اذان مغرب بھائی محمد علی بلتی کی آواز کانوں کیساتھ جیسے ہی ٹکرائی نماز مغرب کی تیاری کیلئے مسجد کے دروازے پر ابھی قدم ہی رکھتا تھا کہ سامنے سے ایک بھائی پر نظر پڑی تو محسوس ہوا کہ بھائی کسی ارادے کیساتھ مخاطب ہونے والے ہیں۔

سلام ودعا کے بعد بھائی خالد ظہیر جو کہ طلبہ کے ہفتہ روزہ پروگرام ’’النادی الأدبی الإسلامی‘‘ کے امیر ہیں اپنے خاص انداز کیساتھ ابھی مخاطب ہی ہوئے تھے کہ راقم فوراً سمجھ گیا کہ آج برو ز بدھ ہے اور ابھی نماز مغرب کے بعد طلبہ کا ہفتہ وار پروگرام شروع ہونے والا ہے۔

تو میں نے کہا ان شاء اللہ خدمت (منصف) کیلئے حاضر ہوں، نماز مغرب قاری فضل الرحمن کی اقتداء میں ادا کی، مصلۂ امامت کیطرف سے نماز مغرب کے بعد فوراً اعلان ہوا کہ بقیہ نماز کے بعد پروگرام کا باقاعدگی سے آغاز ہوگا، سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد سامنے اسٹیج پر ایک پر نور چہرہ دکھائی دیا ارے یہ تو بھائی عامر الشبل ہیں۔

سلام مسنونہ کے بعد خالص عربی لہجے میں تلاوت کلام اللہ کیلئے قاری ھلا ل الرحمن اور نظم کیلئے محمد یوسف الشجاع کو دعوت دی گئی۔ تلاوت ونظم کے بعد بھائی عامر الشبل نے اپنے خاص انداز میں تقریر کے لیے مرکز اول کے طالب علم عبد المنعم کو دعوت دی ، سبحان اللہ کیا خوب انداز ہے۔چند ہی دن قبل جامعہ میں داخل ہونے والے طالبعلم کہ جس کی عمر بمشکل 12 سال ہوگی لیکن اس کے باوجود عربی زبان میں نماز کی فضیلت پر گفتگو فرمائی دل کی گہرائیوں سے اپنے اساتذہ، جامعہ کے بانیوں اور اس بھائی کیلئے دعا نکلی اور دوسری پوزیشن بھی اس کمسن بچے نے ہی حاصل کی۔

اس کے بعد سرفراز بھائی کودعوت خطاب ملی تو بھائی نے بھی خاصی محنت کی ہوئی تھی ، فکر آخرت پر انہوں نے گفتگو فرمائی اور پہلی پوزیشن حاصل کی، ان کے بعد دعوت سخن منیب الرحمن بھائی کو ملی انہوں نے سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر گفتگو فرمائی ابھی ان کی گفتگو جاری وساری تھی کہ مسجد کے دروازے پر نظر پڑی تو کیا دیکھا کہ ایک عظیم شخصیت اسٹیج کی طرف رواں دواں ہیں دل کے اندر ایک عجیب سی خوشی جوکہ محبت واحترام کیساتھ اٹھی اور وہ تھے استاد محترم مدیر مجلہ محترم جناب ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ تعالیٰ (خریج جامعہ ام القریٰ) ہیں۔ اپنی نشست خاص پر تشریف فرما ہیں۔ کہ اتنے میں بھائی منیب الرحمن نے اپنی گفتگو کو ختم کیا اور تیسری پوزیشن حاصل کی ، ان کے بعد ماحول کو بدلنے کیلئے ایک مختصر نشست سوال وجواب کی کلیۃ الحدیث الشریف کے طالبعلم فیصل بھائی جو کہ راقم الحروف کے کلاس فیلو بھی ہیں ، سوال وجواب کیلئے تشریف لائے تو طلبہ سے چند ایک سوال کیئے جو طلبہ جواب دینے میں کامیاب رہے ان کو (النادی الادبی العربی الاسلامی) کیطرف سے کتب اور محترم مکی صاحب کیطرف سے ایک ایک سو روپے انعام میں ملا۔

ان کے بعد آخری تقریر کیلئے دعوت سخن بھائی عبد الرحمن عطاء کو ملی جنہوں نے توکل علی اللہ پر بہت ہی شاندار نصیحت فرمائی راقم الحروف کو بطور جج چناگیا تھا تو میں اپنے ان بھائیوں سے معذرت خواں ہوں کہ انصاف کرنے میں اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تو معاف فرمادینا۔

بلآخر جس لمحے کے منتظر تھے وہ قریب آن پہنچا وہ تھا استاد محترم کی نصیحت، بھائی عامر الشبل نے نہایت مؤدبانہ انداز میں شیخ محترم کو دعوت تکلم دی، محترم مکی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ اسٹیج پر تشریف لائے سلام وخطبہ مسنونہ کے بعد طلبہ کو بہت ہی پیار ومحبت والے انداز میں مخاطب فرمایا اور الفاظ کیا تھے ۔

اے میرے دوست،عزیزان من، اے میرے بھائی،دل ودماغ پر استاد محترم کے ان لفظوں نے اتنا اثر کیا کہ قلم قلب کی تھڑپ کو لکھنے سے قاصر ہے اور ذہن دور ماضی کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان محبت والفت والے رشتے پر جاٹھہرا اور سوچا کہ الحمد للہ دور حاضر میں بھی ایسے علماء، دعاۃ الخیر اور اساتذہ ابھی بھی الحمد للہ موجود ہیں۔

تمہیدی کلمات کے بعد مکی صاحب نے طالبعلموں کی فضیلت پر گفتگو فرمائی اور فرمایا لاکھوں بچوں میں سے اللہ رب العالمین نے صرف اور صرف آپ کسیاتھ بھلائی کاارادہ فرمایا ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ (بخاری)

طالبان نبوت کی فضیلت بیان کرنے بعد طلبہ کی حوصلہ افزائی اس انداز میں فرمائی کہ آپ کو اپنے مستقبل میں کاروبار،نوکری وغیرہ کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے بلکہ آپ مخلص ہوکر محنت کیساتھ علم کو حاصل کریں اور جو انسان خلوص کیساتھ تحصیل علم کیلئے محنت کرتاہے ۔ اللہ رب العالمین ایسے انسان کو کبھی بھی ضائع نہیں کرتے ، پھر استاد محترم فرمانے لگے یہ سب کچھ قرآن وحدیث میں وارد ہے ، جو کچھ ہم نے پڑھا ہے آپ حضرات بھی جانتے ہیںلیکن جو آج میں بات کرنا چاہتاہوں پہلے بھی کئی مرتبہ آپ احباب سے کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ بھی علماء کی صف میں شامل ہیں ، ہم(اساتذہ) اور آپ طلبہ میں فرق صرف یہی ہے کہ ہم عمر اور تجربے میں آپ سے زیادہ ہیں۔

فرماتے ہیں میٹرک کے بعد جامعہ میں (جامعہ ابی بکر الاسلامیہ) میں داخل لیا (اور یاد رہے راقم الحروف نے تقریباً آج سے دو سال قبل مکی صاحب سے سنا تھا کہ جامعہ میں داخل ہونے کے تقریباً دو سال تک میں اپنے ہی عقیدے پر رہا۔ لیکن آج الحمد للہ نہ صرف سلفی العقیدہ بلکہ ایک معروف انٹرنیشنل ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میںتدریس کیساتھ ساتھ ’’ماہنامہ مجلہ اسوئہ حسنہ‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔)

تو بات ہورہی تھی کہ جب میں داخلہ لیا خوب محنت کی تو ابھی معہد الرابع میں ہی تھا کہ باہر کسی اسکول میں سیکنڈ ٹائم میں جاب مل گئی اور ساتھ ہی ساتھ میں نے اپنی عصری تعلیم کو بھی نہ چھوڑا صبح سے لیکر ظہر تک جامعہ میں پڑھتا، ظہر سے 5 بجے تک اسکول میں پڑھاتا اور پھر بعد از نماز مغرب پڑھنے کیلئے کالج چلا جاتا، یہ تھا میرا طالب علمی دور کا ٹائم ٹیبل۔ اسی طرح ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنا روزانہ کا ٹائم ٹیبل بنائے ، تو مکی صاحب فرمارہے تھے کہ اسی طرح چلتے چلتے کلیۃ الحدیث سے فارغ ہوا تو دوسری طرف ایف۔ اے، بی ۔اے، ایم۔اے، اچھے نمبروں کیساتھ پاس کرلیا تھا۔

ابھی جامعہ سے فارغ ہی ہوا تھا کہ کراچی کے ایک معروف اسکول’’دی سٹی اسکول‘‘ میں اچھی خاصی تنخواہ کیساتھ سیٹنگ ہوگی تو فرماتے ہیں الحمد للہ دعوت دین کا کام اسی سلسلے میں اسکول وغیرہ میں بھی چلتا رہا ، ابھی جامعہ سے فارغ ہوئے صرف چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ الحمد اللہ دنیا کی معروف یونیورسٹی ام القریٰ (مکہ المکرمہ) میں داخلہ ہوگیا وہاں پرچھ سال مزید قال اللہ وقال الرسول کے نغمے سیکھنے کو ملے، ام القریٰ سے فراغت کے بعد سیدھا وہی ماحول جہاں کبھی ہم دو زانوں ہوکر اپنے اساتذہ کے سامنے بیٹھا کرتے تھے آج انہی کی جگہ پر ہم کھڑے ہورہے تھے ، وللہ الحمد

اور ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی میں پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ ہوگیا ، تو استاد محترم بیان فرمارہے تھے یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ جو باتیں آپ کے دلوں میں آتی ہیں ، جاب،کاروبار کے حوالے سے یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی تھا لیکن الحمد للہ اخلاص کیساتھ محنت کی اور اپنے اساتذہ کا ادب واحترام کا فریضہ نبھاتے رہے تو الحمد اللہ آج آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔

شیخ محترم نے دوسری جو کامیابی کیلئے بات بیان فرمائی وہ احترام الاساتذہ ہے فرماتے ہیں جب ہم طالب علم ہوا کرتے تھے تو جمعرات چھٹی کے دن اساتذہ کے کمروں میں چکر لگاتے اس بات کے شاہد باباجی عبد الرحمن (وارڈن) بھی ہیں، چکر اس غرض سے لگاتے کہ کہیں سے اساتذہ کے میلے کپڑے مل جائیں ان کو دھوکر استری کریںتاکہ اساتذہ اور اللہ رب العالمین ہم سے خوش ہوجائیں۔

تو الحمد للہ آج یہ اسی بات کا صلہ ہے وگرنہ ہم سے زیادہ محنتی جو کلاس میں ہمیشہ اول پوزیشن پر آتے رہے ہیں ہم تو کبھی کبھار تیسرے نمبر پر آیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آج وہ ہوٹلوں ،دوکانوںپرکام کر رہے ہیں، اور جو ہم تین یا چار بھائی اپنے اساتذہ کی خدمت میں مصروف رہتے تھے الحمد للہ ان میں سے ایک جامعہ اسلامیہ اسلام آباد اور دوسرا ایک اسلامی ادارے کا مدیر اور میں الحمد للہ آپ کے سامنے موجود ہوں ۔ وللہ الحمد

تو میری نصیحت آپ کو یہی ہے کہ خلوص نیت کیساتھ تحصیل علم کیلئے محنت کیجئے اور اساتذہ کا ادب واحترام کا پہلو ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے وگرنہ ……….

تیسری جو بات شیخ محترم نے بیان فرمائی وہ اپنے علم پر عمل کی تھی اور چوتھی اور آخری جو خود علم حاصل کرکے عمل کرو اس کی تبلیغ بھی ضروری ہے ، اور پھر فرمایا تبلیغ کے لیےہمارے پاس دو ہی راستے ہیں یا پھر خطابت کے ذریعے تو اس خطابت کے میدان میں اترنا ہوگا اپنے سے بڑوں کی وعظ ونصیحت کو سننا ہوگا اور ان کی غلطیوں کو نوٹ کرکے ان غلطیوں سے بچنا بھی ہوگا اور آپ کا یہ ہفتہ وار پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ آپ میدان خطابت میں اتر سکیں، اور دوسرا جو راستہ ہے وہ کتابت کا ہے تو آئیے آپ کے پاس قلم کے جہاد کیلئے مجلہ اسوئہ حسنہ کا میدان خالی ہے ، آیئے

اھلا وسھلا ومرحبا

مکی صاحب کے بیان کے بعد فائزین میں کتب اور مکی صاحب کی طرف سے تین سو پہلی دو سو دوسری اور ایک سو تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے کو انعام ملا۔

اسی کے ساتھ ہی پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا اللہ رب العالمین محترم مکی صاحب جو کہ مہمان خصوصی اور محترم جناب الشیخ خالد محمود الحذیفی مشرف العام اور محترم خالد ظہیر بھائی ودیگر معاونین عبد الرحیم نائیک، ہدایت اللہ، سھیل عبدالرحمن ، عرفان اللہ اور سامعین ومعاونین خصوصاً مشرف العالم الفاضل خالد محمود الحذیفی حفظہ اللہ جن کی دن رات کی محنت کا صلہ ہمارے سامنے ہے اللہ رب العالمین ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ جامعہ کے بانی شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ ودیگر معاونین کی قبروں کو جنت کے باغیچوں میں سے بنائے اور اسی طرح تاقیامت جامعہ سے قال اللہ وقال الرسول کی صدا بلند کرنے والے پیدا فرماتا رہے۔

۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے