کرہ ارض پر مملکت سعودی عرب کو قائم ہوئے ۸۳ برس کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ ان تراسی برسوں میں اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے جس ترقی ، استحکام اور امن سے نوازا ہے اس کی دنیا میں وقت حاضر میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس امن اور آشتی کی جو بنیادی وجہ سامنے آتی ہے وہ اس ملک کا شرعی احکامات پر کاربند ہونا اور اسلامی حدود کا نفاذ ہے ۔ یہ ایک ایسا اسلامی ملک ہے جہاں غیر اللہ کے آستانے، مزارات کا وجودکہیں دور دور تک بھی نظرنہیں آتا۔ (وللہ الحمد )۔ اس ملک کے حکام اور علماء کرام نے امت مسلمہ کیلئے جو خدمات انجام دی ہیں آج اس پر تمام انسانیت ان کی مشکور وممنون نظر آتی ہے ۔ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے اس کو اپنی عوام جتنی عزیز ہے اتنا ہی اسے عالمِ اسلام اور اس کے اطراف اکناف میں بسنے والے مسلمان عزیز ہیں ۔ اس لئے تاریخ کے طالب علم اور بین الاقوامی معاملات کے ماہرین یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سعودی عرب نے تن تنہا تمام مسلم امہ کے جن مسائل پر توجہ دی اور ان کے حل اور مشکلات کے تدارک کے لئے جو عملی اقدامات کئے تمام کے تمام اسلامی ملکوں میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ بلکہ اگر عادلانہ موازنہ کیا جائے تومسلم امہ کیلئے پیش کردہ دیگر اسلامی ممالک کی خدمات سعودی خدمات کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ، چاہے فکری ونظریاتی میدان ہو یا معاشی بحران ہر میدان میں سعودیہ مسلمانون کی مدد کیلئے پیش پیش رہا ہے ۔

مملکت سعودی عرب کا یہ استحکام ، امن اور مسلمانوں کیلئے اس کی یہ خدمات یقینا حاسدین کو نہیں بھائیں ، مغرب اور اس کے ہمنوا ، ہم پیالے یہ کیسے برداشت کرسکتے تھے کہ معاشی ترقی کی بام عروج کوچھونے والا یہ ملک ، توحید وسنت کا مرکز ، شرک وبدعت کیلئے زہر ہلاہل ، آج کے اس مشرک ، بدعتی ، منافقانہ ، ضمیر فروشانہ معاشرہ میں کیونکر پنپ رہا ہے ؟!اس کے تدارک کیلئے توحید وسنت کے دشمنوں نے جب اپنےتمام وار خالی جاتے دیکھے تو اس پالیسی پر کام کا آغاز کیا کہ سعودیہ کو عالم اسلام میں تنہا کرکے مارا جائے ۔ تاکہ اکلت یوم أکل الثور الابیض کی ضرب المثل کو حقیقی تعبیر دلائی جائے ۔ کیونکہ بلاد حرمین ہر مسلمان کی آنکھ کا تارا ہیں اس کی طرف اٹھنے والی ہر مکروہ آنکھ کو مسلمان پھوڑنے کیلئے تیار ہیں ۔ مگر مغرب نے یہ چال چلی کہ اس ملک کو اس وقت تک زیر نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کو اپنوں میں تنہا نہ کردیا جائے ، چنانچہ انہوں نے ایسا پروپگنڈہ کیا کہ مسلمانوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلائی جائے ۔ ان دونوں بین الاقوامی میڈیا پر بالعموم اور پاکستانی میڈیا پر بالخصوص سعودی عرب کےخلاف قلمی ، لسانی یلغار اسی مکرہ سازش کا حصہ ہے ۔ لیکن ہمارے بہت سے ناداں مسلمان جو خود کو مدافعین اسلام سپاہیاں حرم گردانتے ہیں وہ بھی نادانستہ طور پر اس سازش کا حصہ بن کر اسے تقویت دیکر عالمی اور اسلامی سطح پر سعودیہ کو تنہا کرنے والوں کے آلہ کار بن رہے ہیں ۔ مصر پر سعودیہ کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا،اس سیاسی حمایت کو ناقابل معافی جرم گردانا گیا ۔ صیہونی اور امریکی ایجنٹ گردانا گیا ، حتکہ بعض نے تو کافر تک لکھ دیا۔ جس کا فائدہ صرف اور صرف اسلام دشمن قوتوں کو ہوا ہے کسی اور کو نہیں ۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ عالمی اور مقامی میڈیا پر سعودی سیاسی پالیسیوں پرمبالغہ آمیز تنقید کا مقصد صرف سیاسی مخالفت نہیں بلکہ سعودیہ کو عالم اسلام میں تنہا کرنا مقصد ہے جو مغرب کی دیرینہ خواہش ہے اس کا مقصد ان لوگوں کو تقویت دینا ہے جو حرمین میں قائم اس اسلامی ریاست کی بنیادیں ہلانا چاہتے ہیں ۔ مکہ اور مدینہ کے داخلی دروازوں پر ’’ طریق غیر المسلیمن ‘‘ جیسے الفاظ انہیں نہیں بھاتے ۔ سرزمین حرم پر ایک مصلی پر نماز ایک امام کے پیچھے تمام مذاھب کے لوگوں کا صف بستہ ایک سیسہ پلائی دیوار بننا انہیں اچھا نہیں لگتا ۔ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے اسلامی ملکوں کی طرح حرمین پر بھی رافضی اپنا تماشہ لگائے بیٹھے ہوں، حنفی اپنی دھن میں مگن ہوں ، شافعی ، مالکی ،حنبلی اپنے راگ الاپ رہے ہوں ، ، حرم میں درجن بھر مصلے ہوں ، پھر کہیں ان کے دل کو تسکین ملے گی ۔ قرآن مجید نے ایسے لوگوں کی کیفیت کا بہت ہی خوبصورت پیرائے میں نقشہ کھیچا ہے

’’ اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۚ وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَةٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمْ فَرِحُوْنَ )سورۃ التوبۃ 50)

آپ کو اگر کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں برا لگتا ہے اور کوئی برائی پہنچ جائے تو کہتے ہیں ہم نے اپنا معاملہ پہلے سے درست کر لیا تھا، مگر وہ تو بڑے ہی اتراتے ہوئے لوٹتے ہیں ۔

حاصل کلام یہ کہ مغرب کو سعودیہ میں رائج توحید وسنت ، وحدت امت ، شرعی حدود کا نفاذ ذرا نہیں بھاتا،اس لئے وہ خود بھی اس کاوش میں ہے کہ اس ملک کی بنیادوں کو ہلایا جائے ۔ اور یہ بنیادیں اس وقت تک نہیں ہل سکتیں جب تک مسلمان خود نہ ہلائیں ، اپنے اسی مکرہ پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے انہوں نے پلان بنایا اور اس کی تکمیل پاکستانی وعالمی میڈیا سے کر ا رہے ہیں ۔

ہمیں یہاں شکوہ اپنے ہی ان مسلمان بھائیوں سے ہے کہ ہمارے بہت سے مسلمان بھائی ، اسلامی تحریکوں کے ہمنوائی کرنے والے جب کسی دوسرے مسلمان ملک یا قوم پر تنقید کرنے لگتے ہیں تو وہ خود تنقید کے اسلامی ضابطوں سے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے پلو بچا کر نکل جاتے ہیں ۔ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر آخر میں یہی تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھائی اسلام یہی ہے جو ہم بتا رہے ہیں باقی اس کے سوا سب بتان آزری ہے ۔ ہماری اس تحریرکے مخاطب وہ تمام مسلم تحریکوں کے مصلحین ، مسلم میڈیا کے کرتا دھرتا لوگ کالم نگار ، تبصرہ نگار ، مفکرین ہیں جن کی توجہ میں ایک اہم اسلامی اصول وضابطے کی طرف دلانا چاہوں گا جسے تقریبا ہر اسلام کا نام لینے والے ، اور اسلامی ذہن اور فکر رکھنے والے شخص نے فراموش کردیاہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ تنقید ،جرح کرتے وقت اور آزادی رائے میں ہمیشہ عدل کا پہلو دامن سے چھوٹ جاتاہے ۔ جب باری جل وعلا کا تو فرمان مبارک ہے :

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ }

اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو جو پرہزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ ( سورۃ المائدة: 8)

عدل صرف عدالتوں اور کٹہروں میں نہیں ہوتا ، بلکہ ہر قول، ہر فعل ، ہر کردار وگفتار میں عدل کرنے کا حکم ہے ۔ قرآن کریم نے بات کرنے کے رہنما اصولوں میں سے یہ اصول بتایا کہ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہو۔

تمام بحث کو سمیٹتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ عالم اسلام میں اس وقت اگر کوئی صحیح معنوں میں اسلامی اسٹیٹ ہے تو وہ سعودی عرب ہے اور اس کے خلاف اپنے ہی مسلمان دانشوروں کی جانب سے زبان کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسلامی اسٹیٹ کو کمزور کرنا چاہ رہے ہیں ۔اور پھر نام بھی اسلام نے نفاذ کا لے رہے ہوتے ہیں ! دراصل المیہ یہ ہے کہ آج کل عمومی طور پر جو اسلامی تحریکیں کام کر رہی ہیں وہ نبوی اسلام کے بجائے تحریکی اسلام کے خواہش مند ہیں ۔ یعنی جن اصولوں پر ان کی تحریک قائم ہے وہی اسلام ہے اور کوئی خارجی ہے اسے خارجیوں والا اسلام چاہئے اور اگر کوئی اخوانی ہے اسے اخوانیت کا اسلام چاہئے ، جس میں رطب ویابس ایک ہو ۔ الغرض الطیور علی اشکا لها تقع ۔ حقیقی اسلام جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے تھے اس سے ہم کوسوں دور ہیں ۔ اس وقت اکثر تحریکیں تحریکی اسلام چاہ رہی ہیں ۔لا شرقیہ ولا غربیہ کہنے والے خود یا تو شرق میں بیٹھے ہیں یا غرب میں !

سعودی عرب میں جو اسلام رائج ہے وہ کتاب وسنت پر مبنی نظام ہے کوئی تحریکی ، فرقہ پرستانہ ، یا تنظیمی اسلام نہیں بلکہ حقیقی اسلام نافذ ہے وللہ الحمد ۔ لہٰذا اگر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو سعودیہ یا کسی بھی قوم یا گروہ کے بارے میں بات کرتے وقت عدل کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور محض منفی پوائنٹ بیان نہیں کرنے چاہئیں بلکہ مثبت چیزوں پر بھی توجہ کرنی چاہئے اور لوگوں کو اس سے بھی آگاہ کرنا چاہئے ۔ پاکستانی میڈیا نے آج تک سعودیہ کی حرمین ، مسلمانوں ، عالم اسلام کی خدمات کے حوالے سے تو پروگرام نشر کئے نہیں لیکن ان کی ایک دو سیاسی پالیسیوں پر اختلاف کی بنا پر انہیں صیہونی ، امریکی ایجنٹ یا کافر کہنا یہ عدل نہیں ہے ۔ ذرا سعودی عرب کی ان خدمات پر بھی نظر ڈالئے جو عالم اسلام میں اس نے انجام دی ہیں ۔ ہمیں بڑے آسان لفظوں سے انہیں امریکی ٹاؤٹ کہہ کر نظر انداز کر جاتے ہیں ۔ اور ان کی تمام کاوشوں پر پانی پھیر جاتے ہیں ذیل میں سعودیہ کی عالم اسلام کے حوالے سے خدمات پر چند پوائنٹ بیان کئے جاتے ہیں اس اپیل کے ساتھ کہ چن صحافیوں نے سعودیہ کی مخالفت میں تو صفحات کالے کردئے انہیں چاہئے کہ عدل سے کام لیتے ہوئے ان کی خدمات بھی بیان کریں ۔

عالم اسلام میں سعودی عرب کے امتیازات :

۱ : یہ وہ واحد اسلامی ملک ہے جو شرک اور مزارارت شرک کے اڈوں سے پاک ہے ۔جو کسی بھی معاشرے کے امن کی بنیادی شرط ہے ۔

۲ : وہ سلطنت ہے جو مذہبی تعصب سے پاک ہے ۔ ایک وقت تھا جب کعبہ میں چار مصلے ہوا کرتے تھے مسلمان افتراق وانشقاق کا شکار تھے مگر اس وقت خانہ کعبہ کا منظر وحدت اسلامی اور عالمی اخوت کا منظر پیش کرتا ہے ۔

۳ : شرعی حدود کا نفاذ جیسا کہ اسلام مطالبہ کرتا ہے ، صرف اور صرف سرزمین سعودیہ پر قائم ہے ۔ کسی اور اسلامی ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ جس سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

’’ إقامة حد من حدود الله خير من مطر أربعين ليلة في بلاد الله عز وجل ‘‘ـ

زمین پر حدود اللہ کو قائم کرنا چالیس دن کی نافع بارش کے برسنے سے بہتر ہے ۔

۴ :گذشتہ تین دہائیوں سے عالمی سطح پر مسلمانوں کی بلا مشروط مالی امداد کرنے والا سعودیہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔۲۰۰۸ کی عالمی رپورٹ کے مطابق غیر مشروط مالی امداد کرنے والے ملکوں میں اور عالمی خیراتی اداروں کو امداد فراہم کرنے میں سعودیہ سر فہرست رہا ہے۔ عالم اسلام میں غربت کے خاتمے کیلئے کی جانے والی امداد کا تخمینہ ایک بلین امریکی ڈالر ہے جو اس نے صندوق مکافحةالفقر فی العالم السلامی ( عالم اسلام میں شعبہ انسداد غربت )کو دی ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ۱۸ بین الاقوامی اسلامی فائنانسنگ اداروں کے بجٹ کیلئے امداد فراہم کی ۔

۵: افریقا میں اگر عیسائی مشنری کے حلق کاکوئی کانٹا ہے اور اس کے پھیلاؤ میں رکاوٹ ہے تو وہ سعودیہ ہے ۔ جہاں ان کی جانب سے ہزاروں مساجد تعمیر کی گئیں لوگوں کے دین کی تعلیم سے روشناس کرایا گیا ۔ اور مختلف رفاہی تنظیموں کے ذریعے وہاں کے مسلمانوں کی داد رسی اور ان کی مادی ومعنوی سپورٹ کی گئی ۔

مسلمانون کے فکری اور معاشی مسائل حل کرنے اخوت وبھائی چارے کو قائم رکھنے مدد کرنے کے لئے قائم کردہ عالمی تنظیمیں :

رابطة العالم الاسلامی :

( Muslim world league)

یہ عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین عوامی تنظیم ہے۔ عالم اسلام کے بائیس ممالک کے ممتاز علماء اور داعیانِ دین کا ایک نمائندہ اجلاس 14/ذی الحجہ1381ھ بمطابق 18/مئی 1962ء کو مکہ مکرمہ میں منعقد ہوا جس میں رابطہ عالم اسلامی کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی۔

اس تنظیم کے قیام کا مقصد دعوت دین اور اسلامی عقائد و تعلیمات کی تشریح اور ان کے بارہ میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات یا معاندین اسلام کے اعتراضات کو بہتر طریقہ سے زائل کرنا ہے، اور اس عالمی پیمانہ کی تنظیم کے توسط سے مسلمانانِ عالم کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے اور ان کے تعلیمی و ثقافتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے مالی تعاون فراہم کرنےکا کا راستہ ہموار کیا گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کسی بھی قسم کے تشدد اور دہشت سے لاتعلق ہو کرعالمی تہذیبوں کے افراد سے مکالمہ و گفتگو کا طریقہ کار اختیار کرتا ہے۔

رابطہ عالم اسلامی کے تحت کبار علماء دین اور داعیان اسلام کی مجلس اعلیٰ جو عالم اسلام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔

1.مجلس تاسیسی، یہ رابطہ علام اسلامی کی تجاویز کو روبہ عمل لانے کے لئے امین عام کے لئے رہنما خطوط متعین کرتی ہے۔ اس مجلس کے ممبران کی تعداد ساٹھ ہوتی ہے جو عالم اسلام کی نمایاں شخصیات ہوتی ہیں۔ ان کا انتخاب مجلس تاسیسی میں ہی عمل میں آتا ہے، اور کسی بھی ملک سے صرف دو ممبر ہی نامزد کئے جاسکتے ہیں۔

2.مجلس اعلیٰ عالمی برائے مساجد ۔ عالمی پیمانہ پر مساجد کی تعمیر و نگرانی اور ان کی آبادی کے لئے فکرمندی، ائمہ ، خطباء وغیرہ کی تربیت، اوقاف کا تحفظ وغیرہ جیسے امور و مسائل دیکھتی ہے اور اس کے عالمی پیمانہ پر چالیس ممبران نامزد کئے جاتے ہیں۔

اجلاس ہائے عام :

بنیادی طور پر عالم اسلام کے کبارعلماء اور داعیانِ دین کی مجلس ہی رابطہ عالم اسلامی کی مجلس حاکمہ ہے جس کے اب تک متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔

1.پہلا اجلاس عام1381ھ مطابق 1962ء جس میں رابطہ عالم اسلامی کی تجویز منظور ہوئی۔

2.دوسرا اجلاس عام 1384ھ مطابق 1965ء جس میں اتحاد اسلام کی اہمیت و ضرورت اور خارجی افکار و نظریات سے اجتناب کی تجاویز منظور کی گئیں۔

3.تیسرا اجلاس عام 1408ھ مطابق 1987ء، اس اجلاس کی اہم قراردادوں میں حرمین شریفین کی عظمت، اشہرحرم اور شعائر حج کی تقدیس اور مسلم حکمرانوں کا شعائر اللہ سے خاص تعلق وغیرہ تھیں۔

4.چوتھا اجلاس عام 1423ھ مطابق 2002ء، اس اجلاس کی اہم تجاویز وحدت امت، دعوت الی اللہ ، میثاق مکہ اور قضیہ فلسطین وغیرہ منظور ہوئیں۔

رابطہ عالم اسلامی کی نمائندگی:

رابطہ عالم اسلامی مندرجہ ذیل بین الاقوامی اداروں میں حق نمائندگی رکھتا ہے۔

1.اقوام متحدہ کی اقتصادی کمیٹی اور غیر حکومتی تنظیموں کی مجلس میں بطور مشیر کے مبصّر ممبر کی حیثیت سے۔

2.مسلم ممالک کی جملہ کانفرنسوں میں خواہ چوٹی کانفرنس ہو یا وزرائے خارجہ کی سطح کی، سب میں مبصّر ممبر کا درجہ رکھتا ہے۔

3.تربیت و تعلیم اور ثقافتی امور کی بین الاقوامی تنظیم یونیسکو کا مستقل ممبر ہے۔

4.بہبودئ اطفال کی بین الاقوامی تنظیم یونیسف کا مستقل ممبر ہے۔

اس تنظیم کی عالمی سطح پر خدمات کسی سے بھی دھکی چھپی نہیں،اس تنظیم کی داغ بیل ڈالنے والے بھی سعودی فرمانروا ہیں ۔جنہیں آج ہم کوسنے دیتے ہیں ۔

رابطہ عالم اسلامی ( مسلم ورلڈ لیگ ) نے جو آج تک اسلام اور مسلمانوں کیلئے خدمات انجام دی ہیں ان میں چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے ۔

۱ : اسلام کی نشر واشاعت میں اس ادارے نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مبلغین، سکالرز، داعیان حق دنیا میں متعین کئے گئے جن کی کفالت یہ تنظیم کرتی ہے ۔ یہ مبلغین اور داعی حضرات اسلام کی اشاعت اور اصلاح کا مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں ۔

۲: لاکھوں کی تعداد میں قرآن مجید مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے تقسیم کرائے گئے ۔ اس کے علاوہ عوام الناس کو مبادیات اسلام کی تعلیم دینے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں کتابیں تقسیم کی گئیں ، سیمینارز ، مذاکرے ، اور کانفرسز کا انعقاد کیا گیا ۔

۳ : مساجد کے حوالے سے رابطہ عالم اسلامی میں ایک خاص کمیٹی قائم ہے جو دنیا بھر میں سعودی فرمانرواؤں اور سعودی عوام کی مالی معاونت سے مساجد تعمیر کراتی ہے ۔

۴ : مسلم اقلیتی علاقوں کے مکینوں کو طلب علم کیلئے سکالر شپ فراہم کی جاتی ہے ۔

۵ : مصیبت زدہ علاقوں کے لوگوں کی مالی امداد میں پیش پیش رہتی ہے ، نیز غیر مسلموں کو دعوت وتبلیغ اور انہیں اسلام میں داخل کرنا انہیں اسلام سے متعارف کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے ۔

۶ : علماء امت اور اسلامی تنظیموں کا ایک پلیٹ فارم پر لانے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے ۔

۷ : مسلمانوں کے مرکزی مسائل جن میں فلسطین کا مسئلہ سرفہرست ہے کو عالمی سطح پر اٹھانے میں رابطہ عالم اسلامی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔

نیز اس کے علاوہ بیشمار خدمات ہیں جو اس تنظیمنے انجام دی ہیں یہ سب کی سب سعودی حکومت کی معاونت سے ہوتا ہے اور سعودی فرمانراؤوں کی ذاتی دلچسپی سے اس کو دن دگنی راگ چگنی ترقی مل رہی ہے ۔

مجمع الفقہ الاسلامی:

( International Islamic Fiqh Academy)

مسلمانوں کی علمی اور فکری رہنمائی کیلئے یہ تنظیم تشکیل دی گئی ۔ اس میں بھی کلیدی کردار سعودی عرب کا ہے اور اس کا ہیڈ آٖفس بھی جدہ اور مکۃ المکرمہ میں واقع ہے ۔ اس تنظیم کے اغراض ومقاصد میں :

ایک ایسی کو آپریٹو ایسوسی ایشن جو علم کے فروغ اور اس کے حوالے سے درپیش مسائل کے حل کیلئے معرض وجود میں لائی گئی ہے ۔

اس میں تقریبا تمام اسلامی ممالک کے ممبران علماء دین موجود ہوتے ہیں ۔ اور معاشرے میں درپیش علمی وتحقیقی مسئلے پر مذاکرہ ومباحثہ کرنے کے بعد ایک حل تجویز کرتے ہیں ۔ پاکستان کی جانب سے جناب جسٹس تقی عٖثمانی صاحب نمائندگی کرتے ہیں۔ نیز اسے دیگر سعودی اور عرب ممالک اور دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں سے منسلک علماء کرام کے علاوہ مختلف شعب ہ جات کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد خدمات بھی حاصل ہوتی ہیں ۔ جو ٹیکنیکل فیلڈ سے متعلق معاونت فراہم کرتے ہیں ۔ ۲۰۰۴ چار تک کی رپورٹ کے تحت ۴۳ اسلامی ممالک اس کے مستقل ممبر تھے ۔

اس تنظیم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عالم عرب کے ممتاز عالم دین بکر ابوزید رحمہ اللہ رقمطراز ہیں ’’اسلامی فکری تحریک پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مختلف پلیٹ فاموں سے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ناصحین کی جانب سے یہ مطالبات گاہے بگاہے سامنے آتے رہے کہ ایک ایسا فورم تشکیل دیا جائے جس میں تمام دیار اسلامیہ سے علما ء صالحین کی ایک جماعت شریک ہو ، تاکہ آپس کی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے ، وحدت کو مضبوط کیا جائے ، عالم اسلام کی مشکلات اور نایاب مسائل اور فقہی نوازل کا شریعت مطہرہ کی روشنی میں حل تلاش کیا جائے لیکن یہ خواہش محض خیالات کی حد تک محدود رہی اسے عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا ہمتیں جواب دے گئیں ، دوریاں عذر بن گئیں ، اور جیساکہ اہل اسلام اس قاعدہ پر عمل پیرا ہیں کہ ناامیدی کی جنگ اور خواہشوں وتمناؤں کا دروازہ کھولنے کی جستجواور فکر ذہنون میں موجزن رکھنی چاہئے ، اسی وجہ سے یہ تمنا ابھی تک بہت سے دلون میں باقی تھی ۔کہ اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت کام کیلئے مملکت سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین کومنتخب کای ۔ انہوں نے عالم اسلام کے اپنے ہم منصب احباب کو اس کی طرف توجہ دلائی جس کے نتیجے میں بیت اللہ کے سائے تلے مسجد الحرام کی مہکتی فضاؤں میں عالم اسلام کے بادشاہوں ، امراء اور فرمانرواؤں کی موجودگی میں سن ۴۰۱ھجری میں تیسری سربراہی کانفرنس میں اس پر باقاعدہ بحث ہوئی خادم الحرمیں شریفین نے سربراہان کو اس جانب متوجہ ہونی کی گذارش کی جس پر سب نے لبیک کہا۔ اور ’’ مجمع الفقہ الاسلامی ‘‘ کے نام سے ایک نظریاتی تنظیم وجود میں آگئی۔

اس تنظیم نے عالم اسلام کی خدمت میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ان کی جھلک کچھ یوں ہے ۔

۱ : جدید معاشی، معاشرتی اور طبی مسائل کا شرعی حل تجویز کرنا جس کیلئے ادارہ کی مرکزی ممبران کا اجلاس منعقد ہوتاہے ، علماء کی جانب سے اس پر تفصیلی بحث ہوتی ہے اور اس کے بعد زیر بحث مسئلہ کا شرعی فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ ان مسائل میں بینکوں کے مسائل ، میڈیکل مسائل، اور دیگر اہم مسائل زیر بحث رہتے ہیں ۔

۲ : انتہائی اہم کتابوں کی اشاعت کا اہتمام بھی یہ ادارہ کرتا ہے ۔

۳ : حال میں یہ تنظیم درج ذیل فکری ، نظریاتی اور علمی اہم پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے ۔

( أ ) موسوعة الفقه الاقتصادي ( اسلامی اقتصاد پر انسائیکلو پیڈیا ) کی تیاری ۔

( ب ) معجم المصطلحات الفقهية ( فقہی اصطلاحات پر ایک مفصل ڈکشنری کی تیاری )

( ج ) التنظيم و التشريع (القانون) الإسلامي للدول الأعضاء (رکن ممالک کیلئے اسلامی آئین کی تیاری )

( د ) اسلامی کتب پر تحقیق اور ان کی اشاریہ بندی کرنا ۔

( ھ ) احیاء التراث ۔ اسلامی ورثہ کا احیاء ۔

( و ) معلمۃ القواعد الفقیہ ۔ فقہی پیرا میٹر کی تیاری

یہ تو محض دو تنظیموں کا تعارف تھا اس کے علاوہ بھی متعدد عالمی تنظیمیں ہیں جوسعودیہ کی سرزمین پر قائم ہوئیں ، اس ملک کے فرمارواؤں اور علماء کی سپورٹ سے چلتی ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف عالم اسلام ، اور مسلمانوں کی خدمت ہے ۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں ۔

منظمة المؤتمر العالم الاسلامی

World Muslim Congrees

الندوۃ العالميةللشباب الاسلامی:

World Assembly of Muslim Youth

nternational Islamic Relief Organization

هيئة الإغاثة الإسلامية العالمية

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قول وقرار میں عدل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب اللعالمين

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے