جو قومیں اپنے ماضی سے ناطہ توڑ لیتی ہیں ان کا حال ہی نہیں بلکہ مستقبل بھی مخدوش تر ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے میڈیا کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ وہ نئی نسل کو اپنے شاندار ماضی اور اعلیٰ تہذیب سے بیگانہ کر دے تفریح کے نام پہ بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے موسیقی روح کی غذا ہے کسی ستم ظریف نے یہ نکتہ نہ معلوم کس رو میں بہہ کر نکالا ہے کہ جس کی اتباع میں ’’ائیڈول‘‘ (Idol) جیسے پروگرام شروع ہوئے پھر حیا سوز ڈرامے جن سے مادرپدر آزاد میڈیا پرائیویٹ چینلز کے ذریعے مشاہدین کی آزادی طبع کا سامان بناتے ہیں جو لوگ ٹی وی کی ان خرافات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہورڈنگز شہر کے نمایاں مقامات پہ لگا دیئے جاتے ہیں رہی سہی کسر اشتہاری کمپنیوں نے بطور خاص موسم بہارکی آمد کے ساتھ لان کے ڈیزائنوں پہ مشتمل اشتہارات آویزاں کر کے پوری کر دی ہے مال کمانے کے چکر نے کپڑا بنانے والے بعض کارخانہ داروں کو ایسا باؤلا کیا ہے کہ وہ لباس کی تشہیر بے لباسی کے ذریعے کر رہے ہیں اپنے گھروں کی عورتوں کو اڑھا ترجھا اوندھا سیدھا لٹا کر ان کو اپنی بنائی ہوئی لان اوڑھانے کی کوشش کرتے ہے۔ پھر کہیں ثقافت کے نام پہ کثافت یوں پھیلائی گئی ہے کہ سندھ کا تعارف باب الاسلام کے نام سے کرانے والے فن موسیقی میں باہم بوس و کنار کے ذریعے حقیقی رنگ بھرنے والی گلوکاراؤں اور گلوکاروں سے سندھی ثقافت کے میلے کا افتتاح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں دیکھا دیکھی بعض سکول بھی بچوں کے لیے سندھی ثقافت کے دن کا اہتمام کرکے ڈھول اور گانوں سے سندھ کا تعارف کروا رہے ہیں کیا محمد بن قاسم یہیں آیا تھا کیا مولانا عبید اللہ سندھی اور پیر آف جھنڈا بدیع الدین شاہ رحمہم اللہ نے یہیں جنم لیا تھا مگر قوم ہے کہ خاموش تماشائی بنی ہے اس اخلاقی ارتقاء پہ کوئی بات کرے تو کیسے؟ گستاخی معاف اب تو بنی سنوری یہی گریجویٹ بیبیاں کچھ جدید علماء کرام کی ٹی وی چینلز پہ میزبانی کرتے ہوئے فقہی مسائل کی مشکل گھتیاں سلجھاتی ہیں اور موقع غنیمت جان کر ان مہمانوں کی آپس میں چونچیں بھی لڑواتی ہیں کوئی ڈرتا بات نہیں کرتا کہ اس پر طالبان کا لیبل لگا دیا جائے گا سکولوں کی بربادی خود کش حملوں اور مساجد ہسپتالوں اور چرچوں میں دھماکوں کو اسلام کی تصویر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اسلام پہ پھبتی کسنے کے لیے قائد اعظم کو داڑھی لگا کر ایک جریدہ اپنا ٹائیٹل پیج بناتا ہے اور پھر وہی فرضی طالبانائزیشن کا خوف موضوع بنایا جاتا ہے کہ عورتوں کو کوڑے مارے جائیں گے قتل کیا جائے گا گھروں میں بند کر دیا جائے گا ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے مذاکرات نہ کیے جائیں ٹھنڈا مشروب پی کر گرم تاثیر حاصل کرنے والے بہت سے دانشور اور لیڈران فوج کو تھپکی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کے شاباش جاکر لڑو مسئلہ نہیں ہم محفوظ بیٹھے ہیں یاد رہنا چاہیے غصہ اور انتقامی سوچ میں کیا کِیا گیا کوئی فیصلہ کارگر ثابت نہیں ہوتا امریکہ کا حال سامنے ہے کہ گذشتہ بارہ سال سے افغانستان کی پہاڑی دلدل میں دھنسنے کے بعد آخر کاراٹھارہ ہزار فوجی زخمی کروا کر تقریباً تین ہزار کو جنگی جنون کی بھینٹ چڑھا کر ایک ہزار ارب ڈالر پھونک کر ایک لاکھ 20 ہزار افغانوں کا قاتل اب ذہنی اور عسکری شکست کا سامنا کر رہا ہے اور جلد ہی ان شاءاللہ بتمام رسوائی اسکی پسپائی اور انخلاء مکمل ہو جائے گا اس دوران پرائی آگ میں کود کر پاکستان نے اپنابے پناہ نقصان کیا جس ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی قومی سطح پہ مقروض ہے اس نے کم از کم سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان کروایا اور اپنے آٹھ ہزار عسکری لوگوں سمیت 50ہزار سے زیادہ شہری قربان کروائے اور اب بھاگتا ہوا امریکہ اس جلتی ہوئی آگ کا ایندھن ہمیں بنا کر جانا چاہتا ہے اس وقت کچھ لوگ بزدلی کا طعنہ دے کر ایک جذباتی فضا بنانے کے درپے ہیں تاکہ بیرونی ایجنڈے پہ کام ہو اور وہ حق نمک حلال کریں جب صورت حال انتہائی گنجلک ہے اور اس بدامنی میں بیرونی ہاتھ شامل ہیں خاص طور پہ بھارتی ایجنسیاں تو کیوں نہ مذاکرت جاری رکھے جائیں اب جب امریکہ خود طالبان سے مذاکرت کی راہیں تلاش کر رہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھیں بھارت کی پاکستان دشمنی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہندو کی تو پرانی عادت یہی ہے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام۔

وہ مقبوضہ کشمیر میں دریاؤں پہ بند بنا رہا ہے جب چاہے پانی روک کر ہمیں قحط کی تباہی میں مبتلا کر دے اور جب چاہے پانی چھوڑ کر سیلاب برپاکر دے مگر یہاں مشترکہ تہذیب کے نام پہ امن کی آشا کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ تہذیب و ثقافت کا فرق ہی تو پاکستان کے وجود کا سبب بنا مسلمانوں نے ایک ہزار سال ہندوستان پہ حکومت کی مگر انہیں کبھی جبراً مسلمان نہیں بنایا ان کی معاشی اور سماجی آزادی کو کبھی سبوتاژ نہ کیا اس کے برعکس ہندؤں کو جب موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کو زک پہنچائی پیٹھ میں چھرا گھونپا انگریز کے آنے کے بعد مذہبی تحریکیں چلائی گئیں ہندوازم پہ سختی سے کاربند رکھنے کے لیے 1875 میں آریہ سماج تحریک چلی۔ گئیورکھشا تحریک کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف تعصب کی آگ بھڑکائی گئ جبری ہندو بنانے کے لیے 1920 میں شدھی تحریک چلی اس کا بانی سوامی شردھا تند ہندوستان میں ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے انڈین گورنمنٹ نے اس کے نام کے ٹکٹ جاری کئے ہیں انہی وجوہات کی بنا پہ مسلمانوں میں الگ قومیت کی سوچ پختہ ہوئی جو آخر کار 23 مارچ 1940 میں دو قومی نظریہ کے تصور کے ساتھ قرارداد پاکستان پر منتج ہوئی اسی لیے قائداعظم نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اجلاس میں 8 مارچ 1944 کو خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا جس دن پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا ایک موقع پہ جب پاکستان کے دستور کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں پاکستان کی تصویر جوان کے ذہن میں تھی یوں پیش کی کہ ’’ہمارے پاس چودہ سو سال پہلے سے دستور قرآن کی صورت میں موجود ہے۔‘‘ ہندو تب بھی متعصب تھا اور اب بھی وہ بیس سے پچیس کروڑ اپنے ہم وطن مسلمانوں کو دیوار سے لگائے کھڑا ہے۔ مسلمان ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بیس سے پچیس فیصد حصہ ہونے کے باوجود ملازمتوں کے سلسلہ میں کہیں ایک فیصد اور کہیں دو فیصد حصہ پاتے ہیں گذشتہ 67 سالوں میں ہندؤں نے اپنے ساتھ بسنے والے ہم وطنوں کے خلاف ساڑھے چار ہزار سے زائد مسلم کش فسادات کرڈالے ہیں پھر بھی

ہمیں ان سے ہے وفا کی امید         جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

حقیقت تو یہ ہے ہنود و یہود مسلمانوں کے درپہ آزارہیں وہ فلسطین ہو یا کشمیر برما ہو یا وسطی جمہوریہ افریقہ ہر جگہ خون مسلم کی ارزانی ہے اس صورت حال میں پاکستان کی ذمہ داری کچھ اور بڑھ جاتی ہے استعماری قوتیں پاکستان کو اپنے مسائل میں الجھا کر لاغر بنا دینا چاہتی ہیں۔

ماہ فروری میں سعودی عرب سے ولی عہد پرنس سلمان بن عبدالعزیز کی پاکستان آمد اور پھر عسکری معاہدات ایک خوش آئند بات ہے کچھ لوگ اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان کی افواج اگر سعودی عرب میں جاتی ہیں تو وہ ایران کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی فوج ایران کے خلاف لڑنے جارہی ہے نہ سعودی عرب کے کوئی توسیعی عزائم ہیں اور نہ ہی پاکستان کچھ ایسے عزائم رکھتا ہے دونوں امن پسند ہیں ہاں خطرات دونوں کے سر پہ ہیں شام اس وقت ایک لاکھ دس ہزار سنی مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے۔ پاکستانی فوج ہی کیا؟ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ تو تمام مسلمانوں کے دل دھڑکتے ہیں اور اگر کوئی ادھر میلی آنکھ سے بھی دیکھتا ہے تو عام مسلمان بھی اس آنکھ کو نکال دینا چاہے گا فوج اگر جائے گی تو اسی دفاع کے لیے جائے گی جس پر ہمیں اعتراض کی بجائے فخر کرنا چاہیے یہ سعودی عرب کی فراخ دلی بھی ہے ورنہ سابقہ حکومت نے تو قبلہ تہران کو بنا ڈالا تھا مگر سعودی عرب نے تعاون جاری رکھا اب جب موجودہ حکومت باہمی روابط بڑھا رہی ہے تو یہ ایک قابل ستائش عمل ہے ادھر ایران پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے عجیب دوستی اور ستم ظریفی ہے کچھ سیاسی جماعتیں اس معاملے کو بھی پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی قرار دے رہی ہیں اسے ہی کہتے ہیں۔ مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ ’’ ان تصبک حسنۃ تسؤھم‘ ‘ تمہیں اگر کوئی بھلائی ملے تو یہ چیز انہیں بری لگتی رہے پاکستان میں تھر سے کوئلہ نکالنے کا الحمدللہ افتتاح ہو چکا ہے کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو سندھ دبئی بن جائے گا انرجی کے بحران پہ کافی حد تک قابو پایا جا سکے گا مگر اس پہ بھی امریکہ بہادر ناخوش ہے کیونکہ اس سے گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھے گی اور کرہ ارض کا درجہ حرارت بھی بڑھ جائے گا جبکہ خود امریکہ 50 فیصد بھارت 53 فیصد آسڑیلیا 80 فیصد۔ اسی طرح دیگر بیشتر ممالک کوئلہ سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جس سے فضا آلودہ نہیں ہو گی ہاں پاکستان میں اس کا حصہ صرف 1.0 فیصد جو انہیں ہضم نہیں ہوتا یہ ہے دوہرا معیار جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے ان شاء اللہ یہ منصوبہ ضرور پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ اور کامیابیاں ملیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے