معاشرے کا وجود افراد سے ہے ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت پر سکون اور امن و آشتی کی حامل زندگی گزارنے کا خواہاں ہے۔ ایسی معاشرت کی بناء اس صورت میں ممکن ہے کہ معاشرے کا ہر فرد بھلائی پھیلانے اور برائی کی بیخ کنی کا احساس ذمہ داری اپنے آپ میں پیدا کرے جہاں بھی کوئی خرابی نظر آئے حکمت و مصلحت سے اسے دور کرے۔ اس بارے میں اسلام نے اصلاح کی کئی صورتیں بتائیں ہیں جن میں ایک آزادی اظہار رائے بھی ہے جو ہر مسلمان کا نہ صرف حق ہے بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اس فریضہ کو کما حقہ ادا کرے۔ زیر نظر مقالہ میں اسی آزادی اظہار رائے پر قرآن و سنت کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

آزادی اظہار رائے کے لغوی معنی:

آزادی کے لغوی معنی بیرونی مداخلت ہے فقدان کے ہیں۔ (۱) اور آزادی رائے سے مراد وہ رائے جو اپنے نزدیک ٹھیک ہو اور اس میں کسی کی جانبداری یعنی روورعایت اور طرفداری نہ ہو اس سے بے تعصب مشورہ یا خیال بھی مفہوم لیا جاتا ہے۔ (۲) بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے آزادی اظہار رائے کی توضیح یوں کی ہے ہر قسم کے اظہار خیال کی عام اجازت جیسا چاہے خیال رکھ سکنا اور ظاہر کر سکنا نیز اس سے مراد منطقی خیال و استدلال کا بے روک ٹوک اظہار اعتقادات و رسمیات کی بے دھڑک نکتہ چینی اور بے یاکانہ رائے زنی بھی ہے۔(۳) آزادی اظہار رائے تحریر و تقریر کے ذریعے کی جاتی ہے جسے انگریزی میں Freedom of Expression کہتے ہیں۔ (۴) آزاد جمہوری ملک میں ہر شہری کو حکومت کی بے جا دخل اندازی کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے خیالات اور رائے کا حق حاصل ہے ہر شہری کو یہ موقع ملنا چاہیے خواہ تحریر یعنی اخبارات کتب رسائل کے ذریعے سے ہو یا تقریر کے ذریعے سے اور حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان ذرائع اظہار پر کسی قسم کی پابندی نہ لگائے کیونکہ اظہار رائے کا حق سیاسی کے ساتھ ساتھ معاشرتی بھی ہے۔ اس لیے اس کی ضرورت و اہمیت بہت زیادہ ہے۔

آزادی اظہار رائے کی صورتیں:

اسلام میں آزادی اظہار رائے کی کئی صورتیں ہیں جن میں حسب ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

(الف) امر بالمعروف و نہی عن المنکر (ب) مشاورت (ج) بحیثیت فریق مقدمہ

(د) صحافت و ابلاغ عام وغیرہ

(الف) امر بالمعروف ونہی عن المنکر: انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک معاشرے کا محتاج ہے لہٰذا بامقصد زندگی گزارنے کے لیے اسے اچھے معاشرے کی اشد ضرورت ہے جس کی خاطر ہر فرد نے اس میں صحت مندانہ روایات و اقدار پیدا کرنی ہیں چنانچہ کسی معاشرے کی اصلاح کے لیے بگاڑ کا سبب معلوم کرنا اور معاشرے میں ان جیسے اسباب کے راہ پانے کی صورتیں تلاش کرنا اصلاح کا بنیادی تقاضا ہے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہر شخص اس کی اصلاح میں حصہ لےسکے۔ جہاں بھی کوئی خرابی نظر آئے حکمت و مصلحت کے پیش نظر اس کے خلاف آواز اٹھائے اس پر کڑی نکتہ چینی کرے تاکہ خرابی کی بیخ کنی کی جاسکے اسلام نے ہر شخص کو اس کا حق دیا ہے۔ جو اس کا خاصہ ہے الشیخ عبدالقادر عودہ لکھتے ہیں ’’شریعت اسلامیہ نے رائے کی آزادی ہر انسان کا حق قرار دیا ہے بلکہ اخلاقی تربیت، مصلحت عام اور تنظیم کی بناء پر مسلمانوں کے لیے اظہار رائے کوان کا ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے جس کی بنیاد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قرآنی اصول پر ہے‘‘۔ (۵)

یعنی اسلام ہر شخص کو آزاد رائے دینے کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ اختلاف رائے کو ملک میں رہنے والی مختلف قومیتوں کے درمیان منافرت اور بدامنی پھیلنے کا ذریعہ نہ بنالے۔ ڈاکٹر عبدالکریم زیدان بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی بنیاد پر اظہاررائے کی آزادی ہر فرد کا صرف حق نہیں بلکہ مسلمانوں کا دینی فریضہ قرار دیتے ہیں۔(۶) اس لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اصول کو قرآن نے واضح انداز میں پیش کر کے ہر مسلمان کو اس فریضہ کی ادائیگی کی مخلصانہ ترغیب دی ہے۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ(۷)

اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔

اظہاررائے کے اس طریق پر وہ اس لیے عمل پیرا ہوتے ہیں کہ ان کی باہم دوستی اور ہمدردی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کی یہ دوستی و ہمدردی ظاہری اور باطنی یکساں اور پائیدار ہوتی ہے۔

سورۃ آل عمران میں اس اہم فریضہ کو ادا کرنے کے لیے ارشاد الٰہی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ(۸)

اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونا چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں۔ وہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں۔

مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت خاص دعوت و ارشاد کے لیے قائم ہے۔ اسی کا وظیفہ یہی ہو کہ اپنے قول و عمل سے لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف بلائے اور جب لوگوں کو اچھے کاموں میں سست یا برائیوں میں مبتلا دیکھے تو اس وقت بھلائی کی طرف متوجہ کرنے اور برائی سے روکنے کی اپنے مقدور کے موافق کوتاہی نہ کرے۔ (۹)

اسی طرح آیت کریمہ:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ(۱۰)

(مسلمانو! اس وقت) تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے: تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔میں بھی یہی ترغیب دی گئی ہے۔

ان آیات کریمہ سے واضح ہوا کہ یہ فریضہ اس وقت ادا کیا جا سکتا ہے جب ہر شخص کو کھل کر اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہو اور یہ اسلامی ریاست کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اس بات کی کھل کر اجازت دیتی ہے کہ ہر فرد اپنی رائے دلیل سے پیش کرے۔

معلوم ہوا کہ اسلام نے خیال ورائے اور تنقید و احتساب کا جس طرح اہتمام اور حوصلہ افزائی کی ہے اس کی مثال دنیا کا نہ کوئی اور مذہب پیش کر سکتا ہے نہ کوئی جدید نظام، اسلام واحد دین ہے جس نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ایک مسلمان کا دینی فرض ہی نہیں بلکہ بنیادی حق قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تصور ان الدین عند اللہ الاسلام (۱۱) کے قرآنی اصول پر قائم ہونے کے لحاظ سے تمام مذاہب اور موجودہ مغربی دنیا کے تصور سے بدرجہا بلند ہے برائی پھیلانے کے لیے اظہار رائے کا حق صرف حق ہی نہیں بلکہ مسلمانوں پر ایک فرض بھی ہے جسے روکنا رب ذوالجلال سے لڑائی مول لینا ہے اور معاملہ برائی سے منع کرنے کا بھی ہے ۔ برائی خواہ کوئی شخص کر رہا ہو یا کوئی گروہ خود اپنے ملک کی حکومت کر رہی ہو یا کسی دوسرے ملک کی اپنی قوم کر رہی ہو یا دنیا کی دوسری قوم، مسلمان کا حق ہے اور یہ اس کا فرض ہے کہ اسے ٹوکے۔ اسے روکے اور اس کے خلاف اعلان ناراضگی کر کے یہ بتائے کہ بھلائی کیا ہے؟ جسے فرد یا حکومت کو اختیار کرنا چاہیے(۱۲) جیسا کہ خلیفہ ثانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ رضی اللہ عنہ کو روکا اور کہا کہ ہم آپ رضی اللہ عنہ کا خطبہ اس وقت تک سننے کو تیار نہیں جب تک آپ رضی اللہ عنہ یہ واضح نہ کر دیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جو کرتہ پہن رکھا ہے یہ اس مال غنیمت میں ملے ہوئے کپڑے سے کیسے تیار ہوا جو ہر ایک کو ملا۔ میرا تو اس سے نہ بن پڑا حالانکہ میں جثہ کے لحاظ سے آپ رضی اللہ عنہ سے چھوٹا ہوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو اشارہ کیا انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ اس نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد محترم کو دیا جس سے ان کا کرتہ بنا۔ (۱۳)

اسی طرح جب ایک موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ عورتوں کو زیادہ مہر نہ دیا کرو غالباً وہ مسلمانوں کی مالی حیثیت کمزور ہونے کا دور تھا یا زیادہ مہر ادا کرنا ان پر گراں تھا جس کی وجہ سے شادی بیاہ میںایک رکاوٹ تھی۔ اس پر ایک عورت اٹھی اور کہا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ آپ کون ہوتے ہیں کہ جو حصہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا مقرر کیا ہے اس کو آپ رضی اللہ عنہ کم کرتے ہیں اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ امت میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر غلطی کروں تو وہ مجھے ٹھیک کرتے ہیں۔ (۱۴)

(ب) مشاورت: اظہار رائے کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیاد کے علاوہ اسلام نے ایک اور صورت بھی انسان کو اظہاررائے کے لیے دی ہے اور وہ نظام مشاورت ہے۔

قرآنی تعلیمات کی رو سے مسلمانوں پر یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے امور کو افہام و تفہیم اور باہمی صلاح و مشورے سے حل کریں اور اس صورت میں ہر فرد کو اظہار رائے کی اجازت دی گئی ہے۔ وشاورھم فی الامر (۱۵) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قابل غور معاملات میں جن میں حکومت کے متعلقہ معاملات بھی شامل ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا کریں اور امرھم شوریٰ بینھم (۱۶) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اس انداز سے ارشاد ہو اکہ ان کا ہر کام حکم و حکومت سے متعلق ہو یا دوسرے معاملات سے آپس کے مشورے سے ہوتا ہے یہ حکم اسلام میں اظہار رائے کے سلسلے میں مشاورت کی روشن دلیل ہے۔

قرآنی احکامات کی رو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے طلب کرتے تھے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر اپنے اصحاب سے مشاورت کی ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی رائے دی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی رائے لینے کے لیے خاموش رہے تو سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو ہم دریا میں کودنے یا برک الغماد (یمن) تک اپنے گھوڑے دوڑانے کے لیے تیار ہیں اس پر جانے کا حکم ہوا اور فوج بدر کے مقام پر مورچہ زن ہو گئی جنگ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ جنگی قیدیوں کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے رائے لے کر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے قبول کی اور ان سے فدیہ لے کر آزاد کر دیا۔ (۱۷)

غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی رائے یہ تھی کہ شہر کے اندر مورچے بنائے جائیں بعض اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے بھی یہی تھی مگر نوجوانوں کی رائے تھی کہ باہر نکل کر کھلے میدان میں دشمن کا مقابلہ کیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے پر عمل کے بجائے ان کی رائے پر فیصلہ کیا اور کوہ احد کے دامن میں جنگ کا محاذ قائم کیا (۱۸) اور جنگ احزاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لے کر سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور خندق کھدوائی (۱۹) صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی جب مسلمان اور قریش کسی فیصلہ پر متفق نہیں ہو رہے تھے تو اسی حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمے میں تشریف لے گئے اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اس کا ذکر کیا آخر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رائے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عہنم نے عمل کر کے جانوروں کو ذبح کیا اور حلق کرایا (۲۰) بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی اظہار رائے پر ہمیشہ زور دیا اور عمومی امور طے کرنے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسی سنت پر برابر عمل کیا۔ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فصل مقدمات اور دیگر دینی و دینوی امور میں وطیرہ یہ تھا کہ جب فیصلہ کن مرحلہ آجاتا تو وہ قانون الٰہی (قرآن و سنت) سے رہنمائی حاصل کرتے اگر کوئی نظیر نہ ملتی تو امت کے نمائندے اور ذی رائے افراد کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیتے سب کھل کر اپنی رائے دیتے اور اتفاق رائے سے جو طے ہو جاتا وہی فیصلہ نافذ ہوتا (۲۱) جیسا کہ بعض لوگوں کی زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے پر آپ رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طلب کر کے ان سے مشورہ لیا جس پر کھل کر سب نے اپنی رائے دی (۲۲)اسی غرض کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کی ایک مجلس شوریٰ قائم کی تھی جس میں سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہم لازمی طور پر شریک کئے جاتے تھے یہی مجلس شوریٰ تھی جس کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں وسعت دی۔ (۲۳) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بھی مقدمات و معاملات کے تصفیے میں یہی طریقہ کار تھا (۲۴) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پہلے تقریر کے الفاظ یہی تھے کہ کتاب و سنت کے بعد میں اس فیصلے کا پابند ہوں گا جس پر تمہارا اتفاق رائے ہو چکا ہو (۲۵) اس سے زیادہ اہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہم کوئی چیز کتاب و سنت میں نہ پائیں تو کیا کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قانون جاننے والے عبادت گزار مسلمانون سے مشورہ کرو۔ پھر یہ ہدایت فرمائی لاتمضوا فیہ رائی خاصۃ (۲۶) ایسے موقع پر کسی شخص کی انفرادی رائے کو جاری نہ کرو یعنی جو متفقہ فیصلہ ہو اس کو اختیار کرو اور کسی ایک یا خاص رائے سے فیصلہ نہ کرو جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے خارجیوں کی تمام نکتہ چینیاں اور اعتراضات برداشت کیے اور انہیں ان سے نہ روکا۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے ان سے قتال کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ان سے قتال مت کرو جب تک کہ وہ پہل نہ کریں۔ (۲۷)

(ج) بحیثیت فریق مقدمہ: بلاشبہ مسلمانوں کے دو فریقوں میں کسی امر میں اختلاف پایا جانا بعید از قیاس نہیں اور اس کو دور کرنے کے لیے کسی قاضی یا حکم کے پاس لے جا کر آزادانہ اپنی رائے کا اظہار کرنا معاشرہ میں ہر ایک فرد کا بنیادی حق ہے جس پر کسی قسم کی روک حکومت یا کسی فرد کی طرف سے عائد نہیں کی جا سکتی۔

جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا     (۲۸)

اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں ۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔

اسی طرح سورۃ الحجرات کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ سے بھی یہی مفہوم واضح ہے:

وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ     (۲۹)

اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو۔ پھر اگر ان میں سے کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان انصاف سے صلح کرا دو اور انصاف کیا کرو۔ کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

یعنی فریقین کے مابین صلح کراؤ اور اس سلسلے میں فریقین بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے بیانات کھل کر بیان کریں اور منصف کی حیثیت سے فریقین کے بیانات غور سے سنو معاملہ کے ہر پہلو پر غور سے سوچو بعد از خوب غوروتدبر کے ان کے مابین قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ کرو ایسے طور پر کہ ان کی خصومت کا قلع قمع ہو!

(د) صحافت و ابلاغ عام: دور حاضر میں صحافت یا ذرائع ابلاغ عام بھی اظہار رائے کی ایک اہم ضرورت ہے جس سے مراد اخبارات و رسائل کو اس امر کی کھل کر آزادی دینا ہے کہ اگر وہ حکومت کے کسی فعل کو ناپسند یعنی مفاد عامہ کے خلاف سمجھیں تو اس پر بلا کسی روک تنقید کر کے رائے عامہ کو اس کی خرابیوں سے آگاہ کریں نیز اخبارات و رسائل ریڈیو، ٹیلی ویژن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی مسئلے پر اپنی دیانت دارانہ رائے کا پوری آزادی کے ساتھ اظہارکریں اگر ایسا نہ ہو تو کوئی قوم کسی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکتی خواہ وہ سیاسی ہو اخلاقی ہو یا دینی۔

قومی زندگی کے تمام شعبوں، اداروں اور افراد پر تنقید و احتساب کا حق ذرائع ابلاغ کو اس وجہ سے بھی دیا گیا ہے کہ وہ حق اور سچ کی تلاش میں مدد دیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی تنقید کا مقصد اصلاحی اور تعمیری ہو، تاکہ مختلف مسائل کی نشاندہی کے بعد ان کی اصلاح کا کام کیا جا سکے۔

اسلامی ریاست کے تحت کام کرنے والے ذرائع ابلاغ پر ایک ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں اسلامی ضابطہ اخلاق کے پابند رہیں چنانچہ ان کا فرض ہے کہ وہ حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کریں اور کسی معاملے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں قومی پالیسیوں کے نفاذ میں یا حکومت، اداروں اور افراد پر تنقید و نکتہ چینی کرنے میں حق و صداقت اور انصاف و دیانت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ دیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى (۳۰)

اور یہ کہ جب کچھ کہو تو انصاف سے کہو، خواہ وہ بات تمہارے کسی قریبی سے تعلق رکھتی ہو۔

اسلامی ریاست کے تحت کام کرنے والے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ ہر شہری اور جملہ اداروں پربھی لازم ہے کہ وہ نیکی کے فروغ اور بدی کے انسداد کے لیے اپنا کردار ادا کریں چنانچہ ان کی تمام تر جدوجہد اور سرگرمیوں کا مقصد و محور اس کے سوا کچھ نہیں کہ اشاعت حق کی تبلیغ اور منکرات کی حوصلہ شکنی ہوتی رہے۔

افتخار کھوکھر لکھتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کا حق کئی شرائط کا تابع ہے ایک دوسرے کو بدنام کرنے ایک دوسرے کی تحقیر والے نام لے کر توہین کرنے ایک دوسرے کی خلوت کی جاسوسی کرنے یا جھوٹ بولنے اور جھوٹی شہادت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (۳۱)

اسلام نے ہر مسلمان کو حکم دیا ہے کہ وہ ناانصافی اور برائی کے خلاف احتجاج کرے اور احتجاج کے اس حق کو بغیر کسی خوف و لالچ کے استعمال کرے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ (۳۲)

(مسلمانو! اس وقت) تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے: تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

چنانچہ مسلمانوں کا انفرادی و اجتماعی فریضہ ہے کہ وہ خیر کی شمع کو روشن رکھیں اور اپنے قول و فعل اور تحریر و تقریر سے شر کے اندھیروں کو مٹانے کی کوشش کریں اور یہ فریضہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر عائد کیا گیا ہے۔ مزید برآں اسلام میں کسی واقعہ کے اظہار کی بندش کسی صورت میں نہیں جو بھی فعل منکر کسی بھی فرد یا حکومت کے کسی ادارے سے سرزد ہو تو اس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنا اور اس سلسلے میں کسی قرابت کا لحاظ نہ رکھنا ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے حتیٰ کہ اگر اپنے نفس کے خلاف کوئی بیان یا اظہار کرنا پڑے تو بھی حق و انصاف کے خلاف کچھ نہ بولے اگرچہ اس کی زداس کی ذات پر پڑتی ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا(۳۳)

اے ایمان والو! اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی پڑے۔ اگر کوئی فریق دولت مند ہے یا فقیر ہے، بہرصورت اللہ ہی ان دونوں کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ لہذا اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر عدل کی بات کو چھوڑو نہیں۔ اور اگر گول مول سی بات کرو یا سچی بات کہنے سے کترا جاؤ تو (جان لو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔

بنیادی امر یہ ہے کہ ہر معاملے میں عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری پورے افراد انسانی پر ڈال دی گئی تو اس کا مخاطب ’’یایھا الذین امنوا‘‘ فرما کر پوری امت مسلمہ کو بنا دیا گیا ہے۔ اور ہر معاملہ میں ضرورت پڑنے پر صاف کھری بات کا قوی مطالبہ ہے۔ خواہ وہ امر بالمعروف ہو یا مشاورت ہو یا کوئی اور صورت۔ یعنی وہ قول صدق پر مبنی اور جھوٹ سے مبرا ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے اوصاف کا حامل ہو۔ اسلام نے ایسے قول کو قول سدید سے تعبیر کیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا     (۳۴)

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو۔ (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔

قول سدید کی تفسیر بعض نے صدق کے ساتھ کی بعض نے مستقیم اور بعض نے صواب وغیرہ سے کی قرآن کریم نے اس جگہ صادق مستقیم وغیرہ کے الفاظ چھوڑ کر سدید کا لفظ اختیار فرمایا کیونکہ لفظ سدید ان تمام اوصاف کا جامع ہے اسی لیے کاشفی نے فرمایا کہ قول سدید سے مراد وہ قول ہے جو سچا ہو جھوٹ کا اس میں شائبانہ ہو صواب ہو جس میں خطاء کا شائبہ نہ ہو ٹھیک بات ہو ہزل یعنی مذاق و دل لگی نہ ہو نرم کلام ہو دلخراش نہ ہو۔ اور اسی قول سدید اختیار کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب اعمال کی اصلاح فرمانے اور لغزشیں معاف فرما دینے کا وعدہ ہے۔ (۳۵)

الحاصل آزادی اظہار رائے کے بغیر نہ تو کسی معاشرہ میں کسی قسم کی اصلاح کا رجحان پروان چڑھ سکتا ہے اور نہ معاشرے کے تمام افراد آزادی کی سانس لے سکتے ہیں جو ان کی خوشحالی اور امن و امان کی بنیادی اکائی ہے بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اس حق سے محرومی کے باعث معاشرے کے تمام افراد کی زندگی اجیرن اور پرآشوب ہوگی جو انسانیت کی بقا، تعمیر و ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ اور ظلم و جور کی فضا کو ہوا دینے میں ممدومعاون ہوگی گویا اس کی حیثیت جسم مع روح ہے ہاں اگر اس سے فساد و بگاڑ پیدا ہو رہا ہو یا ملکی قانون و مفاد عامہ مجروح ہو رہے ہوں تو اس صورت میں ایسی رائے سے احتراز کرنا ضروری ہے اور اسلام ہی ایسی آزاد اور صحیح اظہار رائے کی تعلیم دیتا ہے غرض اسلام میں آزاد اظہار رائے ایک دینی اخلاقی و معاشرتی فریضہ ہے جو دیانت و ذمہ داری سے عبارت ہے۔

المراجع والمصادر

(۱) اردو انسائیکلوپیڈیا، ص۔ ۱۸ فیروز سنز لمیٹڈ لاہور (۱۹۶۸ء)

(۲) اردو لغت (تاریخی اصول پر) ج۔۲ (الف ممدودہ، ب) ص ۱۷۵ ترقی اردو بورڈ کراچی (۱۹۷۹ء)

(۳) ڈاکٹر مولوی عبدالحق بابائے اردو، لغت کبیر ج ۱، ص ۲۶۲ انجمن ترقی اردو کراچی (ت ن)

(۴) Dr.Tanzil-u-Rehman, Justice, Law, Dictionary, PP-239, PLD Pulishers Lahore 2002

(۵) عبدالقادر رعودہ، الاسلام و اوضاعنا السیاسیہ والدولہ، ص ۲۳۳ المختار الاسلامی، قاہرہ

(۶) عبدالکریم زیدان، الفردوالدولہ فی شریعت اسلامیہ ص ۷۹ مطبوعہ الاتحاد العالمی للمنظمات الطلابیہ (۱۹۷۸ء)

(۷) القرآن ۹:۷۱

(۸) ایضاً ۳: ۱۰۴

(۹) مولانا مفتی محمد شفیع صاحب معارف القرآن ج ۲، ص۱۳۹ ادارۃ المعارف کراچی ۱۴ (۱۹۸۲ء)

(۱۰) القرآن ۳:۱۱۰

(۱۱) ایضاً ۳:۱۹

(۱۲) مولانا مودودی تفہیمات ج۴، ص۳۳ ادارۃ ترجمان القرآن لاہور (۱۹۸۵ء)

(۱۳) Dr. Abdullah, 0- Nasseef, Muhammad Encyclopedia of Seerah Voll lll P-564, the muslim School Trust 78 Gilles road London N 5 ILN (1985)

(۱۴) Ibid, P- 564

(۱۵) القرآن ۳:۱۵۹

(۱۶) ایضاً ۴۲: ۳۸

(۱۷) مسلم بن الحجاج، الصحیح المسلم کتاب الجہاد باب غزوہ بدر، ج۲، ص ۱۰۲ نور محمد اصح المطابع کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی (۱۳۵۶ء)

(۱۸) البخاری محمد بن اسماعیل، الصحیح البخاری کتاب الاعتصام باب امرھم شوریٰ بینہم،ج ۲، ص۱۰۹۵ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی (۱۳۸۱ء)

(۱۹) سید قطب فی ظلال القرآن ج۴، ص ۵۷،۱۱۷ دار احیاء الکتب العربیہ مصر (۱۴۸۶ھ)

(۲۰) الطبری ابی جعفر محمد بن جریر، تاریخ طبری ج۱، ص۳۳۸ نفیس اکیڈمی اسٹریچن روڑ کراچی

(۲۱)البیہقی، احمد بن الحسین بن علی، السنن الکبریٰ ج ۱۰، ص ۱۱۴،۱۱۵ نشر السنہ ملتان (ت ن)

(۲۲) امرتسری منشی عبدالرحمن، تاریخ اسلام ج۲، ص۳۳۳، ملک دین محمد اینڈ سنز پبلیشرز و تاجران کتب کشمیری بازار لاہور (۱۹۵۹ء)

(۲۳) ندوی، عبدالسلام، اسوہ صحابہؓ، ج۲، ص۲۵،۲۶ مکتبہ عارفین رقیہ بلڈنگ ڈاکٹر ضیاءالدین روڑ پاکستان چوک کراچی (۱۹۷۶ء)

(۲۴) السرخسی، محمد بن احمد بن ابی بکر، المبسوط ج۱۶، ص۷۱ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کاردن ایست کراچی (۱۴۰۷ھ)

(۲۵) الطبری، ابی جعفر محمد بن جریر، تاریخ طبری ج۵، ص ۱۵۹ نفیس اکیڈمی بلاسس اسٹریٹ کراچی (۱۹۷۲ء)

(۲۶) مولانا مفتی محمد شفیع صاحب معارف القرآن ج۲، ص۲۲۰

(۲۷) الشوکانی، محمد بن علی محمد، نیل الاوطار ج۷، ص ۱۸۸ شرکۃ مکتبہ مصطفیٰ البابی الحلبی مصر

(۲۸) القرآن ۴:۵۹

(۲۹) ایضاً ۴۹:۹

(۳۰) ایضاً ۶:۱۵۲

(۳۱) محمد افتخار کھوکھر، جنرل ازم، ص ۴۸ عظیم اکیڈمی لاہور (۱۹۸۸ء)

(۳۲) القرآن ۴:۱۱۰

(۳۳) ایضاً ۴:۱۳۵

(۳۴) ایضاً ۳۳: ۷۰،۷۱

(۳۵) مولانا مفتی محمد شفیع معارف القرآن ج۷ ص ۲۴۰

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے