مسلمانوںکاقافلہ جنگِ حنین سے واپس مدینہ منورہ آرہا تھا۔راستے میں ایک جگہ پڑائوڈالا، نمازکا وقت ہوچکاتھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا کہ وہ اذان دے ،مؤذن نے اذان شروع کی، قریب ہی اہل یہود کے بچے کھیل کود میں مصروف تھے، جب انہوں نے مسلمانوں کے مؤذن کو اذان کہتے ہوئے سنا، انہیں ایک شرارت سوجی گئی، وہ شرارت بھی کیا ہی عجیب تھی کہ سب نے مل کر مؤذنِ اسلام کی نقل اتارنا شروع کردی اور اسے اپنا کھیل بنا لیا جس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے موذن کا مذاق اڑانا تھا،ان میں ایک بچہ بہت بلند آواز میں نقل اُتار رہا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ وہ ان سب سے زیادہ شرارتی تھا، دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان بچوں کی شرارت کا منظر دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام کو بھیجا ، ان کو پکڑ کرلائو جب سب کو حاضر کیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم میں جو سب سے اُونچی آواز میںاذان کی نقل اُتار رہا تھا، وہ کون ہے؟سب نے جلدی سے اسی ایک بچے کی طرف اشارہ کر دیاجو واقع ہی ایسا کررہا تھا، جب اس کو لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم یہاں ٹھہر جائو اور باقی سب کوچلے جانے کا حکم دیا ۔پھرفرمایا:اب ذرا دوبارہ نقل اُتارو جیسے پہلے اُونچی آواز سے اذان کی نقل اُتار رہے تھے۔ بچے نے ڈرتے ہوئے بالکل اسی طرح بلند آواز سے اذان کہنا شروع کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی آواز بہت پسند آ ئی۔ جہاں سے وہ بھول رہا تھا،اس کویاد کروارہے تھے جب اس نے اذان مکمل کی ۔اسے اپنے قریب بلوایا،سر پر نبوت والا ہاتھ پھیرا اور فرمایا:اے بچے!اللہ تجھے برکت دے۔ساتھ ایک درہموں کی تھیلی انعام میں دی۔

اس بچے کی قسمت کا ستارہ اب روشن ہو چکا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دعائیہ کلمات نکلنے کے دیر تھی، فوراً اس نے کہا:

’’أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔‘‘

ساتھ ہی عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے کعبۃ اللہ کا موذن بنادیں!امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت نے جوش مارا تو فرمایا:جائو بچے آج سے تم کو کعبۃ اللہ کا مؤذن بنا دیا گیا ہے۔(مسند الامام احمد:409/3، سنن ابن ماجۃ:708)

قارئین کرام!یہ خوش نصیب بچہ وہی ہے جو بعد میں احادیث مبارکہ میں سیدنا ابو محذورہtکے نام سے مشہور ہوئے ۔ اس حدیث کی روشنی میں جو چند باتیں ہماری سمجھ میں آئیں ، ملاحظہ ہوں:

۱۔بچے کا شرارتی ہونا’’ Negative‘‘(منفی) نہیں ، بلکہ ’’Positive‘‘(مثبت) بات ہے،نہ ہی شرارتی بچے کو نگاہِ نفرت سے دیکھنا چاہئے۔ کیونکہ کبھی کبھار شرارتوں ہی سے بچے کی صلاحیت کا علم ہو جاتا ہے،جیسا کہ اوپر والے واقعہ میں واضح مذکور ہے۔

۲۔بچے جو دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں ، دوسرے لفظوں میںبڑوں کی نقل اُتارنابچوں کی فطری تربیت میں شامل ہے۔ دانشوروں کو بھی اب اس بات سے اتفاق ہے۔ اگر گھر میں بڑے افراد چھوٹے بچوں کے سامنے گالی گلوچ اور اس طرح کی دوسری فحش گفتگو کریں گے،بچے وہی سیکھیں گے۔یعنی بچے کو اچھے اور برے کام گھر اور معاشرے کا ماحول سکھاتا ہے۔

۳۔اگر بچے کو کسی اچھے کام پر انعام دیا جائے، تو اس کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ پھر وہ اس کام کو شوق، لگن اور جذبے کے ساتھ کرے گا۔انعام سے ہماری مرادیہ ہے کہ ضروری نہیں، نقدی یا کوئی قیمتی چیز دی جائے، بلکہ جب بچے نے اچھا سبق سنایا، قابل تحسین ہوم ورک کیا۔ استاد کہے:’’Good Very‘‘ شاباش’’Excellent‘‘ بہت اچھے۔ اس سے بچے کی کس قدر حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ خوشی کی کیسی کیفیت اس پر طاری ہو جاتی ہے،ہمارے الفاظ اسے احاطہ تحریر میں نہیں لا سکتے۔ کیونکہ ہم روز دیکھتے ہیں کہ جب بچہ گھر لوٹتا ہے، سب سے پہلے ماں سے یہی بولتا ہے: ماما، سکول میں مجھے’’ Good ‘‘ملا ہے۔ ٹیچر نے مجھے سٹار(Star۔c) دیا ہے۔ بھائی بہنوں کو اپنی قابلیت کا ثبوت کاپی کھول کر دکھاتا ہے۔ ہماری رائے کے مطابق جب شام کو بچے کے والد گھر آئیں ، اگر ماں سب کے سامنے اپنے جگر گوشے کی تعلیمی کارکردگی پر چند تعریفی کلمات بول دے تو یہ سونے پر سہاگہ کا کام کریں گے۔ کیونکہ ہر انسان بچپن ہی سے چاہتا ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں۔ اس کی قابلیت کا تذکرہ جگہ جگہ ہو۔

۴۔مار نہیں پیار کا اصول بچوں کی کامیاب اور اچھی تربیت کے لئے لازم ہے۔ (ہم نے اس عنوان کو الگ سے احادیث کی روشنی میں لکھا ہے)

۵۔ہر بچے کو اللہ رب العزت نے ایک خاص ذہانت اور صلاحیت سے نوازا ہوتا ہے، لہٰذا جس فیلڈ میں اس کی ذہانت زیادہ ہوتی ہے، جس کام کو وہ شوق سے کرتا ہے، یہی وہ راستہ ہوتا ہے جس میں وہ آگے بڑھ کرکچھ بننے کا ارادہ رکھتا ہے،اس کے لیے بچپن ہی سے وہ پلاننگ کرتا ہے، لیکن ہمارا معاشرہ ایسے اساتذہ اور والدین سے محروم ہے،جو ایسے ہیروں کی چمک کو دیکھ سکیں۔اسی وجہ سے ہمارا ملک سائنسدانوں، فلاسفروں،اچھے قرائے کرام اور دیگر بڑی شخصیتوں سے خالی ہے۔ہماری رائے کے مطابق جو والدین اور اساتذہ ہر بچے کو انجینئر اور ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں، یہ ان کی خام خیالی اورتربیت اطفال سے ناواقفیت ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو صفات والااور لائق پیدا کیا ہے،نالائق ، کندذہن کی رَٹّ لگانے والے اساتذہ اور والدین سے ہماری گزارش ہے:کوئی انسان فطری طور پر کند ذہن یا نااہل جنم نہیں لیتا، مگر یہ معاشرہ، استاد، والدین اور میڈیا اسے کند ذہن، نالائق اور نا اہل بنا دیتے ہیں۔(بچہ کیسے نالائق بنتا ہے، اس پر الگ سے ان شاء اللہ ایک مستقل مضمون لکھیں گے۔) پاکستانی سر زمین پر بڑے روشن ستارے نمودار ہوئے، مگر اچھا مربی(تربیت کرنے والا) نہ ملنے کی وجہ سے اپنی روشنی سے اس ملک کو منور نہیں کر سکے۔

آخر میں اساتذہ کرام اور والدین سے ہماری گزارش ہے:

بچوں کو اچھی تربیت ملنا ان کا بنیادی حق ہے،جو اس معاشرے کے اکثر بچوں سے غصب کیا جارہا ہے، اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ تربیت کے حوالے سے اوپر ذکر کردہ چند اصولی باتیں اہل مغرب کے بڑے تعلیمی اداروں سے نہیں سیکھی گئیں ، بلکہ یہ بچوں کی تربیت کا نبوی انداز ہے۔ جو مدینہ منورہ میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے