فی زمانہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ فرقہ ورانہ تشدد اور بد امنی ہے۔ گاہے بگاہے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جب اچانک ہی سارا ملک فسادات کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ماہ محرم کے ابتدائی دس ایام کے دوران یہ خوف دوچند ہو جاتا ہے۔ اسلامی کلینڈر کے مطابق محرم سال کا پہلا اور ذوالحج آخری مہینہ ہے اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر کے مسلمان بلخصوص پاکستانی عوام، بے یقینی، انتشار اور خوف و ہراس کی کیفیت سے دو چار ہو جاتے ہیں اور یہی صورتحال ماہ اختتام میں اور خلوص و رواداری کی عملی تفسیر بن جاتی ہے۔ حج کے موقع پر کرہ ارض کے تقریبا ـہر ملک سے مختلف رنگ و نسل اور مسالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر عبادت کے دوران جس محبت و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیںاس کی دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔ امام صاحب موقع کی مناسبت سے عالم اسلام کو محبت، امن، رواداری اور بھائی چارہ کا درس دیتے ہیں۔ عازمین حج سابقہ غلطیوں پر احساس و ندامت محسوس کرتے ہوئے اللہ تعالی  کے دربار میں جس آہ وبکاہ کے ساتھ دعا مانگتے ہیں وہ منظر انتہائی رقت انگیز ہوتا ہے۔

ایک ماہ بعد نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی رقیق القلب مسلمان نا جانے کیوں یکدم شقی القلب  ہو جاتے ہیں۔10 محرم کے روز راولپنڈی میں ہونے والے اندوہ ناک  واقعہ سے ایک بار پھر ملک کو فرقہ ورانہ آگ میں دھکیلنے کی کو شش کی گئی ہے ۔گو کہ شیعہ سنی رہنمائوں کی مشترکہ پریس کانفرس نے اس واقع کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت کو بہت حد تک کم کرنے میں مدد فراہم کی ہے لیکن پھر بھی فرقہ واریت کو ہوا دینے والے ملک دشمن عناصر ہنوز اس آگ کو بھڑکانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ جس سے ملک کے دیگر حساس شہروں میںمسلک کی بنیاد پر ہنگامہ آرائی کے خدشات بڑھ رہے ہیں ۔حکومت نے ۹ اور ۱۰ محرم کو تقریباً ۳۵ شہروں میں موبائل فون سروس معطل رکھی اس کے ساتھ ساتھ ڈبل سواری پر پابندی اور دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ بھی کیا گیا۔انٹیلی جنس شیرنگ اور خطرے کی پیشگی اطلاع کا مربوط نظام بھی موجود تھااس کے باوجود اس انداز کی منظم دہشت گردی کی کارروائی سے یہ سوچ مضبوط ہو رہی ہے کہ حکومت تمام تر وسائل کے باوجود ناکام اور دہشت گرد ہر طرح کی کاروائیوں کے لیے آزاد اور بے خوف و خطر دندھناتے پھر رہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ اس سانحہ کے رونما ہونے کی اطلاعات پہلے سے موجود تھیں خفیہ اداروں نے قبل از وقت انتظامیہ کوآگاہ کر دیا تھا کہ اس قسم کا واقعہ ہوسکتا ہے لہٰذا جمعہ کی نماز کا وقت تبدیل کر دیا جائے یا جلوس کے روٹ میں تبدیلی کر دی جائے ۔ٹھوس اطلاعات کے باوجود پولیس اور انتظامیہ نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث اتنی جانیں ضائع ہوئیں ۔انتظامیہ اپنی کارکردگی  کے چرچے تو بہت کرتی ہے مختلف ٹی وی چینلز سے بات کرتے ہوئے پولیس اور انتظامی افسران حد سے زیادہ خود اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے ہر کام کو پرفیکٹ بتاتے اور واقعہ رونما ہو جا نے بعد منہ لٹکائے تاویلیں اور فلسفے بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی ڈھٹائی کو سلام کرنا چاہیے گھروں کے گھر اجڑ جاتے ہیں ملک تباہی اور بد نامی تک پہنچ گیا ہے لیکن ذمہ داران کے چہروں پر شرمندگی کا احساس تک نظر نہیں آتا۔ سیاستدان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان بے حسی اور لاپرواہی کے بے مثال نمونے ہیں۔ دو چار جذباتی بیانات دے کر اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے خاموش ہو جاتے ہیں اس وقت تک عوام کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔اپنے اپنے معاملات اور دائرہ اختیار تک سب بے خبری اور غفلت کا شکار ہیں ۔خود احتسابی ہم میں دور دور تک نہیں پائی جاتی اگر ہم دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور ان پر الزام تراشیاں کرنا بند کریںاور اپنا قصور مان کر آئندہ کے لئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینے کا عہد خود سے کرلیں توممکن ہی نہیںکہ معاشرہ بہتری کی جانب گامزن نہ ہو جائے۔

معاشرے اس وقت بگاڑ کا شکار ہوجاتے ہیںجب طاقت کا توازن بگڑ جائے ۔ بدقسمتی سے سیاست پر ان لوگوں کا قبضہ ہے جنہیں عوام سے زیادہ اپنا اور اپنی اولاد کا مستقبل عزیز ہے۔سیاست کو اتنا محدود اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اب یہ چند گھروں تک سمٹ آئی ہے۔یہی حال مجموعی دولت کا ہے ۔ اختیارات اور دولت کے اس چکر نے ایسا چکر چلایا ہے کہ ہر ادارہ سکڑ کر طاقتور کے ڈرائینگ روم تک پہنچ گیا ہے۔ عدالتوں کا مذاق اڑایاجارہا ہے ان کے احکامات کو نظر انداز کرنے کی روایت مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ذرائع ابلاغ سچ اور جھوٹ کا مرکب بن گئے ہیں۔عوام کے دامن میںبھوک ، ننگ وافلاس،بے روزگاری اور زمانے بھر کے مسائل ڈال دیے گئے ہیں۔ ہر جانب خوف اورموت کے سائے منڈلارہے ہیں۔بے حس حکمرانوں نے آج تک عوام سے حقیقی رشتہ جوڑنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ حکمراں طبقے اور عوام کی معاشی و معاشرتی حالت میں زمین وآسماں کا فرق ہے ۔ کوئی بھی چیز ان کے درمیان نا پہلے مشترک تھی نااب ہے۔ پھر یہ کہہ دینا، ہم عوام کے خیر خواہ ہیں اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ناجانے عوام کو یہ خوش فہمی کہاں سے ہوگئی ہے کہ حکمران ان کے رہنماء اور مسیحا ہیں۔ چھیاسٹھ سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے جو مسائل قیام پاکستان کے وقت موجود تھے وہ آج بھی جوں کے توں ہیں۔بے یقینی اور خوف کی جو کیفیت عوام کے اعصاب پر سوار ہے وہ بے سروسامانی کی حالت میں بھی نہیں تھی۔پرویز مشرف کہتے ہیں اگر میں امریکہ کی بات نامانتاتو وہ ہمیں پتھروں کے زمانے میں دھکیل دیتے کوئی تو ان سے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے پوچھے کہ وہ جاتے جاتے دہشت گردی کے جو اسباب پیدا کر گئے ہیں کیا ان کے سبب ہم پتھروں سے بھی پہلے کے زمانے میں نہیں پہنچ گئے؟

وطن عزیز سانحات کا مرغزار بن چکا ہے۔نت نئے حوادث ہماری تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ رہے ہیں۔ جب کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے اور حکومت کے پاس باوجود کوشش کے بچنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتاتو وہ عوام کی توجہ پاٹنے کے لیے عدالتی کمیشن یا تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے دیتی ہے۔ایسے کمیشنز اور کمیٹیوں سے عوام نالاں آچکے ہیں کیوں کہ ان کی رپورٹس اکثر مبہم ہوا کرتی ہیں۔جن میں ناکسی مرکزی ملزم کا ذکر ہوتا ہے نا ان کے ممدومعاونین کی ٹھیک طرح سے نشاندہی کی گئی ہوتی ہے بلکہ اصل واقع کو بھی اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ سارے حقائق مسخ ہو کر رہ جاتے ہیں۔حمودالرحمٰن کمیشن سے لیکر ایبٹ آبا د تک جتنے کمیشن آج تک بنے ہیںان کا انجام کیا ہوا یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں پچھلے چند سالوں میں پاکستان کی اہم تنصیبات پر جتنے حملے ہوئے ہیںاور ان کے حوالے سے جو بھی تحقیق ہوئی اس کا کوئی ملزم منظرعام پر نہیں لایا گیاایسی حالت میں چند غیر ضروری افراد کے نام میڈیا کے سامنے پیش کردیے جاتے ہیں اور پھر ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔

دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے بعد ہونا تویہ چاہیے تھا کہ سیکیوریٹی کے ناقص سسٹم کو بہتر بنایا جاتا ۔ ذمہ داران کو سامنے لایا جاتا ۔  بلا امتیازعبرت ناک سزائیں سنائی جاتیں۔ ایسا ہونے کے بجائے غیر ذمہ داری کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا۔ نا جانے قوم کب تک فرسودہ پالیسیز کا عذاب سہتی رہے گی۔ عاشور کے روز ہونے والے غیر انسانی واخلاقی واقعہ کی تحقیقات کے لیے جسٹس مامون رشید کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیدیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ پنجاب حکومت نے بھی فیکٹ فائنڈگ کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس کے سربراہ وزیراعلیٰ انسپیکشن ٹیم کے سابق چیئرمین نجم سعید ہوں گے۔ جبکہ سیکریڑی پراسیکوشن اور ایڈیشنل آئی جی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔ کمیٹی 7 روز میں اس حادثہ کے ذمہ داران اور سیکوریٹی غفلت کے مر تکب افراد کی ریورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کریں گی۔ کمیٹیاں بن چکی ہیں انھوں نے کام بھی شروع کردیا ہے اور اس تناظر میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں لیکن ضروری امر یہ ہے کے تحقیقات کسی جانب جھکاؤ کے بغیر شفاف ہوں ۔  ملوث اداروں کے سربراہان کا کڑا احتساب ہو۔ کس کو بھی کسی صورت معاف نا کیا جائے رپورٹ اور ملزمان کے نام منظر پر لائے جائیں اگر غلطیوں کو دھرانے کی روایت بر قرار رہی تو پھر بہت کچھ بدلے گا جسے برداشت کرنے کی ہمت شاید حکمرانوں میں نا ہو۔

اسی قسم کا ایک واقعہ چند سال قبل کراچی میں بھی پیش آیا تھا عاشورہ ہی کے روز ایم اے جناح روڈ پر مارکیٹیں اور دکانیں جلادی گئی تھیں راولپنڈی واقعہ کی طرح یہ بھی طے شدہ منصوبہ تھا اس وقت بھی سیاسی جماعتوں اور عوام کی جانب سے بہت شور مچایا گیا تھا لیکن ملزمان کاتعین آج تک نا ہو سکا۔ اگر کراچی حادثہ کی تحقیق ہو جاتی ملزمان کی نشاندہی ہوجاتی اور سزاؤں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا تا تو شاید راولپنڈی حادثہ سے بچاجا سکتا تھا مسلسل غلطیاں کسی بہت بڑے سانحہ کا موجب بن سکتی ہیں۔ راجہ بازار، راولپنڈی کا سب سے بڑا بازار ہے وہاں ایک ایک دکان کروڑوں روپے ما لیت کی ہے، کپڑوں کے بڑے بڑے گودام ہیں بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹو ں کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ بازار کو پہلے لوٹا گیا پھر توڑ پھوڑ کے بعد اسے آگ لگادی گئی یقینا یہ سب کچھ پہلے سے طے تھا ملزمان اس کی منصوبہ بندی کر چکے تھے اس سارے عمل کے دوران جو کئی گھنٹوں پر محیط تھا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے اس وقت کہا ں تھے ۔ فول پروف انتظامات کی رٹ لگانے والے اس ہنگامہ آرائی کے دوران کیا کر رہے تھے جب سب کچھ تباہ ہوگیاپھر کرفیو بھی لگ گیا اور انتظامیہ بھی حرکت میں آگئی ۔ اگر منصوبہ بندی اسی کو کہتے ہیں تو پھر عوام سے کہہ دیا جائے کہ ریاست ان کے جان و مال اور عزت کی حفاظت نہیں کرسکتی انھیں اپنی حفاظت کی ذمہ داری خود پوری کرنی چاہیے۔

وزیراعلیٰ پنجاب اس واقعے پر خاصے آذردہ دکھائی دے رہے ہیں اور سب کی نظریں اس وقت عدالتی کمیشن اور وزیر اعلیٰ پر ٹکی ہوئی ہیں رپورٹ آنے کے بعد شہباز شریف کیا کرتے ہیں یہ ان کا امتحان ہے اور وہ اس امتحان میں کس ہد تک کامیاب ہو تے ہیں یہ وقت ہی ثابت کرے گا عوام وزیراعلیٰ شہباز شریف کی صلاحیتوں اور انتظامی معاملات میں اُن کی سخت گیری کو پسند کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ عوام کا یہ اعتمادبرقرار رہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے