الشیخ سید محمد داؤد غزنوی خاندان غزنویہ امرتسر کے گل سر سید تھے۔ جنہوں نے 16 دسمبر 1963ء لاہور میں وفات پائی۔ اور میانی صاحب کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ مرحوم امرتسر کے مشہور علمی خاندان کے فرد تھے۔ ان کے دادا عارف باللہ مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ 1397ھ ، 1879ء غزنی (افغانستان) سے ہجرت کر کے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ مولانا حبیب اللہ قندہاری تلمیذ مولانا شاہ اسمعیل شہید دہلوی (1241ھ) اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) کے فیض یافتہ تھے۔ مولانا سید عبداللہ غزنوی کے بارے میں مولانا حکیم سید عبدالحئ حسنی (م1341ھ) لکھتے ہیں۔

جناب عبداللہ بن محمد بن محمد شریف الغزنوی شیخ، امام، عالم، زاہد، مجاہد تھے، رضائےالہی کے حصول میں کوشاں تھے۔ اللہ کی رضا کے لیےاپنی جان، اپنا گھر بار، اپنا وطن سب کچھ لٹا دینےوالے تھے۔ علماء سوء کے خلاف ان کے معرکے مشہور ہیں۔

محترم سید عبداللہ غزنوی کی تبلیغ اور وعظ و ارشاد سے صوبہ پنجاب کے لوگوں کو بڑا فیض پہنچا۔ تو بے شمار لوگ ان کی تبلیغ اور وعظ و ارشاد سے توحید و سنت پر عمل پیرا ہوئے۔ آپ نے 1298ھ میں امرتسر میں رحلت فرمائی۔

مولانا سید محمد داؤد غزنوی حضرت الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے بڑے صاحبزادے تھے۔ حضرت الامام بڑے ذہین اور صاحب فہم و فراست و بصیرت تھے۔ بہت زیادہ عابد، زاہد و ذکر اذکار کرنے والے عالم دین تھے۔ ان کا شمار علمائے ربانی میں ہوتا تھا۔ ان کی جلالت اور ولایت پر اہل زمانہ کا اتفاق ہے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (1999ء) لکھتے ہیں کہ: مولانا سید عبدالجبار غزنوی اپنے والد نامدار کے قدم بہ قدم تھے۔ وہی توحید واتباع سنت کا غلبہ، وہی شرک و تجرید، وہی زہد و توکل، وہی قرآن و حدیث کی اشاعت کا غلبہ۔ 1331ھ میں امرتسر میں وفات پائی۔ اپنے خاص رنگ میں قرآن مجید کا درس دیتے تھے۔

ہرچہ از دل خیزد و بردل ریزد

کے مصداق سننے والوں کے دلوں پر اثر پڑتا تھا۔ جو بڑے بڑے عالمانہ و محققانہ درسوں، علمی موشگافیوں، فنی نکتہ آفرینوں کا نہیں پڑتا۔

مولانا سید محمد داؤد غزنوی 1895ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ علوم اسلامیہ کی تحصیل اپنے والد محترم الشیخ الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی اور اپنے تایا زاد بھائی مولانا سید عبدالاول غزنوی (م 1331) سے حاصل کی۔

بعد ازاں دہلی جا کر مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م 1337ھ) سے اکتساب فیض کیا۔ فراغت کے بعد اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ میں قرآن و حدیث کی تدریس پر مامور ہوئے۔ اور ایک عرصہ تک کتاب و سنت کی تعلیم سے طلباء کو مستفید فرماتے رہے۔

1919ء میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے برصغیر (پاک و ہند) کی سیاست میں قدم رکھا۔ ان کا برصغیر کی تقریباً تمام دینی وعلمی قومی و ملی اور سیاسی تحریکات سے تعلق رہا، کانگریس، مجلس خلافت، مجلس احرار، مسلم لیگ اور جمعیۃ العلماء ہند کے سینئر رہنماؤں میں گنے جاتے تھے۔ آپ پنجاب کانگریس کے صدر رہے۔ جمعیۃ العلماء ہند کے رکن اور بعد مدتوں نائب صدر رہے۔ مجلس احرار کے جنرل سیکریٹری کا عہدہ بھی ان کے پاس رہا۔

آغا شورش کاشمیری لکھتے ہیں:

اس حقیقت سے شاید کم لوگ واقف ہوں گے۔ پنجاب کے علماء میں سے وہ پہلے عالم دین تھے۔ جنہوں نے تحریک خلافت کے زمانہ میں انگریزی حکومت کے خلاف وعظ و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا۔ اور یہ شرف تاریخ نے ان کے سپرد کیا۔

مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری کو سیاسی میدان میں مولانا سید داؤد غزنوی لائے تھے۔ اور شاہ جی نے خود اس کا اقرار کیا ہے کہ:

مجھے برصغیر کی سیاست میں لانے والے مولانا سید داؤد غزنوی تھے۔

مولانا ظفر علی خان مرحوم نے انکی دینی و علمی خدمات دیکھ کر فرمایاتھا:

قائم ہے ان سے ملت بیضا کی آبرو

اسلام کا وقار ہیں داؤد غزنوی

رجعت پسند دیکھ کر ان کو یہ کہنے لگے

آ رہا ہے سومنات میں محمود غزنوی

1919ء کا سال برصغیر کے لوگوں کے لیے قہر استبداد تھا۔ ملک میں مارشل نافذ تھا۔برطانوی سامراج نے جلیانوالا باغ امرتسر میں لوگوں پر گولیاں برسا کر چار سو سے زیادہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ مرنے والوں میں ہندو، سکھ اور مسلمان شامل تھے۔

پروفیسر سید ابو بکر غزنوی لکھتے ہیں:

جب مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے سیاست میں قدم رکھا۔ وہ دور انگریز کے جبر واستبداد کے دور تھا۔ انہوں نے انگریز کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی۔ وہ حق گوئی اور بیباکی کا پیکر بن گئے۔ جن لوگوں کو اس دور میں ان کی تقریریں سننے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ انگریز کے خلاف تقریر کرتے۔ تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ آگ برسا رہے ہیں۔ اور ان کے لفظوں پر شعلوں کا گمان ہوتا تھا۔ ان کی اور ان کے رفقاء کی بے باکانہ تقریروں کا یہ اثر ہوا کہ عوام کے دلوں سے مارشل لا کی ہیبت اٹھ گئی۔ انکی شعلہ نوائی نے جمود کی برف توڑ دالی اور عوام کے دلوں میں انگریز کے خلاف نفرت کی چنگاریاں سلگنے لگیں۔ اور حصول آزادی کا جذبہ ابھرنے لگا انگریز کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔ اور وہ پوری گرم جوشی کے ساتھ اسے اپنے دامن سے ہوا دینےلگے۔

1921ء میں برصغیر کے مسلمان رہنماؤں نے برطانوی سامراج کے خلاف گرجدار آواز بلند کیا۔ چنانچہ مولانا ظفر علی خان، شیخ حسام الدین، مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو ایک ہی وقت میں گرفتار کر کے ایک ہی جیل میں بندکر دیا۔ چند دنوں بعد ان کو مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ پہلے لاہور سنٹرل جیل میں لائے گئے۔ وہاں سے کچھ دنوں بعد امرتسر جیل بھیج دیئے گئے۔ امرتسر جیل میں کچھ دنوں بعد روہتک جیل میں لے جانے کا حکم آ گیا۔ جب ان سب قیدیوں کو معلوم ہوا تو مولانا سیدمحمد داؤد غزنوی نے خود اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

کہ اب اس جیل (امرتسر) سے کسی دوسری جیل نہیں جانا یا مجھے یہاں سے نکلنے سے انکار کر دینا چاہیے۔

ان تمام قیدیوں پر عدالت میں مقدمے چل رہے تھے۔ امرتسر کی عدالت میں ہی ایک مقدمہ زیر سماعت تھا۔ مولانا غزنوی نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اب ہم پولیس کے ساتھ کسی عدالت میں بھی نہیں جائیں گے۔ چنانچہ سب قیدیوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ تیسرے دن مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی عدالت میں پیشی تھی۔ پولیس لینے آئی تو آپ نے عدالت جانے سے انکار کر دیا۔ آخر پولیس نے آپ کو کندھوں پر بٹھا کر گاڑی میں بٹھایا اور عدالت میں لے گئے۔ جب عدالت پہنچے تو گاڑی سے اترنے سے انکار کر دیا اور پھر پولیس نے کندھوں پر اٹھا کر عدالت میں پیش کیا۔ مولانا ظفر علی خان بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے یہ منظر دیکھ کر فی البدیہہ یہ اشعار کہے:

دی مولوی داؤد کوچڈی جو پولیس نے

احباب نے پوچھا بہ تعجب کہ یہ کیا ہے

کیوں لد کے چلے دوشِ حکومت پہ حضور آج

حضرت کی سواری کا طریقہ یہ نیا ہے

فرمانے لگے ہنس کے کہ میں عالم دین ہوں

اور مرتبہ سرکار میں عالم کا بڑا ہے

اس واسطے مَرکَب کے عوض فرط ادب سے

پیش اپنے تئیں آپ حکومت نےکیا ہے

ہے فخر یہ مجھ کو کہ میری ران کے نیچے

خود حضرت عیسی کی سواری کا گدھا ہے

مولانا سید داؤد غزنوی کی دینی علمی و مذہبی خدمات کے علاوہ سیاسی خدمات بھی نمایاں ہیں۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

مولانا نے حصول آزادی کی تمام تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور ملک کی صف اول کے رہنماؤں میں ان کا شمار اور قید و بند کی بے پناہ صعوبتیں جھیلیں۔ وہ ہر اس جماعت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل پڑتے تھے۔ جو انگریزی حکومت کی مخالفت کا نعرہ بلند کرتی تھی۔

مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی زندانی زندگی 15 سال سے کم نہیں۔ مولانا کی سیاسی زندگی بے داغ ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے تحریک خلافت اور اس کے بعد آزادی وطن اور قیام پاکستان تک تمام تحریکوں میں اس روایت کو سر سبز رکھا۔ بارہا قید ہوئے۔ مصائب برداشت کئے۔ مگر جس راستے کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید خیال کیا۔ اس پر قائم رہے۔

حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی اخلاق و عادات سے بہت اعلیٰ و ارفع تھے۔ علوم اسلامیہ کے متجر عالم اور خاص کر تفسیر، حدیث اور فقہ میں یگانہ روز گار تھے۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا۔ بہت زیادہ مطالعہ کرتے تھے۔ مولانا محمد حنیف ندوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔ مجھے ان کی لائبریری کا جائزہ لینے کا بھی بارہا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اہم کتاب ایسی نہیں اور کسی کتاب کا اہم باب ایسا نہیں۔ جس پر ان کے حواشی و تعلیقات کی چھاپ نہ ہو۔ خصوصیت سے فقہ و تفسیر کے مسائل پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔

مولانا غزنوی بہت زیادہ زاہدو عابد تھے۔ نماز تہجد زندگی بھر ادا کرتے رہے۔ حقوق اللہ کا بہت زیادہ التزام کرتے تھے۔ حقوق العباد بھی وہ مستعدی سے ادا کرتے تھے۔ حق گوئی اور بے باکی میں انہیں امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ طبیعت میں نفاست تھی۔ راقم نے جب بھی ان سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا بڑی محبت اور تپاک سے مصافحہ کرتے اور خیریت دریافت کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی قبر پر باران رحمت فرمائے۔

(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے