یہ صرف اللہ رب العالمین کا خاصہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر جگہ ہر ایک کی جو بھی کوئی جس زبان میں چاہے اسے پکارے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی پکار کو سنتے ہیں اور اس کا جواب دیتے ہیں قرآن میں آتا ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ (المؤمن 60)

اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔

قبولیت پکار کی مختلف صورتیں

رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا ” قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ، قَالَ: اللَّهُ أَكْثَرُ (مسند احمد 18/3)

جب بھی کوئی مسلمان پکارتا ہے جس میں گناہ یا قطع رحمی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک ضرور عطا فرما دیتے ہیں۔

1۔ پکار کے مطابق اس کی حاجت پوری فرما دیتے ہیں۔

2۔ اس کی پکار کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیتے ہیں۔

3۔ پکار کے برابر اس سے کوئی بلا ٹال دیتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تب ہم بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا دوسرے مقام پر

ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (غافر: 60)

مجھے پکارو میں اس پکار کا جواب دونگا۔

اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی سے کے سب ہر وقت ہر ایک کی پکار کے سننے سے غافل اور بے خبر ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (الأحقاف: 5)

اور اس شخص سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارتا ہے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ ان کی پکار سے ہی بے خبر ہیں۔

انبیاء نے صرف اللہ ہی کو پکارا تھا

1۔ ابونا آدم وامنا حوا کے جنت سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے کس کو پکارا تھا اس بارے میں قرآن کہتا ہے:

فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ   ۭ   اِنَّهٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ   (البقرۃ 37)

پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ بلاشبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔

وہ چند کلمات کیا ہیں ا س کی وضاحت بھی قرآن نے کی ہے۔ القرآن یفسر بعضہ بعض۔ وہ چند کلمات یہ ہیں:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا   ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف 23)

وہ دونوں کہنے لگے: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

سیدنا آدم و حوا نے تمام سے پہلے اللہ رب العزت کو پکارا تھا۔

2۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال دعوت و تبلیغ کی لیکن قوم نے سیدنا نوح علیہ السلام کی تکذیب کی تو حضرت سیدنا علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا۔

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (القمر 10)

چنانچہ انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ:میں مغلوب ہوچکا، اب تو ان سے بدلہ لے۔

3۔ سیدنا یونس علیہ السلام جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انہیں عذاب کی دھمکی دے کر وہاں سے چل دیئے تھے جس پر اللہ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا تو مچھلی کے پیٹ میں سیدنا یونس علیہ السلام نے کس کو پکارا۔

فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ   (الانبیاء 87)

پھر انہوں نے اندھیروں میں پکارا کہ :تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے میں ہی قصور وار تھا۔

حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملہ میں دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا۔ (جامع ترمذی 3505)

4۔ سیدنا زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کی حالت میں اولاد اللہ ہی سے مانگی۔

رَبِّ ھَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۚ اِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ (ال عمران38)

میرے پروردگار! مجھے اپنی جناب سے نیک اور پاکیزہ سیرت اولاد عطا فرما تو ہی دعا سننے والا ہے۔

5۔ فرعون عوام پر کتنا ظلم و ستم کرتا تھا تو جب فرعون نے دوبارہ ظلم کا آغاز کیا تو موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ سے مدد طلب کرو۔

قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ     ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ   ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ   (الاعراف 128)

موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔ یہ زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنا دے اور انجام (خیر) تو پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔

6۔ سیدنا ایوب علیہ السلام نے اپنی بیماری کے ایام میں کس کو پکارا تھا اللہ کا فرمان ہے:

اِذْ نَادٰى رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ   (ص 41)

جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ :شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے۔

7۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے مغفرت کس سے طلب کی اور بادشاہی کس سے مانگی۔

رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ   (ص 35)

اے میرے پرورگار: مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کے شایاں نہ ہو، بلاشبہ تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔

8۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اولاد اللہ سے مانگی۔

رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ (الصافات 100)

اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح (بیٹا) عطا فرما۔

9۔ اصحاب کہف نے رحمت کے لیے رب کو پکارا۔

رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا   (الکھف 10)

اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔

10۔ عباد الرحمن کی پکار

رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ (الفرقان 65)

اے ہمارے پروردگار! جہنم کے عذاب سے ہمیں بچائے رکھنا۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبیﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔

لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (بخاری، کتاب الدعوات، ح:6345)

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت زیادہ بردبار اور بہت سخی ہے اللہ پاک ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے اللہ پاک ہے جو سات آسمانوں کا مالک ہے جو عزت والے عرش کا مالک ہے۔

الحمد للہ دلائل سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ پکار کو ہر وقت ہر جگہ سننا یہ اللہ کا خاصہ ہے باقی سب بے بس ہیں اور لاچار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے