خوشی اور غم انسان کی اندرونی یا باطنی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔اگرا نسان اندر سے خوش و خرم ہے تو اسے اپنے گردوپیش کی ہر شئے خوشی اور مسرت میں رقصاں نظر آئے گی، اس کا دل انجانی سی آسودگی اور فرحت و انبساط کی کیفیت سے دوچار ہوگا۔اس حالت میں نہ صرف دنیوی امور میں جوش و ولولہ پیدا ہوگا بلکہ اللہ کی یاد اور عبادت میں بھی رغبت و شوق بڑھ جائیگا ، اس کے برخلاف اگر اندرونی طور پر کوئی صدمہ ، غم اور احساس محرومی کا تاثر ہے تو انسان کو دنیا کی یہ زندگی بے مقصد ، بے کیف، اجڑی ،ویران اور رنج و الم میںڈوبی محسوس ہوگی، حتیٰ کہ اللہ کے ذکر اور عبادت کی طرف سے بھی جی اچاٹ ہوجائیگا، بندگیٔ رب کا مفہوم بے معنی سا لگے گا۔ ، بعض علماء ایسی حالت کوقبض و بسط کا نام دیتے ہیں۔

ان دونوں کیفیات کے پس منظر میں سب سے اہم عنصر انسان کے اپنے سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز ہے ۔۔ اگر کسی شخص نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اس کی زندگی میں دکھ، غم اور صدمہ پیش نہ آئے ، وہ کبھی کسی آزمائش میں نہ ڈالا جائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس نے اس زندگی کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں ۔ زندگی تو حوادث سے الجھ کر مسکرانے کا نام ہے، اشک بہانے اور دل برداشتہ ہو کر بیٹھ جانے کا نام نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیاہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔

اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے‘‘۔ (سورۃ الملک ۲)

یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات کچھ چیزیں ہماری طبیعت پر گراں گزرتی ہیں اور ہمیں ان سے قلبی اور ذہنی اذیت پہنچتی ہے، لیکن ان ہی اذیت ناک اور ناپسندیدہ امور میں ہمارے لئے خیر پوشیدہ ہوتا ہے۔ ابن رشد نے کہا تھا ، ’’دنیا میں جو برائی بھی پائی جاتی ہے وہ با لذات نہیں ہوتی بلکہ کسی نہ کسی بھلائی کی تابع اور لازم ہوتی ہے، مثلاً غصہ بری شئے ہے، لیکن یہ اس حاسّہ کا نتیجہ ہے جس کی بدولت انسان خود کو خطرات سے بچاتا ہے۔ یہ حاسّہ نہ ہو تو انسان ایک قاتل کا مقابلہ کر کے اپنی جان بھی نہ بچائے۔ آگ گھروں کو جلا ڈالتی ہے، جانیں تلف ہوجاتی ہیں ، املاک جل کر خاکسترہوجاتی ہیں۔ لیکن آگ نہ ہو تو انسان کے لئے زندگی بسر کر نا محال ہوجائے۔

اللہ کی طرف سے جب انسان پر آزمائشیںآتی ہیں تو بسا اوقات وہ ان میں پوشیدہ مصلحتوں کا صحیح ادراک نہیں کر پاتا اور پریشان ہو کر کبھی حالات کا رونا روتا ہے تو کبھی اپنی تقدیر کو ملامت کر تا ہے۔ان بدلتی کیفیات اور تغیرات کی حکمتیں اگر انسان پر آشکار ہو جائیں تو وہ خود اپنی اس فکری کجی پر پشیمان ہو گاکہ وہ کیسی نادانی اور کم فہمی کا شکار تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’غبار خاطر‘‘ میں لکھا ہے: ’’راحت و الم کا احساس ہمیں باہر سے لا کر کوئی نہیں دیتا، یہ خود ہمارا احساس ہے جو کبھی زخم لگاتا ہے تو کبھی مرہم بن جاتا ہے۔ طلب و سعی کی زندگی خودسب سے بڑی لذت ہے، بشرطیکہ کسی مطلوب کی راہ میں ہو‘‘۔

اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیںکہ بعض اوقات حیات دنیوی میں ناکامیاں، محرومیاں اور تلخیاں انسان کو کچل کر رکھ دیتی ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان قناعت نہیں کرتا، اپنی احتیاج اور اپنی سماجی حیثیت سے بڑھ کر حصہ حاصل کرنے کی سعی لا حاصل کرتا ہے۔ قدرت نے انسان کی ضروریات پوری کرنے میں ہر گز بخل سے کام نہیں لیا ہے، لیکن انسان خود فیصلے کرنے میں غلطی کر بیٹھتا ہے اور جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے۔ اگر وہ شعور و ادراک کی روشنی میں اپنی صحیح سمت مقرر کرے تو اپنی ناکامیوں کو کامیابی میں بدل سکتا ہے۔یوں بھی ناکامیوں سے دو چار ہوئے بغیر کامیابی کی امیدیں باندھنا ایک احمقانہ طرز عمل ہے۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی شراب پئے اوراسے نشہ نہ ہو،جواء کھیلے اور کبھی بازی نہ ہارے، جو لوگ کوئی کاروبار شروع کر تے وقت اس کے نقصان کے پہلو کو مد نظر نہیں رکھتے وہ کبھی ایک کامیاب بزنس مین نہیں بن سکتے۔

قانون فطرت یہی ہے کی انسان زندگی کے کسی بھی پہلو میں دانشمندانہ فیصلہ نہیں کرے گا تو خسارہ اٹھا ئے گااور فطرت کا یہ قانون انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس بات سے بھی مفر نہیں کہ کبھی خارجی عوامل بھی انسان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔بقول ارسطو انسان ایک سماجی جانور(social animal)ہے، چنانچہ وہ سماج اور معاشرے سے الگ تھلگ رہ کر مجرد زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ رشتے ناتے اور سماجی تعلقات دو دھاری تلوار کی مانند ہوتے ہیں ، اگر ایک طرف انسان کو ان کی طرف سے احساس تحفظ ،اپنائیت ، خلوص اور دکھ سکھ کا ساتھ نصیب ہوتا ہے تو دوسری جانب ان کی احسان فراموشی،دل آزاری، خود غرضی ،منافقت ، بے رخی اور سرد مہری کے رویے انسان کے جذبات اور احساسات کو کچوکے لگاتے ہیں۔ انسان عجب دو راہے پر آکھڑا ہوتا ہے، قرابت داروں سے لاتعلقی اختیار کرے تو صلۂ رحمی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، جس کی ہمارے دین میں انتہائی تاکید کی گئی ہے۔ حدیث پاکٌ کا مفہوم ہے کہ: ’’ جو شخص اپنی عمر اور رزق میں برکت اور کشادگی چاہتا ہے وہ قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئے‘‘۔

بسا اوقات ہم لوگوں سے ایسی توقعات اور امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں جن کو کلی طور پر پورا کرنا ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتا، پھر ہم دل برداشتہ ہوتے اور پیچ و تاب کھاتے ہیںاور بد گما نیوں کا پورا دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ایسے موقعوں پر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہر انسان کا ایک محدود دائرہ اختیار ہوتا ہے ، اس میں رہ کر ہی اگر وہ کسی کے لئے کچھ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس لئے صحیح اور راست طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں سے توقعات ، آس اور امیدیں وابستہ کر نے کے بجائے اپنے ہر مسئلہ اور ہر مشکل کو اللہ کے سامنے رکھے وہ سمیع و بصیر ہستی ہے اور اصل کارساز، مشکل کشاء اور حاجت روا صرف وہی ہے۔ وہ جو ہر شئے پر قادر ہے اور ہماری مصلحتوں کو ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے، جو کچھ ملے گا اسی کے در سے ہی ملے گا۔ وہ اگر محروم رکھنا چاہے تو دنیا کا ہر دروازہ انسان کے لئے بند ہوجاتا ہے، جو اس کے در سے ٹھکرادیا گیا وہ اس عالم رنگ و بو میں کسی سے کوئی فیض حاصل نہیں کر سکتا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

؎

بڑھتی نہیں کمال سے انساں کی آبرو

جب تک خدا نہ چاہے کوئی پوچھتا نہیں

سخت کوشی کی زندگی اور آسائشوں سے کنارہ کشی انسان کو نڈر اور بہادر بناتی ہے ، جو انسان اپنی ضرورتوں کو محدود کر لیتا ہے وہ کسی شئے سے خوفزدہ نہیں ہوتا، نہ کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوتا ہے۔۔انسان کی بے تحاشا احتیاجات اور لا متناہی خواہشات ہی اسے دوسروں کا دست نگربناتی ہیں اور سہاروں کی زندگی اسے کمزور، خودغرض ، بزدل، تن آساں اور بے حس و بے ضمیر شخص کے روپ میں ڈھال دیتی ہے۔ خود داری انسان کی شخصیت کا اصل جوہرہے جو اس کی فکرو عمل کو جلا بخشتا اور روح کو بالیدگی عطاء کرتا ہے۔۔خوشی اور غمی کا احساس اس کے قلب و ذہن میں کسی قسم کی آشفتہ سری کو پنپنے نہیں دیتا۔عقیدہ راسخ اور قدرت پر یقین کامل ہوتو منزل آسان اور راستے ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔خلیل جبران کہتا ہے: اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیا تو یقین کرو زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ۔ ہمیں خود کو مزاحمتوں اور مخالفتوں کا عادی بنانا چاہئے، ان ہی تلخیوں سے زندگی میں چاشنی اور حلاوت پیدا ہوتی ہے۔ بقول ناصر کاظمی

؎

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر

غم کے سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

یہ کڑوے گھونٹ پینے سے ہی انسان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور قوت برداشت کا جوہر اس کی شخصیت میں حلم ، بردباری ، متانت اور حوصلہ مندی جیسے اوصاف حمیدہ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کی فکری بلندی ، و سعت قلبی اور کردار کی مضبوطی اسے سماج میں ایک دلآ ویز شخصیت کا مقام عطاء کرتی ہے، جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔

؎

زہر غم پیجئے تو الفاظ میں رس آتا ہے

دل کو خوں کیجئے تو افکار میں جاں آتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے