یہ ذائقہ بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ کبھی کریلے کی مانند کڑوا تو کبھی شہد جیسا میٹھا۔ کبھی یہ زبان کو تلخی سے بھر دیتاہے تو کبھی حلاوت اور مٹھاس سے لطف اندوز کرتاہے۔ کہتے ہیں کہ بیتے دنوں کی یادیں بھی ذائقہ کی طرح ہی ہوتی ہیں اور یہ زبان کو چھوئے بغیر دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہیں۔ تلخ ہوں تو لگتا ہے پورا وجود ہی کڑواہٹ میں تحلیل ہوگیا اور اگر شیریں اور لذت بخش ہوں تو انگ انگ میں سرورسا بھر دیتی ہیں۔

ایک ذائقہ انسانی رویوں کا بھی ہوتاہے۔ ہم کسی کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں ، مگر وہ بے دفائی اور ستم گری کا ایسا ذائقہ ہمیں چکھاتاہے ، جس کا اثر برسوں زائل نہیں ہوتا اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ پر خلوص اور بے لوث رویوں کی چاشنی دل کو کیف ومستی سے سرشار کردیتی ہے۔

روح اور بدن کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے رزق کی فراہمی لازمی ہے اور اس حیات مستعار میں حصول رزق کی بھی دو صورتیں ہیں۔ رزق حلال اور رزق حرام۔ ان دونوں کے ذائقے الگ الگ ہیں۔ رزق حرام کے استعمال کے استعمال سے اکثر بدن پھل پھول جاتاہے۔ وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ شناسا اور آس پاس رہنے والے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ لاکر سلام کرتے ہیں اور خیریت بھی پوچھتے ہیں ، مگر حرام رزق روح کو مضمحل کردیتاہے ۔ کیونکہ روح انسانیت کا اصل جوہر ہے اور وہ پاکیزہ اور شفاف غذا سے سیراب ہوتی ہے۔ رزق حرام سے انسان کے اندر سفلی جذبات پرورش پانے لگتے ہیں اور اس کے فکر وعمل میں بگاڑ پیدا ہونے لگتاہے۔ اس کے برخلاف رزق حلال کا ذائقہ ایسا نشاط افزا ثابت ہوتاہے کہ زبان کو چھوتے ہی یوں لگتاہے گویا روح تک پھیل گئی ہوتاثیر مسیحائی کی۔ ایک عجیب ذائقہ خود فریبی کا بھی ہوتاہے ، بقول شاعر :

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

خود فریبی کا ذائقہ چکھنے والا زندگی کا طویل عرصہ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں پرواز کرتے ہوئے گزار دیتاہے۔ خود فریبی کی ہوا جتنی تیز وتند ہوتی جاتی ہے یہ دل ہی دل ہی سوچ کر خوش ہوتارہتاہے کہ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے ، لیکن جب حقائق کا ایلوااس خود فریبی کی حلاوت کو کڑواہٹ میں بدلتا ہے تب اسے زندگی کی حقیقتوں کا صحیح فہم حاصل ہوتاہے مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

کچھ ذائقے اور بھی ہوتے ہیں ، جو بظاہر بے حد شیریں اور چٹ پٹے ہوتے ہیں ، مگر تاثیر کے اعتبار سے انتہائی تلخ،کڑوے کسیلے اور زہر آلود ہوتے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسانی معاشرت کی کثیر تعداد کو یہ ذائقے بے حد مرغوب ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ اکثریت کی پسندیدہ ڈشز ہیں ، جن کی فہرست طعام (menu) کچھ یہ ہے ۔ حسد ، کینہ ، غیبت، غصہ، تعصب، نفرت، خودغرضی، بغض وعداوت اور ظلم وناانصافی وغیرہ۔ یہ تمام ذائقے معاشرے کی بڑی تعداد کی زبان کو ہمہ وقت تروتازہ رکھتے ہیں اور زبان کے یہ چٹخارے خلوت اور جلوت میں لطف دیتے رہتے ہیں ، مگر منطقی نتائج کے طور پر ان ذائقوں کے انتہائی مضر اور مہلک اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرے کے بنیادی اخلاقی اوصاف جو انسانی طاقت کا اصل مخرج ومصدر ہیں، جن پر اخلاقی اقدار کی پوری عمارت کھڑی ہے، وہی زمین بوس ہونے لگتی ہے ، پھر نہ طعام باقی رہتاہے اور نہ قیام سلامت ۔

آج کل اس علمی، تحقیقی اور روشن خیالی کے دور میں ایک اور ذائقے کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے انسانی خون اور گوشت کا ذائقہ۔ انسان کو ذبح کرکے اس کا خون پینا اور اس کا گوشت تکہ بوٹی اور قیمہ بناکر کھانا اور چٹخارے لینا۔ درندگی اور حیوانیت کا یہ مظاہرہ سوچنے پر مجبور کرتاہے کہ کیا ہم واقعی ترقی یافتہ اور مہذب اقوام ہیں؟ اور کیا درحقیقت ہم وہی انسان ہیں، جسے مسجود ملائک بنایا گیا تھا ؟ اور جس کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَا هُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔(بنی اسرائیل:70)

سفاکی اور بے رحمی کے ان ہولناک واقعات کو سن کر، پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جس انسان کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ عطا کیا گیا تھا وہ خون آشام بھیڑیوں کا روپ دھارنے لگاہے۔

ایک ذائقہ منصب واقتدار کے حصول کا بھی ہے۔ یہ ایسا چٹ پٹا ذائقہ ہے کہ جس نے ایک بار چکھ لیا وہ بار بار چکھنے کا خواہش مند رہتاہے۔ اخلاق اور قانون کی تمام حدوں کو پھلانگ جاتاہے۔ اس ذائقے کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے کہ انسان کے حواس معطل کردیتاہے۔ اسی قبیل کا ایک ذائقہ شہرت اور خودنمائی کا ہے۔ یہ ذائقہ بھی انسان کو اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر آمادہ کرتاہے۔ خودنمائی کا طالب شہرت اور بلندی کے افق پر صبح کے ستارے کی مانند جگمگانے کا آرزومند رہتا ہے تاکہ دیگر انسانوں کو اسے دیکھنے کے لیے سر اوپر اٹھانا پڑے لیکن وہ یہ بات بھول جاتاہے کہ جو شاخ پھلوں سے زیادہ لدی ہوتی ہے وہ نیچے کی طرف جھکتی ہے۔

جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

آخر میں ایک اور ذائقے کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ یہ ایسا حیرت انگیز ذائقہ ہے کہ دنیا کا امیر ترین انسان بھی ، جس کے سامنے سارے جہاں کی نعمتیں اور آسائشیں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں ، وہ بھی اس ذائقے کو چکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، بلکہ محض اس کا نام ہی منہ میں کڑواہٹ گھول دینے کے لیے کافی ہے، لیکن یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ قدرت ہر کسی کو یہ ذائقہ چکھا کر ہی رہتی ہے ۔ مومن وکافر، نیک وبد، گورا کالا، کسی مذہب اور کسی بھی نسل یا جاندار کی کسی بھی صنف سے اس کا تعلق ہو، اسے ایک دن خواہی نخواہی یہ ذائقہ چکھنا ہی پڑتا ہے۔ اس سے کسی کو فرار ممکن ہی نہیں اور وہ ہے موت کا ذائقہ ۔۔۔ یہ وہ واحد ذائقہ ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اس کو چکھنے کی یاددہانی کروائی ہے۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ

ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔

(آل عمران:185، الأنبیاء:35، العنکبوت:57)

اور سچ بھی یہی ہے کہ ابتدائے آفرنیش سے قیامت تک آنے والے آخری انسان کی زندگی کا سورج غروب ہونے تک اس کا ذائقہ ہر ذی نفس چکھتا رہے گا۔

البتہ جس طرح دنیا میں خیروشر کا وجود تکوینی امور کا لازمی تقاضاہے، اسی طرح ہر معاملے میں استثنائی کیفیت کا پایا جانا اس دنیا کا خاصا ہے، چنانچہ انسانوں کی اس بھیڑ میں قلیل تعداد ان سعید روحوں کی بھی ہے ، جو اس ذائقے کو چکھنے کے لیے ہمہ قوت اور ہمہ جہت تیار رہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن حکیم میں نشاندہی کردی گئی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (يونس: 62)

یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔

یہی وہ گنے چنے لو گ ہیں جو ہر آن اپنے رب سے ملاقات کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ جن کے لیے یہ دنیا قید خانہ ہے ، وہ اس رنگ وبو کی دنیا کے حصار کو توڑ کر اپنے خالق ومالک اور رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لیےتڑپتے اور مچلتے رہتے ہیں۔ ان کو جب موت کا ذائقہ چکھایا جاتاہے تو ان کی حالت کچھ اس طرح ہوتی ہے۔

نشانِ مردِ مومن باتو گویم

چو مرگ آید تبسم برلب اوست

زندگی ان ہی تلخ وشریں ذائقوں کی بدلتی کیفیات کا نام ہے۔ اب یہ انسان کے اپنے فکر وعمل پر منحصر ہے کہ وہ کس خوب صورتی سے ان تلخیوں کو حلاوت میں بدلتا ہے کیونکہ زندگی کے عملی رویوں کا تعین فکر وعمل کی درستی اور صحت سے مشروط ہے۔ البتہ اس عمل میں یہ حقیقت ذہن کے کینوس سے معدوم نہ ہو کہ بدی کے راستے خوشنما بھی ہیں اور دل فریب بھی لیکن اصل میں یہ سب سراب ہے، دھوکاہے۔ بدی کے راستوں پر سفر کرنے والا ہمیشہ تہی دامن اور حقیقی مسرتوں سے محروم ہی رہتاہے۔ یہ بنگلے، یہ کاریں، یہ دولت کے انبار یہ رکھ رکھاؤ فریب نظر کے سوا کچھ بھی نہیں ، بقول امیر:

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سیراب کی سی ہے

سکون وعافیت اور قلبی اطمینان اس نیکی، پارسائی اور خدا ترسی میںہے، جس سے زندگی کی اعلیٰ قدریں عبارت ہیں۔ اسی کیفیت کو قرآن حکیم میں نفسِ مطمئنہ کہا گیا ہے۔ روکھی سوکھی کھاؤ یا لوازمات سے بھر پور پُر تکلف کھانے، ذائقہ اس وقت تک ہے جب تک نوالہ حلق سے نیچے نہیں اترجاتا۔ اس کے بعد سب برابر ہے نہ مٹھاس باقی رہتی ہے اور نہ تلخی کا کوئی احساس۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے