوں اور ہر جمعہ کی پابندی کرکے رمضان سے رمضان تک اہتمام کرنے والوں کو تمام گناہوں کے کفارہ کی نوید ہے جب تک کبائرسے بچا جائے یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہی ہے کہ جو رب رمضان کا مالک ہے وہی شعبان وشوال کابھی مالک ہے پھر رمضان میں آنسو بہاتی ہوئی آنکھیں رمضان گزرنے کے ساتھ رب کے خوف سے بے نیاز کیوں ہو جاتی ہیں۔ رمضان میں خرچ کرنے والے ہاتھ باقی دنوں میں فیاضی کیوں نہیں دکھاتے غمخواری پہ پگھلنے والے دل رمضان کے بعد پتھر کیوں ہو جاتے ہیں؟ یہ اس لیے کہ رنگ پختہ نہیں تقویٰ کا لباس ایک ماہ بعد ہی بوسیدہ ہو گیا۔ رنگ اڑ گیا مطلب یہ کہ معیار میں کچھ خامی تھی حالانکہ وہ جو عطاء کرنے والا مالک حقیقی ہے وہ تو ہر وقت محسنین کے ساتھ ہے وہ رمضان کے علاوہ بھی ہر رات کے تیسرے پہر آسمان دنیا پہ اپنی شان کے مطابق نزول فرما کر اپنے جود و کرم عنایت و مہربانی سے لوگوں کو نوازنے کے لیے فرماتا ہے۔ ہے کوئی توبہ کرنے والا تو میں اس کی توبہ قبول کروں کوئی بخشش مانگنے والا ہو تو اسے بخشش دوں کوئی اور سوالی ہو تو اسے عطا کروں۔ پھر یہ کیسی بے رغبتی ہے کہ محتاجی کے باوصف عطا کرنے والے کے سامنے ہاتھ نہیں  پھیلاتے گناہوں کے باوجود معافی کے خواستگار نہیں ہوتے۔ حذر الحذر وہ لوگ جو رمضان میں تقویٰ عمارت بنا چکے پھر اسے انحراف و بدعملی کے ساتھ گرالیں۔ منا جات ربانی سے لذت آشنا ہونے کے بعد تعلق باللہ کو توڑلیں تو وہی حال ہوگا کہ سوت کاتنے والی محنت سے سوت کاتے

۔ (نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ) (سورۃ النحل آیۃ رقم 92)

اور قرآنی الفاظ میں پھر مضبوطی کے بعد اسے توڑ ڈالے۔ ہر عمل کی قبولیت کی کچھ علامات ہوتی ہیں اور نیکی کی برکت مزید نیکی کا سبب نبتی ہے جبکہ برائی اور گناہ کی نحوست مزید گناہ لاتی ہے سو رمضان میں متقی بننے والا بعدمیں شیطان کیسے بن جاتا ہے۔ ’’ اِ نَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاٰتِ‘‘ بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں تو معاملہ اس کے برعکس بھی ہے کہ نیکیوں کے بعد گناہ کہیں نیکیوں کی بربادی کا سامان نہ بن جائیں۔ رمضان سے فیض یاب ہونے والوں کو اس متاع صالحات کو بچا کر رکھنا ہے جبکہ اس سے محروم رہنے والوں کو فوری توبہ کرکے اللہ کی طرف پلٹنا ہے لہذا نیکی کے تسلسل کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے راہنمائی فرمائی کہ رمضان کے فوراً بعد بھی نیکی کا سلسلہ جاری رہے فرمان نبوی ہے:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ (صحیح مسلم، باب استحباب صوم ستۃ أیام، جزء 3، صفحہ 169)

جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں۔

نئی حکومت سے لوگ بہت امیدیں باندھے ہوئے ہیں ادھر اس حکومت کا پہلا رمضان تھا کچھ امن وامان کے لیے پرامید تھے تو کچھ لوڈ شیڈنگ میں کمی کے منتظر کچھ ریلوے کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر عجیب صورت حال ہے امن وامان کی صورت حال یہ ےہے کہ کراچی میں حسب سابق روز آٹھ دس لوگوں کے قتل کی خبر ہے، ڈرون حملے بھی جاری ہیں، اور احتجاج بھی جاری ہے، قرضے بھی جاری ہیں اور سود بھی، فرق یہ آتا ہے کہ شرح سود بڑھ گئی ہے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ غربت کے مذاق کا تسلسل بھی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر خوراک نے چینی مہنگی ہونے کا حل یہ بتایا تھا کہ چینی کا استعمال ترک کر دیا جائے۔ اب پنجاب کے وزیر خوراک ٹماٹر مہنگے ہونے پر حل یہ بتاتے ہیں کہ متبادل طور پہ دہی ڈال لی جائے فون کالز پہ ٹیکس میں اضافے کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ اس کا استعمال عیاشی ہے کہیں یہ حضرات انقلاب فرانس کا سبب بننے والی اس منحرف سوچ کی طرف تو نہیں دوڑ رہے کہ ملکہ فرانس نے جب دیکھا لوگ سوکھی روٹی ہاتھ میں لیکر احتجاج کر رہے ہیں۔ پوچھا یہ لوگ کیا مانگتے ہیں بتایا گیا روٹی کے طلبگار ہیں کہنے لگی روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ہمارے وزیر خزانہ آئی ایم ایف کی شرائط کو مسلم لیگ (ن) کے منشور سے موافق قرار دیتے ہیں بڑے کاروباری اور تاجروں کو ٹیکس میں 5 فیصد چھوٹ دیتے ہیں جبکہ چھوٹوں پہ 5 فیصد مزید لگاتے ہیں۔ عام استعمال کی چیزوں پہ ٹیکس کا اضافہ کر کے عام لوگوں کو کفایت شعاری کی تلقین فرماتے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے بہت وعدے کیے ہیں سردست امن وامان کی صورت حال بہتر بنا دیں کچھ راست اور جراتمندانہ قدم اٹھائیں۔ جن کے ثمرات عام عوام محسوس کریں باقی منصوبوں کے لیے آپ کے پاس پانچ سال بہت ہیں۔ امن وامان کے لیے عدل و انصاف کو ضروری اور باقی ترقی کی راہیں اس پہ منتج ہوتی ہیں۔ مسلمان ہر جگہ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں وہ مغربی نظام جمہوریت کے تحت بھی حکومت بنانے کے باوجود امریکی آشیرباد سے محروم ہونے کی وجہ سے ٹک نہیں پاتے۔ ترکی، الجزائر، سوڈان ہمارے سامنے ہیں جبکہ تازہ مثال مصر کی ہے۔ طالبان پہ الزام تھا کہ وہ عالمی روابط کے ضابطوں سے بے خبر تھے مگر مصر کے صدر سے لیکر پارلیمنٹ تک پڑھے لکھے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز پہ مشتمل ٹیم کوئی سو فیصد اسلامی حکومت بھی نہیں مگر جنرل سیسی نے مصری قوم کی سی سی کروا دی ہے۔ بنگلہ دیش حکومت پاکستان کی حمایت کرنے والے بوڑھوں کو اب موت اور عمر قید کی سزائیں سنا رہی ہے، جبکہ ہماری وزارت خارجہ بے حسی مظاہرہ کرتے ہوئے ان سزاؤں کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہیں، سادہ احتجاج کرنے کو بھی تیار نہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم بڑھ گئے ہیں۔ برما میں مسلمانوں پہ زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔افلاس زدہ برمی مسلمانوں کو زندہ جلا دیا جارہا ہے مگر عالمی ضمیر خاموش ہے اسے صرف یہودیوں کا مفاد عزیز ہے۔ اس جاتے ہوئے رمضان اور آتی ہوئی عید میں ہمیں ان سب کو یاد کرنا ہے۔ ان کے لیے بھی اپنے رب سے ہاتھ پھیلانے ہیں کیونکہ وہی ہماری امید ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے