مسلمان پختہ عقیدے کا مالک ہوتا ہے۔ وہ موت کی ہر وقت تیاری کرتا ہے۔ تقدیر بدلنے والی ذات رب تعالیٰ ہے۔ تمام اولیا بھی اسی کے محتاج ہیں۔ کوئی خاص پتھر پہننے سے کچھ نہیں ہوتا۔

سوال: GemاورStoneکا انسانی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟

جواب: اسلام میں شگون لینے کی اجازت نہیں۔ مسلمان تو بہت پختہ عقیدہ کا مالک ہوتا ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جس چیز سے Avoidکرنا چاہتا ہے، وہ ہے ’’موت‘‘۔ موت جیسی چیز کے بارے میں بھی اسلام نے مسلمان کو ایک زبردست عقیدہ فراہم کیا کہ موت اٹل ہے۔ اس کا ایک وقت مقرر ہے۔ ہر وہ جان دار جو اس دنیا میں آیا ہے، اسے موت کا ذائقہ ایک روز ضرور چکھنا ہے۔ انسان جب یہ اٹل حقیقت جان جاتا ہے تو موت کے حوالے سےاس کا عقیدہ پختہ ہو جاتاہے اور وہ سوچتا ہے کہ مجھے آج نہیں تو کل اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔ یوں وہ موت سے ہر وقت خوف زدہ رہنے کے بجائے اس کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ انسان کو موت کے مقرر وقت سے بے خبر رکھنے میں بھی ایک حکمت پوشیدہ ہے۔

اگر ایک فوجی سے یہ کہہ دیا جائے کہ جنگ اٹل ہے اور تمہیں ہر صورت محاذ پر جانا ہے تو وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہو جائے گا۔ لیکن اگر اسے یہ کہا جائے کہ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ابھی اسی لمحے یا کچھ عرصے بعد تمہیں جنگ پر بھیج دیا جائے۔ ایسی صور ت میں وہ فوجی ہر لمحہ محاذ پر جانے کے لیے تیار رہے گا کہ نہ جانے کب مجھے بلا لیا جائے۔

مسلمان موت کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے کہ نہ جانے کب اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے اور مجھے یہ دنیا چھوڑ کر جانا پڑے۔ اسی سوچ کے تحت وہ اپنا نامہ اعمال اور تمام معاملات درست حالت میں رکھنے لگتا ہے۔

یوں موت جیسی اٹل حقیقت کے بارے میں بھی رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو عقیدہ عطا فرمایا اور انہیں شگون لینے سے منع کیا۔ اس لیے ہمGemاورStoneسے شگون نہیں لے سکتے کہ فلاں پتھر پہننے سے ہماری تقدیر بدل جائے گی۔ تقدیر بدلنے پر صرف رب قادر ہے۔ کوئی ولی اللہ خواہ کتنے ہی بلند مقام فائز ہو اس کے اختیار میں نہیں کہ رب کی مرضی کے خلاف ایک تنکا بھی توڑ سکے۔ کسی بندے سے یہ کہنا شرک ہے کہ تمہارے اختیار میں ہے جو چاہے کام کر لو۔

تمام قوتیں اللہ ہی کے پاس ہیں۔ صرف وہی ہے جو لوگوں کے دکھ دور کر سکتاہے اور لوگوں کو فائدہ پہنچاسکتاہے۔

دنیا کا کوئی ولی اللہ کسی چیز پر قادر نہیں۔ وہ بھی اسی رب کا محتاج ہے جس کے ہم سب محتاج ہیں۔ تو جو خود محتاج ہو وہ دوسرے محتاجوں کی کیا مدد کرے گا۔ اس لیے اس دھوکے سے نکل آئیے کہ کوئی ولی اللہ کسی کے لیے کچھ کرسکتا۔ تمام قوتیں، تمام اختیارات صرف رب تعالیٰ کے پاس ہیں۔ البتہ وہ جسے چاہتا ہے اور جو جو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔ اگر رب تعالیٰ کسی انسان کو مستجاب الدعوات کے مقام پر فائز کر دے تو یہ رب تعالیٰ کی عنایت ہو گی۔ اس شخص کا استحقاق نہیں ہو گا۔

یہ پتھر تو بے جان ہیں۔ یہ کسی کے لیے کیا کریں گے؟ رب تعالیٰ نے یہ عالم الاسباب بنائی۔ ہر شے کے لیے ایک سب بنا دیا۔ جب وہ کسی کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے لیے موافق حالات اور اسباب پیدا کر دیتا ہے۔

رب تعالیٰ نے کچھ چیزوں میں خاصیت رکھی ہے جیسے نیم کے درخت کے پھل میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ اس کو کھانے سے انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ نیم کے پتے کمرے میں رکھ دیئے جائیں تو وہاں مکھیاں اور مچھر نہیں آتے۔ بظاہر تو ہم کہتے ہیں کہ نیم کے پتوں اور شہد میں بہت تاثیر ہے لیکن درحقیقت سب کچھ کرنے والی ذات تو صرف رب ہی کی ہے۔

اسی طرح رب تعالیٰ نے رنگوں اور شعاعوں میں انسان کے لیے شفا رکھی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ روشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہے۔ جو چیز ہمیں کسی خاص رنگ میں دکھائی دیتی ہے اور وہ ایک رنگ کو جذب کر کے باقی رنگون کو Reflectکر رہی ہوتی ہے۔

رب تعالیٰ نے ان رنگوں اور شعاعوں میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ ان سے انسان صحت مند ہو جاتا ہے۔ پرانے گھروں، چرچ اور مندروں میں آپ نے رنگین شیشوں والی کھڑکیاں دیکھی ہوں گی۔ وہ رنگ بہت سوچ سمجھ کر منتخب کئے جاتے ہیں۔ ان میں عموماً سفید رنگ نہیں ہوتا۔ زیادہ تر نیلے شیشے کا استعمال ہوتا ہے، جس میں سرخ Patchesلگے ہوتے ہیں۔ جب سورج کی شعاعیں ان شیشوں پر پڑتی ہیں تو اندر جانے والی روشنی ان شیشوں سےFilterہو کر جاتی ہے۔ چونکہ شیشے کا زیادہ تر حصہ نیلے رنگ پر مشتمل ہوتا ہے اس لے اندر سکون کا ایک ماحول بن جاتا ہے اور ایسے ماحول میں اگر عبادت کی جائے تو یک سوئی بہت بڑھ جائی ہے۔ نیلے شیشوں میں سرخ رنگ کے Pucntuationکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کہیں نیلے رنگ سے اتنا سکون نہ پیدا ہو جائے کہ انسان کو نیند آنے لگے۔ سرخ رنگ انسان کوActiveرکھتا ہے۔ اسی طرح بعض عمارتوں میںسبز شیشوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ رنگ پاکیزگی کا احسا س دلاتا ہے۔

( ماخوذ از کتاب فقیر نگری، مؤلف: سرفراز علی شاہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے