اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَحْدَہٗ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنْ لَّانَبِیَّ بَعْدَہٗ ، اَمَّا بَعْدُ! فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
{ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْن} (سورۂ توبۃ، اٰیت:۳۳)

اللہ وہ ذات ہیں، جنہوں نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، تا کہ اس کو سارے دینوں پر غالب کر دیں، اگر چہ مشرکین برا سمجھتے ہیں۔

میرے دوستو بھائیو! سب کچھ اللہ پاک نے بنایا ہے، اور اللہ پاک کے بنانے سے ہی سب کچھ بنتا ہے، ہم سب کو اللہ پاک نے بنایا ہے ، ہماری آنکھوں کو رب تعالیٰ نے بنایا اور ان میں بنائی بھی انہوں نے رکھی ہے، کئی بھائی آپ کو ایسے ملیں گیں، کہ ان کی آنکھیں تو ہوں گیں، مگر بینائی نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہمارے کان سنتے ہیں، وہ نا سننے دیں نہیں سن سکتے، ہمارے ہاتھوں میں پکڑنے کی قوت بھی اللہ پاک نے ہی رکھی ہے، فالج ہو جائے ( العیاذ باللہ) ہاتھ تو ہیں مگر پکڑنے ی طاقت نہیں ہے، بولنے کی قوت بھی انہوں نے دی ہے ، چلنے کی طاقت بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دی ہے ، یہ سارے اعضاء اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہی حرکت کرتے ہیں، ہمارے وجود میں خون جو گردش کرتا ہے، تو وہ بھی اللہ پاک کے اذن و ارادے سے کرتا ہے، وہ نا چاہے تو ہر چیز جام ہو جائے اور بندہ ختم ہو جائے، سورج اللہ پاک نے پیدا فرمایا اور اس میں گرمی کی تاثیر ہمارے پھلوں ، کھیتوں اور باغات پکانے کیلئے انہوں نے ہی رکھی ہے، وہ جب چاہیں اس کی روشنی صرف کر لیں اور سورج کو بے نور کر دیں، چاند کی روشنی میں لطافت انہوں نے رکھی ہے، وہ ہمارے پھلوں میں اللہ کے اذن و ارادے سے مٹھاس پیدا کرتا ہے، اس کو بھی جب چاہے وہ بے نور کر دیں، وہ ہر چیز پر قادر ہیں، { اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرْ }ان کی صفت ہے۔

میرے بھائیو ! پانی کہیں میٹھا ہے تو کہیں کروا ہوتا ہے، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے اور اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے، پانی ایک ، زمین ایک، مالک ایک مگر پیدا وار الگ الگ ہے، یہ کون کر رہا ہے؟ یہ سب کچھ رب تعالیٰ کر رہے ہیں، ان کے اذن سے ہو رہا ہے، ان کی مشیت سے سب کچھ ہو رہا ہے۔

میرے دوستو! ہم جو نیک اعمال کر رہے ہیں، تو یہ بھی اللہ پاک کی توفیق و مدد سے کر رہے ہیں، اور برائی و بے حیائی سے جو بچ رہے ہیں تو یہ بھی ہمارے مالک کی مدد ہے ورنہ تو شیطان کا حملہ برا زبر دست ہوتا ہے، حضرات انبیاء ہمیں یہی سمجھانے کیلئے تشریف لا ئے ہیں کہ اللہ پاک کی مان کر زندگی گزارو، یہ زندگی فائدہ مند ہو جائے گی، اس سے آخرت بھی بنے گی، اور اللہ پاک خوش بھی ہونگے، کہ یہ بندہ میری مان کر آیا ہے، یہ میرا بندہ ہے، آج میں اس کو انعامات سے نوازوں گا، حضرات انبیاء ہمیں دین کی دولت دینے آئے ہیں، اور دین کی عظیم محنت کیلئے آئے ہیں، اور ہمیں بھی اس محنت کا محنتی بنانے آئے ہیں، جیسے ہم دوسری چیزوں کیلئے محنت کرتے ہیں، تو اللہ ہمیں وہ چیزیں دے دیتے ہیں، تو جب تعلق باللہ ، ایمان اور یقن پر محنت ہوگی تو یہ چیزیں بھی حاصل ہو جائینگی، اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے،

{ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنْ } (سورۂ عنکبوت، آیت:۶۹)

جو لوگ ہمارے راستے کی طلب کی محنت کرتے ہیں تو ہم ان کو یہ دولت ایمان دے دیتے ہیں، اور یہ لوگ محسنین ہیں اللہ پاک ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔

آج ہمارا یقین بن چکا ہے، کہ محنت سے سب کچھ ہوتا ہے، اسی لیے کوئی دوکان پر زندگی لگا رہا ہے، کوئی کارخانے میں اپنے آپ کو ضائع کر رہا ہے، کوئی کھیتی باڑی پر قیمتی وقت صرف کر رہا ہے، کوئی اپنے آپ کو تجارت کے شکنجے میں کس رہا ہے، یہ سب کا ذہن ہے ، کہ کام کرینگے تو کام چلیں گے، حالانکہ یہ قیمتی جانیں ایمان و یقین اور تقوٰی و اعمال پر لگنی چاہیے تھیں، ان پر لگنے کی وجہ سے یقین آجاتا یہ سب کچھ اللہ پاک کے اشارے سے ہو رہا ہے، جو کچھ نظر آتا ہے اس کی نفی کر دی جائے، اور اقرار کیا جائے کہ ان ظاہری اسباب کے پیچھے اللہ پاک کا غیبی نظام چل رہا ہے، اور سارے کام ہو رہے ہیں، اس کا ہمیں انکار کرنا ہوگا، آپ دیکھتے ہیں کے دودھ بھینس سے نکلتا نظر آتا ہے، بلکہ یہ اللہ پاک کے امر سے ہو رہا ہے، آپ بیل کو ذبح کر کے دیکھ لیں کیا اس کے اندر دودھ کا کوئی سٹاک ہے؟ بالکل نہیں ہے، ہر روز بنتا ہے، ہر روز نکلتا ہے، یہ اللہ پاک کا غیبی نظام ہے، بظاہر دوکان سے ہوتا نظر آتا ہے، مگر یہ اللہ پاک کے ارادے سے ہو رہا ہے، وگرنہ تو کئی دوکاندار مقروض ہو کر دوکان چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، اگر دوکان سے ہوتا تو پھر اس کو نقصان کیوں ہوتا، جبکہ دیگر احباب کو فائدہ ہو رہا ہے، دونوں ہی محنت میں لگے ہوئے ہیں، ایک کو فائدہ دوسرے کو نقصان کیوں ہوا ہے؟ ایسے ہی کارخانہ سے ہوتا اور بڑھتا نظر آتا ہے مگر ہوتا اللہ پاک کے حکم و عزت سے ہے ، بظاہر دوا کھانے سے شفا ہوتی دکھائی دیتی ہے مگر یہ شفاء اللہ پاک کے امر سے ہو رہی ہے۔

میرے دوستو! سورج اگر پھل پکا رہا ہے، گندم پکا رہا ہے، کیا وہ اپنے طور پر ایسا کر رہا ہے؟ نہیں نہیں !! وہ اللہ پاک کے حکم کا پابند ہے، پھلوں میں رس اور مٹھاس چاند دے رہا ہے؟ نہیں نہیں!! یہ اللہ پاک کے غیبی نظام کے کرشمے ہیں، عزیزو! غور کرو ! اللہ پاک اسباب کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ اسباب اللہ پاک کے امر کے محتاج ہیں ، اللہ پاک بغیر اسباب کے سارے کام کرنے پر قادر ہیں، اصحاب کہف کو تین سو نو سال تک غار میں سلائے رکھا اور زندہ بھی رکھا، تم کروٹیں بھی بدلتے رہے، اللہ پاک نے ہی جناب یونس علیہ السلام کو چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں رکھا، روزی کا بندو بست کیا، اور جناب یونس علیہ السلام کو مچھلی کی غذا نہ بننے دیا، جناب ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچایا اور ہر طریقے سے ان کی حفاظت کی۔

ذرا غور کریں! آگ میں کون زندہ رہ سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں رہ سکتا، ہاں اگر اللہ پاک چاہیں تو ہر کام ممکن ہے وگرنہ کوئی کام بھی نا ممکن نہیں ہے، بنی اسرائیل کو وادیٔ سیناء میں چالیس سال تک من و سلوی ملتا رہا روشنی کا بندو بست کیا، پانی کا انتظام جاری فرمایا ، لباس خوراک جیسی ضروری چیزیں مہیا فرمائیں۔

جناب مریم [کو اللہ پاک نے بے موسمی پھل عطا فرمائے:

{قَالَ یَا مَرْیَمُ اَنّیٰ لَکِ ھٰذَا }

جناب زکریا نے کہا اے مریم یہ پھل کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے بڑا بہترین جواب دیا، { ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہ }اللہ پاک کی طرف سے یہ پھل آئے ہیں پھر جناب زکریا علیہ السلام نے اپنے لیے اولاد طلب کی،

{ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً }

اے میرے پرور دگار! مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ نیک اور صالح اولاد عطا فرمائیں، اللہ پاک نے ان کو جناب یحییٰ کی خوش خبری دے دی۔

جناب ابراہیم علیہ السلام کو بھی جناب اسماعیل بڑھاپے میں ملا تھا پھر جناب اسماعیل اور ان کی والدہ کو بے آباد جگہ میں آباد فرمایا پھر وہاں بڑی رونقیں لگائیں ہیں، یہ سارے کام اللہ پاک کر رہے ہیں۔

میرے بھائی تو بتا تجھے کس نے بنایا؟ تجھے کون پال رہاہے؟ کون تیرے کام کرتا ہے؟ تیرے معاملات کس سے حل ہو رہے ہیں، اور تیرا کون مالک ہے؟ کس نے تجھے زندگی دی ہے ؟ صحت و جوانی کس نے دی ہے؟ آنکھیں، ہاتھ ، پائوں اور دل و دماغ کس نے دیا ہے؟ ذرا سوچ کر جواب دیں! پھر یہ بھی سوچ کہ تو کس کی بات مان کر زندگی گزار رہا ہے؟ زندگی کس کے قانون کے موافق گزار رہا ہے، زندگی تو اللہ پاک کی طرف سے امانت ہے اس لیے اللہ کی بات مان کر زندگی گزارنا چاہیے تھی، جب قبر میں سوال ہوگا ’’ مَنْ رَّبُّکَ ‘‘ ؟ تیرا مالک کون ہے؟ تیرا کام کون بناتا ہے؟ تجھے کس نے پالا ہے، اور کون پال رہا ہے؟ ذرا سوچ کر جواب دو! اگر یہ زندگی رب تعالیٰ کی مان کر گزاری ہوگی تو جواب دینا آسان ہوگا، کہ میرے مالک اللہ پاک ہیں ، اللہ کریم ہیں، ان کے حکم سے ہی سب کچھ ہوا ہے، اگر کوئی سمجھے کہ یہ سرا کچھ ہماری محنت کا پھل ہے تو وہ بالکل صحیح نہیں سمجھ سکتا، ارشاد ہے:

{ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَائً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقً لَّکُمْ } (سورۂ بقرہ ،آیت:۲۲)

اور اللہ پاک نے آسمان سے پانی نازل کیا، مگر اس کے ذریعے پھلوں سے تمہارے لیے رزق مہیا فرمایا۔

عزیزو! دنیا پر محنت کرنے سے عقیدہ بنتا ہے، کہ سب کچھ پیسے سے ہوتا ہے، دین پر محنت کرنے سے عقیدہ بنتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ پاک نے بنایا ہے، اور ان کے بنانے سے بنتا ہے، اسی محنت کے لیے اللہ پاک نے اول انسان سے لیکر آخری انسان تک کو پیدا کیا ہے۔ یاد رہے کہ انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں، تو دین ارو دین کی محنت یہ دونوں چیزیں لے کر دنیا میں ااتے ہیں، ارشاد ہے:

{ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْ ا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ } ( سورۂ نساء ، اٰیت : ۱۳۶)

اے ایمان والو! ایمان لائو اللہ پر اور ان کے رسول پر اس کتاب پر جو انہوں نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو پہلے اتری ہیں، اس آیت میں دوسری مرتبہ اٰمنو کہا ہے، اس کا معنیٰ ہے ایمان کی محنت کرو اپنے اندر ایمان پیدا کرو، یہ دین و ایمان کی محنت کی طرف اشارہ ہے ، کہ تم اپنے بھائیوںاور عزیز و اقارب کو بھی اسی محنت کا عادی و محنتی بنائو۔

میرے دوستو! دین کیا ہے؟ چوبیس گھنٹوں میں جو کچھ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ سارے کا سارا دین ہے، اس سارے دین کو ہم نے اپنے اندر اور اپنے بھائیوں کی زندگیوں میں لانا ہے، یہی دین کی محنت ہے ، یہ ساری دنیا کے انسان اور قیامت تک آنے والے تمام انسان اسی دین میں آجائیں جس دین میں چل کر صحابہ کرام نے جنت کی بشارتیں حاصل کیں، پھر صحابہ نے محنت کر کے دین کو ہر جگہ پہنچا دیا، حتٰی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سنہری دور میں۲۲ لاکھ مربع میل پر ان کی حکومت تھی، ان کی حکومت ہمارے موجودہ پاکستان سے ۶ گنا بڑی تھی، کہیں بھی اللہ پاک کا کوئی حکم نہیں ٹوٹتا تھا، سب جگہ اللہ پاک کے احکام کو ۱۰۰ فیصد پورا کیا جاتا تھا، اسی لیے اللہ پاک کی مدد بھی آ رہی تھی، پھر جناب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہکے دور میں مزید وسعت پیدا ہوگئی، جناب امیر معاویہ کے دور میں تو اسلامی سرحدات کی وسعت کا اندازہ ہی برا مشکل ہوگیا تھا، پھر جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی حکومت دور دور تک محیط تھی، پھر دین کا غلبہ ہو رہا تھا، باقی دوسرے ادیان تو قریب قریب ختم ہی ہو گئے تھے ، دوسرے پھر دب چکے تھے، صرف اسلام کی بات ہر جگہ ہوتی تھی، کیونکہ اس کی محنت ہوتی تھی، ہر آدمی محنت کرتا تھا، تا کہ اسلام کا غلبہ ہو جائے، شاعر مشرق نے بھی کہا ہے:

مغرب کی وادیوں میں گونجی آذاں ہماری

تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

میرے بھائیو! کیا اس عظیم محنت کیلئے آپ بھی تیار ہیں کون کون تیار ہے اپنے اپنے نام پیش کریں تا کہ نقل و حرکت سے دین آگے بڑھے اور پھیلے ، ہاں بھائی ! جلدی کرو ! ماشاء اللہ جلدی کریں!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے