زندہ قوموں اور جماعتوں کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ اپنے اکابر واسلاف کے حالاتِ زندگی اور ان کے علمی وعملی کارناموں اور قومی وملی خدمات کو زندہ رکھنے کی کوشش کیا کرتی ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے علمی وعملی نقوش سے روشنی حاصل کر سکیں۔

شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی ذات محتاج تعارف نہیں ، آپ اپنے دور کے مایہ ناز مفسر قرآن، محدث، مؤرخ، محقق، دانشور، ادیب، خطیب، مقرر،نقاد، مبصر، معلم، مصنف، صحافی اور مناظر تھے۔ فن مناظرہ کے امام تھے۔ آپ کی دینی وعلمی وادبی اور تصنیفی خدمات کا احاطہ نہیں کیاجاسکتا۔ آپ کی تمام خدمات اظہر من الشمس اور ناقابل فراموش ہیں ، حاضر جوابی میں اپنی مثال نہیں رکھتےتھے۔

علم وفضل کے اعتبار سے آپ جامع الکمالات تھے ۔ تمام علوم اسلامیہ یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، ادب ونعت، اسماء الرجال اور فلسفہ ومنطق پر ان کو کامل عبور تھا۔ دوسرے الفاظ میں آپ جامع منقول ومعقول اور عدیم المثال عالم وفاضل تھے۔ برصغیر (پاک وہند) کے ممتاز علمائے کرام کے علاوہ عالم اسلام کے نامور علماء نے بھی آپ کے علمی تبحر، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اعتراف کیا ہے۔

مصر کے نامور عالم اور صحافی اور مفسر قرآن علامہ سید رشید رضا مصری رحمہ اللہ اپنے مجلہ المنار میں فرماتے ہیں کہ :

’’مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ ہندوستان کے علمائے حدیث وکلام وفقہ میں سے تھے ، وہ بڑے مناظر، بڑے فصیح وبلیغ وقادر الکلام تھے ، ہندوستان میں اسلام پر طعن وطنز کرنے والوں سے مناظرہ کے لیے بلائے جاتے تھے۔ ( مجلہ المنار ، جلد 33، صفحہ : 639)

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ ہندوستان کے مشاہیر علماء میں سے تھے فن مناظرہ کے امام تھے ، خوش بیان مقرر تھے، متعدد کتابوں کے منصف تھے۔

اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا ، اس کے حملے کو روکنے کے لیے ان کا قلم شمشیر بے نیام ہوتاتھا اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کردی۔ فجزاء اللہ عن الاسلام خیر الجزاء

مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد وسپاہی تھے۔ زبان اور قلم سے اسلام پر جس نے بھی حملہ کیا اس کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ آپہی ہوتے اللہ تعالیٰ اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات عطا فرمائے۔ آمین۔ (یادرفتگاں ، ص: 418)

مولانا عبد الماجد دریاآبادی تحریر فرماتے ہیں : ’’ہمیں مناظرہ کے کہنا چاہیے کہ امام تھے، خصوصاً آریہ سماجیوں کے مقابلہ میں اور شروع حدی میں ان کا فتنہ اس وقت سب سے بڑا تھا اگر مولوی ثناء اللہ ان کے سامنے نہ آجاتے تو مسلمانوں کو مظلومانہ مرعوبیت خدا جانے کہاں تک پہنچ جاتی ۔

(معاصرین ، ص:124)

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ میرے نزدیک اسلام کی صداقت وحقانیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ثناء اللہ ایسا زیرک ، معاملہ فہم، ذہین وفطین اسلام کا علمبردار ہے اور یہ صداقت اسلام کا جیتا جاگتا ، چلتا پھرتا معجزہ ہے۔

( المنبر لائل پور 14/ شعبان 1387ھ ص:14)

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ’’ شیخ الاسلام مولانا امر تسری رحمہ اللہ اعاظم الرجال میں سے تھے ۔ نقوش ابو الوفاء )

تفسیری خدمات :

اسلامی علوم وفنون کی تاریخ پر جن حضرات کی نظر ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ علم تفسیر اپنی عظمت شان، جلالتِ قدر، وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے تمام علوم میں ممتاز ہے۔ اس فن پر دور صحابہ سے لے کر آج تک مختلف نقطہ ہائے نگاہ کے مطابق بے شمار اہل علم نے متعدد زبانوں میں جو کتابیں لکھی ہیں ان کی تعداد کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ صرف برصغیر (پاک وہند) ہی کو لیجیے یہاں کے علماء نے بلاشبہ اس فن پر ایک اچھا خاصا کتب خانہ تیار کردیاہے۔

تفسیر نویسی کا کام جس قدر وسیع ہے اسی قدر نازک بھی تفسیر نویسی ہر کہہ وحہ کا کام نہیں کہ اس پر طبع آزمائی کرے ۔ بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ کہ :

آج تک ہم سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو سب سے بڑا مظلوم مانتے آئے ہیں لیکن اب یہ رائے تبدیل کرنا پڑے گی آج قرآن سب سے بڑا مظلوم ہے کہ ہر کہہ وحہ اس کی تفسیر لکھنے لگا ہے۔ (تذکرہ معاصرین ، مالک رام ، ص : 90)

مولانا امر تسری رحمہ اللہ اپنی خدمات متعلقہ تفسیر قرآن کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ یوں تو میری سب تصنیفات قرآن ہی کی خدمت میں ہیں مگر خاص تفسیر نویسی سے بھی غافل نہیں رہا۔ روزانہ درس قرآن کے علاوہ پہلے میں نے تفسیر ثنائی غیر مسبوق طرز پر لکھی، جو آٹھ جلدوں میں ختم ہوکر ملک میں شائع ہوچکی ہے اس کے تھوڑے عرصہ بعد بلکہ ساتھ ساتھ ’’ تفسیر القرآن بکلام الرحمان ‘‘(عربی) لکھی جس کی ملک میں خاص شہرت ہے۔ تیسری تفسیر موسومہ ’’بیان الفرقان علی علم البیان‘‘ (عربی) لکھنی شروع کی جس کا ایک حصہ سورۃ بقرۃ تک شائع ہوچکاہے ۔ ( باقی زیر غور ہے)

تفسیر کے متعلق چوتھی کتاب تفسیر بالرائے(اردو) لکھی۔ اس میں تفسیر بالرائے کے معنی بتا کر مروجہ تفاسیر وتراجم قرآن، قادیانی ، چکڑالوی، بریلوی اور شیعہ وغیرہ کے اغلاط پیش کرکے ان کی اصلاح کی گئی اس کا ایک حصہ چھپ چکاہے باقی زیر غور ہے۔ (اہلحدیث امر تسر 22/ جنوری 1942ء ۔ حیات ثنائی ، ص: 183)

تفسیر قرآن سے متعلق مولانا امرتسری رحمہ اللہ کی درج ذیل تصانیف ہیں :

1۔ تفسیر ثنائی (اردو) 8 جلد

2۔ تفسیر القرآن بکلام الرحمان (عربی)

3۔ بیان الفرقان علی علم البیان (عربی)

4۔ تفسیر بالرائے (اردو)

5۔ آیات متشابہات

6۔ برہان التفاسیر بجواب سلطان التفاسیر

7۔ بطش قدیر برقادیانی تفسیر کبیر

8۔ تفسیر سورۃ یوسف اور تحریف بائیبل

9۔ دلیل الفرقان بجواب برہان الفرقان

10۔ تشریح القرآن

تفسیر ثنائی :

یہ تفسیر اردو میں ہے اور 8 مجلدات میں ہے یہ تفسیر خاص اہمیت کی حامل ہےاور درج ذیل خصوصیات اس تفسیر میں عیاں ہیں ۔

1۔ ترجمہ بامحاورہ اور عام فہم ہے ۔

2۔ الفاظ قرآن کی نہایت عمدہ اسلوب سے تشریح کی گئی ہے۔

3۔ آیاتِ قرآن کا باہم ربط بیان کیاگیاہے۔

4۔ مخالفین اسلام کا عقلی ونقلی دلائل سے جواب دیا گیا ہے۔

تفسیر شروع کرنے سے پہلے مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے ایک جامع علمی وتحقیقی مقدمہ تحریر فرمایا ہے جس سے تفسیر کی قدر وقیمت دو چند ہوجاتی ہے۔ مقدمہ میں صاحبِ قرآن سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت مختلف مذاہب کی کتابوں سے فراہم کردیاگیاہے۔

تفسیر میں مولانا امر تسری رحمہ اللہ نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ ایک کالم میں قرآن مجید کا متن نقل کیا ہے دوسرے کالم میں اس کا بامحاورہ ترجمہ اور ساتھ ہی اسی کے درمیان مختصر ومناسب تشریح بھی کردی گئی ہے۔

ترجمہ اور تفسیر کے نیچے مولانا نے بہت سے قیمتی حواشی اور نوٹس بھی لکھے ہیں جن میں قرآنی تعلیمات کی تشریح کی گی ہے ۔ آیات کی شان نزول کا بھی ذکر کیا گیاہے۔ بہت سے طویل طویل حاشیوں میں مخالفین اسلام کے اعتراضات بھی رفع کئے گئے ہیں ایک بڑی خصوصیت ان حواشی کی یہ بھی ہے کہ ان میں جگہ جگہ سر سید احمد خاں کی ’’تفسیر القرآن‘‘ پر منظم انداز میں تفصیل سے تنقید اور ان کی ’’نیچریت‘‘ پر گرفت کی گئی ہے بحر حال یہ تفسیر ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔

تفسیر ثنائی کی جلدوں کی تقسیم وسن اشاعت اور تعداد صفحات کی تفصیل درج ذیل ہے۔

جلد اول : طبع اول 1313ھ مطبع چشمہ نور امر تسر / طبع دوم 1344ھ آفتاب برقی پریس امر تسر

سورۃ فاتحہ تا بقرۃ ، صفحات طبع اول :220/ طبع دوم ، صفحات : 184

جلد دوم :طبع اول 1317ھ مطبع چشمہ نور امر تسر /طبع دوم شعبان 1331ھ صفحات : 200/طبع ثالث: 1352ھ مطبع ثنائی برقی پریس امر تسر

سورۃ آل عمران تا سورۃ النساء ، صفحات : 224

جلد سوم :طبع اول رجب 1346ھ مطبع روز بازار امر تسر سورۃ مائدہ تا سورۃ اعراف ، صفحات : 184

جلد چہارم : طبع اول معلوم نہیں ، طبع دوم 1350ھ ثنائی برقی پریس امر تسر سورۃ انفال تا سورۃ نحل ، صفحات : 206

جلد پنجم : طبع اول 1325ھ مطبع اہلحدیث امر تسر طبع دوم 1350ھ ثنائی برقی پریس امر تسر سورۃ بنی اسرائیل تا سورۃ فرقان

طبع اول ، صفحات : 217         طبع دوم ، صفحات : 200

جلد ششم : طبع اول 1329ھ روزبازار سئیم امر تسر                سورۃ شعراء تا سورۃ یٰس ، صفحات : 200

جلد ہفتم : طبع اول 1334ھ مطبع روز بازار پریس امر تسر سورۃ صافات تا سورۃ نجم ، صفحات : 202

جلد ہشتم : طبع اول 1349ھ مطبع روز بازار پریس امر تسر سورۃ قمر تا سورۃ ناس ، صفحات : 184

تفسیر ثنائی کی پہلی جلد 1313ھ / 1895 کو شائع ہوئی اوراس کی آخری جلد (آٹھویں) 29/شعبان 1349ھ ، 18 فر وری 1931 ء کو شائع ہوئی مولانا امر تسری رحمہ اللہ نے یہ تفسیر 36 سال میں مکمل کی۔

اس تفسیر کی فوٹو کاپی مکتبہ الرحمان ، سول لائن سرگودھا نے شائع کیا۔ بعد میں تین جلدوں میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید نے جدید طرز پر شائع کی لیکن اس ایڈیشن میں بہت زیادہ غلطیاں تھیں ۔ چوتھی بار مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور نے بڑی آب وتاب سے بڑی عمدہ انداز میں تین جلدوں میں تیسرے ایڈیشن کی طرز پر شائع کی ہے۔

تفسیر القرآن بکلام الرحمان :

یہ تفسیر عربی میں ہے اور ایک جلد میں ہے ، مولانا امر تسری رحمہ اللہ کی یہ تفسیر خاص اہمیت کی حامل ہے مولانا مرحوم اس تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ تفسیر خاص طرز پر عربی میں لکھی جس کی ملک میں خاص شہرت ہے۔

یہ تفسیر درج ذیل خصوصیات کی حامل ہے۔

اس تفسیر میں قرآن کی تفسیر آیات واحادیث سے کی گئی ہے۔ آیات کی شان نزول بیان کرنے میں انہیں واقعات پر اکتفا کیاگیاہے جو صحیح سندوں سے مروی ہیں اور اس کے علاوہ مختلف مذاہب والوں کے اعتراضات کا جواب بھی دیاگیاہے۔

یہ تفسیر مولانا امر تسری رحمہ اللہ کی عالمی شہرت کا سبب بنی اور باہمی نزاع کا سبب بھی بنی ، مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے اس تفسیر میں آیات کی تفسیر آیات میں سے کی ہے ۔ بقول علامہ سید سلیمان ندوی (المتوفی 1953ء)

’’یہ غالباً اسلام میں پہلی تفسیر ہے جو اس اصول پرلکھی گئی ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے۔ حالانکہ یہ اصول ’’القرآن یفسر بعضہ بعضاً‘‘ نظری حیثیت سے علماء میں مدتوں سے مسلم ہے مگر عملی حیثیت سے اس کو کرکے اب تک کسی نے دکھایا بھی ہو تو اس وقت موجود نہیں اس بناء پر اس تفسیر کی خصوصیت بہت کچھ تعریف وتوصیف کی مستحق ہے۔ ( معارف اعظم گڑھ ، اکتوبر 1929ء ، حیات ثنائی ، ص : 551)

اس تفسیر کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ’’تفسیر جلالین‘‘ کی طرح اختصار ملحوظ رکھا گیاہے اور ایک جلد میں ہے علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ’’عربی مدرسوں میں اگر جلالین کی جگہ اس تفسیر کو رواج دیا جائے تو آج کل کی ضرورتوں کے لحاظ سے بہت بہتر رہے ۔ (معارف اعظم گڑھ ، اکتوبر 1929ء / حیات ثنائی ، ص: 551)

مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (المتوفی 1949ء) اپنے مدرسہ …. دار انگر بنارس میں تفسیر’’جلالین‘‘ کی جگہ اس تفسیر کو داخل نصاب کرلیا تھا۔ (حیات ثنائی ، ص: 551)

مولانا امر تسری رحمہ اللہ اس تفسیر کی وجہ تالیف کے متعلق فرماتے ہیں :

(ترجمہ) علماء نے قرآن مجید کی مختلف انداز پر تفسیریں لکھی ہیں بعضوں نے احادیث وآثار سے استفادہ کیا ہے اور کچھ حضرات نے اپنی عقل کا سہارا لیاہے حالانکہ تمام حضرات اس پر متفق ہیں کہ سب سے بہتر طریقہ کلام اللہ کی تفسیر خود آیات سے کرنا ہے چنانچہ میں نے اسی طرز کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ ( تفسیر القرآن بکلام الرحمان ، 4 ،ص:2 (طبع اول) ص:8 (طبع دوم))

مولانا محمد عزیز سلفی بہادری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ اصل تفسیر شروع کرنے سے پہلے مولانا نے طبع اول میں مختصر اور طبع ثانی میں قدر سے مفصل مقدمہ لکھا ہے جس میں امام رازی(المتوفی 606ھ) امام ابن تیمیہ (المتوفی 728ھ) علامہ سیوطی (المتوفی 911ھ) اور شاہ ولی اللہ (المتوفی 1176ھ) وغیرہم کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے تفسیر بالرائے، تفسیر کی صحت کے معیار اور شان نزول وغیرہ پر اظہار خیال کیا ہے ،اور اپنے طریقۂ تفسیر کی وضاحت کی ہے تفسیر کے اندر مولانا نے بڑی حد تک آیتوں کی مکمل توضیح صرف آیتوں سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بعض مسائل جو واضع نہیں ہوسکے ان کی مزید تشریح کے لیے حاشیہ پر احادیث نقل کی ہیں بعض مقامات پر دوسری کتابوں کا حوالہ بھی نظر آتاہے اختلافی مسائل بھی حاشیہ میں بیان کردیئے ہیں۔         (حیات ثنائی ، ص: 552، تذکرہ ابو الوفاء ، ص:60)

علمائے کرام نے اس تفسیر کی بہت تعریف وتوصیف کی ہے ۔

مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشیروی (المتوفی 1966ء) لکھتے ہیں :

’’ یہ تفسیر القرآن یفسر بعضہ بعضاً کا بہترین فرقع ہےاسے دیکھئے اور قرآن کریم کی اس حسن وخوبی داد دیجیے کہ اس نے اپنے سمجھنے والوں کے لیے اپنے ہی جیب ودامن میں کیا کچھ بھر رکھا ہے ۔ ( ہندوستان میں علمائے اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص:20)

مشہورادیب اور انگریزی واُردو کے مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریا آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :

’’ مولانا امر تسری رحمہ اللہ کی اُردو تفسیر بھی مختصر تفسیروں میں اچھی ہے لیکن عربی تفسیر کا نمبر اس سے بڑھا ہوا ہے قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی ہے ہم معنی آیتیں خوب یکجا مل جاتی ہیں۔ (معاصرین ، ص: 124)

مولانا امر تسری رحمہ اللہ کی اس تفسیر کی تعریف مصر کے اخبارات ’’الایرام‘‘ اور ’’المنار‘‘ نے بھی کی اور اس تفسیر کو مولانا امرتسری رحمہ اللہ کا ایک عظیم علمی کارنامہ انجام دیا۔ ’’ یہ تفسیر مولانا امرتسری رحمہ اللہ کی زندگی میں دوبار شائع ہوئی ۔

پہلی بارمطبع اہلحدیث امرتسر نے 1321ھ/1903ء میں شائع کی (صفحات : 508)۔ دوسری بار آفتار برقی پریس امرتسر سے 1348ھ/1929ء میں شائع ہوئی ۔ ( صفحات : 402)

مولانا خالد گھرجاکھی مرحوم ومفقود نے 1988ء میں طبع دوم کا فوٹو اپنے اشاعتی ادارہ احیاء السنۃ گھرجاکھر (گوجرانوالہ) سے شائع کیا۔

بیان الفرقان علی علم البیان :

مولانا امرتسری رحمہ اللہ کی یہ تیسری تفسیر ہے اور عربی میں ہے اور یہ تفسیر صرف سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرۃ کی ہے شروع میں مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے ایک جامع وعلمی مقدمہ تحریر فرمایا ہے ، مولانا مرحوم مقدمہ میں لکھتے ہیں :

’’ اول : قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے اس کی مثال میری تفسیر ’’تفسیر القرآن بکلام الرحمان‘‘ ہے ۔

دوم: احادیث مرفوعہ اور آثار موقوفہ کی روشنی میں تفسیر کی جائے اس کی مثال ’’تفسیر ابن کثیر ‘‘ ہے۔

سوم: یہ کہ متکلمین کا انداز اختیار کیاجائے اس طریقہ کی ایک مثال میری تفسیر ثنائی (اردو) ہے۔

چہارم : یہ کہ عربی ادب اور علوم لسانیہ لغت صرف ونحو، معانی بیان وغیرہ کو پیش نظر رکھ کر تفسیر کی جائے۔ میری یہ تفسیر’’بیان الفرقان علی علم البیان ‘‘ اسی طریقہ کا نمونہ ہے۔ ( بیان الفرقان علی علم البیان 1/2)

اس تفسیر کے آغاز میں علم معانی، بیان اور بدیع کے (172) قواعد کا ذکر کرکے حواشی میں ان کی مثالیں قرآن مجید سے پیش کی گئی ہیں۔ سورتوں کے شروع میں ان کے تمام مضامین کا تفصیل سے ذکر ہے اور اکثر مقامات پر عربی اشعار بھی درج ہیں۔

مولانا محمد عزیز سلفی بہاری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ضرورت کے وقت احادیث وآثار حتی کہ ’’توراۃ‘‘ سے بھی استفادہ کیاگیاہے۔ تفسیر کی عبارت بہت مختصر ہے توضیح کی خاطرکہیں کہیں حواشی میں بھی بعض مسائل پر گفتگو کی ہے اس کا مطالعہ کے وقت یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ مولانا نے یہ تفسیر فنی نقطۂ نگاہ سے لکھی ہے تمام تفسیری مباحث سمیٹنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

(بیان الفرقان علی علم البیان، 1/ 54 ۔ حاشیہ)

یہ تفسیر مطبع ثنائی امر تسر سے 1353ھ میں شائع ہوئی۔(صفحات : 60)

تفسیر بالرائے :

یہ تفسیر اردو میں ہے اور سورۃ فاتحہ وسورۃ بقرۃ پر مشتمل ہے اس تفسیر میں مرزا غلام احمد قادیانی کی تفسیر’’ خزینۃ العرفان‘‘ مولوی مقبول احمد شیعی کے ترجمہ قرآن مع حواشی، مولوی احمد الدین امرتسری نیچری کی تفسیر ’’بیان للناس‘‘ مرزا محمود خلیفہ قادیانی کے تفسیری نوٹ، تحریرات شیخ بہاء اللہ ایرانی، چند آیات کے ترجمہ عام فہم تفسیر مصنفہ خواجہ حسن نظامی کی تحریفات، ترجمہ قرآن مولوی احمد رضا خاں بریلوی مع حواشی مولوی نعیم الدین مراد آبادی کے چند واقعات ، تفسیر بیان القرآن مولوی محمد علی لاہوری، ترجمہ قرآن وحواشی مولوی عبد اللہ چکڑالوی ، تفسیر القرآن بآیات الفرقان مولوی حشمت علی لاہوری ، ترجمہ وتفسیرقرآن ڈپٹی عبد اللہ خاں لاہوری، تذکرہ علامہ عنایت اللہ خاں المشرقی ، تفسیر آیا ت مفتی محمد الدین وکیل گجراتی ، بطور نمونہ دکھا کر اصلاح کی گئی ہے۔        (تذکرہ ابو الوفا ، ص: 62تا 64)

مولانا امرتسری رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں کہ :’’ تفسیر کے متعلق چوتھی کتاب موسومہ تفسیر بالرائے لکھی اس میں تفسیر بالرائے کے معنی بتا کر مروجہ تفاسیر وتراجم قرآن (قادیانی، چکڑالوی،بریلوی اور شیعہ وغیرہ) کی اغلاط پیش کرکے ان کی اصلاح کی گئی ہے اس کا بھی ایک حصہ چھپ چکا ہے ۔ باقی زیر غور ہے ۔ ( نقوش ابو الوفا ، ص: 28۔ فتنہ قادیانیت اور مولانا امرتسری ، ص: 40)

مولانا محمد عزیز سلفی بہاری حفظہ اللہ لکھتےہیں :’’ چونکہ یہ کتابیں اس زمانہ میں عام طور پر متداول تھیں اور ان کے ذریعہ لوگوں کے ذہن میں غلط نظریات راہ پارہے تھے اس لیے ضرورت تھی کہ ان کا بے لاگ تنقیدی جائزہ لے کر حق وباطل کو واضح کیاجائے ۔ لیکن ظاہر ہے اس کے لیے وسیع مطالعہ، بہترین صلاحیت ، اسرار شریعت سے مکمل واقفیت اور مخالفین کے دلائل پر کامل اطلاع ضروری تھی یہی وجہ ہے کہ چند گنے چنے لوگ اس میدان میں آئے اور انہوں نے بعض ہی کتابوں کی غلطیاں واضح کیں۔ بیمہ گیر انداز میں تنقید کے لیے کسی نے قلم نہیں اُٹھایا مگر مولانا امرتسری رحمہ اللہ(چونکہ تمام شرائط سے بہرہ ور تھے) اس لیے انہوں نے یہ اہم کام اپنے ذمہ لیا اور حقیقت یہ ہے کہ اسے بڑی حد تک نباہ لے گئے۔(حیات ثنائی ، ص: 546)

تفسیر بالرائے ثنائی برقی پریس امرتسر میں 1358ھ میں چھپی۔ (صفحات:112)

آیات متشابہات:

اس کتاب میں صفات باری تعالیٰ اور حروف مقطعات کے معنی ومطالب کو اقوال سلف ولغات عرب سے واضح کرتے ہوئے آیات متشابہات کے سلسلہ میں بتایا ہے کہ علمائے راسخین اس کے معنی کو جانتے ہیں ۔

یہ کتاب در اصل مولانا امرتسری رحمہ اللہ کے دو تفسیروں تفسیر ثنائی (اردو) اور تفسیر القرآن بکلام الرحمان(عربی) کا مقدمہ ہے اور اس میں خاص انداز سے اصول تفسیر کی تحقیق کی گئی ہے اور یہ کتاب گویا مولانا امر تسری مرحوم کے خیالات کا خلاصہ ہے ۔ طبع اول 1904ء ، صفحات :56

تفسیر سورۃ یوسف اور تحریف بائبل :

یہ کتاب سورۃ یوسف کی تفسیر ہے ساتھ ہی بائبل کے بیان( بتعلقہ یوسف علیہ السلام) سے اس کا تقابل کیاگیاہے اور تحریف بائیبل کا ثبوت بھی پیش کیا گیا ہے۔ طبع اول 1944ء ، ثنائی برقی پریس امرتسر ، صفحات : 90

علوم القرآن سے متعلق مولانا امرتسری رحمہ اللہ کی بعض کتابیں :

ان مذکورہ تفسیروں کے علاوہ مولانا امرتسری کی علوم القرآن یا قرآنی مباحث سے درج ذیل کتابیں ہیں:

مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے سر سید خاں کی تفسیری نظریات پر تفسیر ثنائی میں حواشی میں تنقید کی ہے۔

علامہ مشرقی کی کتاب تذکرہ کا جائزہ اپنے رسالہ ’’خاکساری تحریک اور اس کا بانی‘‘ میں لیاہے۔ خلیفہ قادیاں مرزا محمود کی ’’تفسیر کبیر‘‘ کا رد اپنے رسالہ ’’بطش قدیر برد قادیانی تفسیر کبیر‘‘ میںکیاہے ، نیز اس کی طرف سے تفسیر نویسی کے چیلنج کے جواب میں ’’تفسیر نویسی کا چیلنج‘‘ نامی رسالہ لکھا۔

پادری سلطان محمد پال کی تفسیر’’سلطان التفاسیر‘‘ کے جواب میں سورۃ بقرۃ کے 16ویں رکوع تک ’’برہان التفاسیر بجواب سلطان التفاسیر‘‘ لکھی۔ جو اخبار اہلحدیث امرتسر میں (81) قسطوں میں (17مئی 1932تا 17 مئی 1935ء شائع ہوئی ۔

قرآن اور دیگر کتب :

اس میں مولانا نے وید،انجیل سے موازنہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی برتری ثابت کی ہے ۔ (طبع 1910ء ، صفحات:16)

تقابل ثلاثہ :

یہ کتاب پادری ٹھاکردت کے رسالہ ’’عدم ضرورت قرآن‘‘ کے جواب میں ہے۔ اس میں بتایا گیاہے کہ توراۃ اور انجیل کے مقابلہ میں صرف قرآن مجید ہی اپنی اصلی حالت پر ہے ۔ ( طبع 1909ء صفحات : 151)

الہامی کتاب:

یہ کتاب ایک مناظرہ کی روائداد ہے جو مولانا امرتسری رحمہ اللہ اور ماسٹر آثما رام کے مابین قرآن مجید کے الہامی کتاب ہونے کے سلسلہ میں ہوا۔ طبع 1905،صفحات : 192

القرآن العظیم:

اس کتاب میں بدلائل ثابت کیاگیاہے کہ قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہے اور وید وغیرہ غیر الہامی ۔ (طبع اول 1907ء ، صفحات:24)

الہام:

اس کتاب میں الہام کی تعریف کی گئی ہے وید اور قرآن کا فرق واضح کرتے ہوئے قرآن کی افضلیت ثابت کی گئی ہے۔ (طبع اول1904ء، صفحات:16)

کتاب الرحمان، حق پر کاش، تُرکِ اسلام، تغلیب الاسلام، تبر اسلام ، تشریح القرآن، جوابات نصاریٰ بھی اسی سلسلہ کی کتابیں ہیں جن میں عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کی طرف سے قرآن مجید پر وارد کئے گئے اعتراضات کا جواب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے