دین اسلام اپنے مزاج کے اعتبار سے کسی بھی قسم کی حد بندیوں کا قائل نہیں جو اس کے ماننے والوں کو تقسیم کردے اور ان کی وحدت کا پارہ پارہ کر دیں۔

ساتویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے پہلے ربع تک امت مسلمہ کو کسی نہ کسی انداز میں خلافت کی صورت میں ایک محور اور مرکز میسر رہا لیکن استعمار جدید نے پہلے اتاترک نامی ایک یہودی ایجنٹ کے ہاتھوں سقوط خلافت عثمانیہ جیسا الم ناک حادثہ رونما کروایا اور پھر ہر اس چیز کا نام و نشان مٹانا شروع کر دیا جس کا اسلام سے ذرہ برابر بھی کوئی تعلق تھا۔ اذان ختم، مسجد بند اور قرآن کی تلاوت جرم اور عربی رسم الخط میں لکھنا منع وغیرہ وغیرہ ۔

یہ بھی عجیب ہی ہے کہ یہود و ہنود کو مسلمانوں میں اپنے ہمنوا کثرت سے ملتے رہے یہ الگ بات کہ کوئی مسلمان ان کا ہمنوا نہ تھا اور نہ ہے اور نہ ہو سکے گا۔

وحدت امت ایک ایسا تصور ہے جس میں اسلام لانے والی ہر قوم، ہر وطن، نسل اور رنگ کا انسان اپنے اندر کی پہچان ختم کرکے صرف ایک پہچان یعنی کلمہ اخلاص کو اختیار کر لیتا ہے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مصداق: کہ تمہاری مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے کسی ایک عضو میں ٹیس اٹھتی ہے تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے ۔

یہی وجہ تھی کہ جب بھی کسی خطے سے کسی مظلوم مسلمان کی فریاد (وا اِسلاماہ!) بلند ہوتی ہے تو یہ آواز پوری امت سنی جاتی تھی لیکن اب ۔۔۔ ۔

اسی وحدت نے ان سے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دلوائے  جو کوئی اور قوم ہزاروں سال میں بھی نہیں دے سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ نے چار پشتیں دیکھی اور خیر القرون کے ختم ہونے کے بعد یعنی تقریبا  سوا سو سال میں دنیا کے ایک نہایت وسیع خطے پر اسلام کی نشر اشاعت کو عملی طور پر ممکن بنایا اور یہ نشر و اشاعت استعماری و استبدادی عوامل کے زیر اثر نہ تھی۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کی فتوحات کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں لیکن آج تک ایک انچ زمین کااضافہ ممکن نہ ہوا بلکہ حدود ملی تھی وہی نہ سنھالی گئی۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہ تمام مفتوحہ خطے پہلی بار حقیقی آزادی سے روشناس ہوئے۔ جن کے لیے درحقیقت قبول اسلام غلامی سے آزادی کا پروانہ بن گیا تھا۔ اور جب مسلمان حکمران اپنے پیشروؤں کے آفاقی طریق سے ہٹے تو اعداء ان پر مسلط ہو گئے۔ جس کا آغاز پہلی صدی ہجری میں بغاوتوں اور خروج کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا کہ ایک کے بعد ایک اور اک عجیب سلسلہ تھا جو ذریت شیطان نے جاری و ساری رکھا ہوا تھا کہ خلفائے ثلاثہ کی فتوحات کا زخم اتنی جلدی بھی بھرنے والا نہ تھا۔

اور یہ سلسلہ اکیسویں صدی تک اسی آب و تاب سے جاری و ساری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت مسلم حکمراں کبھی کبھی جاگ جایا کرتے تھے اور اب ’’مبارک جمہوری نظام‘‘ کے زیر شفقت اپنے اقتدار کو دوام دینے میں مصروف عمل ۔

سقوط غرناطہ ( 1492ء ) سے سقوط خلافت عثمانیہ تک استعمار قدیم اور پھر استعمار قدیم سے استعمار جدید تک مغرب نے نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کرلیاتھا بلکہ ان کے ہاں جو اجتماعیت کے گھٹیا اصول تھے، وطن پر ستی، قوم پرستی اور دوسری نسلوں سے نفرت وغیرہ، یہ سب زہر امت کے جسد واحد میں گھول دیے گئے۔ اور یہ جسد واحد کتنے حصوں میں تقسیم ہوا یہ شمار بھی نہیں کیا جا سکا بظاہر 57 کا عدد ہے لیکن پھر۔۔۔۔۔۔

امت مسلمہ اپنی اصل سے کتنی دور آ چکی ہے کاش کہ کسی کو إحساس ہو سکے  ہر قوم  وحدت کے اصولوں سے نا آشنا ہو گئی اور ہر علاقہ، ہر خطہ اور ہر جغرافیائی وحدت صرف اپنی آزادی اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے لگی ۔

اور بیسویں صدی گویا مسلمانوں کے لیے ایک تازیانہ الہٰی تھا کہ ہر دن اک نیا عذاب جس کا آغاز فسلطین سے ہوتا ہوا آج مصر تک آ پہنچا ہے ۔کہنے کو تو فلسطین سے مصر کا فاصلہ چند لمحات کا ہی ہے لیکن درمیان میں فلپائن، میانمار برما، کشمیر، سوڈان، مالی ، صومالیہ، أفغانستان، عراق، شام کے لہولہان شب و روز اور حتمی ھدف سعودی عرب اور پاکستان جو عالمی صہیونی حکومت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

استعمار قدیم و جدید کا ھدف تو ایک ہی تھا کہ وحدت مسلمین کو ختم کیا جائے ایک خلافت سے دو خلافتیں اور پھر تین اور تقسیم در تقسیم  57 اسلامی حکومتیں اور مزید داخلی تقسیمات57 سے کتنا آگے لے کر جاتی ہے شیطان اور ذریت شیطان کا سب سے محبوب عمل تفرقہ بازی ہی تو ہے۔

اور اس تقسیم کی سب سے مذموم علامت  عالم اسلام کے وسط میں صہیونی ریاست کا وجود جو کہ استعمار کی سازش ہے۔ عرب اتحاد ہو یا عالم اسلام کا اتحاد ہو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل کا مذموم اور شیطانی وجود ہے ۔

وحدت امت کے بجائے دیگر لا تعداد ’ ازم ‘ نے عالم اسلام کو تباہ کر دیا صہیون کو چند سیاسی ضمیر فروش اسی امت میں سے مل گئے ۔ درحقیقت اسرائیل کا وجود قبلہ اول کی مکمل نفی ہے۔ جس کا آغاز معرکہ قادسیہ سے ہوا تھا بلکہ اس سے بھی پہلے روم سے مغلوب ہونے کی قرآنی خبر نے تو گویا زخم بھرنے ہی نہیں دیے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وحدت امت کی سوچ ابھی تک افراد امت کے دلوں میں باقی ہے۔

 اسرائیل صرف عالم عرب کے قلب میں نہیں بلکہ عالم اسلام کے قلب میں خنجر صورت گڑا ہے ۔ فلسطین سے امت مسلمہ کا تعلق ایک طویل تاریخ ہے جس کا آغاز انبیاء کرام کے مقدس وجودوں سے ہوتا ہے۔ جس کا آغاز سیدنا ابرہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے پھر سیدنا اسحاق، سیدنا یعقوب، پھر سیدنا یوسف پھر سیدنا موسیٰ علیہم السلام وغیرہ۔ فلسطین میں مسجد اقصیٰ ہے۔ جس کا شمار مقامات مقدسہ میں مسجد حرام اور مسجد نبوی کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسئلہ فلسطین سے اہل اسلام کی وابستگی کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ اسلام ہے۔ اس نے انہیں ایک جسم کی مانند کردیا ہے۔

صہیونی خطرہ صرف فلسطین کے خطے تک محدود نہیں بلکہ یہ خطرہ پورے عالم اسلام کو ہے۔ یہودیوں کے نزدیک داؤد کی سلطنت فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ مشرق و مغرب چہار سودریائے فرات سے جنوب میں خط استواء تک پھیلا ہوا ہے۔ جسے وہ ارض موعود کے نام سے جانتے ہیں جس کی حدود میں ابھی مکہ و مدینہ کا آنا باقی ہے۔

فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر ابیض متوسط  کے ساحل پر واقع ہے۔ فلسطین ایک طرف براعظم افریقہ اور ایشیا کے درمیان پل کا کام کرتا ہے تو دوسری طرف براعظم یورپ کے انتہائی قریب واقع ہے۔ فلسطین کے شمال میں لبنان ہے؛ مشرق میں اردن اور جنوب مغرب میں مصر واقع ہے۔ فلسطین کا موجودہ رقبہ 27ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ آب و ہوا کے لحاظ سے یہ خطہ معتدل سمجھا جاتا ہے ۔جدید تحقیق کے مطابق گیارہ ہزار سال پہلے جہاں سب سے پہلے انسان نے زمین سے فصل اگائی اورجہاں پہلی مرتبہ انسان بستی بنا کر رہنے لگے وہ سر زمین فلسطین تھی ۔دنیا کا قدیم ترین شہر ’اریحا‘ اسی سر زمین میں تہذیب و تمدن کا اولین گہوارہ بنا تھا۔ گزشتہ آٹھ ہزار سالوں سے یہ شہر آباد چلا آرہا ہے ۔

سر زمین فلسطین ایک مبارک ومقدس سرزمین ہے۔  یہیں پر مسجد اقصیٰ واقع ہے جو اہل اسلام کا پہلا قبلہ اور زمین پر مسجد حرام کے بعد دوسری مسجد ہے۔ یہاں اس مسجد میں نماز پڑھنے کا درجہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد فضیلت رکھتا ہے۔ یہیں سے سفر معراج ہوا تھا۔ یہ سرزمین بے شمار انبیاء کی دعوت توحید کی امین ہے اور ان کا آخری محسوس مشہد بھی۔ روایات کے مطابق اسی سرزمین پر حشر ہو گا اور اسی سرزمین پر لوگ دوبارہ بلائے جائیں گے۔ آخری معرکہ میں مسلمانوں کا پڑاؤ یہیں ہوگا۔ اس سر زمین کو یہ حیثیت بھی حاصل ہے کہ یہاں محض اللہ کی خوشنودی کیلئے مقیم ہو نا دوسری جگہ جہاد کرنے کے مساوی فضیلت رکھتا ہے۔ اس خطے میں ہمیشہ ایک گروہ ہوگا جو حق پر قائم رہے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ شام کی سرزمین امت مسلمہ کے لیے ایک امتحان بنی ہوئی ہے  یہود اور آل یہود جو در حقیقت استاد یہود بھی ہیں اپنی پوری قوتیں جھونک بیٹھے ہیں اور ان شاء اللہ امت مسلمہ اسی امتحان کے نتیجے کے طور پر گہری نیند سے جاگے گی۔

تمام نبیوں کی دعوت اسلام ہی تھی یہ یہود و نصاری تو خود ساختہ نسبتیں تھی جسے شیطان نے بہت کامیابی سے استعمال کیا ہر دو کے محرف مذہبی ذخیروں کی رو سے  فلسطین صرف مسلمانوں کے نزدیک ہی مقدس نہیں ہے بلکہ ان کے لیے بھی یہ مقدس زمین ہے۔ یہود کے نزدیک تورات میں جس سر زمین کو ارض موعود کہا گیا ہے اس سے مراد یہی خطہ ہے۔ تو دوسری جانب عیسائی اس سرزمین کو عیسائیت کا گہوارہ سمجھتے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت با سعادت یہیں ہوئی تھی۔ عیسٰی علیہ السلام کی دعوت کا میدان بھی یہی سر زمین تھی اور یہاں عیسائیوں کے اہم ترین دینی مراکز بیت المقدس، بیت اللحم اور ناصرہ کے شہر میں واقع ہیں۔

اہل اسلام تمام انبیاء پر ایمان کے حامل اور ان کے حقیقی اور جائز وارث ہیں۔ بلاشبہ اس سرزمین کے تمام انبیاء کا دین دین توحید ہی تو تھا جس کے اصلی وارث اب اہل اسلام ہیں۔ انبیاء کی وراثت دین کی وراثت ہے تو حید کا علم مسلمانوں نے اٹھا رکھا ہے۔

تاریخ کے صفحات اس امر پر شاہد ہیں کہ فلسطین کے اولین آباد کار تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے جزیرہ عرب سے نقل مکانی کرنے والے کنعانی تھے۔ انہوں نے یہاں اپنی ثقافت اور طرز زندگی کو رائج کیااور اسی وجہ سے اس خطے کو ارض کنعان بھی کہا جاتا تھا۔ اور موجودہ فلسطینی آبادی بھی بعض اقوال کی رو سے کنعان سے ہے یا پھر ان اقوام کے اختلاط سے ان کا تعلق ہے جو بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں آبادتھے جنہیں اس وقت ’بلست‘ یا فلسطی‘ کہا جاتا تھا یا پھر دوسرے عرب قبائل کے سلسلے سے جا کر ان کا نسب ملتا ہے جو ارض کنعان میں آباد ہو گئے تھے۔ سیاسی لحاظ سے فلسطین پر مختلف قوموں کی حکمرانی رہی ہے لیکن فلسطین کو بغیر کسی انقطاع کے آباد رکھنے والے خود فلسطینی ہی ہیں ۔

خلافت فاروقیہ میں ہی تو (جو یہود اور استاد یہود کو کبھی بھی برداشت نہیں ہوئی) مسلمان مجاہد اس سرزمین پر فاتح قرار پائے اور فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی یہاں تک کہ ان کی زبان ہی عربی زبان بن گئی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے الفاروق سے محبت کرنے والے فلسطینیوں کی شناخت اسلام رہی ہے اور اس اسلامی شناخت میں اس وقت بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ وہاں کی اصل آبادی کا ایک حصہ یہودیوں کے جبر کی وجہ سے 1948 ء میں دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور کر دیا گیاتھا۔ یہود اور آل یہود کی تاریخ مکرو فریب اور دجل کاریوں سے تعبیر ہے جھوٹے دعوے  وہ بھی تاریخ قدیم سے اس سر زمین کے آباد کار رہے ہیں۔ جبکہ اسرائیل کا جبری اور ناجائز قیام توابھی کی بات ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ تقریبا 584 قبل مسیح سے لے کر 1000قبل مسیح تک قبیلہ بنو اسرائیل کو فلسطین کے بعض حصوں میں حکومت کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہ چار سو سال کا عرصہ بنتا ہے؛ اس کے بعد  1948 ء میں اپنی ناجائز ولادت تک انہیں اپنا ’آبائی وطن ‘ یاد ہی نہ رہا۔ حیرت کی بات ہے۔

حقیقت میں یہ چار سوسال  نو واردوں کی حکمرانی کے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں دیگر آباد کار آ کر حکمرانی کرتے رہے اس سے کہیں بھی ان کا حق ثابت نہیں ہوتا لہذا یہ ثابت ہوا کہ اس خطے کو جس قوم نے مسلسل آباد رکھا وہ صرف فلسطینی ہی ہیں بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکمرانی تو ایسی ہی تھی جیسا کہ آشوری عہد یا فارس کی حکمرانی مصر کے فراعنہ کی حکمرانی یا یونانیوں اور رومیوں کی فلسطین پر حکمرانی۔ ہر حاکم قوم کا اقتدار بالآخر زوال پذیر ہوا اور فلسطینیوں کا وطن جیسے پہلے اپنے ہم وطنوں کے پاس تھا انہیں کے پاس رہا ۔اور اب بھی ان کے پاس ہی آ کر رہے گا اور وہ دن دور نہیں۔ ان شاء اللہ۔

اور خلافت فاروقیہ کے بعد فلسطین کی تاریخ میں صرف 90 برس کی قلیل مدت ایسی ہے جس میں عیسائیوں کو صلیبی جنگوں میں سے ایک معرکے میں فتح پانے پر حکمرانی کا موقع ملا  جس میں انہوں سے درندگی اور سفاکیت کی حد نہیں چھوڑی بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ چنگیز خان انہیں میں سے تھا تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔

اور رہے یہود تو135 عیسوی تا بیسوی صدی کے طویل عرصے کے دوران میں فلسطین کی سر زمین یہودیوں کے وجود سے خالی رہی بلکہ بہت دل چسپ حقیقت تو یہ ہے کہ یہودیوں کی مذہبی تعلیمات میں فلسطین کی طرف ان کا لوٹنا حرام ٹھہرا یا گیا ہے ۔

معروف پاکستانی محقق انیس الرحمن جو کہ ہفت روزہ ندائے ملت کے ایڈیٹر بھی ہیں وہ اپنی کتاب تاریخ مدینہ منورہ کے آخری باب میں رقم طراز ہیں کہ یہودی مذہب کے ماننے والوں کی موجودہ اکثریت نسلی طور پر یعقوب علیہ السلام کی نسل سے نہیں ہے بلکہ انہیں ’یہود خزر ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نسل بنی اسرائیل سے نہیں۔یہود خزر ترکی نسل کے تاتاری قبائل سے ہیں جن کا وطن قوقاز (کوکیشیا) کا شمالی علاقہ رہا ہے۔ اس نسل کے لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں یہودی ہو گئے تھے۔ اگر یہودی مذہب کے پیرو کاروں کو کہیں لوٹنے اور اپنا وطن بنانے کا حق ہے تو وہ ارض فلسطین نہیں بلکہ روس کا جنوبی علاقہ ہے۔

اوریہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ۔۔ موسی تم اور تمہارا رب جاؤ لڑو۔۔ کی صورت میں بنو اسرائیل کی اکثریت نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فلسطین کی طرف چلنے سے انکار کردیا تھا ۔بابل ( عراق ) میں جب انہیں نقل مکانی کرنا پڑی تو اس کے بعد جب فارس کی فلسطین پر عملداری قائم ہوئی تو فارس کے حکمران کورش ہنجا منشی نے انہیں فلسطین جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن بیشتر یہود نے عراق رہنے کو ہی ترجیح دی اور واپس لوٹنے سے انکار کردیا۔ علاوہ ازیں، دنیا کی طویل تاریخ سے لے کر اب تک کبھی بھی ارض فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب باقی دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی کل آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ نہیں رہا ۔

1897 سوئیزرلینڈ میں تھیوڈر ہرٹزل کی سربراہی میں عالمی صہیونی اجتماع کا انعقاد ہوتا ہے جس میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اب ارض موعود لینے کا وقت آگیا ہے اور اس کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا جائے باقاعدہ  کچھ قراردادیں پاس کی گئی جنہیں دنیا یہودی پروٹوکولز کے نام سے جانتی ہے جس کا ترجمہ دنیا کی تقریبا تمام معروف زبانوں میں ہو چکا ہے کہ گو کہ یہود اس کا انکار کرتے ہیں لیکن حقائق اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بشرط فرصت پھر کبھی ان پروٹوکولز کی روشنی میں اسرائیل کا ناجائز قیام ثابت کیا جائے گا۔

’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کی حقیقی وارث قوم یہود اور آل یہود نے حکومت برطانیہ کے تعاون سے  عالم اسلام کے قلب میں یہودی ریاست کا قیام کو ممکن بنایا ۔ جس کا نتیجہ عالم اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کی صورت میں سہنا پڑا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلم ممالک تھے تو دوسری طرف ایشیاء کے مسلم ممالک اور ان کے بیچوں بیچ صہیونی ریاست جو انہیں کاٹنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ درحقیقت صہیونی ریاست مسلم خطوں کی وحدت میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت رہی ہے۔ صہیونی ریاست کے ناسور کی وجہ سے عظیم اسلامی وحدت جنم نہیں لے پائی ہے جو اس ریاست کی غیر موجودگی میں قدرتی طور پر عثمانی خلافت کے سقوط کے خلاء کو پر کرسکتی تھی۔ یہ وحدت جس میں رکاوٹ صہیونی وجود ہے اُس وقت تک اپنے طبعی انضمام کو نہیں پہنچ سکتی جب تک صہیونی ریاست کو مٹا نہیں دیا جاتا ۔

برطانیہ نے 1917؁ میں اعلان بالفور کے اعلامیے کے ساتھ فلسطین میں صہیونی قومی ریاست کی بنیاد رکھی۔ ستمبر 1918؁میں برطانیہ نے خطے پر قبضہ مکمل کرتے ہوئے فلسطینی اراضی کا ایک حصہ صیہونیوں کو دے دیا۔ اس سے پہلے برطانیہ عرب شیوخ سے معاہدہ کرکے خطے میں داخل ہوا تھا کہ وہ عرب ریاستوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دے گا۔ یہ معاہدہ برطانیہ نے عربوں کے متحدہ نمائندے الشریف حسین سے کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے بعد برطانیہ نے کسی معاہدے کا پاس خیال نہ کیا اور عربوں کو کبھی آزادی اور خود مختاری حاصل نہ ہوسکی۔ معاہدہ سائکس پیکو کے ذریعے مشرق وسطیٰ بشمول عراق اور وسیع ترشام فرانس اور برطانیہ کے اثرو نفوذ کے درمیان چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 1916؁میں سائکس پیکو (Sykes Picot Agreement) معاہدے کے تحت فلسطین کو بین الاقوامی خطہ قرار دیا گیا۔ پھر اس کے بعد دوسرے معاہدے سان ریموکانفرنس؛San Remo ( اپریل 1920) کے تحت فلسطین پر بین الاقوامی خطے کی بجائے برطانیہ کے انتداب کے حق کو تسلیم کرلیا گیا جسے مئی 1922ء میں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کرلیا ۔

1918میں فلسطین میں صرف( 55000)پچپن ہزار یہودی تھے اور 1948؁میں نقل پذیر ہو نے والے یہودیوں نے یہودی آبادی کو( 646000)چھ لاکھ چھیالیس ہزارتک بڑھا دیا۔ یعنی پہلے یہودی کل آبادی کا آٹھ فیصد تھے اور اس کے بعد ان کی آبادی کا تناسب تھا 31.7فیصدتھا۔ برطانیہ کے انتداب سے پہلے یہودی کل اراضی کے دو فیصد کے مالک تھے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہودی 6.7فیصد اراضی کے مالک ہو گئے۔ یہ اراضی یا تو سرکار کی طرف سے الاٹ ہوئی یا پھر فلسطین میں موجود غیر فلسطینیو ں نے یہ اراضی فروخت کی تھی۔ زمین کی خریداری پر یہودیوں کی طرف سے پرکشش قیمت پر بھی غریب فلسطینی اپنی اراضی نہ بیچتے تھے۔ تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود فلسطین کے اصل باشندے 93.3 فیصد اراضی کے مالک تھے اورفلسطینی آبادی کا تناسب 68.3 فیصد تھا ۔

برطانیہ نے نوواردوں کےلئے متعدد اقتصادی ‘ سیاسی اور تعلیمی اور عسکری پراجیکٹ بنائے۔ 1948؁ تک برطانیہ کی طرف سے 292یہودی خیمہ بستیاں تعمیر پاچکی تھیں۔ صیہونی ستر ہزار فوج کیل کانٹے سے لیس تھی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے آزاد ملک ہونے کا اعلان کردیا ۔

فلسطین میں آزادی کی تحریکیں ہر دور میں جاری رہی جس میں موسیٰ کاظم اور الحاج امین حسینی، عزالدین قسام، عبدالقادر حسینی وغیرہ معروف ہیں آزادی کی ان تحریکوں نے برطانیہ کواس پر مجبور کر دیا کہ اگلے دس سالوں میں آزاد فلسطین کے قیام کی تحریر لکھ دی۔ تحریر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ برطانیہ معین رقبے سے زیادہ فلسطینی اراضی کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی لکھا گیا کہ پانچ سالوں کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی نقل مکانی ممنوع قرار دے دی جائے گی۔  اس تحریر کے بعد ہوا یہ کہ دنیا میں خاصی بڑی تبدیلیاں رونماں ہو گئیں۔ برطانیہ کی بجائے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اثرو نفوذ بڑھ گیا۔ 1945؁ میں جب وائیٹ بک میں ثبت کی گئی تحریر کی تکمیل ہونا تھی تو امریکہ نے ایسا نہیں ہونے دیابلکہ فلسطینی اراضی کی فروخت کے ساتھ یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی اور بڑھ گئی ۔

1948؁ میں اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس میں قرار داد پاس کی گئی کہ فلسطین کوتقسیم کرکے دو ملک بنادیئے جائیں ایک عربی خطہ جو کل اراضی کا 45فیصد ہو اور یہودی خطہ جو کل فلسطینی اراضی کا 54فیصد ہو جبکہ قرار داد میں ایک فیصد رقبہ بیت المقدس بین الاقوامی عملداری کے سپرد کرنے کی سفارش کی گئی۔

اقوام متحدہ کے میثاق میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر خطے کے عوام کو مکمل آزادی ہوگی اور یہ کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے حق دار ہوں گے۔ مزید براں اس قرار داد کی بابت نہ فلسطین کے عوام کو اعتماد میں لیا گیا؛ نہ ان سے رائے شماری لی گئی اور نہ کوئی وو ٹنگ سامنے آئی۔ اس قرار داد کے جانبدارانہ اور مبنی بر ظلم ہونے کی اس سے بڑی اور کیاد لیل ہو گی کہ غیر ملکی یہودی جو اقلیت میں بھی تھے انہیں اصل باشندوں کی نسبت زیادہ حصہ دیاگیا۔

14مئی 1948؁ کی شام اسرائیل نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا ۔اسرائیل نے جلد ہی عرب فوج کو شکست سے دو چار کردیا۔ عرب فوج کے ایک حصے پر استعمار کا شکنجہ کساہوا تھا۔ اور اس جنگ کے بعد اسرائیل فلسطین کی 77 فیصد اراضی کا مالک بن چکا تھا۔ اور اس کا نتیجہ آٹھ لاکھ فلسطینیوں کی ملک بدری کی صورت میں نکلا۔ جن علاقوں کو صہیونی ریاست نے فلسطینیوں سے خالی کرایا تھا وہاں نو لاکھ سے زیادہ آبادی تھی 478گاؤں تباہ کرکے وہاں اسرائیلی بستیاں بسائی گئی تھیں ۔یاد رہے کہ مقبوضہ علاقے میں کل 585گاؤں تھے۔ کم از کم 34 مرتبہ فلسطینیوں کا قتل عام ہوا۔ باقی ماندہ فلسطینی اراضی کے ایک بڑے حصے (5876 کلو میٹر ) کو ایک معاہدے کے ذریعے اردن نے اپنے اندر سمو لیا اور غزہ کے ایک حصے (363 کلو میٹر ) پرمصر کا اثرو نفوذ قائم ہو گیا۔ اقوام متحدہ نے اس شرط پر اسرائیل کو تسلیم کرلیا کہ وہ ملک بدر کیے جانے والے فلسطینیوں کو ملک واپس آنے کی اجازت دے گا۔ اس قرار داد پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا ۔

جمال عبدالناصر کے ذاتی اثرو رسوخ سے 1964؁ میں احمد شقیری کی قیادت میں وطن پرست تحریک ’ تحریک آزادی فلسطین ‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ جمال عبدالناصر دیکھ رہا تھا کہ فلسطین میں زیر زمین آزادی کی تحریکیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ اسے خطرہ تھا کہ فلسطینی تحریکیں کہیں خود مختار نہ ہوجائیں خاص طورپر تحریک’ الفتح‘ سے اسے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ جمال عبدالناصر کی ’خدمات ‘ سے آزاد ہو جائے گی اس لیے جمال عبدالناصر نے خود مداخلت کرکے اپنی سرپرستی میں تحریک آزادی کی بنیاد رکھ دی۔تحریک’الفتح‘ 1957؁ سے سرگرم عمل تھی۔

 1948؁ سے پہلے والی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے تحریک الفتح نے عہد کیا کہ فلسطین کی آزادی کا صرف ایک ہی طریقہ مسلح جہاد ہے ۔خالص فلسطینی تحریک اور قیادت ہونے کی وجہ سے تحریک الفتح فلسطین کی سب سے زیادہ ہر دل عزیز تحریک بن گئی تھی۔ فروری 1969؁ میں یاسر عرفات نے تحریک کی قیادت سنبھالی اور اس کے ساتھ فدائی تحریکیں اس تحریک میں شامل ہو تی گئیں۔اور یاسر عرفات کے فکری انحراف کے بعد شہداء کے وارثین حقیقی نے اس کی کمان سنبھال لی ۔

 1974؁ میں عرب ریاستوں نے الفتح کو فلسطین کی واحد قانونی تحریک تسلیم کرلیا۔ اقوام متحدہ نے بھی اسی سال اس تنظیم کی اقوام متحدہ میں بطور فلسطینی عوام کی واحد نمائندہ تنظیم کے رکنیت تسلیم کرلی ۔

متحدہ عرب فوجوں کی شکست:

1967؁ کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اگلے چند ہی دنوں میں فلسطین کی باقی اراضی پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ مغربی کنارے کا مشرقی علاقہ جہاں القدس واقع ہے یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ غزہ کا ایک حصہ ‘سوریا میں واقع گولان کا پہاڑی سلسلہ اور مصر کا صحرا ئے سیناء بھی اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے مزید تین لاکھ تیس ہزار فلسطینی ملک بدر کردیئے ۔

 صہیونی ریاست اول روز سے اس منصوبے پر عمل پیرا تھی کہ فلسطین کی اسلامی شناخت ختم کردے اور خطے کو یہودی آبادی؛ ثقافت اور تمدن میں تبدیل کردے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے 1948؁ کے مقبوضہ اراضی کا 96فیصد سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ ان علاقوں سے اسلامی شناخت کے تمام نشانات مٹا کر وہاں 1967؁ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی کنارے پر 192یہودی بستیاں بسائی گئیں جو کہ مغربی کنارے کی کل اراضی کا 69فیصد بنتا ہے۔ غزہ کے علاقے کا 30فیصد سرکاری تحویل میں لیا گیا اور یہاں 14 یہودی بستیاں تعمیر کی گئیں۔ شکست کے نتیجے میں ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں کی وطن واپسی کا سوال ہی ختم ہو گیا۔مختلف ممالک کے یہودی اب بھر پور اعتماد کے ساتھ اور بڑی تیزی سے فلسطین ہجرت کرنے لگے جس کی وجہ سے 1949؁ سے لے کر 2000؁ ء تک 28لاکھ یہودی فلسطین میں آ کرآباد ہو ئے ۔جنگ میں فتح پانے کے بعد صیہونی ریاست نے طے کیا تھا کہ سنہ 2005؁ تک صہیونی ریاست کی کل یہودی آبادی 53لاکھ تک ہونا چاہیئے ۔پچاس فیصد سے زائد مقامی آبادی کو ملک بدر کر کے ان کی جگہ اتنی بڑی یہودی آبادی اور ان کی بودو باش اور تمدن سے قدیم فلسطین کا مشرقی اور اسلامی حسن ختم ہو کر رہ گیا ۔فلسطین کی اراضی پر صہیونی مقبوضہ جات یہودی آباد کاری کا چربہ پیش کرنے لگے ۔

بیت المقدس کے مشرق میں جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے دولاکھ بیس ہزار یہودی آباد کیے گئے ۔ فلسطینیوں کے محلوں سے اس علاقے کو الگ تھلگ رکھنے کے لیے اور وہاں اسلامی تہذیب کی چھاپ چھپانے کے لیے یہودی آبادی والے علاقے کے ارد گرد شہر پناہ تعمیر کردیا گیا ہے۔ صہیونی ریاست نے اعلان کررکھا ہے کہ بیت المقدس ہی ان کا ابد آباد تک دارالحکومت رہے گا۔ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر کنٹرول حاصل کرنے کے ہزار جتن کرلیے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار ( دیوار براق ) کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اس دیوار کی انتہا تک جتنا رقبہ تھا وہاں کی سب اسلامی تعمیر مٹا دی گئی ہے اور اس اراضی کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اب تک مسجد کے زیر زمین دس کھدائیاں ہوچکی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے زیر زمین چار مستقل سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔ ان کھدائیوں اور سرنگوں کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ خطرہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہے۔ 25صہیونی شدت پسند تنظیمیں ایسی ہیں جو علانیہ مسجد اقصیٰ کو ڈھاکر وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔ 1976؁ سے لے کر 1998؁ تک 112سے زیادہ حملے مسجد پر ان تنظیموں کی طرف سے ہوچکے ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر یہودی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے کیے گئے حملوں میں سب سے خطر ناک 21 اگست 1969؁ کی آتش زدگی کا واقعہ ہے۔

مغربی ممالک کی طرف سے فلسطینیوں کو فلسطین سے باہر آباد کرنے کے اب تک 240 منصوبے سامنے آئے ہیں لیکن ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں نے سب کو ٹھکرا دیا ہے۔ فلسطینیوں کی وطن واپسی کے لئے اب تک اقوام متحدہ 110 قرار دادیں پاس کرچکی ہے۔ صہیونی ریاست کسی صورت میں ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں کو واپسی کی اجازت نہیں دیتی۔ جہاں تک اقوام عالم کا تعلق ہے تو ان میں سے کوئی ملک بھی فلسطینیوں کی وطن واپسی کویقینی بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔

2005ء کے اعداد و شمار کے مطابق کل 64لاکھ سے زائد فلسطینی جلا وطن کیے گئے ہیں اور یہ تعداد دنیا میں کسی بھی جگہ سے جلا وطن کیے گئے مقامی آبادی میں سب سے زیادہ ہے ۔ مہاجرت کی زندگی گزارنے والی آبادی فلسطین کی آبادی کا 67فیصد ہے۔ فلسطینی مہاجرت کا یہ تناسب دنیا بھر میں مہاجر بستیوں میں رہنے والی کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ جو کہ درحقیقت عالمی صہیونی ریاست (ارض موعود) کی تکمیل کے لیے یہود اور آل یہود کے مذموم منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی اس اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس نے واضح اکثریت سے اس بات کو تسلیم کیاکہ فلسطینیوں کو اپنے وطن لوٹنے کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ کو بھی اقوام متحدہ نے جائز قرار دیا ہے جس میں مسلح مزاحمت بھی شامل ہے اس لیے کہ ایک تو صہیونی ریاست نسل پرستی پر قائم ہے اور جانب دار ہے اور دوسرا یہ کہ ریاست اصل باشندوں کو ان کے وطن لوٹنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ امریکہ اس قرار داد کو اپنے حواریوں کے ساتھ ویٹو کر تارہا ہے اور اس پر عمل درآمد کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا ہے۔

اور حیرانی تو یہ ہے کہ جس اصول کو بنیاد مان کر یہودیوں کے لئے وطن کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے فلسطین میں ان کیلئے وطن بنا یا گیا ہے وہی اصول فلسطینیوں پر لاگو نہیں کیا جاتا جو طویل عرصے سے نہ صرف بے وطن ہیں بلکہ انہیں ان کے اصل وطن سے بے دخل کیا گیا ہے۔ اقوام عالم کس طرح اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے منافقت کرتی ہیں مسئلہ فلسطین اس کی سب سے بڑی شہادت ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ایک سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بے وطن فلسطینیوں کو وطن لوٹنے کا حق حاصل ہے ۔اقوام متحدہ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے کیساانصاف کیا ہے جس نے اصلی باشندوں کو بے وطن کرکے ان کی 77فیصد اراضی پر قبضہ کیا ہے۔

دسمبر 1978؁ اور ستمبر1993؁ میں فلسطین کی اپنی سرزمین سے تحریک انتفاضہ نے جنم لیا۔ پہلی مرتبہ ایک خالص اسلامی تحریک نے مزاحمت کے عمل میں اپنے داخلی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے جہاد کا آغاز کیا۔ انتفاضہ مبارکہ کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ تحریک ’حماس ‘ نے بھی انتفاضہ کے ساتھ تحریک مزاحمت میں شمولیت اختیار کرلی۔ انتفاضہ نے جلد ہی عرب ریاستوں کے علاوہ بین الاقوامی طور پر توجہ حاصل کرلی اور مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر بین لاقوامی سطح پر نمایاں ہو گیا۔انتفاضہ کی مقبولیت سے جو سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکتے تھے وہ علاقے کے سیاسی حالات ‘ فلسطینی قیادت اور عربی قیادت کی عقلی اٹھان اور دیگر عوامل کی وجہ سے آزادی فلسطین کے پر زور مطالبے کی بجائے معمولی اور جلد بازی میں قبول کیے گئے سیاسی معاہدوں کی نذر ہو گئے جن میں سب سے زیادہ مضر اسرائیل کے ساتھ عرب ریاستوں کا باضابطہ اور بلا واسطہ مذاکرات میں شریک ہونا ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ 1988؁ میں اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد نمبر 181کے ذریعے فلسطین کی تقسیم کا اعلان کردیا۔ قرار داد میں فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جس کے ایک حصے پر عرب اور دوسرے پر یہودیوں کا حق تسلیم کیا گیا۔قرار داد میں مسئلہ فلسطین کے اہم ترین مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے مسئلے کی نوعیت محض مہاجر فلسطینیوں کی وطن واپسی تک محدود کی گئی ہے۔

اور بعد میں اوسلو معاہدے میں عرب قیادت نے اسرائیل کو ایک جائز ملک کے تسلیم کرلیا۔ فلسطینی اراضی کے 77فیصد حصے پر بھی اسرائیل کا حق تسلیم کر لیاگیا اور یہ کہ تحریک انتفاضہ کالعدم تنظیم ہوگی اور اسرائیل کے خلاف کوئی مسلح کارروائی غیر قانونی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح عرب قیادت پورے فلسطین کی آزادی کے فلسطینی متفقہ مطالبے سے بھی دست بردار ہو گئی اور یہ کہ اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے کسی عمل کو جائز نہیں سمجھا جائے گا اور یہ کہ ہر قسم کے مسائل کا حل پر امن مذاکرات کے ذریعے تلاش کیاجائے گا ۔

عرب قیادت نے اوسلو معاہدے پر دستخط کرکے عملاً تحریک آزادی فلسطین اور دوسرے مطالبات کا گلہ گھونٹ دیا۔اس کے مقابلے میں اوسلو معاہدے کی رو سےاسرائیل نے صرف اتنا تسلیم کیا کہ عرب قیادت(الفتح)کو فلسطین کے مسئلے کی قیادت کا حق حاصل ہے اور یہ کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے کے بعض حصوں میں فلسطینی قیادت کو محدود سطح پر آزاد ی دینے کا پابند ہو گا اور یہ کہ دوسرے اہم نوعیت کے مسائل اگلے پانچ برسوں میں طے کیے جائیں گے ۔

عالم اسلام کے وہ اہل علم علماء کرام جن کی حیثیت مسلمہ ہے نے فتویٰ جاری کیا کہ صہیونی قیادت کے ساتھ اس کے مطالبات پر مذاکرات کرنا ناجائز ہے۔ پورے فلسطین کی آزادی کیلئے مقدس جہاد ضروری ہے اور یہ کہ یہ حق و باطل کا معرکہ ہے جسے نسل در نسل جاری رہنا ہے جب تک اللہ اہل حق کو مکمل نصرت اور کامیابی سے ہمکنار نہیں کردیتا۔ اور یہ کہ فلسطین کی اراضی پر کسی بشر کا حق نہیں ہے بلکہ یہ سارا خطہ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کیلئے وقف (اوقاف ) ہے۔ کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کروہ اس کے کسی ایک حصے سے دست بردار ہو۔ اگر اس وقت موجود ہ نسل حالت ضعف میں ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ یہی حالت برقرار رہے گی۔ آنے والی نسل کے حق کو مارنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا جاسکتا اور یہ کہ مسئلہ فلسطین تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور عالم اسلام کا کوئی ایک مسلمان بھی اللہ کی سر زمین سے دستبردار ہونے کا وبال نہیں اٹھا سکتا خواہ فتح و کامرانی پر کتنا ہی عرصہ کیوں نہ بیت جائے ۔ اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ امت مسلمہ کا عروج یہود کے زوال کے ساتھ لازم تھا اور اسی طرح یہود کا عروج و امت مسلمہ کے زوال کے ساتھ مشروط رہا ہے۔

سنہ 2000؁ تک مذکورہ بالا اہم مسائل میں سے کسی کا حل بھی سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف صہیونی ریاست بدستور خطہ کو یہودی طرز میں ڈھالتی چلی جارہی ہے۔ اسرائیل اپنے تصرفات میں ان معاہدوں کا بھی احترام نہیں کرتا جو اس نے خود مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر طے کیے ہیں ۔

صہیونی قیادت نے مغربی کنارے کا صرف 18 فیصد حصہ فلسطینی قیادت کو دیا ہے اور غزہ کا 60فیصد حصہ دیا ہے۔ اس طرح پورے فلسطین کا صرف 4.72 فیصد حصہ فلسطینی قیادت کے پاس آیا ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ علاقے کا نظم و نسق ( امن عامہ ) پر دونوں ملکوں کا مشترکہ حق ہو گا۔ جو علاقے فلسطینی قیادت کو دستوری طور پر دیئے گئے ہیں ان میں سے عملاً مغربی کنارے کے 58فیصد پر اور غزہ کے 40فیصد علاقے پر صہیونی تسلط ہے۔

اوسلومعاہدے میں چونکہ اسرائیل کے عرب نمائندوں سے (پہلی مرتبہ)برائے راست مذاکرات ہوئے تھے اس لیے اس معاہدے کے بعد ہر عربی حکومت نے اس میں اپنی سلامتی دیکھی کہ وہ دوسری حکومت سے پہلے اسرائیل سے مذاکرات کرلے۔ اسرائیل نے ہر ایک حکومت سے اس کے ضعف کے بقدر مطالبات منوائے؛ اپنی مصنوعات کو فروغ دیا اقتصادی معاہدے کیے اور اسلامی تحریکوں اور قوم پرست تحریکوں کے خلاف مزید قانون سازی کرائی۔

29ستمبر 2000؁ میں تحریک انتفاضہ نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو ثابت کیا کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ہے۔ تحریک انتقاضہ بہت جلد نہ صرف فلسطینی عوام کی ہر دل عزیز تحریک بن گئی بلکہ عرب ممالک اور دوسرے اسلامی ملکوں میں انتقاضہ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ تحریک انتفاضہ کے سرگرم عمل ہونے سے فلسطینی فراموش شدہ مسئلہ دوبارہ زندہ ہو گیا۔انتفاضہ نے اصل صہیونی عزائم سے پردہ ہٹا یا اور صہیونی ریاست کی طرف سے امن کی اپیل کا پول کھو لا۔ تحریک انتفاضہ نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں جس دجل اور فریب سے کام لیا گیا تھا اسے نمایاں کیا اور ثابت کیا کہ ان معاہدوں میں فلسطینیوں کے جائز حقوق سلب کیے گئے ہیں ۔

تحریک انتفاضہ کے سرگرم ہوتے ہی فلسطینی عوام پر اسرائیلی غنڈہ گردی کا سیلاب آگیا۔ فلسطینی نوجوانوں سے جیلیں بھر گئیں اور حق دفاع کو بنیاد بنا کر اسرائیل نے فلسطین کی بیشتر اراضی پر قبضہ کرلیا ۔ صرف پانچ ہی برسوں میں فلسطینی شہداء کی تعداد 4160تک پہنچ گئی جبکہ 45ہزار فلسطینی اسرائیلی بمباری سے زخمی ہو ئے ۔برسر روزگار فلسطینیوں میں سے 57فیصد بے روزگار کردیئے گئے۔ اسرائیل کے اس شدید ظلم کے باوجود تحریک انتفاضہ جہاد اور شجاعت اور شہادتوں سے تحریک کو لازوال کرتی چلی جارہی ہے ۔تحریک انتفاضہ کو فلسطین کی سبھی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ فلسطین کی طویل مزاحمت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتفاضہ کی شکل میں صہیونی ریاست کو ایک متحدہ قوت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔انتفاضہ کی جہادی اور استشہادی کارروائیوں سے 1060صہیونی ہلاک ہوئے ہیں 6250 سے زیادہ صہیونی زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی ریاست پر امن معاہدوں سے ہی فلسطینی اراضی اور ان کے حقوق کی مالک بنتی جارہی تھی انتفاضہ نے جہاد کاباب کھول کر مذاکرات کے ذریعے فلسطینیوں کی فروخت کا سلسلہ کاٹ کررکھ دیا ہے۔ صہیونی ریاست عربوں کے ساتھ بلا واسطہ مذاکرات کے بعد تجارتی لین دین کے منصوبے بنارہی تھی۔ انتفاضہ کے جہاد سے اب اسے پہلے اپنی حفاظت کرنا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی معاشی ترقی کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔ اقتصادی طور پر اسرائیل کا سخت نقصان ہورہا ہے۔ سیاحت سے جو آمدن ہوتی تھی وہ ختم ہوگئی ہے ۔انتفاضہ کے بعد بہت سے یہودیوں نے خوف کے مارے اسرائیل سے نقل مکانی کی ہے۔ اسرائیل کی سیادت دوستونوں پر قائم تھی اسرائیل ( معاہدوں کے ذریعے فلسطینی حملہ آوروں سے) محفوظ ہواوردوسرا اسرائیل اپنی مصنوعات کو ترقی دے کر اقتصادی اجارہ داری قائم کرے۔ الحمد للہ تحریک انتفاضہ نے اسرائیلی سیادت کے دونوں ستون ہلا کر رکھ دیئے ہیں ۔انتفاضہ کی قوت سے اسرائیل مجبور ہو گیا کہ وہ غزہ کے مقبوضہ جات سے نکل جائے ۔ یہاں یہودی آباد کاری کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔

فلسطین میں عیسائی آبادی بھی پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی طرح وہ بھی صہیونی ظلم کا شکار ہیں۔ برطانیہ کے انتداب سے لے کر اب تک وہ آزادی وطن کی تحریک میں مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں اور انہوں نے اس مسئلہ میں مسلمانوں کے ساتھ مثالی اتحاد کر رکھا ہے۔ وہ فلسطین کی پر انی تہذیب و ثقافت اور زبان ( عربی ) کا اسی طرح دفاع کررہے ہیں جیسے عام فلسطینی کرتا ہے؛ تقریر سے تحریر سے اور تلوار سے۔

حل کس طرح ممکن ہے؟

فلسطین میں اس وقت تک سلامتی نہیں آسکتی جب تک اہل فلسطین پر ظالمانہ معاہدے ٹھونسے جاتے رہیں گے۔ ان کے حقوق سلب ہوتے رہیں اور اس کے اصل باشندے مہاجرت کی زندگی گزار یں ایسے ظالمانہ معاہدوں کو برابری پر قائم معاہدوں کا نعم البدل کہہ کر وقتی سیاسی مقاصد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں اس لیے کہ وہاں کے شہریوں کو کمزور ار ضعیف سمجھ لیا گیا ہے لیکن ایسے معاہدوں سے فلسطین میں مستقل امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ آزادی فلسطین کا جہاد فرض ہی رہے گا اور اس کے شہریوں کیلئے ایک اعزاز اور آبرو مندی کی علامت ‘ صہیونی اور مغربی اصلاحات سے اس مزاحمت میں کوئی فرق نہیں آئے گا خواہ کوئی مغربی میڈیا کی ہاں میں ہاں ملا کرجہاد فلسطین کو دہشت گردی ہی کیوں نہ کہے اور اگر فلسطینی اپنے حقوق سے دست بردار ہو کر مزاحمت چھوڑ دیں تو اسے امن کہے۔ میڈیا حقوق کی جنگ کو دہشت گردی اور مظلوم کے ترک مزاحمت کو امن کہتا ہے۔

فلسطین کی آزادی اور صہیونیوں کی قوت منتشر کرنے کیلئے ہمیں اسلام کے اصولوں پر چلنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے سچے بندوں کی نصرت کا خو د ذمہ اٹھا لیا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں پوری امت مسلمہ کا عقیدہ بھی اسلام ہے جو اس تحریک میں فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو گی۔اور اس لیے بھی کہ اسلام سراسر بھلائی اور فلاح کا دین ہے۔ اسلام میں یہ کشش ہے کہ وہ مسلمانوں کو متحد کرتا ہے اور ان کی طاقت کو یکجا کرسکتا ہے۔ فلسطین کی تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ اسلام کی وجہ سے اسے پہلے بھی آزادی نصیب ہوئی ہے جیسے تا تاریوں کا قبضہ اور پھر فرانس کے قبضے سے آزادی پانے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے فلسطین کی آزادی کی تحریک کے نکات درج ذیل ہوسکتے ہیں ۔

(الف ) اسلام ہی کو اپنا عقیدہ اور منہح حیات بنا یا جائے۔ اپنی زندگی کو اسلامی اخلاقیات اور اسلامی قدروں کے مطابق ڈھالا جائے ۔ اپنے باہمی معاملات اللہ کی شریعت کے مطابق طے کیے جائیں۔

( ب ) تحریک آزادی فلسطین کی قیادت اسلامی ہو جو معاملات سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہو جو پختہ ارادے اور نیت صادقہ کے ساتھ صہیونی عزائم کا توڑ کرنا جانتی ہو ۔

( ج ) صہیونیت کے خلا ف تحریک کا دائرہ صرف فلسطین تک محدود نہ رہنے دیا جائے بلکہ پورے عالم اسلام میں صہیونی عزائم کو نمایاں کرنے کے بعد امت کو اپنی پشت پر لا یا جائے۔ اسے صرف فلسطینی مسئلہ یا عرب اسرائیل مسئلہ تک محدود نہ رکھا جائے کیونکہ ارض فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں پر فرض عین ہے اس لیے کہ صہیونی منصوبے صرف فلسطین کی سر زمین تک محدود نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں صہیونی اپنے منصوبے بنا رہے ہیں لہٰذا یہ مسئلہ علاقائی نہیں بین الاقوامی ہے ۔ ایک بین الاقوامی عدو سے بین الاقوامی سطح پر ہی نبٹا جاسکتا ہے ۔

( د) تحریک آزادی فلسطین کی ہر سطح پر مدد کرنا ۔فلسطین ارض رباط ہے

( ھ ) تمام مسلم خطوں میں سیاسی ‘ اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اعلیٰ صلاحیتیں اور استعداد کارپیدا کرنا ۔ مسلم امہ کو ایک طویل جنگ کیلئے اپنے ہی پیدا کردہ وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس ذمہ داری کو اٹھانے کیلئے مسلم امہ کو اپنے اندر بہت ساری لیاقتیں اور صلاحیتیں پیدا کرنا ہیں۔ صرف فلسطین کی آزادی کا ایک مسئلہ امت کو درپیش نہیں ہے بلکہ ہمارے بہت سے مقبوضہ جات آزاد ہو نا ہیں ۔

فلسطین میں صہیونی منصوبوں کا ناکام ہوجا نا نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایک واقعاتی حقیقت ہے۔ صہیونی ریاست کا زوال ایک ربانی فیصلہ ہے۔ قرآن مجید جس میں باطل کی آمیزش کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تااللہ تعالیٰ یہودی زوال کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا آخری رسول جس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ بھی یہودیوں کے زوال کی بشارت دے کر گیا ہے۔ پھر اس دھرتی پر خدا کی ربانی سنتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہیں کہ ظلم پر کوئی ریاست زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی ۔خدا کے نافرمانوں پر آفتیں آیا کرتی ہیں۔ خدا کی نگری میں ظلم نہیں رہنے دیا جاتا!

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے۔

۱۔           صہیونیہ      ڈاکٹر حمود رحیلی

۲۔           ماسونیہ        ڈاکٹر حمود رحیلی

۳۔           روزغضب حامد سعید

۴۔           حاضر العالم الاسلامی ڈاکٹر جمیل عبداللہ مصری

۵۔            الحقائق فی قضیۃ فلسطین   ڈاکٹر محسن صالح

۶۔           محدث لاہور

۷۔           تاریخ مدینہ منورہ          انیس الرحمن

۸۔           حمی سنۃ ۲۰۰۰  (عبد العزیز بن مصطفیٰ کامل)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے